Type Here to Get Search Results !

خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی

خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی 
(10/ شوال یومِ رضا پر خاص)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
حافظ افتخار احمد قادری 
 عالم اسلام کی عظیم شخصیت امام احمد رضا خان قادری تعارف کی دنیا میں کسی قلم کی محتاج نہیں بلکہ آپ کا علمی ورثہ، ہزاروں موضوعات پر تحریریں، علم کے ٹھوس ادلہ سے مزین رسائل، پیش آمدہ مسائل کے بارے میں قرآن و سنت، فقہائے امت کے ادلہ سے ماخوذ مستند فتاوی، تاریخ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا فتاوی رضویہ، عشق و محبت سے لبریز عشاق دلفگار کے لئے نعتیہ کلام کا تحفہ، متلاشیان حق کی تربیت کے لئے سلوک کے اسباق، جویان تحقیق کے لئے تحقیقی اصولوں پر مبنی نگارشات، کم و بیش پانچ سو ساٹھ علوم کے دریا بہاتے علم کے چشمے خود آپ کی شخصیت کے تعارف ہیں۔ آپ کی جلالت علمی، شان فقاہت، فہم و دانش، عقل و فراست اور تبحر علمی کے اپنے تو کجا غیر بھی معترف ہیں۔ ایسی نابغہ روزگار ہستی جس نے فنون علم و دانش کا کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا جس میں آپ کے علمی نگارشات کے انمول نقوش نا ملتے ہوں۔ چھ سال کی عمر سے سفر آخرت تک قلم رضا سے وہ نور بداماں علم کی کرنیں پھوٹیں کہ دنیا ورطہ حیرت میں ہے کہ ہزاروں موضوعات پر ہزار سے زائد کتابیں اور ہر کتاب میں موضوع سے متعلق دلائل کے انبار ہیں۔ اعلیٰ اخلاق و کردار، سیکڑوں سالہ قدیم و جدید علوم وفنون میں دسترس، لاتعداد کتابوں کے مصنف، فقہائے ائمہ اربعہ کے علوم پر مہارت، فقاہت و بصارت، عبادت و ریاضت، اخلاق و کردار، محبت و عشق رسول ﷺ میں آپ جیسا کوئی ہمر عصر نا تھا۔ آپ کی شخصیت کا ہر گوشہ ہزاروں صفحات پر محیط ہے اور آپ کی ذات کے مختلف پہلوؤں پر اہل قلم لکھتے چلے آرہے ہیں۔ جو جس زاویہ سے آپ کو دیکھتا ہے اس پہلو کو سپرد قلم کر کے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہے۔ 
  10/ شوال المکرم مطابق 14/ جون ۱۸۵۶ء برصغیر کی علمی آماجگاہ شہر بریلی میں ایک ایسے بچے کی ولادت ہوتی ہے جس کو عالم شرق و غرب کے علماء و فقہاء میں امام احمد رضا خان قادری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نومولود کی ولادت ناصرف اہل خانہ کے لئے خیر کا باعث بنی بلکہ بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو دور اسلاف کے علماء و فقہا، صلحاء و اتقاء کی عملی تصویر دیکھنے کو ملی۔ آپ کی پیدائش پر اہل خانہ نے آپ کا نام محمد رکھا اور تاریخی اعتبار سے آپ المختار (۱۲۷۲ھ) کے لقب سے ملقب ہوئے۔ جد امام احمد رضا خان قادری امام علوم عقلیہ و نقلیہ جناب مولانا رضا علی خان نے آپ کو احمد رضا کے نام سے موسوم کیا اور یہی نام زبان زد خاص و عام ہوا۔ آپ کی ولادت ایسے گھرانہ میں ہوئی جو علم و عمل کے لحاظ سے پورے بریلی میں اپنی مثال آپ تھا۔ والد گرامی جناب مولانا نقی علی خان اپنے وقت کے قادر الکلام عالم ذی شان تھے تو جد امجد مولانا رضا علی خان بحر علوم اسلاف تھے۔ آپ کی زندگی کے چار سال ابھی مکمل ہوئے ہی تھے کہ ناظرہ قرآن مجید مکمل کرنے کی سعادت حاصل کی۔ کلام الٰہی کی برکتوں کو دامن میں سمیٹا تو علوم قرآن کی طرف توجہ مبذول ہوئی۔ علوم دینیہ عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل کے لئے آپ کو زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف سب سے پہلے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خان صاحب سے ہوا۔ باپ اپنے وقت کا امام اور بیٹے نے اہلسنت کی قیادت و سیادت کی امامت پر فائز ہونا ہے۔ ایک طرف والد گرامی کی پدرانہ شفقت بیٹے کے سینے کو علوم و معارف کے گنجینہ سے لبریز کر رہی تھی تو دوسری طرح علم و عمل، تقوی و طہارت پر کاربند باپ کی روحانیت بیٹے کی آنکھوں کے ذریعے سینے میں منتقل ہو رہی تھی۔ والد گرامی کی مشفقانہ محنت و محبت سے جو علوم آپ کے سینے میں منتقل ہوئے تھے چھ سال مکمل ہونے پر اس کے اظہار کا آپ کو موقع ملا۔ آپ نے ایک کثیر الازدحام مجمع میں عشق مصطفیٰ ﷺ میں ڈوب کر میلاد مصطفیٰ ﷺ کے موضوع پر ایسی مدلل جامع قرآن وسنت کے دلائل سے مزین بصیرت افروز خطاب کیا کہ مجمع میں موجود ہر شخص آپ کی تقریر سن کر انگشت بدنداں ہوگیا۔ دل و دماغ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ علماء اش اش کر اٹھے ایسا دلنواز خطاب، ایسی پر مغز تقریر کی کہ آپ نے سب کو حیران کردیا۔ جب آپ کی عمر آٹھ سال ہوئی تو علم کا سمندر جو سینے میں موجزن تھا اس کی موجیں اپنا جوبن دکھانے لگیں۔ علوم کے بحر بیکراں کا قطرہ قطرہ علم کے موتی بن کر صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے لگا۔ عمر کے آٹھویں سال فن علم نحو کے موضوع پر مشہو زمانہ کتاب ’’ھدایۃ النحو‘‘ کی شرح عربی زبان میں تحریر فرما کر فن نحو کے علماء کو ورطہ حیرت میں ڈالا۔ زندگی کے پہلے عشرہ میں فقہائے امت کو علم اصول فقہ کی لاجواب کتاب ’’مسلم الثبوت‘‘ کے حاشیہ کا تحفہ دیا اور یوں دبستان امام اعظم ابو حنیفہ رضی الله عنہ میں ایک نئے فقیہ کی حیثیت سے اپنی پہچان کرائی۔ آپ کے القابات میں سے ایک لقب آپ کا عظیم البرکت بھی ہے۔ اس لقب کے معنیٰ بہت زیادہ برکتوں والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ پر بچپن سے ہی رب کائنات کی طرف سے برکتوں کا نزول ہوا۔ ذہن و فطانت، عقل و شعور، فہم و فراست، زیرک و دانائی، تقوی و پرہیزگاری کی تعمیری صلاحیتیں خداوند کریم کی طرف سے آپ کو ودیعت کی گئیں تھیں۔ بانکپن کی عمر میں بچوں کو کھیل کود اور شغل سے خاص شغف ہوتا ہے۔ ذہن بھی اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ علوم و معارف کی باریکیاں اپنے اندر سمولے۔ لیکن آپ کی زندگی نے بچپن سے ہی علم کی وہ منزلیں طے کرلی تھیں جن کو ہر کوئی اتنا آسانی سے طے نہیں کرسکتا تھا۔ یہ فقط الله تعالیٰ کا فضل و کرم اور رسولِ کریم ﷺ کی نظر کرم تھی کہ تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں مروجہ علوم کی ناصرف تکمیل ہوئی بلکہ ان علوم پر سیر حاصل دسترس بھی ہوئی اور ان علوم پر ایسا ید طولی نصیب ہوا کہ جس دن تحصیل علم سے فراغت ہوئی اسی دن علم کے ثمرات، اساتذہ کی محنت، آباد و اجداد کی علمی وراثت، ماں باپ کی دعاؤں کی تعبیر دیکھنے کو ملی۔ جب ایک تیرہ سال کا لڑکا فقہی بصارت کا حامل مسئلہ رضاعت پر جامع مانع فتویٰ لکھ کر والد ماجد مولانا محمد نقی علی خان سے تحریر کردہ فتویٰ پر مہر تصدیق ثبت کروا کر مسند افتاء کی اہم ذمہ داری پر فائز ہوا اور تاریخ نے دیکھا کہ اس نوخیز نے دنیا میں ثانی امام اعظم ابوحنیفہ بن کر فقہ و فتویٰ کی ایسی خدمت کی کہ آج تک آپ کے علوم کا سورج اپنی آب و تاب سے علم کی راہوں کو روشن کر رہا ہے۔ تیرہ سال کی عمر میں علم کی دستار فضیلت سر پر سجائے مسند تدریس، منصب افتاء کی ذمہ داریوں پر فائز ہوکر عملی زندگی کا آغاز ہوا اور تادم واپسی دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام اپنی شان و شوکت کے ساتھ جاری رہا۔ آپ کی ظاہر ی و باطنی تربیت میں آپ کے والد گرامی مولانا نقی علی خان کا بہت بڑا کردار تھا۔ اسی لئے آپ کا دل دنیاوی لذات اور خواہشات سے پاک تھا۔ دل کی پاکیزگی کا سامان تقوی و طہارت، اخلاص و للہیت، خوف و خشیت خداوند کریم کی طرف سے پیدائشی طور پر ملا ہوا تھا۔ دل کی لطافت کا یہ عالم تھا کہ بائیس سال کی عمر میں والد ماجد کی ہمراہی میں مرشد دوراں حضرت سید آل رسول قادری برکاتی کے آستانہ پر پہنچے تو نگاہ مرشد میں یک دم سماگئے اور بیعت کے شرف کے ساتھ خلافت و اجازت سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کے اورادو وظائف سے بھی نواز دیئے گئے جبکہ اس مقام پر پہنچنے کے لئے سالکین کو بڑی ریاضتیں اور مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں تب جاکر خلافت و اجازت کا گوہر نایاب حاصل ہوتا ہے۔ آپ کو خلافت و اجازت سے نوازنے کے بعد مرشد حق کے وہ الفاظ جو آپ کی شخصیت اور مرید باصفا کے کمالات کو جاننے کے لئے کافی ہیں۔ حضرت سید آل رسول قادری برکاتی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں: ’’مجھے بڑی فکر تھی کہ بروز محشر اگر احکم الحاکمین نے سوال فرمایا کہ آل رسول تو میرے لئے کیا لایا ہے؟ تو میں کیا پیش کروں گا؟ مگر الله کا شکر ہے کہ آج وہ فکر دور ہوگئی۔ اس وقت میں احمد رضا کو پیش کردوں گا‘‘۔
(امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں:۳۵)
بلاشبہ آپ نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین کی تبلیغ، سنت رسول ﷺ کی احیاء، عقائد اہلسنت کی حقانیت، اسلامی افکار و نظریات کی ترویج، اصلاح احوال، اسلامی نظام معیشت کی آبیاری کے ساتھ عقائد باطل کی سرکوبی، بدعات کا قلع قمع، فرقہ باطلہ کی بیخ کنی کے لئے عملی اقدامات بھی اٹھائے۔ لوگوں کی تربیت کے لئے درس وتدریس، بیانات، خطبات کا سلسلہ جاری کیا۔ آپ اپنے وصال سے چار ماہ بائیس دن پہلے خود اپنے وصال کی خبر دے کر سورۃ الدھر کی آیت نمبر 15 سے سال انتقال کا استخراج فرما دیا تھا۔ اس آیت شریفہ کے علم ابجد کے حساب سے 1340عدد بنتے ہیں اور یہی ہجری سال کے اعتبار سے سن وفات ہے۔ آپ کی مکمل زندگی کا تعارف، علمی کاوشیں، کتابیں، آپ کے تحریری فتاویٰ جات، رسائل، عشق و محبت رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا ’’حدائق بخشش‘‘ وغیرہ کے بارے میں محققین، اسلامی اسکالرز، علمائے کرام نے بے شمار کتابیں لکھیں۔ لاتعداد ریسرچ اسکالرز آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر پی ایچ ڈی بھی کر چکے ہیں اور کئی نئے نئے گوشوں اور زاویوں پر اپنے تحقیقی مقالے لکھ رہے ہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- حافظ افتخار احمد قادری
 کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت یوپی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area