Type Here to Get Search Results !

کثرتِ ازدواج کی حکمت (قرآن ، حدیث ، علما و دانشوران اور طبی حقائق کی روشنی میں)

 کثرتِ ازدواج کی حکمت
(قرآن ، حدیث ، علما و دانشوران اور طبی حقائق کی روشنی میں)
 مرتب: ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی 
صدرافتاء: محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
::::::::::::::::::::
اسلام ایک ایسا کامل و متوازن نظامِ حیات پیش کرتا ہے جو انسانی فطرت کے ہر پہلو کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی صحیح سمت میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔ ازدواج (نکاح) انسان کی فطری، معاشرتی اور روحانی ضرورت ہے ، اور کثرتِ ازدواج یعنی ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دراصل اسی فطری تقاضے کے عین مطابق ایک حکیمانہ اور عادلانہ نظام ہے۔
 قرآنی نقطۂ نظر
 ارشادِ باری تعالٰی ہے: 
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ، فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً (النساء: 3)
یعنی "پس نکاح کرو ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں، دو دو، تین تین اور چار چار، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ عدل نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ کثرتِ ازدواج کوئی جبری حکم نہیں بلکہ ایک مباح و مشروط اجازت ہے ، جس کی بنیاد عدل اور سماجی ضرورت پر رکھی گئی ہے ۔ قرآن نے اسے عیش پرستی نہیں بلکہ فلاحِ انسانی کے اصول کے طور پر بیان کیا ہے۔
 احادیثِ نبوی کی روشنی میں
رسولِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي(بخاری و مسلم)
"نکاح میری سنت ہے ، اور جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں۔"
حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے خود متعدد نکاح فرمائے ، مگر ہر ایک میں مصلحت ، اصلاحِ معاشرہ اور تالیفِ قلوب کے پہلو نمایاں ہیں ، نہ کہ نفسانی خواہشات ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے بیواؤں ، مطلقات اور مختلف قبائل کی عورتوں سے نکاح کرکے امت کے لیے اخوت و عدل کا عملی نمونہ قائم کیا۔
 علما و دانشوروں کی آرا
امام غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ:
کثرتِ ازدواج کا مقصد صرف لذت نہیں بلکہ عفت ، نسب کی حفاظت ، اور امت میں عدل و تعاون کے دائرے کو وسیع کرنا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کے نزدیک یہ اجازت انسانی معاشرت کی عملی ضرورتوں کا جواب ہے، نہ کہ مردانہ غلبے کا مظہر۔
کسی دور میں جنگوں یا امراض کی وجہ سے عورتوں کی تعداد مردوں سے بڑھ جاتی ہے ، ایسے حالات میں ایک سے زیادہ نکاح عورتوں کی عزت و عصمت کی حفاظت اور سماجی توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
 طبی و فطری حکمت
جدید طبی ماہرین کے مطابق مرد اور عورت کی جنسی و تولیدی فطرت میں فرق ہے ؛ مرد میں قوتِ نسل طویل عرصے تک باقی رہتی ہے، جب کہ عورت ایک مخصوص عمر کے بعد تولید کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ اس فطری تفاوت کے پیشِ نظر اسلام نے مرد کو کثرتِ ازدواج کی اجازت دے کر ناموس و عفت کے تحفظ اور غیر شرعی تعلقات کے انسداد کا راستہ کھولا ہے۔ مزید برآں ، بعض عورتوں کی مرض یا بانجھ پن کی صورت میں ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت نسلِ انسانی کے تسلسل کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
حاصلِ کلام کثرتِ ازدواج اسلام میں عقل و عدل اور رحمت و مصلحت پر مبنی ایک جامع قانون ہے ، جس کا مقصد معاشرے میں پاکیزگی ، توازن اور عفت کا قیام ہے۔ اگر اس کے شرائطِ عدل کی پاسداری کی جائے تو یہ نہ صرف فرد بلکہ خاندان اور سماج ، تینوں کے لیے خیر و برکت کا باعث بنتی ہے۔ واضح ہو کہ اسلام نے اجازت دی ہے ، بے راہ روی نہیں۔ عدل کا حکم دیا ہے ، ظلم کا نہیں۔
 *ترسیل* : ثنائی دارالبنات 
کڑوس بھیونڈی مہاراشٹرا 
9224455977

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
  1. Anonymous11/11/25

    ماشاءاللہ تبارک علیک اذا نورا ھذا التحریر ففرحا مسرورا جدا انا ادعو من اللہ عزوجل اللھم وفق لنا بھذہ العمل ، علی کل الخیر ۔، احقر العباد نصیرالدین مرکزی

    ReplyDelete

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area