Type Here to Get Search Results !

اخلاق نبوی اور آج کی مسلم قیادت

اخلاق نبوی اور آج کی مسلم قیادت
اسلام کی پوری تاریخ میں سب سے بڑی انقلابی قوت رسول اکرم ﷺ کے اخلاق تھے۔
قرآن مجید نے فرمایا "وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (القلم:۴)
 کہ آپ اخلاقِ عظیم پر فائز ہیں
اور فرمایا "وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ" (الانبیاء:۱۰۷) 
کہ آپ سراپا رحمت ہیں۔ ان دو آیات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ نبوتِ محمدیہ ﷺ کی بنیاد صرف عقیدے پر نہیں بلکہ ایک جامع اخلاقی نظام پر ہے۔ یہی نظام ہے جس نے عرب کی سخت گیر اور جاہل معاشرت کو انسانی وقار، مساوات اور عدل کی اعلیٰ قدروں میں ڈھال دیا۔
حضور اکرم ﷺ کی سیرت میں قیادت اور اخلاق الگ الگ نہیں تھے۔ آپ ﷺ نے مکہ کے ابتدائی دور میں بھی اور مدینہ کی ریاست قائم ہونے کے بعد بھی اپنی قیادت کو خدمتِ خلق اور عدل پر استوار رکھا۔ صلح حدیبیہ کی مثال لیجیے:
 معاہدہ بظاہر مسلمانوں کے حق میں یک طرفہ نظر آ رہا تھا لیکن آپ ﷺ نے صبر، حکمت اور دور اندیشی کے ساتھ اس پر دستخط کیے، نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام چند سال میں پورے عرب میں پھیل گیا۔ اسی طرح فتح مکہ کا منظر دیکھیے: آپ ﷺ اپنے جانی دشمنوں کو عام معافی دیتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں
 «اذهبوا فأنتم الطلقاء» (ابن ہشام، السیرۃ النبویہ) — 
یہ ایسا عدیم المثال اخلاقی رویہ تھا جس نے دشمنوں کے دل جیت لیے۔ 
ان دونوں واقعات سے یہ پیغام ملتا ہے کہ قیادت میں بلند اخلاق، حلم اور عدل سب سے بڑی حکمتِ عملی ہے۔
آج جب ہم مسلم قیادت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ معیار ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ بدعنوانی، اقربا پروری، مذہب کے نام پر سیاست اور عوامی مسائل سے لاتعلقی مسلم دنیا کا عمومی منظرنامہ بن چکا ہے۔ بین الاقوامی اداروں جیسے Transparency International کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ بیشتر مسلم ممالک میں کرپشن، احتساب کا فقدان اور عوامی اعتماد کی شدید کمی ہے۔ مدارس کے نظام میں بھی کئی جگہ جمود اور تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے بجائے بعض جگہ فرقہ واریت اور سیاست کا غلبہ ہے۔ مسلم خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیاں سماجی دباؤ، ناقص تعلیمی مواقع اور جہیز جیسی رسومات کی وجہ سے سخت مشکلات میں ہیں۔ متعدد کیسز میں شادی نہ ہو پانے، سماجی بے راہ روی اور دینی کم علمی کے باعث ارتداد یا مذہبی وابستگی کمزور ہونے کے واقعات سننے میں آتے ہیں۔ یہ سب مسائل اس بات کا اعلان ہیں کہ قیادت اپنی اصل ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔
اسلام میں قیادت کا تصور رسول اللہ ﷺ کی سنت سے جڑا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا "كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" (بخاری:۷۱۳۸؛ مسلم:۱۸۲۹) 
یعنی ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ 
اس حدیث کی روشنی میں مسلم قیادت کا پہلا فریضہ عوام کی فلاح ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں قیادت اکثر مراعات اور عہدوں کے لیے ہے، عوامی خدمت کے لیے نہیں۔ نتیجہ یہ کہ سماج میں غربت بڑھ رہی ہے، تعلیم اور صحت کے شعبے کمزور ہیں، نوجوان بے روزگار اور مایوس ہیں، مدارس جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو رہے، خواتین کے لیے معاشی و تعلیمی مواقع محدود ہیں اور جہیز جیسی رسم نے معاشرتی نظام کو دبوچ رکھا ہے۔
اخلاق نبوی کا تقاضا ہے کہ قیادت کو اقتدار نہیں بلکہ امانت سمجھا جائے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کے طرزِ عمل کو دیکھا جائے تو ریاست مدینہ میں شورٰی کا نظام، بیت المال کی شفافیت، انصاف کی مساوی فراہمی اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت سب واضح مثالیں ہیں۔ قرآن میں کہا گیا "وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ" (الشوریٰ:۳۸) کہ مسلمانوں کے معاملات مشورے سے طے ہوتے ہیں۔
 آج مسلم قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ حقیقی مشاورتی نظام قائم کرے، عوامی رائے کا احترام کرے، احتساب کو ادارہ جاتی سطح پر نافذ کرے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کرے۔
اسی طرح معاشرتی مسائل جیسے جہیز، تعلیم کی کمی، خواتین کی محرومیت اور مذہبی تربیت کے فقدان پر ریاست اور قیادت کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ رسول اکرم ﷺ نے معاشرے میں نکاح آسان کیا، جہیز یا بھاری خرچ کا تصور نہ تھا بلکہ سادگی اور برکت تھی۔ مسلم قیادت کو چاہیے کہ اسی سنت کے مطابق قانون سازی اور سماجی اصلاحات کرے تاکہ نوجوان نسل محفوظ رہے اور بچیوں کی شادیاں سہل ہوں۔ مدارس کے نظام کو عصری علوم، اخلاقی تربیت اور سماجی خدمت کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ وہاں سے صالح قیادت پیدا ہو۔
اخلاق نبوی ہمیں سکھاتا ہے کہ قیادت ایک مسلسل خدمت اور مسلسل جواب دہی کا نام ہے۔ یہ رویہ اگر مسلم قیادت اپنا لے تو عوام کی حالت بدلے گی، کرپشن ختم ہوگی، مدارس کی اصلاح ہوگی، خواتین اور نوجوان محفوظ ہوں گے اور جہیز جیسی برائیاں ختم ہوں گی۔ قیادت اگر نبی ﷺ کی سیرت سے سبق لے تو سماج میں امید پیدا ہوگی اور امت کے مسائل حل ہوں گے۔
آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اخلاق نبوی ایک آسمانی اصول نہیں جو صرف تاریخ میں تھا بلکہ ایک عملی نظام ہے جسے آج بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ قرآن اور سنت کی یہ تعلیمات ہر دور میں قابلِ اطلاق ہیں۔ آج کی مسلم قیادت اگر عدل، امانت، شفافیت، شورٰی، خدمتِ خلق اور خواتین و نوجوانوں کی فلاح کو اپنی پالیسی کا حصہ بنا لے تو وہ نہ صرف دنیاوی اعتبار سے کامیاب ہوگی بلکہ آخرت میں بھی سرخرو ہوگی۔ بصورتِ دیگر قیادت محض اقتدار کا کھیل رہے گی اور امت مزید انتشار کا شکار ہوگی۔
یہی پیغام اس مقالے کا خلاصہ ہے کہ «اخلاق نبوی اور آج کی مسلم قیادت» دو الگ باتیں نہیں بلکہ ایک ہی سلسلہ ہے۔ نبی ﷺ کی سیرت کا اصل سبق یہ ہے کہ اخلاق، عدل اور خدمت کے بغیر قیادت محض دعویٰ ہے۔ آج مسلم قیادت کو چاہیے کہ ان اصولوں کو زندہ کرے تاکہ امت کو عزت، وقار اور استحکام نصیب ہو اور دنیا میں ایک مرتبہ پھر اسلام کا عملی نمونہ قائم ہو سکے۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area