Type Here to Get Search Results !

دیوبندی کو حق بولنا اس کے لباس کی تعریف اور اس کی تعلیم کو درست کہنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر ١٧٢)


دیوبندی کو حق بولنا اس کے لباس کی تعریف اور اس کی تعلیم کو درست کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ..
کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ زید جو سنی ہے اگر کسی دیوبندی کو حق بولے اس کے لباس کی تعریف کریں اور کہے ان کی تعلیم ان کا ہر چیز بہت زبردست ہے اور وہ بہت سادہ ہے ،گویا وہ دیوبندی کو حق جان رہا ہے اور ایک کافر کو حق جاننا کفر ہے ،تو جس نے ذیل کی  بات کہی ہے ان کے اوپر کفر کا حکم لگے گا ؟ علماء کرام رہنمائی فرمائیں
سائل:- جناب محمد ارشاد اشرفی مقام پوجھیاں شریف لعل گنج
:--------------------

نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
صورت مسئولہ میں
(اگر کسی دیوبندی کو حق بولے) یہ جملہ وضاحت طلب ہے کہ کس معنی میں دیوبندی کو حق بولا ؟
(اس کے لباس کی تعریف کرے ) ممکن ہے اس کا لباس نظیف ہو ۔(انکی تعلیم اور ہر چیز کو زبردست کہنا) ممکن ہے انکی عربی تعلیم اور تعلیم کی نظم و ضبط بہتر ہو(اسے سادہ کہنا ) ممکن ہے دنیاوی میل جول میں معتدل اور اور معتدل مزاج کا متحمل ہو ۔(دیوبندی کو حق جان رہا ہے )  یہ جملہ بھی وضاحت طلب ہے کس معنی میں دیوبندی کو حق جان رہا ہے ۔
مطلق ہر دیوبندی وہابی کافر و مرتد کے حکم میں نہیں جب تک  اس بابت تحقیق سے معلوم نہ ہو جائے ۔
جو بھی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کرتا ہے اس کا تعلق چاہے کسی بھی فرقے سے ہو وہ کافر ہوجاتا ہے، یہ کسی فرقے کے ساتھ خاص نہیں جو بھی کوئی عمل کرے گا خود ذمہ دار ہوگا دوسرا شخص اسکی وجہ سے کافر نہیں ہوگا۔ من حیث الجماعت کسی کو کفر ارتداد کے زمرے میں شامل کر نا کا جائز نہیں، ہر ایک بندے کے ایمان کی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے۔
جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو، جیسے: توحید، رسالت، آخرت، ختمِ نبوت، نماز، روزہ حج، زکوٰۃ یا کسی شخصیت میں صفاتِ الوہیت کا قائل ہو، قرآنِ کریم تحريف شدہ مانتا ہو، کسی صحابی کی صحبتِ رسول یا عدالتِ صحابہ کا منکر ہو، امہات المؤمنین میں سے کسی پر تبرا کرے، یا  نذر و نیاز‘ مزارات پر حاضری‘ انبیاء و اولیاء کا توسل‘ ندائے یا رسول اﷲ صلی‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ انعقادِ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفر و شرک گردانتا ہو تو ایسے شخص پر کفر و مرتد کا حکم لاگو ہوگا ۔
واضح رہے کہ حکم لگانے والا خود قائل سے پوچھے یا اس کی تحریر کو بذات خود پڑھے تب حکم کفر و ارتداد لگ سکتا ہے قبل ازیں نہیں ۔
لہذا اس سوال میں زید پر کوئی حکم شرع نافظ نہیں ہوگا جب تک اس دیوبندی کا عقاعد ضروریات دینہ بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے ۔
کتنے مفتیان کرام و ہابیہ و دیابنہ و اہل حدیث پر کفر و ارتداد کا فتویٰ صادر فرمانے کے وقت بذات خود ان سے استفسار کئے ہیں ۔کہ ان کے عقیدے کس قسم کے ہیں ۔
غالبا کوئی نہیں الا ماشااللہ ۔جب کہ ہمارے اعلی حضرت نے
کئی بار انھیں سمجھا یا بتایا رسالہ لکھ کر انھیں با خبر فرمایا کہ یہ چاروں اپنے اقوال سے رجوع کریں پر نہیں کیا پھر حسام الحرمین لکھے ۔اب یہی حال سارے عوام الناس کے ساتھ رواں رکھا جائے یہ ظلم عظیم کے مترادف ہے ۔
ہمارے اکابرین میں سے دو محقق کا فتویٰ احتیاط بر مبنی موجود ہے ۔
وہ وقت تھا جب دیوبندی وہابی قادیانی کا باڑھ و سیلاب آیا مجدد اعظم نے ان کا گلا پکڑا اور ضرورت تھی اتنی ہی شدت کی ،ورنہ اکثریت  کو بہا لے جاتے ۔۔اعلی حضرت تحقیقا جو کئے بالکل حق ہے ۔
ان کا دوسرا رخ کفر ارتداد کے بابت نرم اور حتی الامکان امت کو کفر ارتداد سے بچا نے کی کوشش ہے  یہ کسی کو نظر نہیں اتا.
مندرجہ ذیل کی عبارات عمیق نظر سے مطالعہ کیا جائے ۔
(1)کفر لزومی اور کفر التزامی کو سمجھنا ضروری ۔۔١ ایسا لفظ جو عین کفر نہیں مگر منجر بکفر ہوتی ہو ٢ضروریات دین سے کسی شئی کا تصریحا خلاف کرے ۔(فتاویٰ رضویہ ج ١٥ص ٤٣١/٤٣٢)
(2) مسلمانوں کے مسائل تین قسم کے ہوتے ہیں ١ ضروریات دین ان میں ادنی شک کرنے والا بالیقین کافر ہے اور جو اس میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ٢ ضروریات عقائد اہل سنت انکا منکر بد مذہب گمراہ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ ٢٢/٥١٦)
(3) وہ مسائل کہ علماء اہل سنت میں مختلف فیہ ہوں ان میں کسی طرف تکفیر و تضلیل ممکن نہیں ہے ۔ أيضا
(4) اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا فرمان ۔لعنت بہت سخت چیز ہے ہر مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے بلکہ لعین کافر پر بھی لعنت جائز نہیں جب تک اس کا کفر پر مرنا ثابت نہ ہو ۔۔(فتاویٰ رضویہ ج ٢١ ص ٢٢٢)
(5) ہر بات کا کوئی وقت اور ہر نقكتے کا کوئی خاص مقام ہوتا ہے اگر تو مراتب کے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو زندیق ہے .(فتاویٰ رضویہ ج ٢ص٣٨٥ )
(6) اگر ثبوت ثابت بھی ہو جائے اور گنجائش و تاویل رکھتا ہو تو تاویل واجب اور مخالفت مندفع ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٢٢ص ٥١٦)
(7) تکفیر اہل قبلہ و اصحاب کلمہ میں جرآت و جسارت محض جہالت بلکہ سخت آفت ہے ۔فرض قطعی ہیکہ اہل کلمہ کے ہر قول و فعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع و فظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں۔ضعیف سے ضعیف نحیف سے نحیف تاویل ممکن ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اسلام کا حکم لگائیں اگرچہ ہزار احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں ۔۔۔
احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١٢ ص )
(8) کسی شخص سے کسی قول و فعل کا صدور ہونا چیزے دیگر ہے اور اس کا کافر ہونا چیزے دیگر ۔ ( فتح القدیر ٦/١٠٠)
(9) اگر قائل کے قول میں 99 پہلو کفر کے ہوں اور ایک پہلو ضعیف سے ضعیف نحیف سے نحیف خواہ وہ دوسرے امام کے مسلک پر کیوں نہ ہوں۔ایمان کا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١٢ص ٣١٨)
(10) بلکہ بہت سے فقہاء نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کفریات کی بنیاد پر متعین طور پر لوگوں کے کفر کے فیصلے نہیں کرتے (فتح القدیر ٦/١٠٠)
(11) جہاں پر فقہاء یہ بولتے ہیں کہ یہ صریح کلمہ کفر ہے وہاں کفر فقہی مراد ہوتا ہے کفر کلامی نہیں اور فقہی میں قائل کو کافر و مرتد خارج از اسلام نہیں کہا جائے گا ۔بلکہ تجدید نکاح و ایمان کا حکم دیا جائے گا۔ (تکفیر مسلم پر تحقیقی نظر  ص 48 )
اسی طرح شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰
ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳
فتاوی ملک العلما کتاب السیر صفحہ ۲۲۹ میں ہے ,محمد بن عبد الوھاب و اسماعیل دہلوی کے عقائد کفریہ نہ تھے اگرچہ بعض اقوال شان اسلام سے بہت گرے ہوئے ہیں مگر التزام کفر نہ ہونے کی وجہ سے محققین و محتاطین علمائے کرام نے ان  دونوں اور ان کے ہم خیالوں کی تکفیر نہ کی ,صرف گمراہ اور بدمذہب کہا ,,,,کافر کا یہ مطلب ہے کہ ضروریات دین میں سے کسی بات کا منکر ہے اس شخص کو نئے سرے سے کلمہ پڑھ کر مسلمانوں میں شامل ہونا چاہئے اور اپنے عقائد و خیالات سے بری ہونا چاہئے ,اور بدمذہب کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص دائرہ اسلام میں ہے مگر اس کے خیالات مطابق عقیدہ اہلسنت نہیں ,اسے اپنے خیال سے توبہ کرنا چاہئے ,
حاصل کلام۔ احتیاط برتنا احسن ہے پر خلدين فيها کردینا اچھا نہیں ۔
سو کفر میں سے ایک ضعیف  پہلو بھی اگر ایمان کا نہ ہو پھر اس پر حکم کفر لگا یا جائے ۔۔

والله ورسوله أعلم بالصواب.

کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨،سرہا نیپال
خادم البرقی دارالافتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
١٢،ربيع الأول ١٤٤٢ھ، ٢٩،اکتوبر، ٢٠٢٠

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area