(سوال نمبر ١٢٣) (قسط ١)
فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت فتاوی رضویہ کے حوالے سے
لَا یُنْکَرُ تَغَیُّرُ الْأَحْکَامِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين. .. . ....
ہمارے مذہب اسلام ایک ابدی دین ہے،اور اس کے اَحکام کو بھی بقا اور دوام حاصل ہے۔ اس کی کئ وجوہ ہیں
1 اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِس کے اَحکام اُلوہی حکمت پر مبنی ہیں جو دائمی ہے۔
2 دوسری وجہ یہ ہے کہ اﷲ رب العزت نے اِس کے تمام تعلیمات و اَحکامات کے اندر آفاقی وسعت اور ہمہ گیریت رکھی ہے، جس کی وجہ سے یہ ہر دور کے حالات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی قدرتی صلاحیت رکھتا ہے۔
3 تیسری وجہ یہ ہے کہ اِس کے اَحکامات کے اندر شارع کی طرف سے نرمی، سہولت اور لچک کی وسیع گنجائش رکھی گئی ہے، جس کے سبب سے بدلتے ہوئے زمانوں کے حالات و واقعات میں کارفرما حکمی اور حکمتی تغیر و تبدل کو اپنے اندر سمو لینے کی بڑی اِستعداد موجود ہے۔ زندگی جمود اور تعطل نہیں بلکہ تحرّک اور تغیّر و تبدّل کا نام ہے۔ اسی تناظر میں محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین الرضوی قبلہ فرماتے ہیں دنیا جب سے وجود میں آئی اس میں نئی تبدیلیاں ہوتی رہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ہمارے مشاہدات و احساسات ہیں کہ جیسے جیسے دنیا کے حالات میں تبدیلیاں ہوتی رہیں ہیں ویسے ہی اس کی ضرورتیں اور تقاضیں بھی بدلتے رہیں ہیں، مثلا جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور نشو و نما کے مراحل طے کرتا ہوا سن شعور کو پہنچتا ہے پھر جوان اور اس کے بعدبوڑھا ہوتا ہے، یہی حالات زندگی کا تغیر ہے، اور اسی اسی تغیر کے ساتھ سماجی زندگی کے احوال میں تغیر آنا ایک فطری عمل ہے ہم دیتے ہیں کہ ابتداء میں بچے کو ننگا رہنا کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا ہے پھر کچھ دنوں کے بعد کپڑے میں ملبوس ہونا بہتر پھر کچھ دنوں کے بعد کپڑے میں ملبوس ہونا ضروری سمجھ نے لگتے ہیں اور سن شعور کا کپڑا جوان کے بدن پر فٹ نہیں ہوتا، اسی لئیے کپڑوں کا سائز پڑتا ہے، اور بچے کا کپڑا بوڑھا پے میں فٹ اور زیب نہیں دیتا، اب دیکھئے حالات بدلتے رہیں ہیں تو ایک ہی انسان کے اوپر کپڑا بدلتے رہے، اسی طرح ہماری روز مرہ زندگی میں سیکڑوں بدلے ہوئے حالات ہیں، اور اس تناظر میں جنم لینے والے سیکڑوں ضروریات آئے دن آتے رہتے ہیں، ان محسوسات و مشاہدات کی روشنی میں شرعی احکامات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے، کہ یہ بھی ناگزیر زمانے میں حالات اور تقاضوں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں، اب ہم ذرا اوپر چلتے ہیں ۔سیدنا آدم علیہ السلام کے زمانے میں جب بھائی بہن کے سوا کوئی اجنبی مرد و عورت کا وجود نہ تھا تو اس وقت شادی کے باب میں ایک پیدائش کی بہن کے ساتھ دوسری پیدائش کے بھائی کا نکاح حلال تھا مگر جب اجنبی مرد و عورت بھی پائے جانے لگے تو سگے بھائی و بہن کا باہم نکاح حرام ہو گیا، اب ہم اپنے شریعت میں آتے ہیں، خود شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتداء اسلام میں بہت سے احکام نافذ ہوئے جو بعد میں زمانے کے تقاضوں کے ساتھ بدلتے رہے، اور اسی کو نسخ کہتے ہیں، (مجلس شرعی کے فیصلے ص ٤٦١ البرقي)
تغیراتِ زمانہ اور اسلامی قوانین ہر زمانے کے بدلتے ہوئے حالات و عادات اور اَحوال و ظروف کے مطابق اِنسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان قوانین میں اﷲ تعالیٰ نے اتنی خوش گوار لچک رکھی ہے کہ ان میں ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسلامی قوانین کی بنیاد حکمت و مصالح، بندوں کی دنیاوی بہتری اور اُخروی فلاح پر مبنی ہے۔ وہ اَحکام جو معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ان میں بالخصوص مصلحتِ عامہ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مصلحت اور عِلّت، زمانہ اور حالات کے بدل جانے سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب بنیاد بدل جائے تو اَحکام کا بدلنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے احکام المعاملات کو زمانے کی بدلتی ہوئی حکمتوں اور علتوں پر پرکھا جائے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر وہ قانون جو فرد یا افرادِ معاشرہ کو ظلم و ستم سے محفوظ رکھنے کے لیے بنا ہے، اس میں فیصلے کے وقت معاشرے کی موجودہ صورتِ حال اور بدلتے حالات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ جس جس انداز میں فرد اور معاشرے کے حالات و واقعات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، اِسی انداز اور تناسب سے ان قوانین میں بھی تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیلی ہی ان قوانین کو بقاء و دوام، عوامی افادیت کا حامل بناتی ہے ورنہ جمود، اسلامی قوانین کو متحرک انسانی زندگی سے کاٹ کر لا تعلق کر دے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اب قانون وضع کرنے یا نافذ کرنے میں بات صرف حاجت و ضرورت کی نہیں رہی بلکہ جلبِ منفعت اور دفعِ مضرّت کا سوال ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ایسے بےلچک قوانین ایک مخصوص زمانے، علاقے اور طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ جیسے کہ بعض ادیان میں پائے جاتے ہیں
مصلحتِ عامہ اسلامی قوانین کی بنیاد ہے۔ اِس بنیادی اُصول سے مراد یہ ہے کہ نفوسِ انسانی کے متعلق اللہ تعالیٰ کی اس عنایت اور اہتمام کو جان لیا جائے، جس کے پیشِ نظر انسانوں کے اخلاق و اعمال کی اصلاح و تہذیب اور ان کی زندگی کے جائز اَحوال و واقعات کے لیے نرمی، وسعت اور سہولت کی فراہمی ہے۔ فقہ اسلامی کے تمام قوانین اور قواعد و ضوابط کی اصل بنیاد یہی حکمت و مصلحت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگی سے زمانہ اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ قوانین میں رعایت کا ثبوت بکثرت واضح طور پر ملتا ہے۔ ان نظائر کو خلفائے راشدین نے بھی اپنے عدالتی فیصلوں میں مدِ نظر رکھا۔ پھر تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بالخصوص اس موضوع پر قوانین بنائے گے اور لَا یُنْکَرُ تَغَیُّرُ الْأَحْکَامِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ (زمانہ بدلنے سے اَحکام کا بدل جانا ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے)۔۔
مضمون ابھی باقی ہے ۔
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.
١٥/٩/٢٠٢٠/