کتب فقہ میں تین طرح کے اعمال نہیں بلکہ چار طرح کے اعمال پائے جاتے ہیں ۔اور ہر ایک کا جداگانہ حکم ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
كيا فرماتے مفتیان عظام اور علماء کرام مسئلہ ذیل کے متعلق کہ افعال نماز تین ہیں؟
ایک مولانا صاحب نے بتا یا کہ افعال نماز تین طرح کے ہیں، جو کتب فقہ میں موجود ہیں ۔کیا یہ صحیح ہے؟
السائل محمد اجمل حسین برکاتی شو بھاپوری سرہا نیپال ۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔
وعلیکم السلام و رحمت اللہ و برکاتہ ۔
صورت مستفسره میں افعال نماز تین نہیں بلکہ چار طرح کے اعمال پائے جاتے ہیں ۔
ہر ایک کی تعریف اور حکم مندرجہ ذیل ہیں ۔
افعال نماز چار ہیں ١ فرائض و ٢ واجبات اور ٣ سُنَن و ٤ مُستحبّاَت
(١)نماز کے درج ذیل چھ فرائض ہیں :
١ تکبیر تحریمہ کہنا۔٢ قیام کرنا یعنی کھڑا ہونا۔
٣ قرات یعنی قرآن حکیم پڑھنا۔
٤ رکوع کرنا۔
٥ سجدہ کرنا۔
٦ قعدہ اخیرہ یعنی پوری نماز پڑھ کر آخر میں التحیات پڑھنے کی مقدار میں بیٹھنا۔
اِن فرضوں میں سے ایک بھی رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی اگرچہ سجدئہ سہو کیا جائے۔
(٢)واجبات نماز..
واجبات جمع ہے واجب کی اور واجبات نماز ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کا ادا کرنا نماز میں ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی چیز بھولے سے چھوٹ جائے تو سجدئہ سہو کر لینے سے نماز درست ہو جائے گی اور بھولے سے چھوٹ جانے سے سجدئہ سہو نہ کیا یا جان بوجھ کر کسی واجب کو چھوڑ دیا تو نماز کا داہران واجب ہوتا ہے۔واجبات نماز ۲۶ ہیں:
۱۔ تکبیر تحریمہ میں لفظ اللہ اکبر کہنا۔
۲۔ الحمد شریف پڑھنا۔
۳۔ فرض نماز کی پہلی دو رکعت میں اور واجب و سنت و نفل کی ہر رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد ایک چھوٹی سورت یا ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھنا۔
۴۔ فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں کو قرات کے لیے مقرر کرنا۔
۵۔ الحمد شریف کا سورت سے پہلے ہونا۔ ۶۔ قرات سے فارغ ہوتے ہی رکوع کرنا۔
۷۔ ایک سجدہ کے بعد دوسرا سجدہ کرنا۔
۸۔ تعدیل ارکان، یعنی رکوع، سجود، قومہ، قعود اور جلسہ میں کم از کم ایک بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار ٹھہرنا۔
۹۔ قومہ، یعنی رکوع سے سیدھا کھڑا ہونا۔
۱۰۔ جلسہ یعنی دو سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا۔
۱۱۔ قعدئہ اولیٰ یعنی تین اور چار رکعت والی نماز میں دورکعتوں کے بعد تشہد کی مقدار بیٹھنا، اگرچہ نماز نفل ہو۔ ۱۲۔ دونوں قعدہ میں پورا تشہد پڑھنا۔
۱۳۔ لفظِ السلام دوبار کہنا۔ ۱۴۔ وتر میں دعا ئے قنوت پڑھنا اور تکبیر قنوت کہنا۔
۱۵۔ عید الفطر اور عید الضحیٰ کی ہر چھ تکبیر یں کہنا اور ان میں دوسری رکعت کی تکبیر رکوع اور اس تکبیر کے لیے لفظ اللہ اکبر ہونا بھی واجب ہے۔
۱۶۔ ہر جہری نماز (فجر، مغرب، عشاء، جمعہ، عیدین ، تراویح اور وتر رمضان) میں امام کا آواز سے قرات کرنا اور غیر جہری نمازوں (ظہر، عصر وغیرہ) میں امام کا آہستہ پڑھنا۔
۱۷۔ امام جب قرات کرے بلند آواز سے ہو خواہ آہستہ اس وقت مقتدی کا چپ رہنا۔
۱۸۔ قرات کے سوا تمام واجبات میں امام کی پیروی کرنا۔
۱۹۔ آیت سجدہ پڑھی ہو تو سجدئہ تلاوت کرنا۔ ۲۰۔ نماز میں سہو ہوا ہو تو سجدئہ سہو کرنا۔
۲۱۔ ہر واجب و فرض کا اس کی جگہ پر ہونا۔ ۲۲۔ رکوع کا ہر رکعت میں ایک ہی بار ہونا۔
۲۳۔ سجود کا ہر رکعت میں دو ہی بار ہونا۔
۲۴۔ فرض، وتر اور سنت موکدہ میں قعد اولیٰ میں تشہد پر کچھ نہ بڑھانا۔
۲۵۔ دوسری رکعت سے پہلے قعدہ نہ کرنا اور چار رکعت والی نماز میں تیسری پر قعدہ نہ ہونا۔
۲۶۔ دو فرض یا دو واجب یا واجب و فرض کے درمیان تین تسبیح کی مقدار وقفہ نہ ہونا۔
(٣) سنن نماز ۔۔۔
سنن جمع ہے سنت کی اور نماز کی سنتیں وہ چیزیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ ان کی تاکید فرض اور واجب کے برابر نہیں۔ اسی لیے نماز میں اگر کوئی سنت چھوٹ جائے تو نماز ہو جاتی ہے اور سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ مگر جان بوجھ کر کسی سنت کو چھوڑ دینا بہت بری بات ہے اور ثواب بھی کم ملے گا اور کسی سنت کی توہین سخت گناہ بلکہ کفر ہے۔نماز میں انتیس سنتیں ہیں:
(۱) تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھانا ۔ (۲) ہاتھوں کی انگلیاں اپنے حال پر کشادہ اور قبلہ رخ رکھنا۔ (۳)بوقت تکبیر سر نہ جھکانا (۴)تکبیر سے پہلے ہاتھ کا اٹھانا، یونہی تکبیر قنوت اور تکبیرات عیدین میں کافی کانوں تک ہاتھ لے جانے کے بعد تکبیر کہے اور ان کے علاوہ کسی جگہ نماز میں ہاتھ اٹھانا سنت نہیں ہے۔ (۵) امام کا بقدر حاجت بلند آواز سے اللہ اکبرا ور سمع اللہ لمن حمد ہٗ ۔ اور سلام اور دوسری تکبیریں کہنا۔ (۶) بعد تکبیر فوراً ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لینا (۷) ثناء یعنی سبحٰنک اللھم پڑھنا۔(۸) تعوذ، یعنی اعوز باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھنا۔(۹) سورئہ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا۔ (۱۰) ان سب کا آہستہ ہونا (۱۱) فرض کی پچھلی دو رکعتوں میں صرف الحمد شریف پڑھنا (۱۲) رکوع کو جاتے وقت اللہ اکبر کہنا ۔ (۱۳) رکوع میں کم از کم تین بار تسبیح یعن سبحان ربی العظیم پڑھنا۔ (۱۴) رکوع میں گھٹنوں کو ہاتھ سے پکڑ نا اور انگلیاں خوب کھلی رکھنا ۔ (۱۵) رکوع سے اٹھنے میں امام کے لیے سمع اللہ لمن حمدہ کہنا اور مقتدی کے لیے ربنا لک الحمد کہنا اور منفرد کے لیے تسمیع و تحمید دونوں کہنا (۱۶) رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں رکھنا (۱۷) سجدہ کے لیے اور سجدہ سے اٹھنے کے لیے اللہ اکبر کہنا (۱۸) سجدہ میں جاتے وقت زمین پر پہلے گھٹنے رکھنا پھر ہاتھ پھر ناک پھر ہاتھ پیشانی اور جب سجدہ سے اٹھے تو پہلے پیشانی اٹھائے پھر ناک اور پھر پیشانی اور جب سجدہ سے اٹھے تو پہلے پیشانی اٹھائے پھر ناک پھر ہاتھ پھر گھٹنے (۱۹)سجدہ میں کم از کم تین بار سبحٰن ربی الا علیٰ کہنا۔ (۲۰) سجدہ اس طرح کرنا کہ بازو کروٹوں سے جدا ہوں اور پیٹ رانوں سے اور کلائیاں زمین سے مگر جب صف بندی و تو بازو کروٹوں سے جدا نہ ہوں گے۔ (۲۱) دونوں سجدوں کے درمیان مثل تشہد کے بیٹھنا یعنی بایاں قدم بچھانا اور داہنا کھڑا رکھنا اور ہاتھوں کا رانوں پر رکھنا۔ (۲۲) سجدوں میں ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی قبلہ رو ہونا اور دونوں پاؤں کی دسوں انگلیوں کا قبلہ رو ہونا اور یہ جب ہی ہوگا کہ انگلیوں کے پیٹ زمین پر لگے ہوں۔ (۲۳) دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سر ین اس پر رکھ کر بیٹھنا اور داہنا قدم کھڑا رکھنا کہ اس کی انگلیاں قبلہ رخ رہیں اور ہاتھ کی انگلیوں کو ان کی حالت پر چھوڑنا یوں کہ ان کے کنارے گھٹنوں کے پاس رہیں۔ (۲۴) کلمہ شہادت پر اشارہ کرنا، یوں کہ چھنگلی اور اس کے پاس والی کو بند کرے، انگوٹھے اور بیچ کی انگلی کا حلقہ باندھے اور لا پر کلمہ کی انگلی اٹھائے اور الا پر رکھ دے اور سب انگلیاں سیدھی کر لے۔ (۲۵) بعد تشہد دوسرے قعدہ میں درود شریف پڑھنا اور نوافل کے قعدئہ اولیٰ میں بھی درود شریف پڑھنا مسنون ہے۔ (۲۶) درود شریف کے بعد اپنے اور اپنے والدین اور مسلمان استادوں اور عام مسلمانوں کے لیے دعا کرنا ۔ (۲۷) پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سلام پھیرنا ۔(۲۸) السلام علیکم ورحمتہ اللہ دوبار کہنا ۔ (۲۹) ہر طرف کے سلام میں اس طرف کے مقتدیوں اور کراماً کا تبین اور ان فرشتوں کی نیت کرنا جو اس کی حفاظت پر مقرر ہیں۔( ٤) نماز کے مستحبات وہ باتیں جن کے بجالانے سے نماز میں حسن وخوبی آجاتی ہے مستحبات نماز کہلاتی ہیں
اس حکم کرنے میں اجر زیادہ ہے اور نہ کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔(۱) قیام کی حالت میں سجدہ کی جگہ پر نظر رکھنا اور رکوع میں قدموں کی پیٹھ پر اور قعدہ اور جلسہ میں اپنی گود کی طرف اور سجدہ میں ناک کی طرف اور سلام کے وقت اپنے کاندھوں پر نظر رکھنا۔ (۲) جماہی آئے تو منہ بند کئے رہنا اور نہ رکے تو ہونٹ دانت کے نیچے دبائے اور اس سے بھی نہ رکے تو قیام کی حالت میں داہنے ہاتھ کی پشت سے منہ ڈھانک لے اور باقی حالتوں میں بائیں کی پشت سے، اور جماہی روکنے کا مجرب طریقہ یہ ہے کہ دل میں خیال کرے کہ انبیاء علیہم السلام کو جماہی نہیں آتی تھی۔
(۳) کھانسی کو اپنی طاقت بھر نہ آنے دینا ۔(۴) مرد کے تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کپڑے سے باہر نکالنا ۔ (۵) جب تکبیر کہنے والا حی علی الفلاح کہے تو امام و مقتدی سب کا کھڑا ہو جانا اور آج کل جو اکثر جگہ یہ رواج پڑ گیا ہے کہ اقامت کے وقت سب لوگ کھڑے رہتے ہیں بلکہ جب تک امام مصلے پر کھڑا نہ ہو اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جاتی یہ خلاف سنت ہے۔ (۶) دونوں پنجوں کے درمیان قیام میں چار انگل کا فاصلہ ہونا۔مقتدی کا امام کے ساتھ نماز شروع کرنا۔
(خلیل ملت مفتی خلیل احمد قادری برکاتی (کتاب: ہمارا اسلام،،مصنف سنی بہشتی زیور )
(كما في النور الإيضاح البرقى )
واعتقاد أنها فرض حتى يتنفل بمفروض أركان الصلاة والأركان من المذكورات أربعة القيام والقراءة والركوع والسجود وقيل القعود الأخير مقدار التشهد شرائط الصلاة وباقيها شرائط بعضها شرط لصحة الشروع في الصلاة وهو ما كان خارجها وغيره شرط لدوام صحتها.
وهو ثمانية عشر شيئا قراءة الفاتحة وضم سورة أو ثلاث آيات في ركعتين غير متعينيتن من الفرض
وفي جميع ركعات الوتر والنفل وتعيين القراءة في الأوليين وتقديم الفاتحة على السورة وضم الأنف للجبهة في السجود والإتيان بالسجدة الثانية في كل ركعة قبل الانتقال لغيرها والأطمئنان في الأركان
والعقود الأول وقراءة التشهد فيه في الصحيح وقراءته في الجلوس الأخير والقيام الى الثالثة من غير تراخ بعد التشهد
ولفظ السلام دون عليكم وقنوت الوتر وتكبيرات العيدين وتعيين التكبير لافتتاح كل صلاة لا العيدين خاصة تكبيرة الركوع في ثانية العيدين
وجهر الإمام بقراءة الفجر وأوليي العشاءين ولو قضاء والجمعة والعيدين والتراويح والوتر في رمضان والإسرار في الظهر والعصر وفيما بعد أوليي العشاءين
ونفل النهار والمنفرد مخير فيما يجهر كمتنفل بالليل ولو ترك السورة في اوليي العشاء قرأها في الأخريين مع الفاتحة جهرا ولو ترك الفاتحة لا يكررها في الأخريين. وهي احدى وخمسون رفع اليدين للتحريمة حذاء الأذنين للرجل والأمة وحذاء المنكبين للحرة ونشر الأصابع
ومقارنة إحرام المقتدي لإحرام إمامه ووضع الرجل يده اليمنى على اليسرى تحت سرته وصفة الوضع أن يجعل باطن كف اليمنى على ظاهر كف اليسرى محلقا بالخنصر
والإبهام على الرسع ووضع المرأة يديها على صدرها من غير تحليق والثناء والتعوذ للقراءة والتسمية أول كل ركعة
والتأمين والتحميد والإسرار بها والاعتدال عند التحريمة من غير طأطأة الراس وجهر الإمام بالتكبير والتسميع وتفريج القدمين في القيام قدر أربع أصابع وأن تكون السورة المضمومة للفاتحة من طوال المفصل في الفجر والظهر
ومن أوساطه في العصر والعشاء ومن قصاره في المغرب لو كان مقيما ويقرأ أي سورة شاء لو كان مسافرا وإطالة الأولى في الفجر فقط وتكبيرة الركوع وتسبيحه ثلاثا
وأخذ ركبتيه بيديه وتفريج أصابعه والمرأة لا تفرجها ونصب ساقيه وبسط ظهره وتسوية رأسه بعجزه والرفع من الركوع والقيام بعده مطمئنا ووضع ركبتيه ثم يديه ثم وجهه للسجود وعكسه المنهوض
وتكبير السجود وتكبير الرفع وكون السجود بين كفيه وتسبيحه ثلاثا ومجافاة الرجل بطنه عن فخذيه ومرفقيه عن جنبيه وذراعيه عن الأرض وانخفاض المرأة ولزقها بطنها بفخذيها والقومة والجلسة بين السجدتين
ووضع اليدين على الفخذين فيما بين السجدتين كحالة التشهد وافتراش رجله اليسرى ونصب اليمنى وتورك المرأة والإشارة في الصحيح بالمسبحة عند الشهادة يرفعها عند النفي
ويضعها عند الإثبات وقراءة الفاتحة فيما بعد الأوليين والصلاة على سيدنا النبي صلى الله عليه وسلم في الجلوس الأخير والدعاء بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس والالتفات يمينا ثم يسارا بالتسليمتين
ونية الإمام الرجال والحفظة وصالح الجن بالتسلمتين في الأصح ونية المأموم إمامه في جهته وإن حاذاه نواه في التسليمتين مع القوم والحفظة وصالح الجن ونية المنفرد الملائكة فقط
وخفض الثانية عن الأولى ومقارنته لسلام الإمام والبداءة باليمين وانتظار المسبوق فراغ الإمام.
من آدابها إخراج الرجل كفيه من كميه عند التكبير ونظر المصلي الى موضع سجوده قائما والى ظاهر القدم راكعا والى أرنبة أنفه ساجدا والى حجره جالسا والى المنكبين مسلما
ودفع السعال ما استطاع وكظم فمه عند التثاؤب والقيام حين قيل حي على الفلاح وشروع الإمام مذ قيل قد قامت الصلاة.
(نور الإيضاح البرقى )
والله ورسوله أعلم بالصواب.
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.