رسول کریم ﷺ کی دست بوسی اور غوثِ اَکبَر سیدی امام رفاعی رحمۃُ اللہ علیہ
••────────••⊰❤️⊱••───────••
ولی کبیر و امام شہیر امام ثالث عشر حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو حضور سرور کائنات احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا اور اس واقعہ نے آپ کو تمام اولیاء میں ممتاز کر دیا، اور ہمارے سردار و رہبر سرور کائنات حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عظیم المرتبت اعزاز و اکرام حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو اللہ کے حکم سے مرحمت فرمایا یہ عظیم الشان اعزاز و اکرام صرف اور صرف سلطان سید احمد رفاعی کے لئے تھا اور یہ انتہائی منفرد اور یکتا واقعہ ہے جو حضرت رفاعی کے مقام بلند اور فضل عظیم کے لئے بیداری کا واقعہ حرف آخر کا حکم رکھتا ہے جو امام رفاعی کی شان عظیم کا گواہ ہے۔
دست بوسی کی کرامت پر تبصرہ کرتے ہوے حضرت سید رضی الدین الرشید المعروف لالہ میاں رفاعی شافعی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین مسند رفاعیہ کراچی پاکستان اپنی کتاب شان رفاعی میں لکھتے ہیں :
البنیان المشید اور دیگر کتابوں میں سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی کرامات کے ضمن میں اس عظیم الشان واقعہ کا بھی ذکر ہے، آپ کو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا، اور میں نے بھی اس کو کرامت ہی کے باب میں لکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص انعام الہی اور اکرام خداوندی ہے جو صرف آپ ہی کا حصہ تھا۔ عام طور پر کرامت اگر اولیاء اللہ کو تمام مومنین سے ممتاز کرتی ہے تو یہ وہ خاص الخاص کرامت ہے جو آپ کو تمام اولیاء اللہ سے ممتاز کرتی ہے۔ چنانچہ تمام علماے کرام و صوفیاے عظام و مشائخ با صفا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے بعد یہ فضیلت یعنی تقبیل ید المصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی) کا شرف کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عز و جل شانہ کو اپنے پیارے حبیب لبیب (ہماری جانیں قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) کے دست ضوفشاں و معجز نما سے اپنے خاص بندے یعنی حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ایک بے مثال نعمت و سعادت سے سرفراز فرماکر ان کی عظمت و مرتبت پر حجت و برہان قائم فرمانا تھا، تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق آپ کا تمام اولیاء اللہ کا سردار منتخب ہونا عیاں و ظاہر ہوجاے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ سے اپنے بندوں پر یہ واضح اور ظاہر کر دینا مقصود الہی تھا کہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حیاة النبی ہیں۔ تب ہی تو وہ دست معجز نما جو معطر نورانی پردوں میں مخفی ہو گیا تھا اور تقریبا ساڑھے پانچ سو برس کا زمانہ گزر چکا تھا۔ شیخ امام الاولیا سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو نعمت اور سعادت سے نوازنے کو مزار اقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جلوہ افروز ہوا اور عیاناً ظاہر ہوا، اور شیخ سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب و احترام سے اس دست روشن و معطر المعطر کا بوسہ لیا اور دیگر زائرین اور عاشقان جمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے دست اطہر الاطہر کی زیارت اور دیدار سے مشرف ہوے، اس سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مزار منور پاک و اقدس میں سید احمد کبیر رفاعی کی آواز سنی اور نہ صرف یہ کہ سماعت فرمائی بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرمایا۔
لہٰذا اس واقعہ سے ہمارا یقین دو بالا ہو جاتا ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آوازیں اور جو پوری عقیدت اور محبت و احترام اور باادب طریقے سے ہم درود و سلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجتے ہیں ان سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور سماعت فرماتے ہیں اور تحفہ درود و سلام قبول فرماتے ہیں۔ جب آپ ہماری آوازیں سماعت فرماتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم یا رسول اللہ ، یا، یا محمد کہہ کر آپ کو نہ پکاریں۔
معجزہ و کرامت عظمیٰ دست بوسی دست پر ضیا فخر موجودات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مزید تفصیلات لکھتے ہوے شان رفاعی میں رقمطراز ہیں:
سب سے زیادہ اعلیٰ عطیہ الہی اور سب سے زیادہ نادر اور مشہور کرامت آپ کی دست بوسی دست رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور اس مبارک واقعہ کو کثرت سے اور تواتر سے علماء و فضلا اور صوفیاء عظام نے بیان کیا ہے کہ اس کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی ضمن میں خاتم المحدثین امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی رحمتہ اللہ علیہ "الشرف المحتم فیما من اللہ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اللہ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم " میں لکھتے ہیں کہ "یہ بات معروف ہے کہ حضرت رفاعی کی یہ منقبت مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے ، اس کی سندیں عالی اور بلند مرتبہ ہیں اور اس کی روایتیں صحیح ہیں ، تمام راویوں کا اس کی صحت و صداقت پر اتفاق ہے ، اور اس کا انکار منافقت کی نشانیوں میں سے ہے۔ " اور "الشرف المحتم" میں علامہ عفیف الدین یافعی فرماتے ہیں کہ :
لہٰذا سیدی احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا قبر شریف سے باہر آنا بھی ممکن ہے اور اس میں یا تو کجی و گمرہی والا شبہ کرےگا یا ایسا منافق جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، اس صفت و خوبی یا اس کے مثل کا انکار سوے خاتمہ کا سبب ہوتا ہے، اللہ ہماری حفاظت فرماے، کیونکہ اس میں دائمی معجزہ اور کھلی کرامت کا انکار ہے۔
لہذا امام جلیل ضیاءالدین احمد وتری نے اپنی کتاب مناقب الصالحین میں اس واقعہ پر روشنی ڈالی ہے، علاوہ ازیں اس واقعہ کی تفصیل کو ائمہ کبار نے بھی اپنی اپنی تالیفات میں لکھا ہے، بعض بزرگوں نے مستقل طور سے اس کرامت کے ثبوت میں رسالے تصنیف کئے ہیں، امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تنویر اور الشرف المحتم فیما من اللہ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اللہ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں، امام احمد وتری نے روضتہ الناظرین میں ، سوادالعینین فی مناقب غوث ابوالعلمین میں امام عبدالکریم شافعی رافعی نے، امام الکبیر سید احمد صیادی رفاعی نے وظائف الاحمدیہ میں، حافظ امام تقی الدین واسطی نے تریاق المحبین طبقات خرقہ المشائخ میں اس کی تشریح ہے، شیخ الہمام حافظ محمد ابن قاسم واسطی نے اپنی کتاب بہجتہ الکبریٰ میں، شیخ عارف باللہ علی ابوالحسن ابن شیخ مقدام جمال الدین الخطیب الحدادی واسطی نے اپنی کتاب ربیع العاشقین میں، امام حافظ قاسم ابن ابی بکر ابن الحاج واسطی شافعی نے اپنی تصنیف ام البراھین میں، شیخ الکبیر المناوی نے اپنی کتاب طبقات الکواکب الدریة میں، شیخ عارف باللہ عطار نے اپنی کتاب تذکرہ میں، شیخ کبیر ابوبکر العیدروس الحسینی نے اپنی کتب النجم الساعی میں، علامہ سید ابوالقاسم البرزنجی نے اپنی کتاب اجابة الداعی میں، الحبرالجلیل علامہ خفاجی نے اپنی کتاب شرح شفا شریف میں، امام شعرانی نے اپنی کتاب مناقب الصالحین میں، شیخ الکبیر عارف باللہ الشیخ علی ابوالحسن الواسطی نے اپنی کتاب خزانة الاکسیر میں، علامہ کبیر ابن حماد الموصلی نے اپنی کتاب روضة الاعیان میں، علامہ عابد صالح عارف الشیخ عبدالمنعم العانی نزیل دمشق الشام نے قاموس لعاشقین میں، شیخ الجماعت امام الکبیر عارف باللہ سید سراج الدین رفاعی المخزومی قدس اللہ سرہ نے اپنی تصنیف صحاح الاخبار میں، علامہ مرشد نا سید محمد ابوالہدا صیادی رفاعی نے قلادة الجواہر فی مناقب غوث الرفاعی میں کنز المطلسم فی مدیدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور الفخر المخلد فی منقبة مدالید میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، شیخ عارف سید محمد العبد البحرینی الرفاعی نے لباب المعانی میں، عارف کامل شیخ صفی الدین مظفر نے اپنے قصیدہ نونیہ میں، امام عزالدین احمد فاروثی رفاعی نے ارشاد المسلمین میں اور صفوی نے نزہت المجالس میں، اور شیخ اجل شریف الکبیر ابن عبدالسمیع الہاشمی العباسی نے البرہان الموید کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اور لوگوں میں مدالید کا واقعہ کافی مشہور ہے اور یہ واقعہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے۔ عظیم علمی شخصیت اسرار و رموز کے ہار کے روشن موتی سعادت و سیادت کے زیور سے آراستہ سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی دست بوسی کا واقعہ ایسا عظیم ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ دوسرے واقعات سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ صاحب ام البراہین تحریر فرماتے ہیں کہ شیخ ابو حفص فاروثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم شیخ کبیر سید احمد بن ابی الحسن رفاعی کی مجلس میں موجود تھے، ان کے ارد گرد اکابرین کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی ۔ حضرت رفاعی کی بارگاہ میں عجیب و غریب اسرار و رموز اور علوم سے بات ہو رہی تھی اور شیخ ان کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ برہنہ سر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے اور کہا اللہ اکبر اللہ اکبر حق اور سچائی ظاہر ہو گئ ، اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ زرد پڑ گیا ، اور ایک کیفیت آپ پر طاری ہوگئ جب اس حالت سے اپنی اصلی حالت پر آے تو مزاج داں اصحاب نے اس وارد سماوی کی حقیقت کو دریافت کیا فرمایا کہ مجھے بارگاہ عالی سے حکم دیا گیا ہے کہ : ان یا احمد قم وزربیت اللہ الحرام و زرالنبی علیہ السلام ان ھناک دعوة من الرسول یوصلھا الیک فقل کل من فی المجلس سمعا و طاعة وانشد بعضھم یقول فی حضرة الشیخ ۔
مرنا بامر فانا لا نخالفہ
وحد حدا فانا عندہ نقف
ترجمہ : اے احمد کھڑے ہوجا اور بیت اللہ الحرام کی زیارت کر اور اپنے جد نبی کریم علیہ الصلواة والسلام کی زیارت کر اس لیے کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے لیے ایک امانت رکھی ہے جو تمھیں دی جائے گی ، اور تم جس کو چاہو اپنے ساتھ لے لو تو مجلس کے ہر فرد نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور طاعت کے لیے تیار ہیں اور بعض نے حضرت شیخ کی بارگاہ میں یہ شعر پڑھا۔
ہمیں جس بات کا چا ہے حکم دیں اس لیے کہ ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے اور ایک حد متعین فرما دیجئے تاکہ اس کے پاس ٹھہر جائیں۔
چنانچہ وہاں سے آپ بمع جماعت ام عبیدہ خانقاہ کو تشریف لاے، اور اسباب سفر تیار کرکے مع جماعت کثیر عازم حجاز ہوے، اور بہت سے لوگوں نے اس سفر مہں آپ کی ہمراہی کا ارادہ کیا اور اس قدر جمع ہوئے کہ صحراے واسط تنگ ہوگیا تھا اور اس میں جگہ نہیں رہی تھی۔
*دوران سفر آپ کا حال*
ارشادالمسلمین میں شیخ ماہان ابوالفتح عبادانی سے مروی ہے جو امام رفاعی کے خادم خاص تھے، اس دن سے کہ ہم ام عبیدہ سے روانہ ہوے آخر حج تک اور آخر زیارت روضہ منور نبوی علی صاحبہاالصلوة والسلام تک حضرت سلطان العارفین امام رفاعی نے نہ غزا کھائی نہ قضاے حاجت کے لئے گئے، ماہان کہتے ہیں میں نے اس معاملے میں امام رفاعی سے عرض کیا فرمانے لگے میرے فرزند ماہان ! جو کچھ تو نے دیکھا ہے اس کو پوشیدہ رکھ، میں اگر غزا کھاوں گا تو سستی مزاج پر غالب ہوگی اور حضرت حق تعالٰی کے لئے بے شمار فضل ہے، اس کے بعد اس آیت شریفہ کو پڑھا
(الذی ھو یطعمنی و یسقین)
اور اس حالت کے باوجود چہرہ مبارک سے نور چمکتا تھا ترک غزا سے کوئی تغیر حال شریف میں ظاہر نہ ہوا، میں اپنے دل میں اس حال کو دیکھ کر تعجب کر رہا تھا، آپ نے میرے تعجب کا حال معلوم کرلیا اور فرمایا اے ماہان ! تعجب مت کر، میں ایک ضعیف بشر ہوں اور خدا تعالی ضعیفوں کا دستگیر ہوتا ہے اور ضعیفوں کو خدا تعالی صبر عطا کرتا ہے اور ان کے کاموں کا محافظ اور نگراں رہتا ہے۔
ولی کبیر و امام شہیر امام ثالث عشر حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو حضور سرور کائنات احمد مجتبیٰ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا اور اس واقعہ نے آپ کو تمام اولیاء میں ممتاز کر دیا، اور ہمارے سردار و رہبر سرور کائنات حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عظیم المرتبت اعزاز و اکرام حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو اللہ کے حکم سے مرحمت فرمایا یہ عظیم الشان اعزاز و اکرام صرف اور صرف سلطان سید احمد رفاعی کے لئے تھا اور یہ انتہائی منفرد اور یکتا واقعہ ہے جو حضرت رفاعی کے مقام بلند اور فضل عظیم کے لئے بیداری کا واقعہ حرف آخر کا حکم رکھتا ہے جو امام رفاعی کی شان عظیم کا گواہ ہے۔
دست بوسی کی کرامت پر تبصرہ کرتے ہوے حضرت سید رضی الدین الرشید المعروف لالہ میاں رفاعی شافعی رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین مسند رفاعیہ کراچی پاکستان اپنی کتاب شان رفاعی میں لکھتے ہیں :
البنیان المشید اور دیگر کتابوں میں سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی کرامات کے ضمن میں اس عظیم الشان واقعہ کا بھی ذکر ہے، آپ کو حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کا شرف حاصل ہوا، اور میں نے بھی اس کو کرامت ہی کے باب میں لکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص انعام الہی اور اکرام خداوندی ہے جو صرف آپ ہی کا حصہ تھا۔ عام طور پر کرامت اگر اولیاء اللہ کو تمام مومنین سے ممتاز کرتی ہے تو یہ وہ خاص الخاص کرامت ہے جو آپ کو تمام اولیاء اللہ سے ممتاز کرتی ہے۔ چنانچہ تمام علماے کرام و صوفیاے عظام و مشائخ با صفا کا متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے بعد یہ فضیلت یعنی تقبیل ید المصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم (حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی) کا شرف کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ عز و جل شانہ کو اپنے پیارے حبیب لبیب (ہماری جانیں قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) کے دست ضوفشاں و معجز نما سے اپنے خاص بندے یعنی حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ایک بے مثال نعمت و سعادت سے سرفراز فرماکر ان کی عظمت و مرتبت پر حجت و برہان قائم فرمانا تھا، تاکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق آپ کا تمام اولیاء اللہ کا سردار منتخب ہونا عیاں و ظاہر ہوجاے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اس واقعہ سے اپنے بندوں پر یہ واضح اور ظاہر کر دینا مقصود الہی تھا کہ حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حیاة النبی ہیں۔ تب ہی تو وہ دست معجز نما جو معطر نورانی پردوں میں مخفی ہو گیا تھا اور تقریبا ساڑھے پانچ سو برس کا زمانہ گزر چکا تھا۔ شیخ امام الاولیا سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کو نعمت اور سعادت سے نوازنے کو مزار اقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جلوہ افروز ہوا اور عیاناً ظاہر ہوا، اور شیخ سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب و احترام سے اس دست روشن و معطر المعطر کا بوسہ لیا اور دیگر زائرین اور عاشقان جمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے دست اطہر الاطہر کی زیارت اور دیدار سے مشرف ہوے، اس سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہو گیا کہ حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مزار منور پاک و اقدس میں سید احمد کبیر رفاعی کی آواز سنی اور نہ صرف یہ کہ سماعت فرمائی بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرمایا۔
لہٰذا اس واقعہ سے ہمارا یقین دو بالا ہو جاتا ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہماری آوازیں اور جو پوری عقیدت اور محبت و احترام اور باادب طریقے سے ہم درود و سلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجتے ہیں ان سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ضرور سماعت فرماتے ہیں اور تحفہ درود و سلام قبول فرماتے ہیں۔ جب آپ ہماری آوازیں سماعت فرماتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم یا رسول اللہ ، یا، یا محمد کہہ کر آپ کو نہ پکاریں۔
معجزہ و کرامت عظمیٰ دست بوسی دست پر ضیا فخر موجودات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مزید تفصیلات لکھتے ہوے شان رفاعی میں رقمطراز ہیں:
سب سے زیادہ اعلیٰ عطیہ الہی اور سب سے زیادہ نادر اور مشہور کرامت آپ کی دست بوسی دست رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور اس مبارک واقعہ کو کثرت سے اور تواتر سے علماء و فضلا اور صوفیاء عظام نے بیان کیا ہے کہ اس کی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اسی ضمن میں خاتم المحدثین امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی رحمتہ اللہ علیہ "الشرف المحتم فیما من اللہ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اللہ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم " میں لکھتے ہیں کہ "یہ بات معروف ہے کہ حضرت رفاعی کی یہ منقبت مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے ، اس کی سندیں عالی اور بلند مرتبہ ہیں اور اس کی روایتیں صحیح ہیں ، تمام راویوں کا اس کی صحت و صداقت پر اتفاق ہے ، اور اس کا انکار منافقت کی نشانیوں میں سے ہے۔ " اور "الشرف المحتم" میں علامہ عفیف الدین یافعی فرماتے ہیں کہ :
لہٰذا سیدی احمد ابن رفاعی رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کا قبر شریف سے باہر آنا بھی ممکن ہے اور اس میں یا تو کجی و گمرہی والا شبہ کرےگا یا ایسا منافق جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، اس صفت و خوبی یا اس کے مثل کا انکار سوے خاتمہ کا سبب ہوتا ہے، اللہ ہماری حفاظت فرماے، کیونکہ اس میں دائمی معجزہ اور کھلی کرامت کا انکار ہے۔
لہذا امام جلیل ضیاءالدین احمد وتری نے اپنی کتاب مناقب الصالحین میں اس واقعہ پر روشنی ڈالی ہے، علاوہ ازیں اس واقعہ کی تفصیل کو ائمہ کبار نے بھی اپنی اپنی تالیفات میں لکھا ہے، بعض بزرگوں نے مستقل طور سے اس کرامت کے ثبوت میں رسالے تصنیف کئے ہیں، امام جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تنویر اور الشرف المحتم فیما من اللہ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اللہ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں، امام احمد وتری نے روضتہ الناظرین میں ، سوادالعینین فی مناقب غوث ابوالعلمین میں امام عبدالکریم شافعی رافعی نے، امام الکبیر سید احمد صیادی رفاعی نے وظائف الاحمدیہ میں، حافظ امام تقی الدین واسطی نے تریاق المحبین طبقات خرقہ المشائخ میں اس کی تشریح ہے، شیخ الہمام حافظ محمد ابن قاسم واسطی نے اپنی کتاب بہجتہ الکبریٰ میں، شیخ عارف باللہ علی ابوالحسن ابن شیخ مقدام جمال الدین الخطیب الحدادی واسطی نے اپنی کتاب ربیع العاشقین میں، امام حافظ قاسم ابن ابی بکر ابن الحاج واسطی شافعی نے اپنی تصنیف ام البراھین میں، شیخ الکبیر المناوی نے اپنی کتاب طبقات الکواکب الدریة میں، شیخ عارف باللہ عطار نے اپنی کتاب تذکرہ میں، شیخ کبیر ابوبکر العیدروس الحسینی نے اپنی کتب النجم الساعی میں، علامہ سید ابوالقاسم البرزنجی نے اپنی کتاب اجابة الداعی میں، الحبرالجلیل علامہ خفاجی نے اپنی کتاب شرح شفا شریف میں، امام شعرانی نے اپنی کتاب مناقب الصالحین میں، شیخ الکبیر عارف باللہ الشیخ علی ابوالحسن الواسطی نے اپنی کتاب خزانة الاکسیر میں، علامہ کبیر ابن حماد الموصلی نے اپنی کتاب روضة الاعیان میں، علامہ عابد صالح عارف الشیخ عبدالمنعم العانی نزیل دمشق الشام نے قاموس لعاشقین میں، شیخ الجماعت امام الکبیر عارف باللہ سید سراج الدین رفاعی المخزومی قدس اللہ سرہ نے اپنی تصنیف صحاح الاخبار میں، علامہ مرشد نا سید محمد ابوالہدا صیادی رفاعی نے قلادة الجواہر فی مناقب غوث الرفاعی میں کنز المطلسم فی مدیدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور الفخر المخلد فی منقبة مدالید میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، شیخ عارف سید محمد العبد البحرینی الرفاعی نے لباب المعانی میں، عارف کامل شیخ صفی الدین مظفر نے اپنے قصیدہ نونیہ میں، امام عزالدین احمد فاروثی رفاعی نے ارشاد المسلمین میں اور صفوی نے نزہت المجالس میں، اور شیخ اجل شریف الکبیر ابن عبدالسمیع الہاشمی العباسی نے البرہان الموید کے مقدمہ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ اور لوگوں میں مدالید کا واقعہ کافی مشہور ہے اور یہ واقعہ پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے۔ عظیم علمی شخصیت اسرار و رموز کے ہار کے روشن موتی سعادت و سیادت کے زیور سے آراستہ سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ کی دست بوسی کا واقعہ ایسا عظیم ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ دوسرے واقعات سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ صاحب ام البراہین تحریر فرماتے ہیں کہ شیخ ابو حفص فاروثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم شیخ کبیر سید احمد بن ابی الحسن رفاعی کی مجلس میں موجود تھے، ان کے ارد گرد اکابرین کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی ۔ حضرت رفاعی کی بارگاہ میں عجیب و غریب اسرار و رموز اور علوم سے بات ہو رہی تھی اور شیخ ان کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ برہنہ سر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے اور کہا اللہ اکبر اللہ اکبر حق اور سچائی ظاہر ہو گئ ، اور آپ کے چہرہ مبارک کا رنگ زرد پڑ گیا ، اور ایک کیفیت آپ پر طاری ہوگئ جب اس حالت سے اپنی اصلی حالت پر آے تو مزاج داں اصحاب نے اس وارد سماوی کی حقیقت کو دریافت کیا فرمایا کہ مجھے بارگاہ عالی سے حکم دیا گیا ہے کہ : ان یا احمد قم وزربیت اللہ الحرام و زرالنبی علیہ السلام ان ھناک دعوة من الرسول یوصلھا الیک فقل کل من فی المجلس سمعا و طاعة وانشد بعضھم یقول فی حضرة الشیخ ۔
مرنا بامر فانا لا نخالفہ
وحد حدا فانا عندہ نقف
ترجمہ : اے احمد کھڑے ہوجا اور بیت اللہ الحرام کی زیارت کر اور اپنے جد نبی کریم علیہ الصلواة والسلام کی زیارت کر اس لیے کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمہارے لیے ایک امانت رکھی ہے جو تمھیں دی جائے گی ، اور تم جس کو چاہو اپنے ساتھ لے لو تو مجلس کے ہر فرد نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور طاعت کے لیے تیار ہیں اور بعض نے حضرت شیخ کی بارگاہ میں یہ شعر پڑھا۔
ہمیں جس بات کا چا ہے حکم دیں اس لیے کہ ہم اس کی مخالفت نہیں کریں گے اور ایک حد متعین فرما دیجئے تاکہ اس کے پاس ٹھہر جائیں۔
چنانچہ وہاں سے آپ بمع جماعت ام عبیدہ خانقاہ کو تشریف لاے، اور اسباب سفر تیار کرکے مع جماعت کثیر عازم حجاز ہوے، اور بہت سے لوگوں نے اس سفر مہں آپ کی ہمراہی کا ارادہ کیا اور اس قدر جمع ہوئے کہ صحراے واسط تنگ ہوگیا تھا اور اس میں جگہ نہیں رہی تھی۔
*دوران سفر آپ کا حال*
ارشادالمسلمین میں شیخ ماہان ابوالفتح عبادانی سے مروی ہے جو امام رفاعی کے خادم خاص تھے، اس دن سے کہ ہم ام عبیدہ سے روانہ ہوے آخر حج تک اور آخر زیارت روضہ منور نبوی علی صاحبہاالصلوة والسلام تک حضرت سلطان العارفین امام رفاعی نے نہ غزا کھائی نہ قضاے حاجت کے لئے گئے، ماہان کہتے ہیں میں نے اس معاملے میں امام رفاعی سے عرض کیا فرمانے لگے میرے فرزند ماہان ! جو کچھ تو نے دیکھا ہے اس کو پوشیدہ رکھ، میں اگر غزا کھاوں گا تو سستی مزاج پر غالب ہوگی اور حضرت حق تعالٰی کے لئے بے شمار فضل ہے، اس کے بعد اس آیت شریفہ کو پڑھا
(الذی ھو یطعمنی و یسقین)
اور اس حالت کے باوجود چہرہ مبارک سے نور چمکتا تھا ترک غزا سے کوئی تغیر حال شریف میں ظاہر نہ ہوا، میں اپنے دل میں اس حال کو دیکھ کر تعجب کر رہا تھا، آپ نے میرے تعجب کا حال معلوم کرلیا اور فرمایا اے ماہان ! تعجب مت کر، میں ایک ضعیف بشر ہوں اور خدا تعالی ضعیفوں کا دستگیر ہوتا ہے اور ضعیفوں کو خدا تعالی صبر عطا کرتا ہے اور ان کے کاموں کا محافظ اور نگراں رہتا ہے۔
(تذکار انفع اردو ترجمہ الاصول الاربع فی طریق الغوث الرفاعی الاربع، ص: 46)
حضرت ولی اللہ العارف باللہ القطب الجلیل السید ہاشم الاحمدی العبدلی الرفاعی الحسینی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 630ھ) اپنی کتاب غنیمتہ الفریقین من حکم الغوث الرفاعی ابی العلمین میں لکھتے ہیں کہ یہ مشہور واقعہ 17/محرم الحرام 555ھ بروز جمعرات بعد نماز عصر پیش آیا۔
نوٹ: صاحب کتاب بزرگ حضرت امام رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کے چچا زاد بھائی اور خلیفہ ہیں۔ آپ اس واقعہ کے وقت دست مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے والوں میں شامل تھے۔
امام الکبیر سید احمد عزالدین صیادی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
کان ذالک بعد صلاة العصر یوم الخمیس۔
حضرت ولی اللہ العارف باللہ القطب الجلیل السید ہاشم الاحمدی العبدلی الرفاعی الحسینی رحمتہ اللہ علیہ (متوفی 630ھ) اپنی کتاب غنیمتہ الفریقین من حکم الغوث الرفاعی ابی العلمین میں لکھتے ہیں کہ یہ مشہور واقعہ 17/محرم الحرام 555ھ بروز جمعرات بعد نماز عصر پیش آیا۔
نوٹ: صاحب کتاب بزرگ حضرت امام رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کے چچا زاد بھائی اور خلیفہ ہیں۔ آپ اس واقعہ کے وقت دست مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے والوں میں شامل تھے۔
امام الکبیر سید احمد عزالدین صیادی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
کان ذالک بعد صلاة العصر یوم الخمیس۔
( المعارف المحمدیہ ،ص: 34)
ترجمہ: "دن پنجشبنہ اور وقت عصر کا تھا"
دست بوسی :
امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی رحمتہ اللہ علیہ " الشرف المحتم " میں لکھتے ہیں :
ہم سے ہمارے شیخ ، شیخ السلام کمال الدین امام کاملیہ نے روایت کی ہے، انہوں نے ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ شیخ شمس الدین جزری سے ، انہوں نے اپنے شیخ امام زین الدین مراغی سے انہوں نے شیخ الشیوخ شجاع و محدث و واعظ و فقیہ و مقرر و مفسر ، امام و مقتدا و حجت شیخ عزالدین احمد فاروثی سے انہوں نے اپنے والد استاد اصیل علامہ جلیل شیخ ابو اسحاق فقراے ابراہیم فاروثی سے ، اور انہوں نے اپنے والد امام فقہا و محدثین شیخ فقراے اکابرین و علماے عاملین شیخ عزالدین عمر ابوالفرج فاروثی واسطی قدس سرھم اجمعین سے روایت فرماتے ہیں کہ 555 ھ کے حج میں میں اپنے شیخ و ملجا اور اپنے سردار ابوالعباس قطب و غوث شیخ سید احمد رفاعی حسینی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا، اس سال آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی ۔
اس سال بہت زیادہ تعداد میں مدینہ منورہ، ملک شام، عراق، یمن، ترکستان، مصر اور عجم و ایران اور ہند وغیرہ سے لوگ حج اور زیارت بیت اللہ کو مکہ مکرمہ میں آے ہوے تھے۔
الشیخ سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ بعد فارغ ہونے حج بیت اللہ کے مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اپنی سواری سے اتر گئے، اور پیادہ پا برہنہ وقار و عظمت کے ساتھ آہستہ اور قدم بقدم چلتے ہوئے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تشریف فرماہوے اس وقت مدینہ منورہ میں عشاقان جمال محمدی کی تعداد نوےہزار سے زیادہ تھی۔
حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ بعد نماز عصر حرم اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئے ۔ تمام زوّار حرم مبارک کے اطراف و جوانب جمع تھے۔ امام احمد کبیر رفاعی نے مزار اطہر و منور کے قریب ہوکر نہایت عجز و انکسار و خاکساری سے تحفہ سلام بلند آواز سے ان لفظوں میں پیش کیا۔
السلام علیک یا جدی
یعنی آپ پر سلام ہو اے میرے نان جان
جواب میں مزار مقدس نبوی سے اسی وقت ازروے انعام و مرحمت ارشاد ہوا۔
وعلیکم السلام یا ولدی
اے میرے بیٹے تم پر بھی سلامتی ہو
اور اس جواب کو مسجد نبوی میں موجود ہر شخص نے سنا ، سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اس درجہ انعام و اکرام اور نعمت عظمٰی کے ہونے کے باعث سید احمد کبیر رفاعی پر بہ سبب غایت ذوق و شوق کے حالت وجد و جزب طاری ہوگیا ، آپ تھرا اٹھے ، آپ کا رنگ زرد پڑ گیا ، گریہ وزاری کرتے ہوے گھٹنے کے بل کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ طاقت کھڑے رہنے کی نہ رہی ، اور دیر تک سسکیاں لیتے رہے بعد ایک لمحہ کے مزار اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور زیادہ قریب ہوکر نہایت عجز و فروتنی سے عرض کیا اے جد کریم !
فی حالة البعد روحی کنت ارسلھا
تقبل الارض عنی وھی نائبتی
وھذہ دولة الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بھا شفتی
ترجمہ: اے جد کریم! دوری کی حالت میں، میں اپنی روح و خیال کو بھیجا کرتا تھا، جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دور افتادہ خود دردولت پر حاضر ہے لہٰذا آپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میرے لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں۔
سبحان اللہ کیا نوازش و اکرام حضور رسول خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت سید احمد کبیر رفاعی پر ہیں کہ ہنوز یہ اشعار تمام نہ ہونے پاے تھے کہ مزار رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا دست معجز نما پر ضیاء چمکتا ہوا دست مبارک قبر انور شریف سے باہر نکالا ، جسے نوے ہزار زائرین کے ہجوم میں شیخ احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نہایت ادب و احترام سے دست اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا۔ یہ سارے لوگ دست مبارک کو دیکھ رہے تھے، دست منور پھر قبر شریف میں مخفی ہو گیا۔
صاحب ام البراھین مزید تحریر فرماتے ہیں :
السلام علیک یا جداہ فقال لہ من داخل الحجرة وعلیک السلام یا ولدی وانشق تابوت الرسالة ومدیدہ الشریفة صلی اللہ علیہ وسلم فقبلھا وبابیعہ بیعة کلیة وامرہ بلبس الشاش الاسودوان یصعد علی المنبر الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان یعظ الناس ، وقال لہ ثانیا لقد نفع اللہ بک اھل السماء واھل الارض وھذہ البیعة متصلة بک وبذریتک الی یوم القیامة۔(ص: 132)
ترجمہ : اور پھر حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ نے عرض کیا کہ اے میرے نانا جان ! آپ پر سلامتی ہو۔ تو حجرہ اقدس کے اندر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے ! تجھ پر بھی سلامتی ہو ، قبر انور شق ہو گئی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس آگے بڑھایا، تو حضرت امام رفاعی نے اس کا بوسہ لیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کامل بیعت کی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو کالا اونی کپڑا پہننے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ منبر پر چڑھ کر لوگوں کو نصیحت کرو ، پھر فرمایا کہ الله تعالیٰ تم سے زمین و آسمان کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے گا، اور یہ بیعت قیامت تک تم سے اور تمہاری اولاد سے متصل رہے گی۔
اس مبارک واقعہ میں کئ طرح سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الحمتہ والرضوان کی عظمت شان پر دلالت ہورہی ہے۔
(1) حضور سیدالانبیاء والمرسلین کا یا ولدی (بیٹا) فرمانا اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ آپ اولاد رسول میں سے ہیں، صحیح النسب سید ہیں۔ آپ کی سیادت میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔
(2) حضور کا اپنے دست اقدس کا باہر نکالنا اور آپ کا اس کو بوسہ دینا یہ بھی بڑی نعمت اور سعادت ہے جو ہر کسی کو نہیں ملتی۔
(3) منبر شریف پر چڑھ کر لوگوں کو وعظ کہنے کا حکم یہ بھی بہت بڑا شرف ہے۔
(4) آپ کو براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل بیعت حاصل ہوئی۔ اس بیعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متصل فرمایا اور اس اتصال کا سلسلہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ کے زریعہ اور آپ کی زریت کے زریعہ قیامت تک جاری رہےگا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی اولاد کا سلسلہ قیامت تک باقی رہےگا۔
(5) حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی گواہی دی کہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ کی ذات سے اہل آسمان اور اہل زمیں کو نفع پہنچا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت میں اتنی برکت دی کہ آپ کی اولاد دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل گئ اور وہاں رفاعی خانقاہیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوئیں ، بڑے بڑے جلیل القدر مشائخ پیدا ہوے۔
علامہ سید محمود سامرائی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"فقبلھا علی مشھد عظیم من حجاج ذالک العام۔
ترجمہ: "دن پنجشبنہ اور وقت عصر کا تھا"
دست بوسی :
امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی رحمتہ اللہ علیہ " الشرف المحتم " میں لکھتے ہیں :
ہم سے ہمارے شیخ ، شیخ السلام کمال الدین امام کاملیہ نے روایت کی ہے، انہوں نے ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ شیخ شمس الدین جزری سے ، انہوں نے اپنے شیخ امام زین الدین مراغی سے انہوں نے شیخ الشیوخ شجاع و محدث و واعظ و فقیہ و مقرر و مفسر ، امام و مقتدا و حجت شیخ عزالدین احمد فاروثی سے انہوں نے اپنے والد استاد اصیل علامہ جلیل شیخ ابو اسحاق فقراے ابراہیم فاروثی سے ، اور انہوں نے اپنے والد امام فقہا و محدثین شیخ فقراے اکابرین و علماے عاملین شیخ عزالدین عمر ابوالفرج فاروثی واسطی قدس سرھم اجمعین سے روایت فرماتے ہیں کہ 555 ھ کے حج میں میں اپنے شیخ و ملجا اور اپنے سردار ابوالعباس قطب و غوث شیخ سید احمد رفاعی حسینی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھا، اس سال آپ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی ۔
اس سال بہت زیادہ تعداد میں مدینہ منورہ، ملک شام، عراق، یمن، ترکستان، مصر اور عجم و ایران اور ہند وغیرہ سے لوگ حج اور زیارت بیت اللہ کو مکہ مکرمہ میں آے ہوے تھے۔
الشیخ سیدنا احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ بعد فارغ ہونے حج بیت اللہ کے مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اپنی سواری سے اتر گئے، اور پیادہ پا برہنہ وقار و عظمت کے ساتھ آہستہ اور قدم بقدم چلتے ہوئے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک تشریف فرماہوے اس وقت مدینہ منورہ میں عشاقان جمال محمدی کی تعداد نوےہزار سے زیادہ تھی۔
حضرت سید احمد کبیر رفاعی رضی اللہ عنہ بعد نماز عصر حرم اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل ہوئے ۔ تمام زوّار حرم مبارک کے اطراف و جوانب جمع تھے۔ امام احمد کبیر رفاعی نے مزار اطہر و منور کے قریب ہوکر نہایت عجز و انکسار و خاکساری سے تحفہ سلام بلند آواز سے ان لفظوں میں پیش کیا۔
السلام علیک یا جدی
یعنی آپ پر سلام ہو اے میرے نان جان
جواب میں مزار مقدس نبوی سے اسی وقت ازروے انعام و مرحمت ارشاد ہوا۔
وعلیکم السلام یا ولدی
اے میرے بیٹے تم پر بھی سلامتی ہو
اور اس جواب کو مسجد نبوی میں موجود ہر شخص نے سنا ، سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اس درجہ انعام و اکرام اور نعمت عظمٰی کے ہونے کے باعث سید احمد کبیر رفاعی پر بہ سبب غایت ذوق و شوق کے حالت وجد و جزب طاری ہوگیا ، آپ تھرا اٹھے ، آپ کا رنگ زرد پڑ گیا ، گریہ وزاری کرتے ہوے گھٹنے کے بل کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ طاقت کھڑے رہنے کی نہ رہی ، اور دیر تک سسکیاں لیتے رہے بعد ایک لمحہ کے مزار اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اور زیادہ قریب ہوکر نہایت عجز و فروتنی سے عرض کیا اے جد کریم !
فی حالة البعد روحی کنت ارسلھا
تقبل الارض عنی وھی نائبتی
وھذہ دولة الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بھا شفتی
ترجمہ: اے جد کریم! دوری کی حالت میں، میں اپنی روح و خیال کو بھیجا کرتا تھا، جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دور افتادہ خود دردولت پر حاضر ہے لہٰذا آپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میرے لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں۔
سبحان اللہ کیا نوازش و اکرام حضور رسول خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت سید احمد کبیر رفاعی پر ہیں کہ ہنوز یہ اشعار تمام نہ ہونے پاے تھے کہ مزار رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کا دست معجز نما پر ضیاء چمکتا ہوا دست مبارک قبر انور شریف سے باہر نکالا ، جسے نوے ہزار زائرین کے ہجوم میں شیخ احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر نہایت ادب و احترام سے دست اطہر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا۔ یہ سارے لوگ دست مبارک کو دیکھ رہے تھے، دست منور پھر قبر شریف میں مخفی ہو گیا۔
صاحب ام البراھین مزید تحریر فرماتے ہیں :
السلام علیک یا جداہ فقال لہ من داخل الحجرة وعلیک السلام یا ولدی وانشق تابوت الرسالة ومدیدہ الشریفة صلی اللہ علیہ وسلم فقبلھا وبابیعہ بیعة کلیة وامرہ بلبس الشاش الاسودوان یصعد علی المنبر الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان یعظ الناس ، وقال لہ ثانیا لقد نفع اللہ بک اھل السماء واھل الارض وھذہ البیعة متصلة بک وبذریتک الی یوم القیامة۔(ص: 132)
ترجمہ : اور پھر حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ نے عرض کیا کہ اے میرے نانا جان ! آپ پر سلامتی ہو۔ تو حجرہ اقدس کے اندر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے ! تجھ پر بھی سلامتی ہو ، قبر انور شق ہو گئی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست اقدس آگے بڑھایا، تو حضرت امام رفاعی نے اس کا بوسہ لیا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے کامل بیعت کی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو کالا اونی کپڑا پہننے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ منبر پر چڑھ کر لوگوں کو نصیحت کرو ، پھر فرمایا کہ الله تعالیٰ تم سے زمین و آسمان کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے گا، اور یہ بیعت قیامت تک تم سے اور تمہاری اولاد سے متصل رہے گی۔
اس مبارک واقعہ میں کئ طرح سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی علیہ الحمتہ والرضوان کی عظمت شان پر دلالت ہورہی ہے۔
(1) حضور سیدالانبیاء والمرسلین کا یا ولدی (بیٹا) فرمانا اس بات کی ٹھوس دلیل ہے کہ آپ اولاد رسول میں سے ہیں، صحیح النسب سید ہیں۔ آپ کی سیادت میں شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔
(2) حضور کا اپنے دست اقدس کا باہر نکالنا اور آپ کا اس کو بوسہ دینا یہ بھی بڑی نعمت اور سعادت ہے جو ہر کسی کو نہیں ملتی۔
(3) منبر شریف پر چڑھ کر لوگوں کو وعظ کہنے کا حکم یہ بھی بہت بڑا شرف ہے۔
(4) آپ کو براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل بیعت حاصل ہوئی۔ اس بیعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے متصل فرمایا اور اس اتصال کا سلسلہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ کے زریعہ اور آپ کی زریت کے زریعہ قیامت تک جاری رہےگا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی اولاد کا سلسلہ قیامت تک باقی رہےگا۔
(5) حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی گواہی دی کہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی قدس سرہ کی ذات سے اہل آسمان اور اہل زمیں کو نفع پہنچا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت میں اتنی برکت دی کہ آپ کی اولاد دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل گئ اور وہاں رفاعی خانقاہیں اللہ کے ذکر سے آباد ہوئیں ، بڑے بڑے جلیل القدر مشائخ پیدا ہوے۔
علامہ سید محمود سامرائی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
"فقبلھا علی مشھد عظیم من حجاج ذالک العام۔
(المجالس الرفاعیہ، ص: 26)
ترجمہ: "حاضرین حجاج کی بڑی تعداد کے روبرو آپ نے دست بوسی کی"
جس وقت یہ واقعہ ظہور میں آیا اس وقت بارگاہ رسالت میں نوے ہزار (90 ہزار) عاشقان جمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم و مشتاقان روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مجمع موجود تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو بنظر خود دیکھا، اور سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
صاحب المجموعتہ الصغریٰ لکھتے ہیں:
"قبلھا فی ملاء من تسعین الف رجل والناس ینظرون یدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسمعون کلامہ" (المجموعتہ الصغریٰ، ص: 7)
ترجمہ: "آپ نے نوے ہزار حاضرین کے سامنے دست بوسی کی اور لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازِ مبارک کو سن رہے تھے۔"
اکابر شیوخ کا آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا
"ارشاد المسلمین" میں لکھا ہے کہ اس کرامت کے ظاہر ہونے کے وقت حرم مقدس نبوی علی ساکنہ الف الف صلوة و سلام میں اکابر وقت میں بڑے مراتب والے مشائخ کرام و اولیائے عظام اور علماء و صوفیہ بھی موجود تھے مثلا حضرت عدی ابن مسافر الاموی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ عبدالرزاق الحسینی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ احمد زعفرانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت حیات بن قیس حرانی رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ خمیس رحمتہ اللہ علیہ موجود تھے علاوہ ان اولیائے کرام کے حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نوراللہ مرقدہ اور حضرت شیخ احمد زاہد انصاری اور حضرت شیخ شرف الدین ابوطالب بن عبدالسمیع ہاشمی عباسی رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے ۔علاوہ اور بھی مشائخ اور اولیاء حاضر تھے جو تمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست منور کی زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔
اکابر وقت میں سے شیخ حیات بن قیس الحرانی ، شیخ عدی بن مسافر الاموی اور شیخ عقیل المنجی رحمتہ اللہ علیہم ان تینوں مشائخ نے اسی روز شیخ امام رفاعی کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا خرقہ پہن کر آپ کے حلقہ اصحاب و مریدین میں داخل ہوئے۔ وہ تمام حضرات بھی حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس آثار دست مبارک کے دیدار سے مشرف ہوے، اس نعمت عظمٰی کے حصول کے بعد (جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلطان العارفین سید احمد رفاعی کے بلند مراتب کو بلند فرمایا) مزکورہ بزرگوں نے سلطان العارفین امام رفاعی سے بیعت کی اور خود بھی سلطان العارفین امام رفاعی کی مشخیت کا اقرار کیا بلکہ اپنے متبعین کے لئے بھی اقرار کیا۔(انتہی مافی ارشادالمسلمین)
شیخ عبدالسمیع ہاشمی واسطی اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ
"جب واپسی کا وقت قریب ہوا تو آپ روضہ اقدس کی دہلیز پر لیٹ گئے اور حاضرین کو قسم دے دی کہ میری گردن پر سے باہر نکلیں، عوام نے تو ایسا ہی کیا، مگر خواص دوسری طرف سے نکل گئے، میں حضرت رفاعی کے پاس ہی تھا وہ رو رہے تھے اور فرما رہے تھے یا اللہ میرے ایمان اور تیری معرفت اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان میں اضافہ فرما"۔(المعارف المحمدیہ، ص: 49)
یہ نعمت پُر سعادت کا کیا انعام عطا ہوا جو نہ کسی کی آنکھوں نے دیکھا اور نہ کسی کے کانوں نے سنا۔ وہ دینے والا جانے، لینے والا جانے اور اللہ جانے اس دست بوسی کی صنو وضیا سے جو حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ہوئی۔ بڑے بڑے آفتاب ولایت ماند پڑ گئے۔ بلکہ اس دست بوسی کی کرامت پُر سعادت پر فرشتے اور ملائکتہ الاعلی کو رشک ہوا۔
شیخ امام الاولیاء سید احمد کبیر رفاعی کے خادم علی بن موہوب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ دست مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو میرے شیخ امام رفاعی کے لئے مزار مقدس و منور نبوی سے جلوہ افروز ہوا جو میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ دست اطہر نہایت خوشنما، سفیدرنگ، دراز انگلیوں والا، پر ضیاء، برق و بجلی سے زیادہ چمکتا ہوا، روشن اور پرانوار اور معطر المعطر اور بے مثال تھا۔ دست مطہر کا ظہور میں آنا تھا کہ حرم شریف تہ و بالا ہوگیا اور لوگوں میں گویا قیامت برپا ہوگئی، اور ایک ہیبت و دہشت و رعب و دبدبہ سلطان محمدی دلوں پر طاری ہوگیا۔ اور مسجد نبوی تمام روشن و منور و معطر ہوگئی گویا خوشبو اور نور کی بارش ہو رہی تھی۔ چاروں طرف سے آواز اللہ اکبر کی بلند ہوئی اور تمام حضرین کے لبوں پر درود شریف جاری و ساری ہوگیا۔
شیخ محمد علی نے ان سے شیخ ابی الرجال یونینی بعلبکی نے، ان سے شیخ عبداللہ بطائحی قادری نے، ان سے شیخ علی بن ادریس یعقوبی نے اور ان سے ان کے شیخ قطب یگانہ و غوث زمانہ شیخ عبدالقادر جیلی بغدادی نے روایت کیا ہے، فرمایا کہ اس محفل کرامت میں میں بھی موجود تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کے زریعہ شیخ احمد کبیر رفاعی کی کرامت و بزرگی کا اظہار کیا، اور انعام الہی سے عالی مرتبہ نصیب ہوا، یعقوبی کہتے ہیں میں نے اپنے شیخ حضرت جیلانی سے عرض کیا: حضور حاضرین کو اس کرامت و بزرگی سے حسد نہیں ہوا تو یہ سوال سن کر حضرت غوث صمدانی رونے لگے اور جواب دیا اے ابن ادریس اس کرامت پر سعادت پر ملا اعلی (فرشتوں) نے بھی رشک کیا ہے ، ایک اور طریقے سے مجھ سے امام قوصی نے بیان کیا ہے ، ان سے شیخ قطب الدین خزانچی نے ، ان سے شیخ رکن الدین سنجاری نے ، ان سے ان کے شیخ عدی بن مسافر نے اور ان کے خادم شیخ علی بن موھب نے بیان کیا ہے، دونوں فرماتے ہیں کہ
حج والے سال ہم مسجد نبوی میں تھے تو دیکھا کہ شیخ احمد بن رفاعی رضی اللہ عنہ حجرہ طیبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں اور کچھ عرض کر رہے ہیں جسے بہت سے حضرات نے یاد رکھا اور نقل کیا ہے اور جیسے ہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی فورا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک قبر شریف سے باہر نکلا اور شیخ رفاعی نے اس کا بوسہ دیا ، ہم جملہ حاضرین کے ساتھ اس ( روح پرور اور ایمان افروز ) منظر کو دیکھ رہے تھے (شیخ عدی کے خادم ) ابن موہوب کہتے ہیں کہ : خدا کی قسم ! گویا اب بھی وہ نظارہ میرے سامنے ہے، جب سفید گورا معتدل ہاتھ قبر مبارک سے باہر نکلا جس کی انگلیاں خوب لمبی لمبی تھیں گویا بجلی چمک رہی ہو، حرم و اہل حرم گویا سبھی رقص کناں ہوں۔
لوگ سلطان محمدی اور جلال احمدی سے اس قدر مرعوب و لرزاں و ترساں تھے اور ( اس معجزہ گرامی )سے اس طرح حیرت زدہ تھے گویا قیامت آنے والی ہو، لوگ حیرت و دہشت میں بے قرار و بے اختیار اٹھ بیٹھ رہے تھے، کبھی اللہ کی تکبیر و بڑائی بولتے تو کبھی حضور اکرم پر صلاة و سلام بھیجتے ۔( حضرت شیخ سید احمد رفاعی بارگاہ رسالت میں ، ترجمہ و حواشی : ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی )
سید احمد عز الدین الصیاد الرفاعی (مدفون متکین ، ملک شام) رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "وظائفِ احمدیہ" میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
انسانوں اور جنات کے پیر و مُرشد سیدی احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ تمام اولیاء میں اس طرح ممتاز ہیں جس طرح حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء و رسولوں میں ممتاز ہیں۔
پھر انہوں نے مثال اس کی یوں بیان کی کہ حق تعالی جل شانہ نے آقا و مولا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا فرما کر اعلیٰ و ارفع شرف بخشا اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب کامل و اکمل حق تعالیٰ کا حاصل ہوا جو عقل کے دائرے سے باہر ہے ، اسی طرح خداوند کریم جل شانہ نے روحِ عرفاں شیخ سید احمد کبیر رفاعی کو سرورِ کونَین تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طاہر و منور ہاتھوں کو بوسہ دینے کی سعادت سے مشرف فرماکر سید احمد کبیر رفاعی کو روۓ زمین کے تمام اولیاء میں سرفراز و ممتاز کردیا۔
شیخ علی واسطی "خلاصتہ الاکسیر" میں تحریر فرماتے ہیں:
امام و صاحب طریقہ رفاعیہ سید احمد کبیر رفاعی کو قریب تر بیعت بہ نسبت دوسروں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہے ، اور دوسروں کے مقابلے میں سیدی احمد رفاعی کے ہاتھ نے ذاتی طور پر دست مبارک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھونے و بوسہ دینے کا شرف حاصل کیا ہے، "ان الزین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدہیم" (سورہ الفتح)
"اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں در حقیقت وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے"
شیخ الاسلام قلیوبی رحمتہ اللہ علیہ کتاب "تحفتہ الراغب" میں لکھتے ہیں:
تمام اہل اللہ صوفیاء و علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ رتبہ اعلیٰ و اکرم سید احمد رفاعی کا مافوق قطبیت و غوثیت ہے، کوئی ولی اس رتبہ جامعیت اوصاف حمیدہ اخلاق سعیدہ و مقامات فریدہ کا نہیں آیا اور نہ ہی آےگا۔
راغب میں مزید تحریر ہے:
قسم اللہ کی مرتبہ اعلیٰ جان لینے کے لئے یہی کافی ہے کہ سید احمد کبیر رفاعی مشرف دست بوسی دست منور و مبارک رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرفراز ہوئے اور یہی شرف امتیازی شرف ہے۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی ہی کا اثر ہے جس کے سبب سے جب آپ کے خاندان و سلسلہ کے مریدین وجد میں آکر ضرب لگاتے ہیں اور گرز و شمشیر اور سیخ وغیرہ آلات آہنی اپنے جسم پر مارتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے جسم سے خون بہنے لگتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کا یا کسی بلکل کم سن چھوٹے بچے کا یا آپ رضی اللہ عنہ کے کسی خلیفہ جس کو باقاعدہ طریقے سے اجازت حاصل ہو کا لعاب لگا دیا جاتا ہے اور لعاب لگاتے ہی اس شخص کا خون بہنا بند ہو جاتا ہے، اور اس کا جسم صحیح و سالم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ کے لب مبارک حضور سرور کائنات کے دست معنبر سے مس ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ یہ اسی کی تاثیر ہے جو آپ کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ (شان رفاعی)
کرامت عظمیٰ
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کو تذکرہ نویسوں نے حضرت امام رفاعی کی عظیم کرامتوں میں شمار کیا ہے، اس پر امام سیوطی، شیخ عبدالکریم رافعی، شیخ ابراہیم کازرونی، علامہ محمود آلوسی، علامہ سید محمد ابوالہدی صیادی رفاعی نے مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں اور شعراء نے اس پر طویل قصائد کہے ہیں۔
شیخ عبدالقادر طبری کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کو آپ کے علاوہ کسی ولی نے نہیں پایا۔
ھزہ رتبة رقاھا الرفاعی
لم ینلھا من الرجال سواہ
ھوفی الاولیاء قطب رحاھم
وقدس الله اسرارہ وحباہ
ترجمہ: یہ بلند رتبہ حضرت رفاعی کو حاصل ہوا، ان کے سوا کوئی اس رتبہ تک نہیں پہنچا، حضرت رفاعی "قطبُ الاولیاء" ہیں، اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے ڈھانپا اور ان کے باطن کو پاک بنایا۔
شیخ سید سراج الدین بغدادی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب صحاح الاخبار میں اس مقدس واقعہ کو ذکر کرتے وقت کہتے ہیں کہ حضرت رفاعی کی مدح کے لئے یہ واقعہ کافی ہے۔
لقد مدح الغوث الرفاعی امّة
وماذا عسی من بعدان قبل الیدا
ومن شرف الارث الصریح لذاتہ
منی ذکروہ یذکرون محمدا
ترجمہ: ایک بہت بڑے طبقے نے حضرت غوث الرفاعی کی مدح و تعریف فرمائی ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کے بعد ان کی مدح میں اس سے بڑھ کر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ انہیں وراثت نبویہ کا یہ شرف حاصل ہے کہ جو ان کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ ساتھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تذکرہ کرتا ہے۔
علامہ سید محمد ابوالہدا صیادی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آپ کے شرف و فضل کے لئے یہ واقعہ کافی ہے۔
کفی الرفاعی شرفا
تقبیل ید المصطفےٰ
فلاتحدعن بابہ
وخذہ شیخاو کفی
ترجمہ: حضرت رفاعی کی عزت و کرامت کے لئے مصطفےٰ جان رحمت صلی الله علیہ وسلم کی دست بوسی ہی کافی ہے، لہٰذا ان کے درسے لگے رہو اور انہی کو اپنے لئے کافی سمجھو ۔
سیدنا امام رفاعی اور "ابو العَلَمَین" لقب کا سبب
(سبب تلقب مولانا الرفاعي بأبي العَلَمَين)
"ولَمَّا بلغ عمره المبارك إلى عشرين سنة أجازه شيخه علي أبو الفَضل مُحَدِّث واسِط وشيخها إجازة عامَّة بِجميع علوم الشريعة والطريقة، وألبسه خِرقته المباركة، ونَوَّه بذكره وأعظم شَأنه، ولَقَّبه بأبي العَلَمين لإشارة سماوية ظَهَرَت له، فَهِم أنه قائد أهل الظاهر والباطن، وباب النجاح في أمريّ الدنيا والآخرة."
[إرشاد المسلمين لطريقة شيخ المتّقين]
(مولانا الرفاعی کو ابو العَلَمَين کہنے کی وجہ)
اور جب ان کی عمر مبارک بیس سال کو پہنچی تو ان کے شیخ علی ابو الفضل واسط کے محدث اعظم اور ان کے شیخ نے ان کو تمام علوم شرعیہ اور طریقت کا عمومی اجازت عطا فرمائی اور اپنا مبارک لباس پہنایا، اور ان کی شان کی طرف متوجہ کیا اور ان کے بلند مرتبے کی نشان دہی کی اور ایک سماوی اشارہ کی وجہ سے ابو العلمین مبارک لقب سے ملقب فرمایا جو ان پر ظاہر ہوا تھا اور اس لقب سے یہ مقصود تھا وہ ظاہری و باطنی علوم و معارف والوں کے سردار ہیں اور، دنیاوی و اخروی معاملات میں کامیابی کا دروازہ ہیں۔
مواعظ الرفاعیہ
مترجم : ڈاکٹر مولانا حافظ محمد خان بیابانی رفاعی، حیدرآباد
يقول شيخنا وقدوتنا الي اللہ الحسيب النسيب الشريف سيدي احمد الرفاعي
ترجمہ: ہمارے شیخ اور بارگاہ خداوندی تک کے ہمارے رہنما بہترین حسب و نسب کے مالک بزرگ سید احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
انا في مريدي كشعره من حاجبي
وكل ملوك الارض في طوع قبضتي
ترجمہ: میں اپنے مرید کے نزدیک اپنے پلکوں کے بال کی طرح ہوں اور زمین کے تمام بادشاہ میرے آسان قبضہ میں ہیں
في بدء امر الامر قبلت يد المختار وهذه نفحتي
انا ابااعلمين ولي في الوري شأن
ترجمہ: ابتدا ہی میں میں نے دست قدرت کو قبول کرلیا ہے اور میرا اعلان یہ ہے کہ میں دو عٙلٙم والا ایسا ولی ہوں جس کی زمانے میں بڑی شان ہے
اذادعاني مريدي يراني في عين العلا
ولي خرقة سمراء شرفت بجدي المصطفي
ترجمہ: میرا مرید جب مجھے ندا کرتا ہے تو وہ مجھے بلند نگاہ سے دیکھتا ہے
اور میرے لئے ایک خرقہ ہے جس سے میں اپنے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم سے مشرف ہوا ہوں
انا اباالعلمين عين الارادة
ترجمہ: میں ارادت کی نگاہ سے دو عٙلٙم والا ہوں
(امام رفاعی کے قصائد سے ماخوذ)
جناب پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری رفاعی صاحب، سابق ڈین : اسلامک اسٹڈیز کراچی یونیورسٹی، اپنے مقالہ سیدنا و مرشدنا سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں :
حضرت سید احمد کبیر رفاعی حضرت غوث اعظم دستگیر علیہم الرحمہ کے ہم عصر مشائخ میں سے تھے ۔ اور فقہی اعتبار سے شافعی المذہب تھے جب کہ غوث اعظم حنبلی تھے ، اور آپ دونوں کے درمیان از حد اچھے تعلقات تھے ۔ پوری دنیا میں سلسلہ رفاعیہ جو کہ سیدنا احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے ۔ دیگر سلاسل یعنی قادریہ ، سہروردیہ ، چشتیہ ، شاذلیہ ، خضریہ ، برھانیہ ، سطوحیہ کی طرح ایک عظیم ترین اور وسیع تر سلسلہ ہے جس کی شاخیں پاکستان کے علاوہ کویت ، مصر ، شام ، ترکی ، ہندوستان ، لبنان ، عراق ، امارات اور یمن میں پائی جاتی ہیں ۔
1970 ء میں جب راقم الحروف بغداد یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو ہر روز جمعرات کو حضرت سیدنا مرشدنا احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر حاضری دیکر اپنے دامن کو فیوض وبرکات سے بھرتا رہا ۔ اب تازہ ترین اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق سیدنا مرشدنا احمد رفاعی علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر حاضری دینے والوں کے لئے سرکاری سطح پر اطمینان بخش اہتمام کیا گیا ہے ۔ ہر جمعرات کو بعد ظہر بغداد سے ام عبیدہ کے لئے بسیں جاتی ہیں اور بعد نماز جمعہ ان کی واپسی ہوتی ہے ۔ کھانے پینے کا سامان " کوت " سے خرید لیا جاتا ہے ۔ یہ جگہ بغداد سے 70 میل کے فاصلے پر ضلع " میان " کا ایک شہر ہے ۔ مجھے جامع مسجد شیخ عبدالقادر الگیلانی علیہ الرحمہ بغداد شریف کے امام و خطیب عبدالوہاب نے بتایا کہ سیدنا احمد کبیر رفاعی نے تمام قوتوں کے ساتھ میل جول و محبت کا پیغام دیا اور یہی وجہ ہے کہ عراق کے دیگر فقہی مسلک کے پیرو آپ کا ازحد احترام کرتے ہیں اور بغداد سے بفرض زیارت اُم عبیدہ بھی جاتے ہیں ۔ ام عبیدہ اگرچہ سرحدی علاقہ ہے لیکن متعدد خطرات سے محفوظ ہے ۔
سیدنا احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے مزار شریف سے ہر شب ایک نور کا شعلہ آسمان سے نمودار ہوتا ہے اور ایک گھنٹہ گردش کرکے خود ہی بجھ جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا احمد کبیر رفاعی کے مزار شریف کی حفاظت کے لئے الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو مقرر فرما دیا ہے، جو مزار شریف کے دربار میں شعلہ بار ہوکر حاضری دیتے ہیں .
( مجلہ رفاعیہ ، ص: 57 )
شانِ رفاعی زبانِ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
في كتاب (بوارق الحقائق) مِن تأليف الإمام محمد مهدي الرفاعي، أنه رأى جده رسول الله ﷺ فقال له :
"تمسك بولدي أحمد الرفاعي، وتصل إلى الله، فهو سيد أولياء أمتي بعد أولياء القرون الثلاثة، وأعظمهم منزلة، ولا يجئ مثله إلى يوم القيامة غير سميك المهدي بن العسكري؛ وكيف لا وأحمد الرفاعي قطب أهل بيتي، وخزانة فقهي وحكمي، وصندوق أذواق أحوالي، وتحف علمي!"
ترجمہ :امام محمد مہدی الرفاعی کی لکھی ہوئی کتاب (بوارق الحقائق) میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا :
’’میرے بیٹے احمد رفاعی کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہو جاؤ تو تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے ، کیونکہ وہ پہلے تین زمانوں کے اولیاء کے بعد میری امت کے اولیاء کے سردار اور ان میں سب سے بڑے مرتبے والے ہیں اور قیامت تک ان جیسا کوئی نہیں آئے گا ، سوائے تمہارے ہم نام مهدی ابن العسکری کے ۔
اور ایسا کیوں نہ ؟ کیوں کہ احمد رفاعی میرے گھرانے کے قطب، میرے فقہ و حکمت کا خزانہ اور میرے ذوقی احوال اور علمی تحفوں کا صندوق ہیں۔
ترجمہ: "حاضرین حجاج کی بڑی تعداد کے روبرو آپ نے دست بوسی کی"
جس وقت یہ واقعہ ظہور میں آیا اس وقت بارگاہ رسالت میں نوے ہزار (90 ہزار) عاشقان جمال محمدی صلی اللہ علیہ وسلم و مشتاقان روضہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مجمع موجود تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو بنظر خود دیکھا، اور سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
صاحب المجموعتہ الصغریٰ لکھتے ہیں:
"قبلھا فی ملاء من تسعین الف رجل والناس ینظرون یدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ویسمعون کلامہ" (المجموعتہ الصغریٰ، ص: 7)
ترجمہ: "آپ نے نوے ہزار حاضرین کے سامنے دست بوسی کی اور لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازِ مبارک کو سن رہے تھے۔"
اکابر شیوخ کا آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا
"ارشاد المسلمین" میں لکھا ہے کہ اس کرامت کے ظاہر ہونے کے وقت حرم مقدس نبوی علی ساکنہ الف الف صلوة و سلام میں اکابر وقت میں بڑے مراتب والے مشائخ کرام و اولیائے عظام اور علماء و صوفیہ بھی موجود تھے مثلا حضرت عدی ابن مسافر الاموی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ عبدالرزاق الحسینی رحمتہ اللہ علیہ، شیخ احمد زعفرانی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت حیات بن قیس حرانی رحمتہ اللہ علیہ اور شیخ خمیس رحمتہ اللہ علیہ موجود تھے علاوہ ان اولیائے کرام کے حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی نوراللہ مرقدہ اور حضرت شیخ احمد زاہد انصاری اور حضرت شیخ شرف الدین ابوطالب بن عبدالسمیع ہاشمی عباسی رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے ۔علاوہ اور بھی مشائخ اور اولیاء حاضر تھے جو تمام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست منور کی زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔
اکابر وقت میں سے شیخ حیات بن قیس الحرانی ، شیخ عدی بن مسافر الاموی اور شیخ عقیل المنجی رحمتہ اللہ علیہم ان تینوں مشائخ نے اسی روز شیخ امام رفاعی کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا خرقہ پہن کر آپ کے حلقہ اصحاب و مریدین میں داخل ہوئے۔ وہ تمام حضرات بھی حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس آثار دست مبارک کے دیدار سے مشرف ہوے، اس نعمت عظمٰی کے حصول کے بعد (جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلطان العارفین سید احمد رفاعی کے بلند مراتب کو بلند فرمایا) مزکورہ بزرگوں نے سلطان العارفین امام رفاعی سے بیعت کی اور خود بھی سلطان العارفین امام رفاعی کی مشخیت کا اقرار کیا بلکہ اپنے متبعین کے لئے بھی اقرار کیا۔(انتہی مافی ارشادالمسلمین)
شیخ عبدالسمیع ہاشمی واسطی اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ
"جب واپسی کا وقت قریب ہوا تو آپ روضہ اقدس کی دہلیز پر لیٹ گئے اور حاضرین کو قسم دے دی کہ میری گردن پر سے باہر نکلیں، عوام نے تو ایسا ہی کیا، مگر خواص دوسری طرف سے نکل گئے، میں حضرت رفاعی کے پاس ہی تھا وہ رو رہے تھے اور فرما رہے تھے یا اللہ میرے ایمان اور تیری معرفت اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان میں اضافہ فرما"۔(المعارف المحمدیہ، ص: 49)
یہ نعمت پُر سعادت کا کیا انعام عطا ہوا جو نہ کسی کی آنکھوں نے دیکھا اور نہ کسی کے کانوں نے سنا۔ وہ دینے والا جانے، لینے والا جانے اور اللہ جانے اس دست بوسی کی صنو وضیا سے جو حضرت سید احمد کبیر رفاعی کو ہوئی۔ بڑے بڑے آفتاب ولایت ماند پڑ گئے۔ بلکہ اس دست بوسی کی کرامت پُر سعادت پر فرشتے اور ملائکتہ الاعلی کو رشک ہوا۔
شیخ امام الاولیاء سید احمد کبیر رفاعی کے خادم علی بن موہوب سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ دست مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو میرے شیخ امام رفاعی کے لئے مزار مقدس و منور نبوی سے جلوہ افروز ہوا جو میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔ دست اطہر نہایت خوشنما، سفیدرنگ، دراز انگلیوں والا، پر ضیاء، برق و بجلی سے زیادہ چمکتا ہوا، روشن اور پرانوار اور معطر المعطر اور بے مثال تھا۔ دست مطہر کا ظہور میں آنا تھا کہ حرم شریف تہ و بالا ہوگیا اور لوگوں میں گویا قیامت برپا ہوگئی، اور ایک ہیبت و دہشت و رعب و دبدبہ سلطان محمدی دلوں پر طاری ہوگیا۔ اور مسجد نبوی تمام روشن و منور و معطر ہوگئی گویا خوشبو اور نور کی بارش ہو رہی تھی۔ چاروں طرف سے آواز اللہ اکبر کی بلند ہوئی اور تمام حضرین کے لبوں پر درود شریف جاری و ساری ہوگیا۔
شیخ محمد علی نے ان سے شیخ ابی الرجال یونینی بعلبکی نے، ان سے شیخ عبداللہ بطائحی قادری نے، ان سے شیخ علی بن ادریس یعقوبی نے اور ان سے ان کے شیخ قطب یگانہ و غوث زمانہ شیخ عبدالقادر جیلی بغدادی نے روایت کیا ہے، فرمایا کہ اس محفل کرامت میں میں بھی موجود تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کے زریعہ شیخ احمد کبیر رفاعی کی کرامت و بزرگی کا اظہار کیا، اور انعام الہی سے عالی مرتبہ نصیب ہوا، یعقوبی کہتے ہیں میں نے اپنے شیخ حضرت جیلانی سے عرض کیا: حضور حاضرین کو اس کرامت و بزرگی سے حسد نہیں ہوا تو یہ سوال سن کر حضرت غوث صمدانی رونے لگے اور جواب دیا اے ابن ادریس اس کرامت پر سعادت پر ملا اعلی (فرشتوں) نے بھی رشک کیا ہے ، ایک اور طریقے سے مجھ سے امام قوصی نے بیان کیا ہے ، ان سے شیخ قطب الدین خزانچی نے ، ان سے شیخ رکن الدین سنجاری نے ، ان سے ان کے شیخ عدی بن مسافر نے اور ان کے خادم شیخ علی بن موھب نے بیان کیا ہے، دونوں فرماتے ہیں کہ
حج والے سال ہم مسجد نبوی میں تھے تو دیکھا کہ شیخ احمد بن رفاعی رضی اللہ عنہ حجرہ طیبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں اور کچھ عرض کر رہے ہیں جسے بہت سے حضرات نے یاد رکھا اور نقل کیا ہے اور جیسے ہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی فورا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک قبر شریف سے باہر نکلا اور شیخ رفاعی نے اس کا بوسہ دیا ، ہم جملہ حاضرین کے ساتھ اس ( روح پرور اور ایمان افروز ) منظر کو دیکھ رہے تھے (شیخ عدی کے خادم ) ابن موہوب کہتے ہیں کہ : خدا کی قسم ! گویا اب بھی وہ نظارہ میرے سامنے ہے، جب سفید گورا معتدل ہاتھ قبر مبارک سے باہر نکلا جس کی انگلیاں خوب لمبی لمبی تھیں گویا بجلی چمک رہی ہو، حرم و اہل حرم گویا سبھی رقص کناں ہوں۔
لوگ سلطان محمدی اور جلال احمدی سے اس قدر مرعوب و لرزاں و ترساں تھے اور ( اس معجزہ گرامی )سے اس طرح حیرت زدہ تھے گویا قیامت آنے والی ہو، لوگ حیرت و دہشت میں بے قرار و بے اختیار اٹھ بیٹھ رہے تھے، کبھی اللہ کی تکبیر و بڑائی بولتے تو کبھی حضور اکرم پر صلاة و سلام بھیجتے ۔( حضرت شیخ سید احمد رفاعی بارگاہ رسالت میں ، ترجمہ و حواشی : ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی )
سید احمد عز الدین الصیاد الرفاعی (مدفون متکین ، ملک شام) رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "وظائفِ احمدیہ" میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
انسانوں اور جنات کے پیر و مُرشد سیدی احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ تمام اولیاء میں اس طرح ممتاز ہیں جس طرح حضور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و سلم انبیاء و رسولوں میں ممتاز ہیں۔
پھر انہوں نے مثال اس کی یوں بیان کی کہ حق تعالی جل شانہ نے آقا و مولا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج عطا فرما کر اعلیٰ و ارفع شرف بخشا اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب کامل و اکمل حق تعالیٰ کا حاصل ہوا جو عقل کے دائرے سے باہر ہے ، اسی طرح خداوند کریم جل شانہ نے روحِ عرفاں شیخ سید احمد کبیر رفاعی کو سرورِ کونَین تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طاہر و منور ہاتھوں کو بوسہ دینے کی سعادت سے مشرف فرماکر سید احمد کبیر رفاعی کو روۓ زمین کے تمام اولیاء میں سرفراز و ممتاز کردیا۔
شیخ علی واسطی "خلاصتہ الاکسیر" میں تحریر فرماتے ہیں:
امام و صاحب طریقہ رفاعیہ سید احمد کبیر رفاعی کو قریب تر بیعت بہ نسبت دوسروں کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہے ، اور دوسروں کے مقابلے میں سیدی احمد رفاعی کے ہاتھ نے ذاتی طور پر دست مبارک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چھونے و بوسہ دینے کا شرف حاصل کیا ہے، "ان الزین یبایعونک انما یبایعون اللہ ید اللہ فوق ایدہیم" (سورہ الفتح)
"اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں در حقیقت وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے"
شیخ الاسلام قلیوبی رحمتہ اللہ علیہ کتاب "تحفتہ الراغب" میں لکھتے ہیں:
تمام اہل اللہ صوفیاء و علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ رتبہ اعلیٰ و اکرم سید احمد رفاعی کا مافوق قطبیت و غوثیت ہے، کوئی ولی اس رتبہ جامعیت اوصاف حمیدہ اخلاق سعیدہ و مقامات فریدہ کا نہیں آیا اور نہ ہی آےگا۔
راغب میں مزید تحریر ہے:
قسم اللہ کی مرتبہ اعلیٰ جان لینے کے لئے یہی کافی ہے کہ سید احمد کبیر رفاعی مشرف دست بوسی دست منور و مبارک رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرفراز ہوئے اور یہی شرف امتیازی شرف ہے۔
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی ہی کا اثر ہے جس کے سبب سے جب آپ کے خاندان و سلسلہ کے مریدین وجد میں آکر ضرب لگاتے ہیں اور گرز و شمشیر اور سیخ وغیرہ آلات آہنی اپنے جسم پر مارتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے جسم سے خون بہنے لگتا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے کسی کا یا کسی بلکل کم سن چھوٹے بچے کا یا آپ رضی اللہ عنہ کے کسی خلیفہ جس کو باقاعدہ طریقے سے اجازت حاصل ہو کا لعاب لگا دیا جاتا ہے اور لعاب لگاتے ہی اس شخص کا خون بہنا بند ہو جاتا ہے، اور اس کا جسم صحیح و سالم ہو جاتا ہے کیونکہ آپ کے لب مبارک حضور سرور کائنات کے دست معنبر سے مس ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ یہ اسی کی تاثیر ہے جو آپ کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ (شان رفاعی)
کرامت عظمیٰ
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کو تذکرہ نویسوں نے حضرت امام رفاعی کی عظیم کرامتوں میں شمار کیا ہے، اس پر امام سیوطی، شیخ عبدالکریم رافعی، شیخ ابراہیم کازرونی، علامہ محمود آلوسی، علامہ سید محمد ابوالہدی صیادی رفاعی نے مستقل رسالے تصنیف کئے ہیں اور شعراء نے اس پر طویل قصائد کہے ہیں۔
شیخ عبدالقادر طبری کہتے ہیں کہ اس مرتبہ کو آپ کے علاوہ کسی ولی نے نہیں پایا۔
ھزہ رتبة رقاھا الرفاعی
لم ینلھا من الرجال سواہ
ھوفی الاولیاء قطب رحاھم
وقدس الله اسرارہ وحباہ
ترجمہ: یہ بلند رتبہ حضرت رفاعی کو حاصل ہوا، ان کے سوا کوئی اس رتبہ تک نہیں پہنچا، حضرت رفاعی "قطبُ الاولیاء" ہیں، اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے ڈھانپا اور ان کے باطن کو پاک بنایا۔
شیخ سید سراج الدین بغدادی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب صحاح الاخبار میں اس مقدس واقعہ کو ذکر کرتے وقت کہتے ہیں کہ حضرت رفاعی کی مدح کے لئے یہ واقعہ کافی ہے۔
لقد مدح الغوث الرفاعی امّة
وماذا عسی من بعدان قبل الیدا
ومن شرف الارث الصریح لذاتہ
منی ذکروہ یذکرون محمدا
ترجمہ: ایک بہت بڑے طبقے نے حضرت غوث الرفاعی کی مدح و تعریف فرمائی ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست بوسی کے بعد ان کی مدح میں اس سے بڑھ کر کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ انہیں وراثت نبویہ کا یہ شرف حاصل ہے کہ جو ان کا تذکرہ کرتا ہے تو وہ ساتھ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی تذکرہ کرتا ہے۔
علامہ سید محمد ابوالہدا صیادی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ آپ کے شرف و فضل کے لئے یہ واقعہ کافی ہے۔
کفی الرفاعی شرفا
تقبیل ید المصطفےٰ
فلاتحدعن بابہ
وخذہ شیخاو کفی
ترجمہ: حضرت رفاعی کی عزت و کرامت کے لئے مصطفےٰ جان رحمت صلی الله علیہ وسلم کی دست بوسی ہی کافی ہے، لہٰذا ان کے درسے لگے رہو اور انہی کو اپنے لئے کافی سمجھو ۔
سیدنا امام رفاعی اور "ابو العَلَمَین" لقب کا سبب
(سبب تلقب مولانا الرفاعي بأبي العَلَمَين)
"ولَمَّا بلغ عمره المبارك إلى عشرين سنة أجازه شيخه علي أبو الفَضل مُحَدِّث واسِط وشيخها إجازة عامَّة بِجميع علوم الشريعة والطريقة، وألبسه خِرقته المباركة، ونَوَّه بذكره وأعظم شَأنه، ولَقَّبه بأبي العَلَمين لإشارة سماوية ظَهَرَت له، فَهِم أنه قائد أهل الظاهر والباطن، وباب النجاح في أمريّ الدنيا والآخرة."
[إرشاد المسلمين لطريقة شيخ المتّقين]
(مولانا الرفاعی کو ابو العَلَمَين کہنے کی وجہ)
اور جب ان کی عمر مبارک بیس سال کو پہنچی تو ان کے شیخ علی ابو الفضل واسط کے محدث اعظم اور ان کے شیخ نے ان کو تمام علوم شرعیہ اور طریقت کا عمومی اجازت عطا فرمائی اور اپنا مبارک لباس پہنایا، اور ان کی شان کی طرف متوجہ کیا اور ان کے بلند مرتبے کی نشان دہی کی اور ایک سماوی اشارہ کی وجہ سے ابو العلمین مبارک لقب سے ملقب فرمایا جو ان پر ظاہر ہوا تھا اور اس لقب سے یہ مقصود تھا وہ ظاہری و باطنی علوم و معارف والوں کے سردار ہیں اور، دنیاوی و اخروی معاملات میں کامیابی کا دروازہ ہیں۔
مواعظ الرفاعیہ
مترجم : ڈاکٹر مولانا حافظ محمد خان بیابانی رفاعی، حیدرآباد
يقول شيخنا وقدوتنا الي اللہ الحسيب النسيب الشريف سيدي احمد الرفاعي
ترجمہ: ہمارے شیخ اور بارگاہ خداوندی تک کے ہمارے رہنما بہترین حسب و نسب کے مالک بزرگ سید احمد الرفاعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
انا في مريدي كشعره من حاجبي
وكل ملوك الارض في طوع قبضتي
ترجمہ: میں اپنے مرید کے نزدیک اپنے پلکوں کے بال کی طرح ہوں اور زمین کے تمام بادشاہ میرے آسان قبضہ میں ہیں
في بدء امر الامر قبلت يد المختار وهذه نفحتي
انا ابااعلمين ولي في الوري شأن
ترجمہ: ابتدا ہی میں میں نے دست قدرت کو قبول کرلیا ہے اور میرا اعلان یہ ہے کہ میں دو عٙلٙم والا ایسا ولی ہوں جس کی زمانے میں بڑی شان ہے
اذادعاني مريدي يراني في عين العلا
ولي خرقة سمراء شرفت بجدي المصطفي
ترجمہ: میرا مرید جب مجھے ندا کرتا ہے تو وہ مجھے بلند نگاہ سے دیکھتا ہے
اور میرے لئے ایک خرقہ ہے جس سے میں اپنے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم سے مشرف ہوا ہوں
انا اباالعلمين عين الارادة
ترجمہ: میں ارادت کی نگاہ سے دو عٙلٙم والا ہوں
(امام رفاعی کے قصائد سے ماخوذ)
جناب پروفیسر ڈاکٹر جلال الدین احمد نوری رفاعی صاحب، سابق ڈین : اسلامک اسٹڈیز کراچی یونیورسٹی، اپنے مقالہ سیدنا و مرشدنا سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں :
حضرت سید احمد کبیر رفاعی حضرت غوث اعظم دستگیر علیہم الرحمہ کے ہم عصر مشائخ میں سے تھے ۔ اور فقہی اعتبار سے شافعی المذہب تھے جب کہ غوث اعظم حنبلی تھے ، اور آپ دونوں کے درمیان از حد اچھے تعلقات تھے ۔ پوری دنیا میں سلسلہ رفاعیہ جو کہ سیدنا احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے ۔ دیگر سلاسل یعنی قادریہ ، سہروردیہ ، چشتیہ ، شاذلیہ ، خضریہ ، برھانیہ ، سطوحیہ کی طرح ایک عظیم ترین اور وسیع تر سلسلہ ہے جس کی شاخیں پاکستان کے علاوہ کویت ، مصر ، شام ، ترکی ، ہندوستان ، لبنان ، عراق ، امارات اور یمن میں پائی جاتی ہیں ۔
1970 ء میں جب راقم الحروف بغداد یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو ہر روز جمعرات کو حضرت سیدنا مرشدنا احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر حاضری دیکر اپنے دامن کو فیوض وبرکات سے بھرتا رہا ۔ اب تازہ ترین اور مصدقہ اطلاعات کے مطابق سیدنا مرشدنا احمد رفاعی علیہ الرحمہ کے مزار شریف پر حاضری دینے والوں کے لئے سرکاری سطح پر اطمینان بخش اہتمام کیا گیا ہے ۔ ہر جمعرات کو بعد ظہر بغداد سے ام عبیدہ کے لئے بسیں جاتی ہیں اور بعد نماز جمعہ ان کی واپسی ہوتی ہے ۔ کھانے پینے کا سامان " کوت " سے خرید لیا جاتا ہے ۔ یہ جگہ بغداد سے 70 میل کے فاصلے پر ضلع " میان " کا ایک شہر ہے ۔ مجھے جامع مسجد شیخ عبدالقادر الگیلانی علیہ الرحمہ بغداد شریف کے امام و خطیب عبدالوہاب نے بتایا کہ سیدنا احمد کبیر رفاعی نے تمام قوتوں کے ساتھ میل جول و محبت کا پیغام دیا اور یہی وجہ ہے کہ عراق کے دیگر فقہی مسلک کے پیرو آپ کا ازحد احترام کرتے ہیں اور بغداد سے بفرض زیارت اُم عبیدہ بھی جاتے ہیں ۔ ام عبیدہ اگرچہ سرحدی علاقہ ہے لیکن متعدد خطرات سے محفوظ ہے ۔
سیدنا احمد کبیر رفاعی علیہ الرحمہ کے مزار شریف سے ہر شب ایک نور کا شعلہ آسمان سے نمودار ہوتا ہے اور ایک گھنٹہ گردش کرکے خود ہی بجھ جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا احمد کبیر رفاعی کے مزار شریف کی حفاظت کے لئے الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندوں کو مقرر فرما دیا ہے، جو مزار شریف کے دربار میں شعلہ بار ہوکر حاضری دیتے ہیں .
( مجلہ رفاعیہ ، ص: 57 )
شانِ رفاعی زبانِ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
في كتاب (بوارق الحقائق) مِن تأليف الإمام محمد مهدي الرفاعي، أنه رأى جده رسول الله ﷺ فقال له :
"تمسك بولدي أحمد الرفاعي، وتصل إلى الله، فهو سيد أولياء أمتي بعد أولياء القرون الثلاثة، وأعظمهم منزلة، ولا يجئ مثله إلى يوم القيامة غير سميك المهدي بن العسكري؛ وكيف لا وأحمد الرفاعي قطب أهل بيتي، وخزانة فقهي وحكمي، وصندوق أذواق أحوالي، وتحف علمي!"
ترجمہ :امام محمد مہدی الرفاعی کی لکھی ہوئی کتاب (بوارق الحقائق) میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو آپ نے مجھ سے ارشاد فرمایا :
’’میرے بیٹے احمد رفاعی کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہو جاؤ تو تم اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے ، کیونکہ وہ پہلے تین زمانوں کے اولیاء کے بعد میری امت کے اولیاء کے سردار اور ان میں سب سے بڑے مرتبے والے ہیں اور قیامت تک ان جیسا کوئی نہیں آئے گا ، سوائے تمہارے ہم نام مهدی ابن العسکری کے ۔
اور ایسا کیوں نہ ؟ کیوں کہ احمد رفاعی میرے گھرانے کے قطب، میرے فقہ و حکمت کا خزانہ اور میرے ذوقی احوال اور علمی تحفوں کا صندوق ہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قَلَم سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی
خانقاہ رفاعیہ، بڑودہ، گجرات
9978344822