Type Here to Get Search Results !

لباس کا انتخاب ایک اچھی شخصیت کی پہچان

لباس کا انتخاب ایک اچھی شخصیت کی پہچان
----------------------
 ازقلم: ڈاکٹر مفتی محمد علاؤالدین قادری رضوی ثنائی 
 صدرافتاء : محکمہ شرعیہ سنی دارالافتاء والقضاء میراروڈ ممبئی
:::::::::
لباس محض جسم کو ڈھانپنے کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ انسانی شخصیت ، ذوق، تہذیب اور باطنی نفاست کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ انسان کے ظاہر سے باطن تک کے سفر میں لباس کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے ۔ یہ نہ صرف جسم کی حفاظت کرتا ہے بلکہ انسان کے وقار ، مرتبے اور اس کے فکری پس منظر کا اظہار بھی بن جاتا ہے۔
قدیم زمانے سے ہی انسان نے اپنی شناخت لباس سے قائم کی ہے۔ لباس تمدن کی علامت ہے ، تہذیب کا نشان ہے اور شائستگی کا عنوان ہے۔ اسی لباس سے ایک عالم دین علم و تقویٰ کی خوشبو بکھیرتا نظر آتا ہے، ایک طالب علم متانت و ادب کا پیکر دکھائی دیتا ہے ، ایک جج انصاف کے وقار میں لپٹا ہوا محسوس ہوتا ہے ، اور ایک مزدور اپنی محنت کی خوشبو میں رنگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
لباس زبانِ حال سے بولتا ہے کہ انسان کون ہے، کہاں سے آیا ہے اور کس خیال و فکر کا نمائندہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں لباس کو "خاموش زبان" کہا جاتا ہے ۔ ایک ایسی زبان جو خاموش سب کچھ کہہ جاتی ہے ۔
اسلام نے لباس کو محض ظاہری آرائش نہیں بلکہ اخلاق و حیا کی علامت قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری ہے ۔
یَا بَنِی آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ
(الاعراف: 26)
ترجمہ : اے آدم کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس اتارا جو تمہاری شرمگاہوں کو ڈھانپے اور زینت بنے، مگر تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ لباس دو پہلو رکھتا ہے ۔ ظاہری اور باطنی ۔ ظاہری لباس جسم کو ڈھانپتا ہے جبکہ باطنی یعنی تقویٰ کا لباس روح کو سنوارتا ہے۔ ایک مؤمن جب وقار اور حیاء کے لباس میں ہوتا ہے تو اس کی ظاہری صورت باطنی ایمان کی گواہی دیتی ہے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان کا لباس اس کے ذہنی رجحانات ، اعتماد اور خودی پر گہرا اثر ڈالتا ہے ۔ سادہ لباس عموماً عاجزی ، وقار اور سچائی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ شاندار اور منظم لباس کسی شخص کے نظم و ضبط اور خوداعتمادی کا مظہر ہوتا ہے ۔
جبکہ بے ترتیبی یا بے پرواہی لباس میں اس کے مزاج کی بے ربطگی کی جھلک دکھاتی ہے۔
لباس کے رنگ ، انداز ، اور صفائی انسان کے نفسیاتی تاثر کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ۔ اسی لیے تعلیمی اداروں، عدالتوں اور دینی مجالس میں مخصوص لباس کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کردار اور وقار میں ہم آہنگی پیدا ہو ۔
لباس محض فرد کی نہیں بلکہ معاشرے کی بھی نمائندگی کرتا ہے ۔ ایک مہذب معاشرہ اپنے لباس سے پہچانا جاتا ہے۔ جب کسی قوم کے لباس میں سلیقہ ، سادگی اور وقار باقی رہتا ہے تو اس کی تہذیب بھی مضبوط رہتی ہے ۔
برعکس اس کے ، جب لباس میں فحاشی، نمائش اور تقلیدِ غیر در آتی ہے تو وہ قوم اپنے تہذیبی محور سے ہٹ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے لباس میں میانہ روی اور حیا کو لازم قرار دیا ہے ۔
عالمِ دین اور لباس کا تقدس
عالمِ دین کا لباس خود ایک درس ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص عمامہ و جبہ میں ملبوس ہوتا ہے تو وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ دین کی علامت بن جاتا ہے۔ عالمانہ لباس میں علم کی ہیبت ، عمل کی خوشبو اور ایمان کی روشنی جھلکتی ہے۔ اس لیے علماء و طلبہ کے لیے لباس میں شائستگی اور سنجیدگی کا لحاظ رکھنا نہ صرف ذاتی وقار بلکہ دینی احترام کا تقاضا بھی ہے ۔ علماۓ ملتِ اسلامیہ کے لئے لباس دراصل “ خاموش تبلیغ ” ہے۔ عالمِ دین جب سنت کے مطابق لباس پہنتا ہے تو اس کی خاموشی بھی پیغام بن جاتی ہے ۔ لوگ اس کے چال ڈھال ، انداز اور لباس سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ شخص علمِ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وارث ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا: العلماءُ ورثةُ الأنبياءِ” یعنی علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ اور جب وہ وارثِ نبوت ہیں تو اس کا لباس بھی وراثتِ نبوت کی جھلک رکھے۔
اسی طرح لباس انسان کے باطن کی عکاسی کرتا ہے ، یہی اس کی پہچان ، وقار اور تہذیبی شناخت ہے۔ لباس سے کردار کی خوشبو آتی ہے اور کردار سے قوم بنتی ہے ۔
لہٰذا ہمیں اپنے لباس کو حیاء، وقار، سادگی اور تہذیب کا مظہر بنانا چاہیے تاکہ ہماری ظاہری شناخت ہمارے باطنی وقار کی ترجمان ہو۔ لباس انسان کی پہچان ہے ، لباس وقار کا نشان ہے ، لباس باطن کا آئینہ ہے اور تقویٰ کا لباس ایمان کی جان ہے ۔
 *حسنِ لباس* 
 حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں لباس کا حسن ملاحظہ ہو ۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا لباس اور آپ کا فرمانِ عالیشان ہم سب کے لئے لائقِ تقلید اور باعثِ فخر ہے ۔ 
رسولِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا لباس ہمیشہ سادگی ، نظافت اور وقار سے مزین ہوتا تھا ۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
 إِنَّ اللّٰهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ
اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔
یہ ارشاد ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام میں لباس میں صفائی، سلیقہ اور خوبصورتی عیب نہیں، بلکہ محبوبِ خدا ہے بشرطِ یہ کہ اس میں تکبر، نمائش یا اسراف نہ ہو۔
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خود نہایت پاکیزہ اور خوشبودار لباس پہنتے، مگر سادگی ایسی کہ امارت کی چھاپ نہ لگتی۔ آپ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
كُلُوا وَاشْرَبُوا وَتَصَدَّقُوا وَالْبَسُوا، فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ
کھاؤ ، پیو، صدقہ کرو اور لباس پہنو، مگر اسراف اور تکبر سے بچو۔
یہ فرمانِ عالیشان لباس کے تعلق سے اسلامی اعتدال کی معراج ہے ، نہ فقر کی نمائش، نہ فیشن کی دوڑ؛ بلکہ پاکیزگی، شائستگی اور وقار۔ لباس میں نرمی، سادگی اور تہذیب کی جھلک ہو تو آپ دیگر شخص سے ممتاز نظر آتے ہیں اس سلسلے میں فرمان نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ 
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لباس میں تکلف نہیں ہوتا تھا۔ آپ اکثر سفید کپڑے پسند فرماتے اور ارشاد فرمایا:
البَسُوا مِن ثِيَابِكُمُ البَيَاضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ
سفید کپڑے پہنو ، یہ تمہارے لباسوں میں سب سے بہتر ہیں۔
سفید رنگ سادگی، پاکیزگی اور روحانی صفائی کی علامت ہے ۔ یہ رنگ دل کو سکون دیتا ہے، آنکھ کو راحت بخشتا ہے اور روح کو فروغِ تقویٰ کی طرف مائل کرتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ لباس میں ہمیشہ پاکیزگی اور ترتیب کا اہتمام فرماتے ۔ آپ کے کپڑے اگرچہ سادہ ہوتے مگر صاف ستھرے اور خوشبودار ہوتے۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَن كان له ثوبان فليغسِلْ أحَدَهما
جس کے پاس دو کپڑے ہوں، وہ ایک کو ضرور دھوئے۔
یہ تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ لباس کی صفائی محض ظاہری نہیں بلکہ روحانی طہارت کا پہلا زینہ ہے۔
جسم پر قیمتی لباس بہت اچھی چیز ہے لیکن اس سے کبر کا بھی امکان رہتا ہے جس سے اجتناب بہت ضروری ہے ورنہ یہی لباس عذاب کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔ اس تعلق سے آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جو نظریات ہمیں دی ہیں اس پر عمل کی سخت ضرورت ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تکبر اور فخر والے لباس سخت ناپسند تھے۔ آپ نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّن كِبْرٍ
جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا ۔
لباس اگر وقار دے تو عبادت بن جاتا ہے، اور اگر تکبر پیدا کرے تو گناہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “ اللہ تعالیٰ اُن کی طرف نہیں دیکھے گا جو تکبر کے ساتھ کپڑا گھسیٹتے ہیں۔”
یہ تعلیم انسان کو ظاہری زیبائش کے ساتھ باطنی فروتنی عطا کرتی ہے کیونکہ اصل حسن لباس کا نہیں، اخلاق اور نیت کا ہے۔
آخر آخر میں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ذوقِ لباس اور باطنی جمال کا بھی کچھ تذکرہ ارشادِ نبوی کی روشنی میں کیئے دیتے ہیں ۔
نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے لباس کو روحانی وقار کے ساتھ جوڑا۔ آپ جب لباس زیبِ تن فرماتے تو " بِسْمِ اللہ "پڑھتے ، اور جب اتارتے تو "الْحَمْدُ للہ " کہتے۔
یہ عمل بتاتا ہے کہ لباس بھی عبادت کا ایک پہلو رکھتا ہے ، کیونکہ اس کے ذریعے بندہ خدا کی نعمت کا شکر ادا کرتا ہے ۔
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ يُرَى أَثَرُ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ
اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھا جائے۔
یعنی بندہ اگر لباس اچھا پہنتا ہے ، خوشبودار رہتا ہے اور وقار سے زندگی گزارتا ہے تو یہ شکرِ نعمت ہے، نہ کہ فخر و غرور۔
لباس انسان کے ظاہر کا زیور ہے، مگر اس کی روح حیاء اور تقویٰ ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ لباس میں نہ افراط ہو نہ تفریط، بلکہ وقار، نظافت، سادگی اور شکر کا امتزاج ہو۔ اگر انسان کا لباس پاکیزہ، نیت خالص، اور دل متواضع ہو تو وہ لباس نہیں، ایک دعوتِ ایمان اور درسِ اخلاق بن جاتا ہے۔ لباس جب سادہ ہو تو سکون دیتا ہے ، جب پاکیزہ ہو تو وقار بڑھاتا ہے ، جب نیت صاف ہو تو عبادت بن جاتا ہے۔ یہی ہے وہ حسن جسے مصطفیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے پسند فرمایا۔
 *ترسیل:* ثنائی دارالبنات کڑوس بھیونڈی مہاراشٹرا 
9224455977

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area