Type Here to Get Search Results !

زید نے اپنی بیوی سے کہا میں نے طلاق دیا دیا دیا تو کتنی طلاق واقع ہوگی؟

 (سوال نمبر 9319)
زید نے اپنی بیوی سے کہا میں نے طلاق دیا دیا دیا تو کتنی طلاق واقع ہوگی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وہ مشائخ عظام اس مسئلہ میں کہ زید نے ہندہ کو طلاق دیا اور یوں کہا میں نے طلاق دیا دیا دیا تو کتنی طلاق واقع ہوگی؟ مدلل و مفصل تحریر فرماکر رہنمائی بخشیں 
( نوٹ) یاد رہے کہ طلاق کے وقت مطلقاً نیت تھی۔ 
سائل:- محمد دلکش علی مہوتری نیپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ وصلی علی رسول الکریم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ
الجواب بعونه تعالیٰ عزوجل
 مذکورہ صورت میں زید کا قول طلاق دیا دیا دیا سےایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ باقی دوبار دیا کا لفظ یہ تکیدا ہے۔ جبکہ طلاق کی نیت نہیں کیا ہے 
اب وہ عدت کے اندر قول یا فعل سے رجوع کر سکتے ہیں 
واضح رہے طلاق صریح میں نیت کا اعتبار نہیں غصہ میں ہو یا نشہ میں جتنی مرتبہ طلاق دے گا اتنی مرتبہ پڑے گی اگر صرف ایک مرتبہ کہا ہے تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جس میں عدت کے اندر رجعت کا اختیار رہتا ہے اور بعد عدت وہ بائنہ ہوجائے گی حاصل یہ کہ ایک مرتبہ سے بھی طلاق پڑجاتی ہے۔تین مرتبہ کہنا ایقاعِ طلاق کے لیے ضروری نہیں ہے تین مرتبہ کہے گا تو تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی۔۔
اور اگر میں نے تجھے طلاق دیا۔پھر دیا دیا سے بھی اگر طلاق کی نیت تھی ہھر تین طلاق مغلظہ واقع ہوگی چونکہ صریح کے ساتھ کنایہ کا الحاق ہوتا یے۔ 
اب بدون حلالہ رجوع ممکن نہیں۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں،چاہے تین طلاقیں ایک جملہ سے دی جائیں، جیسے "میں تمہیں تین طلاقیں دیتاہوں" ، یا الگ الگ جملوں سے دی جائیں جیسے "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ، میں تمہیں طلاق دیتاہوں "، لہذا صورتِ مسئولہ میں زید کے مذکور جملے"میں نے تجھے طلاق دیا، دیا ، دیا" کہنے سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوکر حرمتِ مغلظہ ثابت ہوچائے گی یعنی بعد والا دیا دیا دو بار جبکہ طلاق کی نیت سے کہا ہو ۔(اگر دیا دیا تاکیدا کہا پھر طلاق رجعی ہوگی۔)
،اب رجوع نہیں ہوسکتا اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر دوبارہ باہم عقدِ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ، عورت عدت مکمل کرنےکے بعد کسی دوسری جگہ نکاح کرنےمیں بھی آزاد ہے ،
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے 
(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) - الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)
(الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 214)
بہار شریعت میں ہے 
لفظ صریح مثلاً میں نے تجھے طلاق دی،تجھے طلاق ہے، تو مطلقہ ہے،تو طالق ہے، میں تجھے طلاق دیتا ہوں ،اے مطلقہ۔ ان سب الفاظ کا حکم یہ ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اگرچہ کچھ نیت نہ کی ہو یا بائن کی نیت کی یا ایک سے زیادہ کی نیت ہو یا کہے میں نہیں جانتا تھا کہ طلاق کیا چیز ہے مگر اس صورت میں کہ وہ طلاق کو نہ جانتا تھا دیا نتہً واقع نہ ہوگی۔
(بہار شریعت ح ۸، ص ۱۱۸) 
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/01/2025

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area