الحاد و بے دینی کے فکری محل کا انہدام
(مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے مکالمے کا علمی و ادبی جائزہ)
══════ ༺❀༻ ══════
ازقلم : ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
ازقلم : ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی
صدرافتا: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء پوجانگر میراروڈ ممبئی
──────⊹⊱✫⊰⊹─────
عصرِ حاضر میں الحاد محض ایک فکری مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک تہذیبی چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے ، جس میں عقل کے نام پر جذبات ، آزادی کے عنوان سے خواہشات اور سوال کے پردے میں انکار کو پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی علمی ، سنجیدہ اور مدلل مکالمہ سامنے آتا ہے تو وہ محض ایک گفتگو نہیں رہتا بلکہ فکری تاریخ کا حوالہ بن جاتا ہے ۔ مولانا مفتی شمائل ندوی اور معروف نغمہ نگار جاوید اختر کے مابین الحاد و بے دینی اور وحدانیتِ باری تعالیٰ پر ہونے والا مکالمہ اسی نوعیت کا ایک اہم واقعہ ہے ۔
یہ مناظرہ شروع ہی سے دو مختلف فکری جہتوں کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ ایک طرف مذہب سے بیزاری کو روشن خیالی سمجھنے والا وہ ذہن تھا جو زیادہ تر مذاہب پر تنقید ، تاریخی شکوک اور جذباتی گفتگو تک محدود رہا ; اور دوسری طرف مفتی شمائل ندوی صاحب تھے ، جو موضوع کی تعیین ، سوال کی تحدید اور دلیل کی ترتیب کے ساتھ مکالمہ کر رہے تھے ۔
الحاد و بے دینی کے سرغنہ جاوید اختر کا حال یہ تھا کہ سائنسی گفتگو کم , اور بے تکے سوال زیادہ , الحاد و بے دینی کا حال یہ تھا کہ گفتگو کا غالب حصہ خدا کے وجود کے اثبات یا نفی پر عقلی و سائنسی بحث کے بجائے مذاہب کے باہمی اختلافات ، مذہبی طبقوں کے رویّوں اور تاریخی واقعات کے گرد گھومتا رہا ۔ یہ طرزِ استدلال دراصل موضوع سے فرار کی ایک معروف صورت ہے ، جسے منطق کی زبان میں Emotional Argument یا Red Herring کہا جاتا ہے ۔ خدا کے وجود پر گفتگو کے بجائے مذہبی اداروں پر تنقید کرنا ، اصل سوال کا جواب نہ دینا , دراصل جاوید اختر کی یہ حرکتیں سوال سے بچنے کی ایک فکری تدبیر تھی باوجود اس کے اسے زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی اور پوری گفتگو میں مفتی شمائل ندوی حاوی رہے -یہ واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ جب خدا کے وجود پر براہِ راست سوال آیا تو جاوید اختر صاحب کے پاس کوئی منظم ، جامع اور عقلی نظریہ موجود نہ تھا ۔ نہ علت و معلول پر گفتگو ، نہ کائناتی نظم پر سنجیدہ بحث ، اور نہ ہی وجودِ باری تعالیٰ کی نفی کے لیے کوئی متبادل فلسفیانہ نظام -
استدلال و اعتماد اور علمی وقار : مفتی شمائل ندوی صاحب کی گفتگو ابتدا سے انتہا تک موضوع کے اندر رہی ۔ انہوں نے نہ صرف سوال کو اس کی اصل جگہ پر رکھا بلکہ بار بار یہ واضح کیا کہ
“ اگر خدا نہیں ہے تو پھر یہ کائناتی نظم کیوں ہے -؟ اگر سب کچھ اتفاق ہے تو اتفاق میں یہ ہم آہنگی کیسے پیدا ہوئی -؟”
مفتی صاحب کا امتیاز یہ تھا کہ وہ جذباتی جملوں کے بجائے عقلی مقدمات قائم کر رہے تھے ، اور ہر مقدمہ اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ رہا تھا ۔ ان کا اعتماد ، گفتگو پر گرفت ، اور سوال و جواب میں تسلسل اس بات پر دلیل تھی کہ وہ مناظرانہ تیاری کے ساتھ آئے تھے ، نہ کہ وقتی جوش کے ساتھ ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دورانِ گفتگو جاوید اختر صاحب کا انداز کہیں کہیں مدافعانہ اور غیر مطمئن محسوس ہوا ، حتیٰ کہ بعض مواقع پر وہ دلیل کے بجائے نصیحت یا طنز کا سہارا لیتے نظر آئے جو علمی مکالمے کی علامت نہیں بلکہ فکری کمزوری کی نشانی ہے ۔
الحاد کا انجام: یہ مکالمہ اس حقیقت کو مزید روشن کرتا ہے کہ الحاد کی عمارت زیادہ تر انکار کے سہارے کھڑی ہے ، اثبات کے ستون اس میں ناپید ہیں ۔ جب انکار سے آگے بڑھ کر متبادل نظامِ فکر پیش کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو الحاد کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں رہتا ۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہے کہ اس مکالمے میں سوالات کی باگ ڈور مفتی شمائل ندوی کے ہاتھ میں رہی , گفتگو کا رخ وحدانیت کی طرف رہا اور الحادی موقف جذباتی دائرے سے باہر نہ آ سکا
اگر بالفرض اس مکالمے میں کوئی اور مضبوط الحادی فلسفے کا نمائندہ ہوتا تب بھی خدا کے وجود کے سوال پر اسے انہی بنیادی عقلی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ، جن کا سامنا جاوید اختر صاحب نہ کر سکے ۔ یہ مناظرہ محض دو افراد کی گفتگو نہیں بلکہ دو فکری تہذیبوں کا سامنا تھا ایک وہ جو انکار پر فخر کرتی ہے ، اور دوسری وہ جو عقل ، فطرت اور وحی تینوں کو ہم آہنگ کر کے بات کرتی ہے ۔ مفتی شمائل ندوی صاحب نے نہ صرف الحاد کے فکری خلا کو نمایاں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ " اسلام دلیل سے ڈرتا نہیں ، بلکہ دلیل کے بغیر انکار سے سوال کرتا ہے ۔ " بلاشبہ یہ مکالمہ الحادی کیمپ میں فکری ارتعاش پیدا کرے گا ، اور حق کی حقانیت کو مزید روشن کرے گا - ان شاء اللہ عزوجل
نوٹ : ہمارے اس مضمون کوئی صاحب مسلک و مشرب کے تناظر میں بالکل نہ دیکھیں بلکہ مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان جو الحاد و بے دینی اور وحدانیت پر مناظرہ ہوا اور مفتی شمائل ندوی جس مطالعے اور تیاری کے ساتھ آئے تھے اور جس طرزِ استدلال سے الحاد و بے دینی کا قلع قمع کیا وہ یقینا قابلِ فخر و ستائش ہے -
ترسیل: ثنائی دارالبنات ایجوکیشنل ٹرسٹ
کڑوس , بھیونڈی , مہاراشٹرا
9224455977
عصرِ حاضر میں الحاد محض ایک فکری مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک تہذیبی چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے ، جس میں عقل کے نام پر جذبات ، آزادی کے عنوان سے خواہشات اور سوال کے پردے میں انکار کو پیش کیا جاتا ہے ۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی علمی ، سنجیدہ اور مدلل مکالمہ سامنے آتا ہے تو وہ محض ایک گفتگو نہیں رہتا بلکہ فکری تاریخ کا حوالہ بن جاتا ہے ۔ مولانا مفتی شمائل ندوی اور معروف نغمہ نگار جاوید اختر کے مابین الحاد و بے دینی اور وحدانیتِ باری تعالیٰ پر ہونے والا مکالمہ اسی نوعیت کا ایک اہم واقعہ ہے ۔
یہ مناظرہ شروع ہی سے دو مختلف فکری جہتوں کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ ایک طرف مذہب سے بیزاری کو روشن خیالی سمجھنے والا وہ ذہن تھا جو زیادہ تر مذاہب پر تنقید ، تاریخی شکوک اور جذباتی گفتگو تک محدود رہا ; اور دوسری طرف مفتی شمائل ندوی صاحب تھے ، جو موضوع کی تعیین ، سوال کی تحدید اور دلیل کی ترتیب کے ساتھ مکالمہ کر رہے تھے ۔
الحاد و بے دینی کے سرغنہ جاوید اختر کا حال یہ تھا کہ سائنسی گفتگو کم , اور بے تکے سوال زیادہ , الحاد و بے دینی کا حال یہ تھا کہ گفتگو کا غالب حصہ خدا کے وجود کے اثبات یا نفی پر عقلی و سائنسی بحث کے بجائے مذاہب کے باہمی اختلافات ، مذہبی طبقوں کے رویّوں اور تاریخی واقعات کے گرد گھومتا رہا ۔ یہ طرزِ استدلال دراصل موضوع سے فرار کی ایک معروف صورت ہے ، جسے منطق کی زبان میں Emotional Argument یا Red Herring کہا جاتا ہے ۔ خدا کے وجود پر گفتگو کے بجائے مذہبی اداروں پر تنقید کرنا ، اصل سوال کا جواب نہ دینا , دراصل جاوید اختر کی یہ حرکتیں سوال سے بچنے کی ایک فکری تدبیر تھی باوجود اس کے اسے زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی اور پوری گفتگو میں مفتی شمائل ندوی حاوی رہے -یہ واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ جب خدا کے وجود پر براہِ راست سوال آیا تو جاوید اختر صاحب کے پاس کوئی منظم ، جامع اور عقلی نظریہ موجود نہ تھا ۔ نہ علت و معلول پر گفتگو ، نہ کائناتی نظم پر سنجیدہ بحث ، اور نہ ہی وجودِ باری تعالیٰ کی نفی کے لیے کوئی متبادل فلسفیانہ نظام -
استدلال و اعتماد اور علمی وقار : مفتی شمائل ندوی صاحب کی گفتگو ابتدا سے انتہا تک موضوع کے اندر رہی ۔ انہوں نے نہ صرف سوال کو اس کی اصل جگہ پر رکھا بلکہ بار بار یہ واضح کیا کہ
“ اگر خدا نہیں ہے تو پھر یہ کائناتی نظم کیوں ہے -؟ اگر سب کچھ اتفاق ہے تو اتفاق میں یہ ہم آہنگی کیسے پیدا ہوئی -؟”
مفتی صاحب کا امتیاز یہ تھا کہ وہ جذباتی جملوں کے بجائے عقلی مقدمات قائم کر رہے تھے ، اور ہر مقدمہ اپنے منطقی نتیجے تک پہنچ رہا تھا ۔ ان کا اعتماد ، گفتگو پر گرفت ، اور سوال و جواب میں تسلسل اس بات پر دلیل تھی کہ وہ مناظرانہ تیاری کے ساتھ آئے تھے ، نہ کہ وقتی جوش کے ساتھ ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دورانِ گفتگو جاوید اختر صاحب کا انداز کہیں کہیں مدافعانہ اور غیر مطمئن محسوس ہوا ، حتیٰ کہ بعض مواقع پر وہ دلیل کے بجائے نصیحت یا طنز کا سہارا لیتے نظر آئے جو علمی مکالمے کی علامت نہیں بلکہ فکری کمزوری کی نشانی ہے ۔
الحاد کا انجام: یہ مکالمہ اس حقیقت کو مزید روشن کرتا ہے کہ الحاد کی عمارت زیادہ تر انکار کے سہارے کھڑی ہے ، اثبات کے ستون اس میں ناپید ہیں ۔ جب انکار سے آگے بڑھ کر متبادل نظامِ فکر پیش کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو الحاد کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں رہتا ۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہے کہ اس مکالمے میں سوالات کی باگ ڈور مفتی شمائل ندوی کے ہاتھ میں رہی , گفتگو کا رخ وحدانیت کی طرف رہا اور الحادی موقف جذباتی دائرے سے باہر نہ آ سکا
اگر بالفرض اس مکالمے میں کوئی اور مضبوط الحادی فلسفے کا نمائندہ ہوتا تب بھی خدا کے وجود کے سوال پر اسے انہی بنیادی عقلی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ، جن کا سامنا جاوید اختر صاحب نہ کر سکے ۔ یہ مناظرہ محض دو افراد کی گفتگو نہیں بلکہ دو فکری تہذیبوں کا سامنا تھا ایک وہ جو انکار پر فخر کرتی ہے ، اور دوسری وہ جو عقل ، فطرت اور وحی تینوں کو ہم آہنگ کر کے بات کرتی ہے ۔ مفتی شمائل ندوی صاحب نے نہ صرف الحاد کے فکری خلا کو نمایاں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ " اسلام دلیل سے ڈرتا نہیں ، بلکہ دلیل کے بغیر انکار سے سوال کرتا ہے ۔ " بلاشبہ یہ مکالمہ الحادی کیمپ میں فکری ارتعاش پیدا کرے گا ، اور حق کی حقانیت کو مزید روشن کرے گا - ان شاء اللہ عزوجل
نوٹ : ہمارے اس مضمون کوئی صاحب مسلک و مشرب کے تناظر میں بالکل نہ دیکھیں بلکہ مفتی شمائل ندوی اور جاوید اختر کے درمیان جو الحاد و بے دینی اور وحدانیت پر مناظرہ ہوا اور مفتی شمائل ندوی جس مطالعے اور تیاری کے ساتھ آئے تھے اور جس طرزِ استدلال سے الحاد و بے دینی کا قلع قمع کیا وہ یقینا قابلِ فخر و ستائش ہے -
ترسیل: ثنائی دارالبنات ایجوکیشنل ٹرسٹ
کڑوس , بھیونڈی , مہاراشٹرا
9224455977

