Type Here to Get Search Results !

کیا مسجد میں جماعت ثانیہ قائم کرسکتے ہیں؟

 کیا مسجد میں جماعت ثانیہ قائم کر سکتے ہیں؟


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔

علماۓ کرام کی بارگاہ میں عرض یہ کرناہے کی ایک ہی مسجد میں دو جماعت ہوجاۓ گی؟ جیسے کچھ لوگوں نے مقررہ وقت پر نماز پڑھ لی پھر چند لوگ آذان اور جماعت کہ ساتھ نماز پڑھیں توکیا حکم ہے جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں۔

سائل: غلام مرتضی رہتاس بہار۔


نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین ۔

وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔


الجواب بعونه تعالى عز وجل، 


صورت مستفسره میں مسجد محلہ میں جس کے لئے امام مقرر ہو، امام محلہ نے اذان و اقامت کے ساتھ بطریق مسنون جماعت پڑھ لی ہو تو اذان و اقامت کے ساتھ ہيات اولی پر دوبارہ جماعت قائم کرنا مکروہ ہے اور اگر بے اذان جماعت ثانیہ ہوئی، تو حرج نہیں جب کہ محراب سے ہٹ کر ہو اور اگر پہلی جماعت بغیر اذان ہوئی یا آہستہ اذان ہوئی یا غیروں نے جماعت قائم کی تو پھر جماعت قائم کی جائے اور یہ جماعت جماعت ثانیہ نہ ہوگی۔ ہيات بدلنے کے لئے امام کا محراب سے دہنے یا بائیں ہٹ کر کھڑا ہونا کافی ہے، 

شارع عام کی مسجد جس میں لوگ جوق جوق آتے اور پڑھ کر چلے جاتے ہیں یعنی اس کے نمازی مقرر نہ ہوں، اس میں اگرچہ اذان و اقامت کے ساتھ جماعت ثانیہ قائم کی جائے کوئی حرج نہیں، بلکہ یہی افضل ہے کہ جو گروہ آئے نئی اذان و اقامت سے جماعت کرے، یو ہیں اسٹیشن و سرائے کی مسجدیں۔ جس کی جماعت جاتی رہی اس پر یہ واجب نہیں کہ دوسری مسجد میں جماعت تلاش کرکے پڑھے، ہاں مستحب ہے، البتہ جس کی مسجد حرم شریف کی جماعت فوت ہوئی، اس پر مستحب بھی نہیں کہ دوسری جگہ تلاش کرے

(بہار ٣/١٥١دعوت اسلامي )

كما في الدر المختار حاشيه ابن عابدين 

وتكرار الجماعة) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة» ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لصلى فيه. وروي عن أنس " أن أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كانوا إذا فاتتهم الجماعة في المسجد صلوا في المسجد فرادى " ولأن التكرار يؤدي إلى تقليل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنهم تفوتهم الجماعة يتعجلون فتكثر وإلا تأخروا. اهـ. بدائع. وحينئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى أهله فيه فإنهم يصلون وحدانا، وهو ظاهر الرواية ظهيرية. وفي آخر شرح المنية: وعن أبي حنيفة لو كانت الجماعة أكثر من ثلاثة يكره التكرار وإلا فلا. وعن أبي يوسف إذا لم تكن على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة كذا في البزازية. اهـ. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ وسيأتي في باب الإمامة إن شاء الله تعالى لهذه المسألة زيادة كلام.

(قوله: إلا في مسجد على طريق) هو ما ليس له إمام ومؤذن راتب فلا يكره التكرار فيه بأذان وإقامة، بل هو الأفضل خانية. 

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار 390/4257 البرقيه )

کما فی الفتاوى الهنديه 

أَهْلُ الْمَسْجِدِ إذَا صَلَّوْا بِأَذَانٍ وَجَمَاعَةٍ يُكْرَهُ تَكْرَارُ الْأَذَانِ وَالْجَمَاعَةِ فِيهِ. 

 وَلَوْ صَلَّى بَعْضُ أَهْلِ الْمَسْجِدِ بِإِقَامَةٍ وَجَمَاعَةٍ ثُمَّ دَخَلَ الْمُؤَذِّنُ وَالْإِمَامُ وَبَقِيَّةُ الْجَمَاعَةِ فَالْجَمَاعَةُ الْمُسْتَحَبَّةُ لَهُمْ وَالْكَرَاهَةُ لِلْأَوْلَى، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. 

 وَلَوْ صَلَّى فِيهِ غَيْرُ أَهْلِهِ بِالْجَمَاعَةِ فَلَا بَأْسَ لِأَهْلِهِ أَنْ يُصَلُّوا فِيهِ بِالْجَمَاعَةِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. 

 جَمَاعَةٌ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ أَذَّنُوا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى وَجْهِ الْمُخَافَتَةِ بِحَيْثُ لَمْ يَسْمَعْ غَيْرُهُمْ ثُمَّ حَضَرَ قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَلَمْ يَعْلَمُوا مَا صَنَعَ الْفَرِيقُ الْأَوَّلُ فَأَذَّنُوا عَلَى وَجْهِ الْجَهْرِ ثُمَّ عَلِمُوا مَا صَنَعَ الْفَرِيقُ الْأَوَّلُ فَلَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا بِالْجَمَاعَةِ عَلَى وَجْهِهَا وَلَا عِبْرَةَ لِلْجَمَاعَةِ الْأُولَى كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَان 

(الفتاوى الهندية البرقية)


والله ورسوله أعلم بالصواب۔


حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال. 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area