حضور غوث اعظم اور گیارہویں شریف
--------------
انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچی
استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی
اسلامی تاریخ میں جب ہم اہلِ دل اور اولیاے کرام کی حیات و خدمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ برگزیدہ ہستیاں امت کے لیے روشنی کے مینار اور کردار کے آئینے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی تعلیمات محض چند مخصوص زمانوں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ہر دور کے مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔ اولیاے کاملین کے احوال بیان کرنا، ان کی سیرت کو عام کرنا اور ان کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہونا دراصل ایمان کو تازگی اور عمل کو پختگی دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ انہی ہستیوں میں ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت ہیں جنہیں ’’غوث الاعظم‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی علمی رفعت، روحانی عظمت اور خدمتِ دین نے صدیوں سے دلوں کو اپنی جانب مائل کر رکھا ہے۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ دینِ اسلام میں اللہ کے مقرب بندوں سے محبت اور ان کی یاد قائم رکھنا امت کے روحانی سرمائے کا حصہ ہے۔ صوفیا نے اپنے طرزِ عمل اور کردار سے لوگوں کو قربِ الٰہی کی راہیں دکھائیں۔ ان کی یاد منانے اور ان کے احوال بیان کرنے کی روایت اسی تسلسل کی ایک شکل ہے۔ ’’گیارہویں شریف‘‘ اسی روحانی اور فکری سلسلے کی یادگار ہے جو نہ صرف محبتِ اولیا کا مظہر ہے بلکہ تبلیغ و اصلاح کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ 470ھ میں ایران کے شہر جیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی طور پر صالح اور ولی صفت تھے۔ آپ کے والدین اور نانا بھی اہلِ تقویٰ اور ولایت کے حامل تھے۔ ابتدائی تعلیم جیلان میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ دینی علوم کی تکمیل کے لیے بغداد تشریف لے گئے۔ وہاں کی علمی فضاؤں نے آپ کے علم و بصیرت کو مزید نکھارا اور آپ ایسے جلیل القدر عالم اور روحانی پیشوا کے طور پر اُبھرے کہ بڑے بڑے علما اور مشائخ بھی آپ کے علم و عرفان کے معترف نظر آئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہ صرف علم و تقویٰ کی دولت سے نوازا بلکہ خلقِ خدا کے دلوں میں آپ کی محبت اور عقیدت بھی ڈال دی۔ آپ کی علمی مجالس میں ہزاروں لوگ حاضر ہوتے، یہاں تک کہ محفل کے باہر بھی لوگ بیٹھ کر آپ کی نصیحتیں سنتے۔ یہود و نصاریٰ اسلام قبول کرتے اور بدعمل لوگ توبہ کے ذریعے نیکوکار بن جاتے۔ آپ کی شخصیت لوگوں کے لیے رحمت اور ہدایت کا ذریعہ تھی۔
کرامات و روحانی مقامات
بچپن سے ہی آپ کے احوال عام بچوں سے مختلف تھے۔ رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہ پینا آپ کی کرامت کا ایک ابتدائی اظہار سمجھا جاتا ہے۔ مکتب جاتے تو فرشتے آپ کے ساتھ ہوتے اور بچوں کو ادب سکھاتے کہ یہ اللہ کے ولی کا مقام ہے۔ آپ کی دعاؤں سے بیمار صحت مند ہوئے، مشکلات حل ہوئیں اور کئی مردے زندہ ہوئے۔ آپ کے قدمِ مبارک کی نسبت کو لوگ روحانی ترقی اور ولایت کا ذریعہ سمجھتے۔
ارشادات و تعلیمات
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو شخص سچی عقیدت کے ساتھ میری طرف منسوب ہو، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت فرمائے گا اور اسے توبہ و مغفرت کا راستہ دکھائے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت تک میں اپنے مخلص مریدوں کی دستگیری کرتا رہوں گا۔ جو کوئی مصیبت کے وقت میرے وسیلے سے اللہ سے دعا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا
گیارہویں شریف اور علما کی تائید
آپ کا وصال 11 ربیع الآخر 561ھ میں بغداد میں ہوا جہاں آپ کا مزارِ مبارک آج بھی لاکھوں عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ آپ کی یاد میں ہر سال ربیع الآخر میں عرس کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جنہیں عرفِ عام میں ’’گیارہویں شریف‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ محافل نہ صرف آپ کی یاد کو تازہ کرتی ہیں بلکہ لوگوں کو دین کی تعلیمات، خیرات اور ایثار کا جذبہ بھی سکھاتی ہیں۔
گیارہویں شریف کے حوالے سے کئی معتبر علما اور بزرگانِ دین کے اقوال ملتے ہیں:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہویں شریف کے جواز اور اس کی فضیلت کا ذکر کیا اور اسے پسندیدہ عمل قرار دیا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے شہروں میں غوث اعظم کی گیارہویں شریف معروف ہے اور یہ آپ کی اولاد و مشائخ میں متواتر چلی آرہی ہے۔
شیخ امان اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اور سید شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر اولیا بھی اس روایت پر عمل کرتے اور اس دن کھانا پکا کر تقسیم کیا کرتے تھے۔
گیارہویں شریف کا مقصد اور حکمت
گیارہویں شریف صرف ایک یادگار نہیں بلکہ ایک تربیتی اجتماع ہے جس میں سیرتِ اولیا سے سبق سیکھنے، نیکی کی ترغیب، اور دین کے عملی پہلوؤں کو فروغ دینے کا موقع ملتا ہے۔ یہ محافل وعظ و نصیحت کا پلیٹ فارم ہیں جہاں خیرات، صدقات اور سماجی ہم آہنگی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حیثیت ایک دینی و اصلاحی مجلس کی سی بن جاتی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور تعلیمات امتِ مسلمہ کے لیے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ گیارہویں شریف کی محافل اس بات کا مظہر ہیں کہ مسلمان اپنے اولیا سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر دین کی خدمت اور اخلاقی تربیت کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ہے کہ جو شخص اسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کرے اس کے لیے اس کا بھی اجر ہے اور ان سب کا بھی جو اس پر عمل کریں۔ اس تناظر میں گیارہویں شریف کو دین و اخلاق کی ایک اچھی روایت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو نہ صرف محبتِ اولیا بلکہ محبتِ رسول ﷺ کی بھی یاد تازہ کرتی ہے۔
انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچی
استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی
اسلامی تاریخ میں جب ہم اہلِ دل اور اولیاے کرام کی حیات و خدمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ برگزیدہ ہستیاں امت کے لیے روشنی کے مینار اور کردار کے آئینے کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کی تعلیمات محض چند مخصوص زمانوں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ہر دور کے مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوتی ہیں۔ اولیاے کاملین کے احوال بیان کرنا، ان کی سیرت کو عام کرنا اور ان کے فیوض و برکات سے فیضیاب ہونا دراصل ایمان کو تازگی اور عمل کو پختگی دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ انہی ہستیوں میں ایک ایسی عظیم المرتبت شخصیت ہیں جنہیں ’’غوث الاعظم‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی علمی رفعت، روحانی عظمت اور خدمتِ دین نے صدیوں سے دلوں کو اپنی جانب مائل کر رکھا ہے۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ دینِ اسلام میں اللہ کے مقرب بندوں سے محبت اور ان کی یاد قائم رکھنا امت کے روحانی سرمائے کا حصہ ہے۔ صوفیا نے اپنے طرزِ عمل اور کردار سے لوگوں کو قربِ الٰہی کی راہیں دکھائیں۔ ان کی یاد منانے اور ان کے احوال بیان کرنے کی روایت اسی تسلسل کی ایک شکل ہے۔ ’’گیارہویں شریف‘‘ اسی روحانی اور فکری سلسلے کی یادگار ہے جو نہ صرف محبتِ اولیا کا مظہر ہے بلکہ تبلیغ و اصلاح کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارکہ
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ 470ھ میں ایران کے شہر جیلان میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی طور پر صالح اور ولی صفت تھے۔ آپ کے والدین اور نانا بھی اہلِ تقویٰ اور ولایت کے حامل تھے۔ ابتدائی تعلیم جیلان میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ دینی علوم کی تکمیل کے لیے بغداد تشریف لے گئے۔ وہاں کی علمی فضاؤں نے آپ کے علم و بصیرت کو مزید نکھارا اور آپ ایسے جلیل القدر عالم اور روحانی پیشوا کے طور پر اُبھرے کہ بڑے بڑے علما اور مشائخ بھی آپ کے علم و عرفان کے معترف نظر آئے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہ صرف علم و تقویٰ کی دولت سے نوازا بلکہ خلقِ خدا کے دلوں میں آپ کی محبت اور عقیدت بھی ڈال دی۔ آپ کی علمی مجالس میں ہزاروں لوگ حاضر ہوتے، یہاں تک کہ محفل کے باہر بھی لوگ بیٹھ کر آپ کی نصیحتیں سنتے۔ یہود و نصاریٰ اسلام قبول کرتے اور بدعمل لوگ توبہ کے ذریعے نیکوکار بن جاتے۔ آپ کی شخصیت لوگوں کے لیے رحمت اور ہدایت کا ذریعہ تھی۔
کرامات و روحانی مقامات
بچپن سے ہی آپ کے احوال عام بچوں سے مختلف تھے۔ رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہ پینا آپ کی کرامت کا ایک ابتدائی اظہار سمجھا جاتا ہے۔ مکتب جاتے تو فرشتے آپ کے ساتھ ہوتے اور بچوں کو ادب سکھاتے کہ یہ اللہ کے ولی کا مقام ہے۔ آپ کی دعاؤں سے بیمار صحت مند ہوئے، مشکلات حل ہوئیں اور کئی مردے زندہ ہوئے۔ آپ کے قدمِ مبارک کی نسبت کو لوگ روحانی ترقی اور ولایت کا ذریعہ سمجھتے۔
ارشادات و تعلیمات
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو شخص سچی عقیدت کے ساتھ میری طرف منسوب ہو، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی رحمت فرمائے گا اور اسے توبہ و مغفرت کا راستہ دکھائے گا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ قیامت تک میں اپنے مخلص مریدوں کی دستگیری کرتا رہوں گا۔ جو کوئی مصیبت کے وقت میرے وسیلے سے اللہ سے دعا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا
گیارہویں شریف اور علما کی تائید
آپ کا وصال 11 ربیع الآخر 561ھ میں بغداد میں ہوا جہاں آپ کا مزارِ مبارک آج بھی لاکھوں عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔ آپ کی یاد میں ہر سال ربیع الآخر میں عرس کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جنہیں عرفِ عام میں ’’گیارہویں شریف‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ محافل نہ صرف آپ کی یاد کو تازہ کرتی ہیں بلکہ لوگوں کو دین کی تعلیمات، خیرات اور ایثار کا جذبہ بھی سکھاتی ہیں۔
گیارہویں شریف کے حوالے سے کئی معتبر علما اور بزرگانِ دین کے اقوال ملتے ہیں:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہویں شریف کے جواز اور اس کی فضیلت کا ذکر کیا اور اسے پسندیدہ عمل قرار دیا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے شہروں میں غوث اعظم کی گیارہویں شریف معروف ہے اور یہ آپ کی اولاد و مشائخ میں متواتر چلی آرہی ہے۔
شیخ امان اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اور سید شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر اولیا بھی اس روایت پر عمل کرتے اور اس دن کھانا پکا کر تقسیم کیا کرتے تھے۔
گیارہویں شریف کا مقصد اور حکمت
گیارہویں شریف صرف ایک یادگار نہیں بلکہ ایک تربیتی اجتماع ہے جس میں سیرتِ اولیا سے سبق سیکھنے، نیکی کی ترغیب، اور دین کے عملی پہلوؤں کو فروغ دینے کا موقع ملتا ہے۔ یہ محافل وعظ و نصیحت کا پلیٹ فارم ہیں جہاں خیرات، صدقات اور سماجی ہم آہنگی کو بڑھاوا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی حیثیت ایک دینی و اصلاحی مجلس کی سی بن جاتی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی اور تعلیمات امتِ مسلمہ کے لیے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ گیارہویں شریف کی محافل اس بات کا مظہر ہیں کہ مسلمان اپنے اولیا سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر دین کی خدمت اور اخلاقی تربیت کا سفر جاری رکھتے ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ میں ہے کہ جو شخص اسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کرے اس کے لیے اس کا بھی اجر ہے اور ان سب کا بھی جو اس پر عمل کریں۔ اس تناظر میں گیارہویں شریف کو دین و اخلاق کی ایک اچھی روایت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو نہ صرف محبتِ اولیا بلکہ محبتِ رسول ﷺ کی بھی یاد تازہ کرتی ہے۔