Type Here to Get Search Results !

کیا نکاح کے بعد شوہر کا نفس منہ میں ڈالنا جائز ہے؟

(سوال نمبر 5150)
کیا نکاح کے بعد شوہر کا نفس منہ میں ڈالنا جائز ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان مفتیان متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا نکاح کے بعد شوہر کا نفس منہ میں ڈالنا جائز ہے؟ شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائلہ:- عروج شہر اوکاڑہ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الامین
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب باسمہ تعالی عزوجل
شرمگاہ کا دیکھنا بینائی ضعیف کرتاہے (المرأة)
شوہر یا بیوی کی شرمگاہ کو منھ میں لینا یا چاٹنا غیر شریفانہ اورغیرمہذب عمل ہے،
اور مکرہ ہے 
 میاں بیوی کاایک دوسرے کی شرمگاہ کودیکھنا بھی غیرمناسب ہے اورنسیان کی بیماری کاسبب بنتاہے لہذااس سے حترازکرنا چاہئے۔ چھونے میں حرج نہیں ہے 
البتہ شرمگاہ کاظاہری حصہ پاک ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہرپاک چیز کو منہ لگایاجائے اورمنہ میں لیاجائے اورچاٹا
جائے۔ناک کی رطوبت پاک ہے توکیاناک کے اندرونی حصے کوزبان لگانا،اس کی رطوبت کومنہ میں لینا پسندیدہ چیزہوسکتی ہے؟ توکیااس کوچومنے کی اجازت ہوگی؟نہیں ہرگزنہیں،اسی طرح عورت کی شرمگاہ کوچومنے اورزبان لگانے کی اجازت نہیں ہے.
غورکیجئے!جس منہ سے پاک کلمہ پڑھاجاتاہے،قرآن مجیدکی تلاوت کی جاتی ہے،درودشریف پڑھاجاتاہے اس کوایسے خسیس کام میں استعمال کرنے کودل کیسے گواراکرسکتاہے؟
حدیث شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
مانظرت اَو مارأیت فرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قط۔
(سنن ابن ماجہ:138،ابواب النکاح،ط:قدیمی)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سترکی طرف کبھی نظرنہیں اٹھائی،یایہ فرمایاکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسترکبھی نہیں دیکھا۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذا اتي احدكم اھله فليستتر ولا يتجرد تجرد العيرين
(سنن ابن ماجہ:ابواب النکاح،ص:138،ط:قدیمی کراچی)
جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس جائے توپردے کرے،اورگدھوں کی طرح ننگانہ ہو۔(یعنی بالکل برہنہ نہ ہو)
حدیث پاک میں ہے 
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کا ستر کبھی نہ دیکھا ۱؎(ابن ماجہ)
صاحب مرآت رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں 
 بعض روایات میں ہے کہ نہ میں نے حضور کی کبھی شرمگاہ دیکھی نہ حضور نے میرا ستر کبھی دیکھا یہ ہے اس سید المحبوبین کی شرم و حیاء۔خیال رہے کہ زوجین ایک دوسرے کے شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں یہ دیکھنا زیادتی شہوت کا باعث ہے اس میں شرعًا کچھ حرج نہیں مگر اس سے نگاہ کمزور ہوتی ہے نیز یہ عمل اعلیٰ قسم کی شرم کے خلاف ہے اس لیے حضور کا اس پر عمل رہا ۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ بوقت صحبت دونوں کے بالکل ننگے ہونے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر صحبت کرنے سے اولاد بے شرم پیدا ہوتی ہے اور صحبت کی حالت میں باتیں کرنے سے اندیشہ ہے کہ اولاد گونگی ہو حضور کے اعمال شریف میں لاکھوں حکمتیں ہیں۔
(المرأة ج ه ص٤٤ المكتبة المدينة)
حاصل کلام یہ ہے کہ 
شوہر کا بیوی کی شرمگاہ کو چومنا، زبان لگانا، یا اپنی شرمگاہ کو بیوی کے منہ میں داخل کرنا مکروہ اور بے حیائی کا عمل ہے، شریعت میں جماع کرتے وقت کچھ آداب ہیں، مثلاً: بقدر ضرورت ستر کھولا جائے، جماع کے وقت شرمگاہ پر نظر نہ ڈالی جائے، اور بالکل جانور کی طرح ننگا ہوکر جماع نہ کیا جائے۔
مذکورہ قبیح افعال میں ان آداب کی رعایت کرنا ناممکن ہے، اور پھر زبان جس سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس سے شرمگاہ کا بوسہ لینا وغیرہ کسی بھی طرح مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے، نیز یہ جانوروں کا طریقہ ہے، اس لیے بہرصورت ایک مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے، البتہ اگر کوئی شخص غلبہ شہوت میں ایسی حرکت کرلے، اور شرمگاہ پر نجاست لگی ہوئی نہ ہو، تو اس صورت میں اس فعل کو حرام نہیں کہا جائے گا، البتہ مکروہ و ناجائز ہے۔
الفتاوی الھندیۃ میں ہے
إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة۔
(الفتاوی الھندیۃ: (372/5)
المحیط البرھانی میں ہے 
إذا ادخل الرجل ذکرہ فی فم امرأتہ یکرہ لأنہ موضع قراءۃ القرآن فلا یلیق بہ إدخال الذکر بہ وقد قیل بخلافہ ایضاً۔
(المحیط البرھانی: (134/8)
الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیة میں ہے 
لمس فرج الزوجة : اتفق الفقهاء على أنه يجوز للزوج مس فرج زوجته . قال ابن عابدين : سأل أبو يوسف أبا حنيفة عن الرجل يمس فرج امرأته وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا ؟ قال : لا ، وأرجو أن يعظم الأجروقال الحطاب : قد روي عن مالك أنه قال : لا بأس أن ينظر إلى الفرج في حال الجماع ، وزاد في رواية : ويلحسه بلسانه ، وهو مبالغة في الإباحة ، وليس كذلك على ظاهره و قال الفناني من الشافعية : يجوز للزوج كل تمتع منها بما سوى حلقة دبرها ، ولو بمص
بظرها وصرح الحنابلة بجواز تقبيل الفرج قبل الجماع ، وكراهته بعده"(الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیة: (فرج، 32/9)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
18/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area