Type Here to Get Search Results !

رجب المرجّب نہایت ہی خیر و برکت والا مہینہ ہے

 کونڈے کی صحیح تحقیق
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
رجب المرجّب نہایت ہی خیر و برکت والا مہینہ ہے۔
یہ حرمت والے ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کی عظمت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ
(پ: ١٠ ، س: التوبۃ آیت: ٣٦) 
ترجمہ: بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان و زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہےتو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔ (کنز الایمان) 
ہمارے پیارے نبی مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رجب شهر الله تعالیٰ وشعبان شهری ورمضان شهر امتی (کنز العمال ، ح: ٣٥١٦٨، ج: ١٢، ص: ٣١٠، مؤسسه الرسالة)
 یعنی رجب اللہ پاک کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ اور رمضان میرے اُمتیوں کا مہینہ ہے۔
       رجب المرجب جو اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے عوام اہل سنت نے اپنی کم علمی و عدیم الفہمی کی بنیاد پر اس کی حرمت و فضیلت کو نظر انداز کرکے اس مہینے کی پندرہ اور عموماً بائیس تاریخ کو رسم کونڈا یعنی امام جعفر صادق علیہ الرحمہ کے نام سے فاتحہ خوانی میں بعض خلاف شرع چیزوں کو شامل کر لیا ہے جن کا مذہب اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ۔
اس رسم کونڈا میں عوام الناس میں کونڈے کی نیاز کو لے کر کچھ غلط طریقے رائج ہیں جنھیں یقیناً ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غیروں کو انگشت نمائی کا موقع ہرگز میسر نہ آئے۔ وہ یہ کہ رسم کونڈا میں آج تک اس بات کی پابندی ہے کہ کونڈوں کی ٹکیاں اور کھیر پوریاں پوشیدہ جگہ پر پکائی جائیں حتی کہ سورج نمودار ہونے سے قبل اس کو کھا پی کر ختم بھی کردیا جائے اور ان چیزوں کی فاتحہ خوانی بڑے ہی تزک و احتشام سے کی جاتی ہے اولاً انھیں ڈھک کر بلکہ بعض جگہ اس کے لیے لال کپڑا ضروری سمجھا جاتا ہے اور کہیں کہیں تو دیسی گھی کے چراغ بھی جلائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے لیے الگ سے مٹی کے کورے برتنوں کا انتظام و انصرام کیا جاتا ہے گویا کہ یہ تصور کیا گیا کہ ان چیزوں کے بغیر فاتحہ ہوگی ہی نہیں ۔ اب فاتحہ بھی کسی اندھیری جگہ پر دلائی جاتی ہے اور پھر جہاں فاتحہ ہو وہیں پر کھانا یا کھلانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
حالاں کہ یہ سب فضول اور بے کار باتیں ہیں شریعت میں اس طرح کے قید و بند کی کوئی شرط نہیں یہ لوگوں کے خود ساختہ قوانین ہیں کہ باوضو شخص ہی کونڈے کی نیاز کھا سکتا ہے اور جہاں فاتحہ ہو وہیں پر کھائے یہ سب فضول باتیں ہیں اور فاتحہ کے وقت گھی کا جو چراغ جلاتے ہیں وہ ناجائز و اسراف ہے ہاں اگر چراغ کی حاجت ہو تو تیل استعمال کر سکتے ہیں گھی کی کوئی ضرورت نہیں ۔
المختصر ان کے علاوہ اور بھی بہت ساری خلاف شرع رسمیں ہو سکتی ہیں جن کا ازالہ ہر دانا و بینا شخص پر لازم و واجب ہے۔ یاد رہے بائیس رجب کی فاتحہ کے احکام وہی ہیں جو عام بزرگانِ دین کے ایصال ثواب کا طریقہ سنیوں کے درمیان رائج ہے ۔
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
ماہ رجب میں حضرت جلال بخاری علیہ الرحمہ کے کونڈے ہوتے ہیں کہ چاول یا کھیر پکوا کر کونڈوں میں بھرتے ہیں اور فاتحہ دلا کر لوگوں کو کھلاتے ہیں یہ بھی جائز ہے، ہاں ایک بات مذموم ہے وہ یہ کہ جہاں کونڈے بھرے جاتے ہیں وہیں کھلاتے ہیں وہاں سے ہٹنے نہیں دیتے، یہ ایک لغو حرکت ہے مگر یہ جاہلوں کا طریق عمل ہے، پڑھے لکھے لوگوں میں یہ پابندی نہیں۔ اسی طرح ماہ رجب میں بعض جگہ حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو ایصالِ ثواب کے لیے پوریوں کے کونڈے بھرے جاتے ہیں یہ بھی جائز مگر اس میں بھی اسی جگہ کھانے کی بعضوں نے پابندی کر رکھی ہے یہ بے جا پابندی ہے۔ اس کونڈے کے متعلق ایک کتاب بھی ہے جس کا نام `داستانِ عجیب` ہے، اس موقع پر بعض لوگ اس کو پڑھواتے ہیں اس میں جو کچھ لکھا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں وہ نہ پڑھی جائے فاتحہ دلا کر ایصالِ ثواب کریں۔
(بہار شریعت ، ج: ٣، ح: ١٦، ص: ٦٤٦ دعوت اسلامی)
کونڈے کی نیاز کب کریں پندرہ رجب یا بائیس رجب کو ؟
یہ مسئلہ بھی اب عوام اہل سنت کے درمیان زیر بحث ہے جس کے باعث عوام الناس شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ آیا پندرہ رجب کو ہم کونڈے کی نیاز کریں یا بائیس رجب کو۔
 صحیح بات تو یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کی تاریخ وصال پندرہ رجب ہے
(شواہد النبوہ، ص: ٣٢٧، مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور ، مراۃ الاسرار ، ص: ١١٣)
اب چاہے پندرہ کو ایصال ثواب کریں یا آپ کے نام سے بائیس رجب کو نیاز دلائیں یہ کوئی شرعی تخصیص نہیں بلکہ یہ عرفی تخصیص ہے۔ اس لیے کہ بزرگوں کے نام سے کبھی بھی کسی بھی دن ایصال ثواب کرنا شرعاً جائز و درست ہے ۔
 ہاں عوام الناس میں جہاں جیسے عرف ہو وہاں اسی طرح وہ خلاف شرع چیزوں سے بچ کر نیاز دلوائیں اگر بائیس رجب کا عرف ہو تو بائیس کو ورنہ پندرہ کو، اختیار ہے شرعاً منع نہیں۔ البتہ مناسب یہ ہے کہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کے ایصال ثواب کے لیے ان کی تاریخ وصال یعنی ١٥ رجب کا لحاظ رکھا جائے اور جو لوگ بائیس رجب ہی کو نیاز دلانا چاہیں وہ ایصال ثواب کے وقت خلفائے راشدین اور حضرت امیر معاویہ کا نام خصوصی طور پر شامل کرلیں۔ اور کونڈوں کی فاتحہ میں جو طرح طرح کے زنانہ خیالات اور زنانہ رسمیں رائج ہیں وہ سب لغو اور بیہودہ ہیں ان جیسی بے اصل اور بے بنیاد رسموں سے اہل سنت کو سخت پرہیز لازم ہے ۔
  ہمارے بزرگوں کا یہ طریقہ رہا کہ وہ بائیس رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی نیاز دلواتے تھے ۔
جیسا کہ آپ حوالہ جات کے ذریعہ ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
اس مہینہ کی ٢٢ تاریخ کو ہند و پاک میں کونڈے ہوتے ہیں یعنی نئے کونڈے منگائے جاتے ہیں اور سوا پاؤ میدہ، سوا پاؤشکر، سوا پاؤگھی کی پوریاں بناکر حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی فاتحہ کرتے ہیں، اس رسم میں صرف دو خرابیاں پیدا کردی گئی ہیں ایک تو یہ کہ فاتحہ دلانے والوں کا عقیدہ یہ ہوگیا ہے اگر فاتحہ کے اوّل لکڑی والے کا قصہ نہ پڑھا جائے تو فاتحہ نہ ہوگی اور یہ پوریاں گھر سے باہر نہیں جاسکتیں اور بغیر نئے کونڈے کے یہ فاتحہ نہیں ہوسکتی، یہ سارے خیال غلط ہیں فاتحہ ہر کونڈے پر اور ہر برتن میں ہو جائے گی، اگر صرف زیادہ صفائی کے لئے نئے کونڈے منگا لیں تو حرج نہیں ، دوسری فاتحہ کے کھانوں کی طرح اس کو بھی باہر بھیجا جاسکتا ہے۔
(اسلامی زندگی ، ص: ٢٤، دعوت اسلامی)
 امام اہل سنت ابو الفضل محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد چشتی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: 
سیدنا حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ کی فاتحہ کے لیے 22 رجب کو کونڈے بھی شرعا جائز و خیر و برکت ہے مخالفین اہل سنت اس کو بلا دلیل بدعت قرار دیتے ہیں
(کونڈوں کی فضیلت بجواب کونڈوں کی حقیقت ص: ٧ جمیعت اشاعت اہل سنت پاکستان) 
 تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری میاں علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
عوام میں ٢٢ رجب ہی کی فاتحہ رائج و معمول ہے جس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے اور یہاں یہ بات بھی کچھ حرج کا باعث نہیں کہ شیعہ اس تاریخ کو فاتحہ کرتے ہیں کہ افعال مباحہ و حسنہ میں مشابہت ہو جانا کچھ مضائقہ نہیں رکھتا ہاں قصد تشبہ بہ شیعہ وغیرہم خود مذموم و ممنوع ہے۔ اور اگر کوئی بزعم مشابہت تاریخ مذکورہ کو کرے اختیار ہے۔
(فتاویٰ تاج الشریعہ، جديد ج: ٩، ص: ١٩٤/ ١٩٥ جامعۃ الرضا بریلی شریف)
`خلاصہ کلام` اگر پندرہ کو کونڈے کی نیاز کرنا چاہیں تب بھی کوئی حرج نہیں اور اگر بائیس کو کریں تب بھی منع نہیں لیکن جب بائس رجب المرجب کو نیاز دلوائیں تو امام جعفر صادق رضی المولیٰ عنہ کے ساتھ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص چاریار اور حضرت امیر معاویہ کا نام ضرور شامل کرلیں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍🏻 عبد اللطیف رضوی علیمی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area