Type Here to Get Search Results !

مؤتمر دار الافتاء الھندیۃ، کیرالا اور ڈاکٹر سراوی کی کج فہمی آخری قسط

مؤتمر دار الافتاء الھندیۃ، کیرالا اور ڈاکٹر سراوی کی کج فہمی۔ (دوسری و آخری قسط)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
٤/ شعبان المعظم ١٤٤٦ھ کو مرکز الثقافة السنیة، کیرالا کے تحت منعقد ہونے والے 'مؤتمر دار الافتاء الھندیۃ' کا دوسرا دن تھا، مفتیان کرام و علمائے عظام، نالیج سٹی کے ایک بہت بڑے ہال میں موجود تھے، ڈاکٹر عبد الحکیم ازہری ابن سلطان العلما شیخ ابو بکر احمد صاحب قبلہ تشریف لائے اور آپ نے خطاب کیا، خطاب کے درمیان آپ نے اہل سنت و جماعت کے درمیان اتحاد کی بات کی اور فرمایا کہ اس اتحاد میں مسلمان سے میری مراد، اہل سنت و جماعت ہے، اس کی تعبیر میں نے ایک پوسٹ میں مفہوما یوں کی تھی:
’’ڈاکٹر عبد الحکیم ازہری ابن سلطان العلما شیخ ابو بکر فرماتے ہیں: میری مسلمان سے مراد صرف سنی مسلمان ہیں، دوسرے لوگ نہیں‘‘۔
 اس پر ڈاکٹر ذیشان سراوی، اضطراب کے شکار ہوگئے اور دکتور ازہری صاحب قبلہ پر مطلقا عقیدہ اہل سنت و جماعت کے خلاف کا الزام لگاتے ہوئے یوں لکھا کہ:
"شمال کے علما جذباتی ہوتے ہی ہیں، لیکن فتویٰ کانفرنس میں شاید ان سے متاثر ہوکر ڈاکٹر عبد الحکیم ازہری حفظہ اللہ بھی عقیدہ اہل سنت پر زور دیتے ہوئے اپنے انتہائی سنجیدہ خطاب میں یہ کہہ گئے کہ:
"مسلمان سے مراد اہل سنت، باقی کیا ہیں ہم نہیں جانتے"۔
ظاہر ہے یہ بات عقائد اہل سنت کے تمام متون و شروح کے خلاف ہے، شرح الفقہ الاکبر ہو، عقیدہ طحاوی ہو کہ عقیدہ نسفی، امام اشعری کی کتب ہوں کہ ان کی آخری وصیت۔ دکتور ازہری ایک انتہائی بالغ نظر سنجیدہ اور ذی علم شخصیت ہیں، اس لیے ان کے اس جملے کو میں زلت لسانی پر ہی محمول کرسکتا ہوں۔ دوسری طرف بعض احباب نے مجھے بتایا کہ بعض ازاہرہ دکتور ازہری کے اس بیان کو بخوشی اس طرح کوٹ کر رہے ہیں۔
"مسلمان سے مراد صرف سنی مسلمان ہیں، دوسرے لوگ نہیں"۔
انہیں کون بتائے کہ عقیدہ اہل سنت کی یہ تشریح عقیدہ اہل سنت کے صریح خلاف ہے، بطور خاص ازہری اشعری منہج فکر شدت کے ساتھ اسے رد کرتا ہے۔ مزید یہ کہ ایک غیر صریح جملے کو صریح شکل دینا، misqouting کے زمرے میں آتا ہے، جو امانت داری کے خلاف ہے"۔
ڈاکٹر سراوی کی یہ تحریر جھوٹ اور الزام تراشی کا پلندہ ہے، قارئین ملاحظہ کریں: 
اولا: ڈاکٹر سراوی کی طرف سے دکتور ازہری زید شرفہ کی جانب اس جملہ: "باقی کیا ہیں ہم نہیں جانتے". کی نسبت، سراسر جھوٹ اور بہتان ہے؛ کیوں کہ دکتور ازہری زید شرفہ نے یہاں اپنی گفتگو میں اس جملہ کا استعمال کیا ہی نہیں ہے، ڈاکٹر سراوی اور ان کے ہم نوا، مرتے دم تک اس کو ثابت نہیں کر سکتے۔ 
ثانیا: ڈاکٹر سراوی نے بڑی ڈھٹائی سے دکتور ازہری صاحب قبلہ کےاس واضح اور موافق اہل سنّت مفہوم کو الگ معنی دے کر، اسے اہل سنت و جماعت کے موقف کے خلاف قرار دینے کے بعد، اس کی نسبت دکتور ازہری صاحب قبلہ کی طرف کرنے کی سخت جسارت کی ہے، شاید ڈاکٹر سراوی جیسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بات غلط ہو یا صحیح، صرف کتابیں شمار کرا دینے سے اندھ بھکت کی طرح، دوسرے منصف لوگ بھی سر تسلیم خم کر دیں گے، اگر ایسا ہی ہوتا؛ تو فقہائے احناف یہ نہیں کہتے کہ اگر کوئی شخص فقہائے احناف کی ساری کتابیں یاد کرلے؛ تو بھی وہ مفتی نہیں مانا جائے گا جب تک کہ وہ ماہرین کی تربیت میں رہ کر تفقہ نہ حاصل کرلے؛ اس لیے ڈاکٹر سراوی! کتابوں کا دھونس اپنے اندھ بھگتوں کے لیے رکھیے؛ کیوں کہ آپ کے اندر جب دکتور ازہری صاحب قبلہ کی ایک چھوٹی سی اردو عبارت سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے؛ تو آپ کتب عقائد اور مجدد دین و ملت کی کتب کیا خاک سمجھیں گے؟!
ثالثا: دکتور ازہری صاحب قبلہ کے اس بیان میں زلت لسانی دور دور تک نہیں؛ تو پھر اس کو زلت لسانی پر محمول کرنے کا کیا مطلب؟! یہ تو یہی ہو گیا کہ:
بک رہا ہوں جنون میں کیا کیا 
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی 
بہر کیف کہنا یہ ہے کہ ڈاکٹر سراوی کا مذکورہ بالا دعوے باطل و عاطل محض اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کا سراوی نتیجہ ہے، ورنہ دکتور ازہری صاحب قبلہ کی بات، سیاق و سباق کے ساتھ، بلکہ سیاق و سباق کے بغیر بھی بالکل صاف و شفاف اور عین اہل سنت و جماعت کے موافق ہے، اور آپ کی بات، ایک بھی معتمد علیہ کتاب کے خلاف نہیں، اہل سنت و جماعت کی معتمد متون و شروح وغیرہ کے خلاف ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ع
انہیں الزام دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا
البتہ ڈاکٹر سراوی کی عقل کل، جب تھوڑا ٹھکانے آئی؛ تو اپنی ایک دوسری تحریر میں دکتور ازہری صاحب قبلہ پر مطلقا عقائد اہل سنت کے خلاف کا الزام دھرنے کے بجائے لکھا کہ اس کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جو اہل سنت نہیں، وہ مسلمان نہیں، قارئین خود ملاحظہ کریں، ڈاکٹر سراوی اپنی ایک دوسری تحریر میں لکھتے ہیں:
"دوسرے دن کے صباحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الحکیم ازہری ریکٹر نالج سٹی نے مخاطبین کو پرجوش بنانے کے لیے ایک جملہ داغا:
’’مسلمان سے مراد اہل سنت ہیں، باقی دوسرے کیا ہیں، ہم نہیں جانتے‘‘۔
اس سے قطع نظر کہ یہ ایک مبہم جملہ تھا اور اس کا ایک ظاہری مفہوم کے جو اہل سنت نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں، عقیدۂ اہل سنت کے خلاف تھا، بعض بریلوی لڑکوں نے اس مبہم جملے کو اپنے باطل مقصد برآری کے لیے صریح بناکر فیس بک پر یوں نقل کردیں:
’’مسلمان سے مراد صرف سنی مسلمان ہیں، دوسرے لوگ نہیں"۔
ظاہر ہے یہ ایک باطل معنی ہے جوڈاکٹر عبد الحکیم ازہری صاحب کا مدعا ہرگز نہیں ہوسکتا، حتیٰ کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے درجنوں صریح جملے اس باطل جملے کے خلاف ہیں، مثلاً ان کا یہ جملہ:
’’ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت و جماعت :
ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے، اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ ، بدمذہب، بددین کہلاتا ہے‘‘
(فتاویٰ رضویہ: ۲۹/۳۸۵)
مگر نہیں معلوم کہ مسلک اہل سنت ومسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف اس باطل جملے کی اشاعت وترسیل سے ان بریلوی اوباشوں کو اتنی دل چسپی کیوں تھی"۔
 قارئین کرام! سخت افسوس کا مقام ہے کہ ابھی بھی ڈاکٹر سراوی کی عقل کل، ٹھکانے نہیں آئی، اس کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
اولا: اگر ڈاکٹر سراوی کی عقل کل، ٹھکانے آئی ہوتی؛ تو دکتور ازہری صاحب قبلہ کے کلام کو جملہ داغنے سے ہرگز تعبیر نہیں کرتے کہ انہوں نے: "مخاطبین کو پرجوش بنانے کے لیے ایک جملہ داغا".
ثانیا: اگر ٹھکانے آئی ہوتی؛ تو دکتور ازہری صاحب قبلہ کی صاف و شفاف بات کو مبہم نہیں کہتے۔
ثالثا: اگر ٹھکانے آئی ہوتی؛ تو دکتور ازہری صاحب قبلہ کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ نہ بتاتے: "اس کا ایک ظاہری مفہوم کے جو اہل سنت نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں، عقیدۂ اہل سنت کے خلاف تھا".
رابعا: اور نہ ہی اپنی طرف سے میری عبارت کا ایک جدید معنی گڑھ کر، باطل قرار دینے کی لا یعنی سعی کرتے اور نہ ہی مجدد دین و ملت علیہ الرحمہ کے درجنوں صریح جملوں، مسلک اہل سنت اور مسلک اعلی حضرت کے خلاف بتاتے! کیوں کہ میرا نہ تو وہ مقصود ہے اور نہ ہی وہ مفہوم، جو ڈاکٹر سراوی صاحب نے اپنی عقل کل سے سمجھا ہے، بلکہ میرا بھی وہی مقصود ہے جو دکتور ازہری صاحب قبلہ کا ہے؛ لہذا ڈاکٹر سراوی کی جانب سے یہ سب دعوے باطل محض ہیں اور دن دھاڑے، اہل سنت و جماعت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش ہے۔ 
قارئین! اب دکتور ازہری صاحب قبلہ کی پوری بات آپ خود ملاحظہ کریں، ان شاء اللہ تعالی حقیقت آشکار ہو جائے گی اور آپ میری تائید ضرور کریں گے، ساتھ ہی ڈاکٹر سراوی کی کج فہمی بھی نصف النہار کی طرح واضح ہو جائے گی، دکتور ازہری صاحب قبلہ، مسلمانوں کے عقائد و فقہ کی کمزوری وغیرہ کے بارے میں گفتگو کرنے کے بعد، فرماتے ہیں:
"اس لیے ہمیں یہ بہت ضروری ہے کہ دار الافتاء اور مدرسوں کی تعلیم کو بہت مضبوط کرنا ہے، سنی مسلمان کے بیچ میں اتحاد، مسلمان کا مطلب سنی، باقی مسلمان کے نام سے اس کو ہم، ہمارے مطلب نہیں ہے یہ اتحاد سے اور بہت بڑی انتشار ہے ہم یہ سب کو اتحاد کرنا ہے، اس کے پیچھے ہمیں دوڑ بھاگ کرنے کی ضرورت نہیں، یہ ناممکن چیز ہے".
قارئین! دکتور ازہری صاحب قبلہ کے اس مکمل کلام کو سامنے رکھ کر، انصاف کی نظر سے دیکھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا آپ کی اس بات میں ڈاکٹر سراوی کا ذکر کردہ یہ جملہ: "باقی کیا ہیں ہم نہیں جانتے". موجود ہے؟!کیا یہ بات عقیدہ اہل سنت کے صریح خلاف ہے؟! کیا آپ کے اس کلام میں کوئی زلت لسانی ہے؟! کیا دکتور ازہری صاحب قبلہ نے یہ جملہ مخاطبین کو جوش دلانے کے لیے داغا ہے؟! ڈاکٹر سراوی صاحب کو کہاں سے الہام ہوگیا؟! کیا دکتور ازہری صاحب قبلہ کی بات اپنے مقصود میں مبہم ہے؟! کیا اس کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جو اہل سنت نہیں، وہ مطلقا سرے سے مسلمان ہی نہیں؟! ہرگز نہیں بلکہ یہ ساری باتیں، صرف اور صرف ڈاکٹر سراوی صاحب کی عقل کل کی اپچ ہے اور کچھ نہیں۔
کیوں کہ دکتور ازہری صاحب قبلہ کی گفتگو کا ماحصل، ظاہر و باہر اور واضح طور پر صرف اتنا ہے کہ ہم جن مسلمانوں کے اتحاد کی بات کر رہے ہیں، وہ مسلمان اہل سنت و جماعت ہی ہیں، دوسرے مسلمان یا مسلمان کہے جانے والے فرقوں کا اس اتحاد سے کوئی تعلق نہیں، انتشار بہت ہے؛ اس لیے دوسرے فرقوں کے ساتھ اتحاد کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ ان کے ساتھ اتحاد ناممکن ہے۔
اس گفتگو میں کہاں ہے کہ جو اہل سنت نہیں، وہ مطلقا سرے سے مسلمان ہی نہیں؟! ڈاکٹر سراوی کے ساتھ، اگر سیکڑوں عقل کل والے سراوی آجائیں؛ تو بھی قیامت تک دکتور ازہری صاحب قبلہ کے کلام سے اپنے من گھڑت معنی و مطلب کو ثابت نہیں کر سکتے! 
اور دکتور ازہری صاحب قبلہ کی گفتگو کا جو میں نے مفہوما مطلب بیان کیا تھا، اس کا بھی وہی مقصود تھا جو ازہری صاحب قبلہ نے بیان کیا، اور جب وہی مقصود تھا؛ تو میرے جملہ کا معنی نہ تو باطل اور نہ ہی مجدد دین و ملت علیہ الرحمۃ کی راے کے خلاف ہے؛ کیوں کہ میرے جملہ کا بھی مقصود صرف اتنا ہی تھا کہ دکتور ازہری صاحب قبلہ کی گفتگو میں مسلمانوں کے اتحاد سے مراد صرف سنی مسلمان ہیں، دوسرے نہیں، نہ یہ کہ دوسرے مطلقا سرے سے مسلمان ہی نہیں؛ اس لیے کہ میرے کلام میں اس طرح کی کوئی بات ہے ہی نہیں۔ اور صحیح بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی میرے مذکورہ جملہ سے اس طرح کا شبہ نہیں ہونا چاہیے، خاص کر جو دکتور ازہری صاحب قبلہ کے خطاب میں حاضر تھا، کم از کم اسے تو ہر گز اس طرح کا شبہ نہیں ہونا چاہیے تھا، چہ جائے کہ اسے صریح کا درجہ دے کر، پیش کیا جائے اور اگر مت ہی ماری گئی تھی اور مزعومہ شبہ ہوا ہی تھا؛ تو درست تاویل کرلیتے یا فیصلہ کرنے سے پہلے ناقل سے بات کرلیتے، مگر نہیں؛ کیوں کہ اپنے زعم باطل کے مطابق، انھیں یہ خمار ہے کہ جو کہ دوں وہی صحیح ہے۔ افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کی عقل کل پر کہ یہ تو کفر کلامی تک کی تاویل، باطل ہی سہی، کرتے ہیں، لیکن جو سرے سے کفر ہی نہیں بلکہ حرام تک نہیں، بلکہ اپنے درست مفہوم میں بالکل حق و واضح ہے، اس کو ڈاکٹر سراوی جیسے لوگوں کا، صحیح مفہوم پر باقی رکھنا یا مزعومہ شبہ تھا؛ تو درست تاویل کرکے، صحیح محمل پر محمول کرنا یا بات کرکے شبہ دور کرنا تو کجا، اسے غلط رخ دینے کی مذموم کوشش کرکے، اپنی بھڑاس نکالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ 
 اور عزیزم مولانا کمال مصطفی ازہری زید علمہ نے ڈاکٹر سراوی صاحب سے کس طرح بات کی، مجھے نہیں معلوم، لیکن اگر بر سبیل تنزل ڈاکٹر سراوی کی بات، ان کے متعلق مان بھی لی جائے؛ تو بھی کم از کم ان کے اندر یہ عظیم وصف تو موجود ہے کہ وہ اپنے مخالف سے بات کرنے کا دم خم رکھتے ہیں اور ان کے اندر ڈاکٹر سراوی جیسی کم ظرفی تو نہیں کہ قائل موجود ہو، اس کے باوجود اس سے تصفیہ نہ کرکے، اپنی ہی ٹیڑھی کھیر پکاکر بانٹنے پر تلے رہیں۔
نیز ڈاکٹر سراوی نے میری اس مختصر عبارت کا نشر کرنا باطل مقصد کے تحت قرار دیا! اف۔ آج مجھے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سراوی جیسے لوگ بھی علم غیب رکھتے ہیں، مزید تعجب در تعجب ہے کہ عموما ڈاکٹر سراوی اور ان کے جیسے اعتدالی چورن بیچنے والے، بھٹیاری و بازارو زبان استعمال کرنے سے باز نہیں آتے! مثلا بریلوی اوباشوں، بریلوی لڑکوں وغیرہ۔ ڈاکٹر سراوی آپ کے ڈاکٹر اور آپ کے مدعی صوفی ہونے پر تف ہے، ممکن ہو تو اپنی ایسی صوفیت اور ڈاکٹریٹ پر ڈوب مریں۔
اور یقین سے تو نہیں کہ سکتا مگر طریقہ کار سے مجھے لگتا ہے کہ ڈاکٹر سراوی کی جانب سے یہ سارے جھوٹے دعوے اور التزام تراشیوں کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:
(۱) ایک دو کو چھوڑ کر، اس مؤتمر دار الافتاء میں شرکت کرنے والے، سب کے سب سنی صحیح العقیدۃ، مسلک اہل سنت یعنی مسلک اعلی حضرت کے ماننے والے تھے۔ یہ ڈاکٹر سراوی کو ہضم نہیں ہوا۔ 
(۲) ڈاکٹر سراوی نے مجھ سے بات کرنی چاہی، مگر میں نے انھیں اگنور کر دیا؛ جس کی وجہ سے اس لڑکے نے ان بڑکے کو ٹھیس پہنچادی، جو انھیں برداشت نہیں ہوسکا۔ 
(۳) ڈاکٹر سراوی کو مؤتمر میں بولنے کا موقع نہیں ملا؛ تو انھیں بہت برا لگا! جب کہ اکثر لوگوں کو اس مؤتمر میں بولنے کا موقع نہیں مل سکا تھا! بعض احباب نے اپنے کان سے سنا کہ یہ بعض حضرات سے بحث کر بیٹھے اور یہاں تک کہ دیا کہ جب بولنے کا موقع نہیں دینا تھا؛ تو بلائے ہی کیوں؟ یہ ہے ڈاکٹر سراوی صاحب کا تصوف اور ڈاکٹر سراوی صاحب کا بلند اخلاق! 
ڈاکٹر سراوی! خدا را، ہٹ دھرمی چھوڑکر، اہل سنت و جماعت کے راستے پر آجائیں، اسی میں نجات اور اسی میں کامیابی ہے، اللہ تعالی اہل سنت و جماعت کو طریق مستقیم پر قائم و دائم رکھے اور ڈاکٹر سراوی صاحب جیسے بھٹکے ہوئے لوگوں کو اہل سنت و جماعت کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طالب دعا:
ابن فقیہ ملت غفرلہ
فاضل جامعہ ازہر شریف، مصر، شعبہ حدیث، ایم اے۔
صدر المدرسین و مفتی مرکز تربیت افتا و بانی ٹرسٹ ایف ایم، اوجھا گنج، بستی، یو پی۔
١۷/ شعبان المعظم ٤٦ھ مطابق ۱٦/فروی ۲۰۲٥ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area