(سوال نمبر 5312)
میرا فلاں کام ہو جائے گا تو اجمیر شریف میں حاضر دوں گا۔ اس طرح کی منت ماننا کیسا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے یہ منت مانی کے میرا فلاں کام ہو جائے گا تو اجمیر شریف میں حاضر دوں گا۔ اس طرح کی منت ماننا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ام رضا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ منت شرعی نہیں ہے پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ مستحب ہے۔
نذر، اصطلاح شرع میں وہ عبادت مقصودہ ہے جوجنس واجب سے ہواوروہ خود بندہ پرواجب نہ ہو،مگر بندہ نے اپنے قول سے اسے اپنے ذمہ واجب کرلیاہو مثلاً یہ کہا کہ میرا یہ کام ہو جائے تو دس رکعت نفل ادا کروں گا اسے نذر شرعی کہتے ہیں۔
اس طرح کی منت مانا کریں نماز روز اور صدقہ وغیرہ کی ۔
ہمارے ہاں منّت کے دو طریقے رائج ہیں
(۱)ایک منّتِ شرعی اور(۲) ایک منّتِ عُرفی ۔
(۱) منّتِ شرعی یہ ہے کہ اللّٰہ کے لئے کوئی چیز اپنے ذِمّہ لازم کر لینا۔ اس کی کچھ شرائط ہوتی ہیں اگر وہ پائی جائیں تو منّت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورانہ کرنے سے آدمی گناہگار ہوتا ہے ۔ اس گناہ کی نحوست سے اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کچھ بعید نہیں۔
(۲) دوسری منّتِ عُرفی وہ یہ کہ لوگ نذر مانتے ہیں اگر فلاں کام ہوجائے تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھائیں گے یا حاضری دیں گے یہ نذرِ عُرفی ہے اسے پورا کرنا واجب نہیں بہترہے ۔
کیا کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی مان سکتے ہیں؟
ازروئے شرع اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی ماننا جائز ہے اور امیرغریب اور ساداتِ کرام سبھی کے لئے کھا نا بھی جائز ہے۔ اسی کو نذرِ عُرفی یا نیا ز کہتے ہے۔ البتہ نذرِ شرعی اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی کے لئے ماننا ممنوع ہے۔( فتاوی اہل سنت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
میرا فلاں کام ہو جائے گا تو اجمیر شریف میں حاضر دوں گا۔ اس طرح کی منت ماننا کیسا ہے؟
........................................
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے یہ منت مانی کے میرا فلاں کام ہو جائے گا تو اجمیر شریف میں حاضر دوں گا۔ اس طرح کی منت ماننا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- ام رضا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ منت شرعی نہیں ہے پورا کرنا واجب نہیں ہے۔ مستحب ہے۔
نذر، اصطلاح شرع میں وہ عبادت مقصودہ ہے جوجنس واجب سے ہواوروہ خود بندہ پرواجب نہ ہو،مگر بندہ نے اپنے قول سے اسے اپنے ذمہ واجب کرلیاہو مثلاً یہ کہا کہ میرا یہ کام ہو جائے تو دس رکعت نفل ادا کروں گا اسے نذر شرعی کہتے ہیں۔
اس طرح کی منت مانا کریں نماز روز اور صدقہ وغیرہ کی ۔
ہمارے ہاں منّت کے دو طریقے رائج ہیں
(۱)ایک منّتِ شرعی اور(۲) ایک منّتِ عُرفی ۔
(۱) منّتِ شرعی یہ ہے کہ اللّٰہ کے لئے کوئی چیز اپنے ذِمّہ لازم کر لینا۔ اس کی کچھ شرائط ہوتی ہیں اگر وہ پائی جائیں تو منّت کو پورا کرنا واجب ہوتا ہے اور پورانہ کرنے سے آدمی گناہگار ہوتا ہے ۔ اس گناہ کی نحوست سے اگر کوئی مصیبت آپڑے تو کچھ بعید نہیں۔
(۲) دوسری منّتِ عُرفی وہ یہ کہ لوگ نذر مانتے ہیں اگر فلاں کام ہوجائے تو فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھائیں گے یا حاضری دیں گے یہ نذرِ عُرفی ہے اسے پورا کرنا واجب نہیں بہترہے ۔
کیا کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی مان سکتے ہیں؟
ازروئے شرع اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی نبی یا ولی کی نذرِ عُرفی ماننا جائز ہے اور امیرغریب اور ساداتِ کرام سبھی کے لئے کھا نا بھی جائز ہے۔ اسی کو نذرِ عُرفی یا نیا ز کہتے ہے۔ البتہ نذرِ شرعی اللّٰہ تَعَالٰی کے سوا کسی کے لئے ماننا ممنوع ہے۔( فتاوی اہل سنت)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
02/12/2023
02/12/2023