عاشوراء کے دن عرش لوح قلم بنایا گیا عاشوراء کے دن کی فضیلت کے بارے میں وارد روایت کی تحقیق
:----------------------:
عاشوراء کے دن کی فضیلت کے بارے میں جو صحیح روایات وارد ہیں ہم ان پر کلام تو نہیں کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے ان پر کلام کرنا بنتا بھی نہیں ہے ہم ان روایات کو ذکر کریں گے جن روایات پر ہمارے محدثین نے کلام کیا ہے اور وہ موضوع من گھڑت ہیں۔ کیونکہ بہت ساری روایات شیعوں کے رد میں گھڑی گئی ہیں اور بہت سی شیعوں نے گھڑی ہے۔
ایک روایت یہ بیان ہوتی ہے حضرت آدم کی توبہ اسی دن قبول ہوئی حضرت آدم کی ملاقات حضرت حوا سے اسی دن ہوئی حضرت یونس مچھلی کے پیٹ سے اسی دن باہر آئے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی دن ٹھہری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے فدیہ اسی دن آیا اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن جنت میں داخل ہوئے عاشوراء کے ہی دن عرش کرسی آسمان زمین سورج چاند ستارے اور جنت کو پیدا کیا گیا عاشوراء کے دن ہی حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے عاشوراء کے دن ہی حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائ گئی عاشوراء کے دن ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو گہرے کونیں سے نکالا گیا عاشوراء کے دن ہی آسمان سے سب سے پہلی بارش ہوئی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے اسی دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی ہے۔
اس روایت کے بارے میں ہمارے محدثین نے وضع کا حکم لگایا ہے اسے موضوع من گھڑت قرار دیا ہے اس پر میں تفصیلی کلام کروں گا ۔،پر
اس سے پہلے یہ جان لے فرعون کا دریا میں غرق ہونا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پر ٹہرنا یہ صحیح روایات سے ثابت ہے اس لیے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ ہم اس کے بھی منکر ہیں۔ عاشوراء کے فضائل میں جو یہ روایت بیان ہوتی ہے یہ دو روایات ہیں ایک تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور ایک حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے یہ دونوں روایت موضوع ومن گھڑت ہیں اس روایت کو وضع کرکے دونوں صحابی کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اس کی سند میں جھوٹے کذاب راوی ہیں اس نے حدیث کو گھڑا اور صحابی کی طرف منسوب کردیا اس روایت کو محدثین نے موضوعات میں لکھا ہے امام ابن الجوزی اپنی کتاب الموضوعات میں فرماتے ہیں
قد تمذھب قوم من الجھال بمذھب اھل السنتہ فقصدو غیظ الرافضیتہ فوضعو احادیث فی فصل عاسوراء و نحن برا من الفرقین وقد صح ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر
بصوم عاشوراء
ایک جاھل قوم نے اہلسنت کا مذہب اختیار کیا رافضیوں کو غیظ دلانے کے لیے عاشوراء کے دن کی فضیلت میں احادیث کو گڑھا اور ہم دونوں سے بری ہیں عاشوراء کے باب میں صحیح روایت روزے کے بارے میں وارد ہے
امام ابن جوزی الموضوعات میں مزید فرماتے ہیں
فمن الاحادیث التی وضعوا
جن احادیث کو وضع کیا گیا وہ یہ ہے
فانہ الیوم الذی تاباللہ فیہ علی ادم و ھو الیوم الذی رفع اللہ فیہ ادریس مکانا عالیا و ھو الیوم الذی نجی فیہ ابراھیم من النار و ھو الیوم الذی اخرج فیہ نوحا من السفینتہ و ھو الیوم الذی انزل اللہ فیہ التوراتہ علی موسی و فیہ فداللہ اسماعیل من الذبح و ھو الیوم الذی اخرج اللہ یوسف من السجن و ھو الیوم الذی
رداللہ علی یعقوب بصرہ و ھو الیوم الذی کشف اللہ فیہ عن ایوب البلاء و ھو الیوم الذی اخرج اللہ فیہ یونس من بطن الحوت و ھو الیوم الذی فلق اللہ فیہ البحر لبنی اسرائیل و ھو الیوم الذی غفر اللہ لمحمد ذنبہ ما تقدم وما تاءخر
اسی دن آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو مکان عالیشان عطا کیا اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نکالا اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ٹھہری اسی دن حضرت موسی علیہ السلام پر تورات نازل ہوئی اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے فدیہ آیا اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے نکالا گیا اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کو بنائی عطا کی گئی اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو بلاؤں سے نجات ملی اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا گیا اسی دن اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستہ نکالا اسی دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے بظاہر خلاف اولی کاموں کو معاف کیا
امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے اگلے صفحہ پر ایک اورروایت یہی یوم عاشوراء کی نقل کی ہے جس میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے
و ولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی یوم عاشوراء
یعنی نبی کریم کی ولادت بھی عاشوراء کے روز ہوئی ہے۔
امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ یہ روایات نقل کرنے کے بعد ان روایات کے بارے میں فرماتے ہیں
ھذا حدییث موضوع بلا شک قال احمد بن حنبل کان حبیب بن ابی حبیب یکذب۔ وقال ابن عدی کان یضع الحدیثوقال ابو حاتم ابو حبان ۔ ھذا حدیث باطل لا اصل لہ ۔ قال وکان حبیب من اھل مرو یضع الحدیث علی الثقاتہ لا یحل کتب حدیث الا علی سبیل القدح فیہ ھذا حدیث لا یشک فی وضعہ ولقد ابدع من وضعہ و کشف القناع ولم یستحی واتی فیہ المستحیل وھو قولہ و اول یوم خلق اللہ یوم عاشراء و ھذا تغفیل من اوضعہ لانہ انما یسمی یوم عاشوراء اذ سبقہ تسعتہ وقال فیہ خلق السموات ولارض و الجبال یوم عاشوراء
یہ حدیث من گھڑت ہے اس کے من گھڑت ہونے میں شبہ نہیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
حبیب بن حبیب اس سند میں جھوٹا راوی ہے۔ اور اس راوی کے بارے میں ابن عدی فرماتے ہیں یہ شخص جھوٹی حدیث گھڑتا تھا
اور اس کے بارے میں ابو حاتم اور ابن حبان فرماتے ہیں یہ روایت یعنی عاشوراء کی باطل جھوٹی ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور فرماتے ہیں حبیب نام کا راوی ان لوگوں میں سے ہے جو حدیث گھڑتے تھے اور ان کو ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان سے حدیث لینا جائز نہیں ہے
اس روایت کے من گھڑت ہونے میں کسی عقلمند کو شک نہیں ہوسکتا اور جس نے اس روایت کو گھڑا ہے اس نے ایک بدعت کی بنیاد رکھ دی ہے اور اس میں وہ ایک ناممکن قول لے آیا ہے کہ سب سے پہلے جو دن اللہ نے بنایا وہ عاشوراء کا دن ہے اور یہ وضع کرنے والے کی بہت بڑی غفلت ہے اس لئے کہ اس نے دن کا نام عاشوراء رکھ دیا جبکہ اس سے پہلے نو دن چھوٹ گئے اور گھڑنے والے نے کہا اللہ نے زمین اور آسمان کو عاشوراء کے دن پیدا فرمایا ہے (الموضوعات جلد 2 صفحہ نمبر 202)
قارئین کرام جس روایت کو ہمارے یہاں خوب دھڑلے سے بیان کیا جاتا ہے اس کے بارے میں ہمارے محدثین کیا فرما رہے ہیں کہ اس کے جھوٹے ہونے میں کسی عقلمند کو شک نہیں ہو سکتا زمین آسمان کب پیدا ہوئے اور مزید تبصرہ اس پر میں آگے کروں گا اس سے پہلے علم حدیث کے دو امام امام ذہبی اور امام ابن حجر کا بھی قول نقل کرتا ہوں چونکہ ان حضرات کو شاید ہی کوئی نہیں جانتا ہو علم حدیث کی بات ہو اور ان کا ذکر نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے ان حضرات کا قول اس لیے ذکر کر رہا ہوں جن حضرات کو اس کے موضوع ہونے میں اب بھی شک ہو وہ شک بھی دور ہو جائے ورنہ انصاف پسندوں کے لیے اتنا کافی تھا جتنا ہم اس روایت پر لکھ چکے ہیں ان حضرات کا قول ذکر کرنے کے بعد اس روایت پر مزید تبصرہ کروں گا حبیب ابن حبیب الخرططی جو کی عاشوراء کی روایت کا راوی ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں
حبیب بن ابی حبیب الخرططی کان یضع الحدیث قال ابن حبان وغیرہ
حبیب بن ابی حبیب الخرططی وہ حدیثوں کو گھڑتا تھا ابن حبان اور دیگر محدثین نے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ حدیثوں کو گھڑتا تھا
امام ذہبی مزید فرماتے ہیں
و ذکر حدیثا طویلا موضوعا و فیہ ان اللہ خلق العرش یوم عاشوراء والکرسی یوم عاشوراء والقلم یوم عاشوراء و خلق الجنتہ یوم عاشوراء واسکن ادم الجنتہ یوم عاشوراء الی ان قال و ولدالنی
صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء واستوی اللہ علی العرش یوم عاشوراء و یوم القیامتہ یوم عاشوراء
اور اس نے حبیب بن ابی حبیب نے موضوع من گھڑت طویل روایت بیان کی ہے اور اس روایت میں یہ بیان کیا ہے اللہ نے عرش کرسی جنت قلم جنت کو عاشوراء کے دن پیدا کیا عاشوراء کے دن حضرت آدم کو جنت میں رہائش دی
آگے چل کر اس میں یہ الفاظ بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عاشوراء کے دن ہوئی اللہ نے استوی عرش پر عاشوراء کے دن کیا تھا قیامت بھی اسی دن ایگی
(میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ نمبر 160 مترجم)
قارئین حضرات دیکھا آپ نے جو روایت ہمارے یہاں خوب دھڑلے سے بیان ہوتی ہے اس کو امام ذھبی نے بھی موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے اور اس کے راوی کو بھی حدیث گھڑنے والا قرار دیا ہے
اب امام ابن حجر کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس روایت اور اس کے راوی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں
امام ابن حجر تہذیب التہذیب 1292 حبیب بن ابی حبیب کے بارے میں فرماتے ہیں
قال ابن حبان کان یضع الحدیث علی الثقات لا یحل کتب حدیثہ الا علی سبیل القدح فیہ وقال الحاکم روی احادیث موضوعتہ
ابن حبان فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں کی طرف حدیث گھڑتا تھا اس سے حدیث لینا جائز نہیں سوائے اس کے کہ اس پر تنقید کی جائے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس نے من گھڑت احادیث بیان کی ہیں۔
علامہ ابن حجر اپنی کتاب لسان المیزان میں فرماتے ہیں
وذکرحدیثا طویلا موضوعا و فیہ ان اللہ خلق العرش یوم عاشوراء
والکرسی یوم عاشوراء والقلم یوم عاشوراء الستوی اللہ علی العرش یوم عاشوراء و خلق الجنتہ یوم عاشوراءوالسکن ادم الجنتہ یوم عاشوراءالی ان قال و ولدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء و یوم القیامتہ یوم عاشوراء
اور حبیب بن ابی حبیب نے طویل موضوع من گھڑت روایت بیان کی ہے جس میں یہ کہا اس نے عرش و کرسی و قلم جنت عاشوراء کے دن اللہ نے پیدا کیے
اللہ نے استوی عرش پر عاشوراء کے دن کیا حضرت آدم کو جنت میں رہائش اسی دن دی آگے چل کر اس میں یہ الفاظ بھی ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عاشوراء کے دن ہوئی اور قیامت بھی عاشوراء کے دن آئیں گی
(لسان المیزان جلد 2 صفحہ نمبر 546)
علامہ ابن حجر مزید فرماتے ہیں
وقال الحاکم روی عن ابی حمزتہ و ابراھیم الصائغ احادیث موضوعتہ وقال نحوہ النقاش وقال ابن عدی کان یضع الحدیث وقال احمد بن حنبل حبیب بن ابی حبیب کذاب کذا ذکرہ ابن الجوزی عنہ عقب الحدیث المذکور فی الموضوعات
اور امام حاکم نے فرمایا ابوحمزہ اور ابراہیم صائغ سے موضوع من گھڑت روایت کی گئی ہیں اور اسی طرح نقاش نے بھی کہا ہے اور ابن عدی نے فرمایا حبیب بن ابی حبیب حدیث گھڑتا تھا اور امام احمد بن حنبل نے فرمایا حبیب بن ابی حبیب بہت بڑا جھوٹا تھا اور اسی طرح ابن جوزی نے فرمایا ہے اور اس کی روایت کو الموضوعات میں ذکر کیا ہے
حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب التہذیب جس میں آپ کی ذاتی آراء ہیں جو کہ تقریب التہذیب کی تخلیص ہے اس میں اپ حبیب بن ابی حبیب جس نے عاشوراء کے روایت بیان کی ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں
حبیب بن ابی حبیب نوے طبقے کا راوی ہے ابن حبان نے فرمایا ہے وہ راوی جھوٹا ہے
تقریب التہذیب جلد 1 صفحہ نمبر 160 ،
میں سمجھتا ہوں عاشوراء کی روایت کہ موضوع من گھڑت ہونے کے بارے میں اتنا کافی ہے جن محدثین نے اس روایت کو موضوع کہا ہے اور اس کے راوی پر جرح کی ہے اور اس کو جھوٹا کہا ہے وہ سب کے سب جلیل القدر محدثین ہیں بڑے بڑے ان کے آگے اپنا سر خم فرما لیتے ہیں
عاشوراء کی روایت میں کہا جاتا ہے زمین آسمان عاشوراء کے دن پیدا ہوئے لیکن یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے چونکہ مسلم شریف کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے مٹی زمین کو ہفتے کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور جو چیزیں پسند نہیں ان کو منگل کے دن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور چوپایوں کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور سب مخلوق کے آخر میں حضرت آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ کے دن کی آخری لمحہ میں سے کسی لمحہ میں پیدا کیا
(صحیح مسلم حدیث نمبر 7054)
جتنی چیزوں کا حدیث میں ذکر ہے
یہ سب عاشوراء کے دن پیدا کیا گیا بیان ہوتا ہے نیز عاشوراء والی روایت میں بھی یہ سب موجود ہے حالانکہ یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے مزید سنے عاشوراء کی روایت میں یہ بھی ہے حضرت آدم کی علیہ السلام حضرت حوا رضی اللہ عنہا سے ملاقات عاشوراء کو ہوئی جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کی ملاقات ذی الحجہ میں ہوئی تھی حضرت آدم نے حضرت حوا کو پہچان لیا تھا اسی روز کا نام عرفہ رکھا گیا اور جہاں ملاقات ہوئی اس جگہ کا نام عرفات مشہور ہوا مزید سنئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ عاشوراء میں آیا عاشوراء والی روایت میں ہے جبکی وہ فدیہ بھی ذی الحجہ میں آیا تھا اگر عاشوراء کو آیا تھا تو پھر عید الاضحٰی عاشوراء کے دن کیوں نہیں کرتے ہیں کنکریاں بھی عاشوراء کے دن مارے اور مزید سنیے اس روایت میں یہ بھی ذکر ہے نبی کریم کی ولادت عاشوراء کے دن ہوئی تو پھر جشن ولادت بارہ ربیع الاول کو کیوں مناتے ہیں چاہئے کہ عاشوراء کے روز جشن ولادت منائیں
اگر اس روایت پر مزید کلام کروں تو وجود میں ایک کتاب آجائے گی اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں
یہی وہ دلائل اور تحقیق تھی مجھ فقیر کی جس بنا پر میں نے اس روایت کو موضوع کہا تھا چونکی واٹس ایپ پر ملک اور بیرون ملک کے لوگ فقیر حنفی سے اپنے مسائل کا جواب لیتے ہیں تو اس روایت کا بھی میں نے جواب دیا نیز اس کے موضوع ہونے کی تشہیر بھی کی لیکن کچھ جاہلوں نے اس پر بہت فساد کیا یہاں تک کہ ان جاہلوں کے ساتھ میرے یہاں کی کچھ مسجدوں کے اماموں نے میرے خلاف میٹنگ بھی کی اب میں اس پر تو تبصرہ نہیں کرتا کس نے کیا کہا البتہ ایسے میں ہمارے علماء کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے وہ عرض کرتا ہوں بجائے مجھ پر تنقید کرنے کے میرے خلاف لوگوں کو غلط ذہن دینے کے اس روایت کی تحقیق کی ہوتی تو خود کے علم میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگوں کو صحیح بات بتا پاتیں اور بعض تو اتنا حد سے بڑے تھے انہوں نے بول دیا موضوع روایت پر علماء عمل کریں تو وہ صحیح ہو جاتی ہے معاذ اللہ
جبکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے موضوع روایت بیان کرنا حرام ہے اسی دوران کچھ حفاظ کا طرز عمل سامنے آیا انہوں نے بھی خوب فساد کیا شور و گوگا کیا یہ بات حقیقت ہے حافظ اگر حفظ کے بعد علم نہ سیکھے تو جاھل ہی رہتا ہے انہوں نے جاہلوں والا طرز عمل ان کا سامنے آیا اور مجھ سے انہوں نے کہا کہ ہم فلاں علامہ اور فلاں مفتی کو بات کرنے کے لئے بلائیں گے میں نے کہا آپ کو جس کے علم پر ناز ہے ان کو بلا لے خرچ بھی میں اٹھانے کو تیار ہوں پر شرط یہ ہیں کہ اگر وہ یا میں ثابت نہیں کر پائے اس روایت کے بارے میں تو عوام کے سامنے میں یا وہ رجوع کریں گے اس پر بیچاروں نے پھر دوبارہ کوئی جواب نہیں دیا ہمارے یہاں یہ بہت بری بیماری پھیل چکی ہے کہ جو ہم بول رہے ہیں یا سنتے ہوئے آرہے ہیں وہی صحیح ہے اس کے مقابلے میں اگر کوئی اپنی تحقیق لائے وہ بھی اکابر کی بتائی ہوئی اس کو بھی رد کر دیتے ہیں یہ حال عام خاص سب کا ہے اسی دوران ایک مفتی صاحب سے کافی دیر بات ہوئی لاسٹ میں نتیجہ یہ نکلا انہوں نے کہا اگر اب ہم یہ سب بیان کریں یا عوام کے سامنے ظاہر کرے تو دیوبندی وہابی ہم پر ہنسیں گے کی پہلے آپ یہ سب بیان کرتے تھے اور اب یہ سب ان روایات کو موضوع من گھڑت قرار دیتے ہیں
الامان والحفیظ حق جان نے کے بعد حق کو چھپانا کہاں کا انصاف ہے اور کیا ہماری شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے
عاشوراء کے متعلق اور کربلا کا جو واقعہ ہوا اس میں بہت ساری روایات شیعوں نے گھڑی ہیں اور آج وہ ہمارے یہاں بھی خوب بیان ہوتی ہیں اس کی نشاندہی ہمارے اکابر نے کی ہے اور یم نے بھی واقعات کربلا کی تحقیق و تردید میں کردی ہے۔ فتاوی رضویہ میں اسی لیے کہا گیا کربلا کا واقعہ صحیح روایات سے بیان ہو تو جائز ہے ورنہ حرام ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے امام غزالی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ فرمایا ہے۔
اللہ کریم حق بولنے سننے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:-9917420179
عاشوراء کے دن کی فضیلت کے بارے میں جو صحیح روایات وارد ہیں ہم ان پر کلام تو نہیں کریں گے۔ ظاہر سی بات ہے ان پر کلام کرنا بنتا بھی نہیں ہے ہم ان روایات کو ذکر کریں گے جن روایات پر ہمارے محدثین نے کلام کیا ہے اور وہ موضوع من گھڑت ہیں۔ کیونکہ بہت ساری روایات شیعوں کے رد میں گھڑی گئی ہیں اور بہت سی شیعوں نے گھڑی ہے۔
ایک روایت یہ بیان ہوتی ہے حضرت آدم کی توبہ اسی دن قبول ہوئی حضرت آدم کی ملاقات حضرت حوا سے اسی دن ہوئی حضرت یونس مچھلی کے پیٹ سے اسی دن باہر آئے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی دن ٹھہری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے فدیہ اسی دن آیا اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن جنت میں داخل ہوئے عاشوراء کے ہی دن عرش کرسی آسمان زمین سورج چاند ستارے اور جنت کو پیدا کیا گیا عاشوراء کے دن ہی حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے عاشوراء کے دن ہی حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائ گئی عاشوراء کے دن ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو گہرے کونیں سے نکالا گیا عاشوراء کے دن ہی آسمان سے سب سے پہلی بارش ہوئی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے اسی دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی ہے۔
اس روایت کے بارے میں ہمارے محدثین نے وضع کا حکم لگایا ہے اسے موضوع من گھڑت قرار دیا ہے اس پر میں تفصیلی کلام کروں گا ۔،پر
اس سے پہلے یہ جان لے فرعون کا دریا میں غرق ہونا اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پر ٹہرنا یہ صحیح روایات سے ثابت ہے اس لیے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ ہم اس کے بھی منکر ہیں۔ عاشوراء کے فضائل میں جو یہ روایت بیان ہوتی ہے یہ دو روایات ہیں ایک تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور ایک حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے یہ دونوں روایت موضوع ومن گھڑت ہیں اس روایت کو وضع کرکے دونوں صحابی کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اس کی سند میں جھوٹے کذاب راوی ہیں اس نے حدیث کو گھڑا اور صحابی کی طرف منسوب کردیا اس روایت کو محدثین نے موضوعات میں لکھا ہے امام ابن الجوزی اپنی کتاب الموضوعات میں فرماتے ہیں
قد تمذھب قوم من الجھال بمذھب اھل السنتہ فقصدو غیظ الرافضیتہ فوضعو احادیث فی فصل عاسوراء و نحن برا من الفرقین وقد صح ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امر
بصوم عاشوراء
ایک جاھل قوم نے اہلسنت کا مذہب اختیار کیا رافضیوں کو غیظ دلانے کے لیے عاشوراء کے دن کی فضیلت میں احادیث کو گڑھا اور ہم دونوں سے بری ہیں عاشوراء کے باب میں صحیح روایت روزے کے بارے میں وارد ہے
امام ابن جوزی الموضوعات میں مزید فرماتے ہیں
فمن الاحادیث التی وضعوا
جن احادیث کو وضع کیا گیا وہ یہ ہے
فانہ الیوم الذی تاباللہ فیہ علی ادم و ھو الیوم الذی رفع اللہ فیہ ادریس مکانا عالیا و ھو الیوم الذی نجی فیہ ابراھیم من النار و ھو الیوم الذی اخرج فیہ نوحا من السفینتہ و ھو الیوم الذی انزل اللہ فیہ التوراتہ علی موسی و فیہ فداللہ اسماعیل من الذبح و ھو الیوم الذی اخرج اللہ یوسف من السجن و ھو الیوم الذی
رداللہ علی یعقوب بصرہ و ھو الیوم الذی کشف اللہ فیہ عن ایوب البلاء و ھو الیوم الذی اخرج اللہ فیہ یونس من بطن الحوت و ھو الیوم الذی فلق اللہ فیہ البحر لبنی اسرائیل و ھو الیوم الذی غفر اللہ لمحمد ذنبہ ما تقدم وما تاءخر
اسی دن آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو مکان عالیشان عطا کیا اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نکالا اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ٹھہری اسی دن حضرت موسی علیہ السلام پر تورات نازل ہوئی اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے فدیہ آیا اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے نکالا گیا اسی دن حضرت یعقوب علیہ السلام کو بنائی عطا کی گئی اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو بلاؤں سے نجات ملی اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا گیا اسی دن اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستہ نکالا اسی دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے بظاہر خلاف اولی کاموں کو معاف کیا
امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے اگلے صفحہ پر ایک اورروایت یہی یوم عاشوراء کی نقل کی ہے جس میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے
و ولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی یوم عاشوراء
یعنی نبی کریم کی ولادت بھی عاشوراء کے روز ہوئی ہے۔
امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ یہ روایات نقل کرنے کے بعد ان روایات کے بارے میں فرماتے ہیں
ھذا حدییث موضوع بلا شک قال احمد بن حنبل کان حبیب بن ابی حبیب یکذب۔ وقال ابن عدی کان یضع الحدیثوقال ابو حاتم ابو حبان ۔ ھذا حدیث باطل لا اصل لہ ۔ قال وکان حبیب من اھل مرو یضع الحدیث علی الثقاتہ لا یحل کتب حدیث الا علی سبیل القدح فیہ ھذا حدیث لا یشک فی وضعہ ولقد ابدع من وضعہ و کشف القناع ولم یستحی واتی فیہ المستحیل وھو قولہ و اول یوم خلق اللہ یوم عاشراء و ھذا تغفیل من اوضعہ لانہ انما یسمی یوم عاشوراء اذ سبقہ تسعتہ وقال فیہ خلق السموات ولارض و الجبال یوم عاشوراء
یہ حدیث من گھڑت ہے اس کے من گھڑت ہونے میں شبہ نہیں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
حبیب بن حبیب اس سند میں جھوٹا راوی ہے۔ اور اس راوی کے بارے میں ابن عدی فرماتے ہیں یہ شخص جھوٹی حدیث گھڑتا تھا
اور اس کے بارے میں ابو حاتم اور ابن حبان فرماتے ہیں یہ روایت یعنی عاشوراء کی باطل جھوٹی ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور فرماتے ہیں حبیب نام کا راوی ان لوگوں میں سے ہے جو حدیث گھڑتے تھے اور ان کو ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرتے تھے اور ان سے حدیث لینا جائز نہیں ہے
اس روایت کے من گھڑت ہونے میں کسی عقلمند کو شک نہیں ہوسکتا اور جس نے اس روایت کو گھڑا ہے اس نے ایک بدعت کی بنیاد رکھ دی ہے اور اس میں وہ ایک ناممکن قول لے آیا ہے کہ سب سے پہلے جو دن اللہ نے بنایا وہ عاشوراء کا دن ہے اور یہ وضع کرنے والے کی بہت بڑی غفلت ہے اس لئے کہ اس نے دن کا نام عاشوراء رکھ دیا جبکہ اس سے پہلے نو دن چھوٹ گئے اور گھڑنے والے نے کہا اللہ نے زمین اور آسمان کو عاشوراء کے دن پیدا فرمایا ہے (الموضوعات جلد 2 صفحہ نمبر 202)
قارئین کرام جس روایت کو ہمارے یہاں خوب دھڑلے سے بیان کیا جاتا ہے اس کے بارے میں ہمارے محدثین کیا فرما رہے ہیں کہ اس کے جھوٹے ہونے میں کسی عقلمند کو شک نہیں ہو سکتا زمین آسمان کب پیدا ہوئے اور مزید تبصرہ اس پر میں آگے کروں گا اس سے پہلے علم حدیث کے دو امام امام ذہبی اور امام ابن حجر کا بھی قول نقل کرتا ہوں چونکہ ان حضرات کو شاید ہی کوئی نہیں جانتا ہو علم حدیث کی بات ہو اور ان کا ذکر نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے ان حضرات کا قول اس لیے ذکر کر رہا ہوں جن حضرات کو اس کے موضوع ہونے میں اب بھی شک ہو وہ شک بھی دور ہو جائے ورنہ انصاف پسندوں کے لیے اتنا کافی تھا جتنا ہم اس روایت پر لکھ چکے ہیں ان حضرات کا قول ذکر کرنے کے بعد اس روایت پر مزید تبصرہ کروں گا حبیب ابن حبیب الخرططی جو کی عاشوراء کی روایت کا راوی ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں
حبیب بن ابی حبیب الخرططی کان یضع الحدیث قال ابن حبان وغیرہ
حبیب بن ابی حبیب الخرططی وہ حدیثوں کو گھڑتا تھا ابن حبان اور دیگر محدثین نے بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ حدیثوں کو گھڑتا تھا
امام ذہبی مزید فرماتے ہیں
و ذکر حدیثا طویلا موضوعا و فیہ ان اللہ خلق العرش یوم عاشوراء والکرسی یوم عاشوراء والقلم یوم عاشوراء و خلق الجنتہ یوم عاشوراء واسکن ادم الجنتہ یوم عاشوراء الی ان قال و ولدالنی
صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء واستوی اللہ علی العرش یوم عاشوراء و یوم القیامتہ یوم عاشوراء
اور اس نے حبیب بن ابی حبیب نے موضوع من گھڑت طویل روایت بیان کی ہے اور اس روایت میں یہ بیان کیا ہے اللہ نے عرش کرسی جنت قلم جنت کو عاشوراء کے دن پیدا کیا عاشوراء کے دن حضرت آدم کو جنت میں رہائش دی
آگے چل کر اس میں یہ الفاظ بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عاشوراء کے دن ہوئی اللہ نے استوی عرش پر عاشوراء کے دن کیا تھا قیامت بھی اسی دن ایگی
(میزان الاعتدال جلد 2 صفحہ نمبر 160 مترجم)
قارئین حضرات دیکھا آپ نے جو روایت ہمارے یہاں خوب دھڑلے سے بیان ہوتی ہے اس کو امام ذھبی نے بھی موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے اور اس کے راوی کو بھی حدیث گھڑنے والا قرار دیا ہے
اب امام ابن حجر کے بارے میں جانتے ہیں کہ اس روایت اور اس کے راوی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں
امام ابن حجر تہذیب التہذیب 1292 حبیب بن ابی حبیب کے بارے میں فرماتے ہیں
قال ابن حبان کان یضع الحدیث علی الثقات لا یحل کتب حدیثہ الا علی سبیل القدح فیہ وقال الحاکم روی احادیث موضوعتہ
ابن حبان فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں کی طرف حدیث گھڑتا تھا اس سے حدیث لینا جائز نہیں سوائے اس کے کہ اس پر تنقید کی جائے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس نے من گھڑت احادیث بیان کی ہیں۔
علامہ ابن حجر اپنی کتاب لسان المیزان میں فرماتے ہیں
وذکرحدیثا طویلا موضوعا و فیہ ان اللہ خلق العرش یوم عاشوراء
والکرسی یوم عاشوراء والقلم یوم عاشوراء الستوی اللہ علی العرش یوم عاشوراء و خلق الجنتہ یوم عاشوراءوالسکن ادم الجنتہ یوم عاشوراءالی ان قال و ولدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء و یوم القیامتہ یوم عاشوراء
اور حبیب بن ابی حبیب نے طویل موضوع من گھڑت روایت بیان کی ہے جس میں یہ کہا اس نے عرش و کرسی و قلم جنت عاشوراء کے دن اللہ نے پیدا کیے
اللہ نے استوی عرش پر عاشوراء کے دن کیا حضرت آدم کو جنت میں رہائش اسی دن دی آگے چل کر اس میں یہ الفاظ بھی ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش عاشوراء کے دن ہوئی اور قیامت بھی عاشوراء کے دن آئیں گی
(لسان المیزان جلد 2 صفحہ نمبر 546)
علامہ ابن حجر مزید فرماتے ہیں
وقال الحاکم روی عن ابی حمزتہ و ابراھیم الصائغ احادیث موضوعتہ وقال نحوہ النقاش وقال ابن عدی کان یضع الحدیث وقال احمد بن حنبل حبیب بن ابی حبیب کذاب کذا ذکرہ ابن الجوزی عنہ عقب الحدیث المذکور فی الموضوعات
اور امام حاکم نے فرمایا ابوحمزہ اور ابراہیم صائغ سے موضوع من گھڑت روایت کی گئی ہیں اور اسی طرح نقاش نے بھی کہا ہے اور ابن عدی نے فرمایا حبیب بن ابی حبیب حدیث گھڑتا تھا اور امام احمد بن حنبل نے فرمایا حبیب بن ابی حبیب بہت بڑا جھوٹا تھا اور اسی طرح ابن جوزی نے فرمایا ہے اور اس کی روایت کو الموضوعات میں ذکر کیا ہے
حافظ ابن حجر کی کتاب تقریب التہذیب جس میں آپ کی ذاتی آراء ہیں جو کہ تقریب التہذیب کی تخلیص ہے اس میں اپ حبیب بن ابی حبیب جس نے عاشوراء کے روایت بیان کی ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں
حبیب بن ابی حبیب نوے طبقے کا راوی ہے ابن حبان نے فرمایا ہے وہ راوی جھوٹا ہے
تقریب التہذیب جلد 1 صفحہ نمبر 160 ،
میں سمجھتا ہوں عاشوراء کی روایت کہ موضوع من گھڑت ہونے کے بارے میں اتنا کافی ہے جن محدثین نے اس روایت کو موضوع کہا ہے اور اس کے راوی پر جرح کی ہے اور اس کو جھوٹا کہا ہے وہ سب کے سب جلیل القدر محدثین ہیں بڑے بڑے ان کے آگے اپنا سر خم فرما لیتے ہیں
عاشوراء کی روایت میں کہا جاتا ہے زمین آسمان عاشوراء کے دن پیدا ہوئے لیکن یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے چونکہ مسلم شریف کی حدیث ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے مٹی زمین کو ہفتے کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور جو چیزیں پسند نہیں ان کو منگل کے دن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور چوپایوں کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور سب مخلوق کے آخر میں حضرت آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ کے دن کی آخری لمحہ میں سے کسی لمحہ میں پیدا کیا
(صحیح مسلم حدیث نمبر 7054)
جتنی چیزوں کا حدیث میں ذکر ہے
یہ سب عاشوراء کے دن پیدا کیا گیا بیان ہوتا ہے نیز عاشوراء والی روایت میں بھی یہ سب موجود ہے حالانکہ یہ صحیح حدیث کے خلاف ہے مزید سنے عاشوراء کی روایت میں یہ بھی ہے حضرت آدم کی علیہ السلام حضرت حوا رضی اللہ عنہا سے ملاقات عاشوراء کو ہوئی جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کی ملاقات ذی الحجہ میں ہوئی تھی حضرت آدم نے حضرت حوا کو پہچان لیا تھا اسی روز کا نام عرفہ رکھا گیا اور جہاں ملاقات ہوئی اس جگہ کا نام عرفات مشہور ہوا مزید سنئے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ عاشوراء میں آیا عاشوراء والی روایت میں ہے جبکی وہ فدیہ بھی ذی الحجہ میں آیا تھا اگر عاشوراء کو آیا تھا تو پھر عید الاضحٰی عاشوراء کے دن کیوں نہیں کرتے ہیں کنکریاں بھی عاشوراء کے دن مارے اور مزید سنیے اس روایت میں یہ بھی ذکر ہے نبی کریم کی ولادت عاشوراء کے دن ہوئی تو پھر جشن ولادت بارہ ربیع الاول کو کیوں مناتے ہیں چاہئے کہ عاشوراء کے روز جشن ولادت منائیں
اگر اس روایت پر مزید کلام کروں تو وجود میں ایک کتاب آجائے گی اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں
یہی وہ دلائل اور تحقیق تھی مجھ فقیر کی جس بنا پر میں نے اس روایت کو موضوع کہا تھا چونکی واٹس ایپ پر ملک اور بیرون ملک کے لوگ فقیر حنفی سے اپنے مسائل کا جواب لیتے ہیں تو اس روایت کا بھی میں نے جواب دیا نیز اس کے موضوع ہونے کی تشہیر بھی کی لیکن کچھ جاہلوں نے اس پر بہت فساد کیا یہاں تک کہ ان جاہلوں کے ساتھ میرے یہاں کی کچھ مسجدوں کے اماموں نے میرے خلاف میٹنگ بھی کی اب میں اس پر تو تبصرہ نہیں کرتا کس نے کیا کہا البتہ ایسے میں ہمارے علماء کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے وہ عرض کرتا ہوں بجائے مجھ پر تنقید کرنے کے میرے خلاف لوگوں کو غلط ذہن دینے کے اس روایت کی تحقیق کی ہوتی تو خود کے علم میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگوں کو صحیح بات بتا پاتیں اور بعض تو اتنا حد سے بڑے تھے انہوں نے بول دیا موضوع روایت پر علماء عمل کریں تو وہ صحیح ہو جاتی ہے معاذ اللہ
جبکہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے موضوع روایت بیان کرنا حرام ہے اسی دوران کچھ حفاظ کا طرز عمل سامنے آیا انہوں نے بھی خوب فساد کیا شور و گوگا کیا یہ بات حقیقت ہے حافظ اگر حفظ کے بعد علم نہ سیکھے تو جاھل ہی رہتا ہے انہوں نے جاہلوں والا طرز عمل ان کا سامنے آیا اور مجھ سے انہوں نے کہا کہ ہم فلاں علامہ اور فلاں مفتی کو بات کرنے کے لئے بلائیں گے میں نے کہا آپ کو جس کے علم پر ناز ہے ان کو بلا لے خرچ بھی میں اٹھانے کو تیار ہوں پر شرط یہ ہیں کہ اگر وہ یا میں ثابت نہیں کر پائے اس روایت کے بارے میں تو عوام کے سامنے میں یا وہ رجوع کریں گے اس پر بیچاروں نے پھر دوبارہ کوئی جواب نہیں دیا ہمارے یہاں یہ بہت بری بیماری پھیل چکی ہے کہ جو ہم بول رہے ہیں یا سنتے ہوئے آرہے ہیں وہی صحیح ہے اس کے مقابلے میں اگر کوئی اپنی تحقیق لائے وہ بھی اکابر کی بتائی ہوئی اس کو بھی رد کر دیتے ہیں یہ حال عام خاص سب کا ہے اسی دوران ایک مفتی صاحب سے کافی دیر بات ہوئی لاسٹ میں نتیجہ یہ نکلا انہوں نے کہا اگر اب ہم یہ سب بیان کریں یا عوام کے سامنے ظاہر کرے تو دیوبندی وہابی ہم پر ہنسیں گے کی پہلے آپ یہ سب بیان کرتے تھے اور اب یہ سب ان روایات کو موضوع من گھڑت قرار دیتے ہیں
الامان والحفیظ حق جان نے کے بعد حق کو چھپانا کہاں کا انصاف ہے اور کیا ہماری شریعت اس بات کی اجازت دیتی ہے
عاشوراء کے متعلق اور کربلا کا جو واقعہ ہوا اس میں بہت ساری روایات شیعوں نے گھڑی ہیں اور آج وہ ہمارے یہاں بھی خوب بیان ہوتی ہیں اس کی نشاندہی ہمارے اکابر نے کی ہے اور یم نے بھی واقعات کربلا کی تحقیق و تردید میں کردی ہے۔ فتاوی رضویہ میں اسی لیے کہا گیا کربلا کا واقعہ صحیح روایات سے بیان ہو تو جائز ہے ورنہ حرام ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے امام غزالی رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ فرمایا ہے۔
اللہ کریم حق بولنے سننے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
رابطہ نمبر:-9917420179