Type Here to Get Search Results !

بغیر طلاق و عدت کے سنی لڑکے سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر ١٧٣)

بغیر طلاق و عدت کے سنی لڑکے سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

:::-----------------------------------------:::
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا سارے وہابى (عوام و جان کار ) کافر و مرتد کے حکم میں آتے ہیں يا نہیں اگر نہیں؟ تو ان میں سے کسی کے ساتھ سنى لڑکی کا نکاح کرنے کے بعد اس لڑکى کا نکاح بغیر طلاق و عدت کے دوسرے سنى لڑکے کے ساتھ  ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ جواب بحوالہ کتاب عنایت فرما کر عند الله مستحق ثواب ہوں۔
سائل:- محمد زاہد حسین برکاتی مصباحی جنکپور٢٠ روپيٹها دهنوشا نیپال ۔
:::-----------------------------------------:::
نحمده ونشكره ونصلي على رسوله الأمين.
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ عزوجل 
صورت مسئولہ میں
سارے دیوبندی وہابی کافر و مرتد نہیں ہے، جب تک بالتحقیق معلوم نہ ہو جائے کہ وہ ضروریات دینیہ کا منکر ہے ۔یا نہیں؟
جیسا کہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
دیوبندی عوام جو دیوبندی بزرگوں کی کفریہ عبارات سے باخبر نہیں ہے اور انکی ظاہری حالت کو دیکھ کر یا کسی اور وجہ سےان کو اپنا بزرگ اور پیشوا مانتے ہیں وہ کافر نہیں ہیں۔ مفتی شریف الحق امجدی صاحب مزید لکھتے ہیں زیادہ تر دیوبندی عوام اسی طرح کے ہیں ۔
فتاوی شارح بخاری ،جلد سوم ،ص ۳۳۰
ناشر دائرۃ البرکات ،گھوسی ،ضلع مئو ،جون ۲۰۱۳
پہلے یہ دیکھا جائے کہ سنی لڑکی کا نکاح جس سے ہوا ہے اس کا عقیدہ کیسا ہے؟
آیا وہ ضروریات دین کا انکاری ہے یا نہیں ۔اور وہ یہ ہے ۔ توحید، رسالت، آخرت،جملہ انبیاء و رسل و ملائک، حشر و نشر، جنت و جہنم،  ختمِ نبوت، نماز، روزہ حج، زکوٰۃ یا کسی شخصیت میں صفاتِ الوہیت کا قائل ہو، قرآنِ کریم تحريف شدہ مانتا ہو، کسی صحابی کی صحبتِ رسول یا عدالتِ صحابہ کا منکر ہو، امہات المؤمنین میں سے کسی پر تبرا کرے، یا نذر و نیاز‘ مزارات پر حاضری‘ انبیاء و الیاء کا توسل‘ ندائے یا رسول اﷲ صلی‌ اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ انعقادِ محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو  کفر و شرک کہتا ہو  تو ایسے مرد یا عورت کے ساتھ کسی مسلمان مرد و عورت کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ نے دیابنہ و وہابیہ کو پہچاننے کا آسان فارمولہ عطا فرمایا ہے کہ اسے حسام الحرمین کی عبارت دیکھا یا جائے یا پڑھ کر سنا یا جا ئے اگر قبول کر لے فبہا اور اگر قبول نہ کریں پس یہ عقدہ عیاں ہے کہ اصلی ہے۔
اعلی حضرت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ایسی جگہ تو یہ سوال کرنا چاہیے کہ رشید احمد گنگوہی و اشرف علی تھانوی و قاسم نانوتوی اور محمود حسن دیوبندی و خلیل احمد انبیٹھی اور ان سب سے گھٹ کر ان کے امام اسمعیل دہلوی اور ان کی کتابوں براہین قاطعہ وتحذیر الناس وحفظ الایمان و تقویۃ الایمان و ایضاح الحق کو کیسا جانتے ہو اور ان لوگوں کی نسبت علمائے حرمین شریف نے جو فتوے دیئے ہیں انہیں باطل سمجھتے ہو یا حق مانتے ہو اور اگر وہ ان فتوؤں سے اپنی ناواقفی ظاہر کرے تو بریلی مطبع اہلسنت سے حسام الحرمین منگالیجئے اور دکھائیے اگر بکشادہ پیشانی تسلیم کرے کہ بیشک علمائے حرمین شریفین کے یہ فتوے حق ہیں تو ثابت ہوگا کہ دیوبندیت کا اُس پر کچھ اثر نہیں ورنہ علمائے حرمین شریفین کا وہی فتوٰی ہے کہ:
من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر ۔
جو اس کے عذاب اور کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس وقت آ پ کو ظاہر ہوجائے گا کہ جو شخص اللہ و رسول کو گالیاں دینے والوں کو کافر نہ جاننا درکنار علمائے دین واکابر مسلمین جانے وہ کیونکر مسلمان، پھر مسئلہ عرس وفاتحہ و فرعی مسائل ہے ،
(2)حسام الحرمین مکتبہ نبویہ لاہور ص ۱۳) (فتاوی رضویہ ج 29 ص  33)
اگر  اس شخص کا عقیدہ مذکورہ توضیحات کے موافق و مطابق ہے تو بدون طلاق و عدت دوسرے شخص سے نکاح درست نہیں ۔اور ساتھ ہی اس کی اصلاح کرتے رہیں ۔
اور اگر اس کے برعکس ہے تو چونکہ نکاح ہی منعقد نہیں ہوا اس لئے بغیر طلاق و عدت کے کسی سنی صحیح العقیدہ شخص سے نکاح کرنا جائز ہے ۔بلکہ اس سے قطع تعلق کر لینا ضروری ہے ۔
اور احوط یہی ہے کہ ان سے دور رہا جائے ۔۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی  محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لہان ١٨.خادم البرقي دار الإفتاء سنی شرعی بورڈ آف نیپال ۔
١٢.ربیع الاول ۱۴۴۲ ہجری. ٢٩. اکتوبر ۲۰۲۰ عیسوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مصدقين مفتيان عظام و علماء كرام، أركان سني شرعي بور ڈ آف نیپال۔
(١) مفتي ابو العطر محمد عبد السلام امجدی برکاتی صاحب ۔
(٢) حضرت مولانا محمد شہاب الدین حنفی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیر سرپرستی قاضی نیپال مفتی اعظم نیپال مفتی محمد عثمان برکاتی مصباحی صاحب قبلہ جنکپور ۔
المشتسہر، سنی شرعی بورڈ آف نیپال۔
٢٩.،أكتوبر ٢٠٢٠ء /
١٢.،،ربيع الأول ، ١٤٤٢ھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area