اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ ہیں استعمال کرنا کیسا ہے ؟
________(❤️)_________
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ الله تعالیٰ كے لئے لفظ( ہیں ) استعمال کرنا کیسا ہے؟
برائے کرم جواب عنایت فرمائے۔
سائل: مفید القادری ۔
________(❤️)_________
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالى عز وجل
اسلام کا اساسی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے۔ اس کی ذات، صفات اور افعال میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ وہ تمام تعریفوں کا سزاوار ہے اور اس کی ذات ارفع و اعلیٰ ہے۔ پوری کائنات میں اس کے اسماء و صفات میں کوئی اس کا ہم مثل ہے اور نہ شریک۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے:
وَلِلّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا.
اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں، سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو۔
الْأَعْرَاف:
منشائے الٰہی یہ ہے کہ اسے جس نام سے بھی پکارا جائے اس کے لیے صیغہ واحد استعمال کیا جائے۔ سورہ فاتحہ میں یہی انداز سکھایا گیا ہے:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.
اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
الْفَاتِحَة، 1: 4
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والتسلیم کے اقوال ذکر کیے ہیں جن میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے واحد کا ضیغہ استعمال کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے الفاظ ہیں:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ.
اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! اس شہر (مکہ) کو جائے امن بنا دے اور مجھے اور میرے بچوں کو اس (بات) سے بچا لے کہ ہم بتوں کی پرستش کریں۔
إِبْرَاهِيْم، 14: 35
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے رب سے خطاب ان الفاظ میں ہے:
وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًاO
اور رسولِ (اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا۔
الْفُرْقَان، 25: 30
یہ آیات اور ان کے علاوہ بےشمار آیات میں اللہ تعالیٰ کے لیے قرآنِ مجید میں واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
اردو زبان میں ہم کسی شخص کی عظمت کے اظہار کے لیے اسے مخاطب کرتے ہوئے جمع تعظیمی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں، جیسے: آپ فرماتے ہیں، مولانا آئے تھے وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ تمام عظمتوں اور بزرگیوں کا حقیقی حقدار ہے، کچھ لوگ اسی خیال سے اللہ تعالٰی کے لیے صیغہء جمع کا استعمال کرتے ہیں جو کہ اس کی وحدانیت کے منافی۔ انبیاء کرام، صحابہ، فقہاء اور اسلاف صالحین نے اللہ تعالیٰ کے لئے ہمیشہ صیغہ واحد ’تو‘ استعمال کیا ہے۔ جمع کے صیغہ اگرچہ تعظیم پائی جاتی ہے مگر اس سے شرک کی بو بھی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، آپ پیدا کرتے ہیں وغیرہ۔ ’تو‘ میں توحید کا اختصاص پایا جاتا ہے شرک کی مکمل نفی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے ’آپ‘ کی بجائے ’تو‘ کا لفظ ہی استعمال کرنا چاہیے۔۔
ولھذا اللہ رب مجدہ کے لئے تو اور ہے کا لفظ استعمال زیادہ احسن ہے پر شرعا کوئی قباحت نہیں ۔اگر ہے؟؟ تو باخبر کیا جائے ۔۔۔
والله ورسوله أعلم بالصواب .
كتبه عبده المذنب محمد مجيب القادري لهان ١٨خادم البرقي دار الإفتاء أشرف العلماء فاونديشن نيبال.