مدرسوں کے طلبہ اور دین کا بیوپار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر ہر ایک طالب علم کو ضرور پڑھنی چاہیے تھوڑی لمبی ضرور ہے لیکن امید ہے کہ شروع آپ کریں گے تو اختتام تک یہ خود ہی لے جائے گی۔( ان شاءاللہ الکریم )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج ایک جملہ نظر سے گزرا اور دیکھتے ہی آنکھیں کھولتا چلا گیا ۔ لکھا تھا : ' مدرسے کے بچوں کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھانا چاہیے ، اگر ہنر نہ ہوا تو وہ دین بیچیں گے ' ۔
مجھے نہیں معلوم یہ کس کا قول ہے اور کہنے والے نے کس نیت سے کہا ہے البتہ دیکھنے میں یہ قول اپنے قائل کی اعلی درجے کی دانشمندی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ممکنہ تاویلات و مشاہدات کے پیشِ نظر کئی افراد کو اپنے معنی و مفہوم پر مطمئن رکھنے بلکہ بے روزگاری کے اس دور میں اہل مدرسہ کے جذبات بھڑکانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے لیکن !
کاش کوئی اس جملے کے پس منظر اور پیش منظر پر بھی توجہ دیتا اور اس سے جڑی ہوئی محرومیوں اور بے اعتنائیوں کو بھی محسوس کرتا ۔۔۔!
میں یہاں اولاً اس کے پس منظر پر کچھ معروضات پیش کرتا ہوں اور پھر کچھ باتیں پیش منظر پر ہوں گی ۔
پس منظر :
اس وقت عام لوگ عموماً اور مسجد و مدرسہ سے منسلک افراد خصوصاً، باستثنائے چند جن طوفانی حالات میں چراغِ زندگی کو روشن رکھے ہوئے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ۔
دین کے نام لیواؤں کی ایک طرف طرح طرح کی کسمپرسیاں ہیں اور دوسری طرف یار لوگوں کے کُھلے اور چھپے طعنوں کی بوچھاڑ ہے جو کبھی دشمن بن کر وار کرتے ہیں اور کبھی دوست بن کر شعوری یا غیر شعوری طور پر سنگِ راہ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
دین بیچنے کا طعنہ دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آخر ایسے حالات بنے ہی کیوں کہ ان ہمدردوں کو یہ سب کچھ کہنے کے مواقع میسر آئے ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہلِ مسجد و مدرسہ کو معاشرتی طور پر کمزور کرنے کی جو داغ بیل انگریزوں نے ڈالی تھی اس پر چوکنا ہوکر روک تھام کرنے کے برعکس اس کو تقویت دی گئی ؟
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
کیا اہلِ مدرسہ کی ڈگریوں کو ان کی مستحقہ ویلیو سے محروم نہیں رکھا جاتا ؟ کیا ان پر عام اداروں کے دروازے بند رکھنے کی کامیاب کوششیں نہیں کی جاتیں !!
یہ تو بھلا ہو دینی تعلیمی بورڈز کا جن کی کوششوں کاوشوں کی بدولت ان کے متعلقہ دینی فاضلین کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خدمات سر انجام دیتے نظر آتے ہیں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے نظر آتے ہیں لیکن ۔۔۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں ان کو خدمات کا موقع ملتا ہے وہاں بھی عموماً ان کی صلاحیتوں اور حقوق کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہوتا ۔
کیا دس دس کروڑ کی عمارتِ مسجد اور لاکھوں کروڑوں کی لاگت سے بننے والے مسجد کے میناروں کے نیچے اسی مسجد کے امام صاحب عموماً بیس پچیس ہزار روپے کی تنخواہ میں سالہا سال سے اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کررہے ہوتے !!!
مدرسوں کی محدود آمدنی کے باعث اساتذہ کی معمولی تنخواہیں ہوں یا عام مسجدوں میں انتظامیہ کی کرم فرمائیوں سے کراہتے ہوئے ائمہ کے مشاہرے ؛ پرائیویٹ اسکولوں میں قاری صاحبان کے ساتھ تنخواہ کے نام پر مذاق ہو یا زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کے خدمت گاروں کے ساتھ سوتیلے بچوں والا رویہ ؛ دنیا سب جانتی ہے ، کسی سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں لیکن کوئی اس پر بات کیوں نہیں کرتا ؟ اس کا جواب لکھوں گا تو درد و کرب بڑھنے لگے گا ۔ اگر کوئی سننے والا ہو تو جتنا لکھا ہے وہ سنانے کے لیے کافی ہے لیکن ۔۔۔
اوروں سے کہا تم نے اوروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
چاروں طرف سے ان بندگانِ خدا کا استحصال کرکے پھر انہیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ کوئی ہنر سیکھ لو وگرنہ تمہیں دین بیچنا پڑے گا ، تمہارے اخراجات نہیں پورے ہوسکیں گے ، تم اکیلے رہ جاؤ گے ، تمہارا خاندان تنہا رہ جائے گا ، تمہارے بچے بھوکے مرجائیں گے اور تم انہیں دیکھ کر لمحہ لمحہ موت کی تلخی محسوس کرتے رہو گے ۔
میں اہلِ درد اور اصحابِ بصیرت سے پوچھتا ہوں کہ کوئی یہ نعرہ کیوں نہیں لگاتا کہ ان نائبانِ انبیا و مرسلین کو دنیاوی معاملات میں اتنا بے نیاز کرو کہ پھر انہیں دین بیچنے کے طعنے نہ ملیں اور یہ پہلے سے بڑھ کر کہیں زیادہ اچھے طریقے سے خدمتِ دین کرسکیں اور معاشرہ نور و نکہت کا سماں پیش کرتا دکھائی دے۔
قلم کے رہوار کی لگامیں کھینچتے ہوئے میں اس عنوان کے آخر میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دین کوئی مولوی بیچے یا نعت خواں ، عالم بیچے یا جاہل ،دین دار بیچے دنیا دار ؛ بہر حال یہ انتہا درجے کی محرومی اور دونوں جہاں کا خسارہ ہے
لیکن ' دین بیچنے ' کا اگر کوئی یہ مفہوم نکالتا ہے کہ مسجد و مدرسہ یا دیگر دینی امور میں دیانت داری سے اپنی ذمہ داری ادا کرکے تنخواہ لینا بھی دین فروشی ہے تو وہ بے چارہ مجنون ہونے کے علاوہ قابلِ رحم بھی ہے کیونکہ عام اہلِ مسجد و مدرسہ اسی' جرم ' کے مرتکب ہیں ۔
کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی
اسے چاہیے کہ ہمتِ مردانہ دکھاتے ہوئے ان تمام مکتبوں کے مالکان کو بھی دین فروشی کی سند جاری کردے جو قرآن کریم سے لے کر ہزاروں دینی عنوانات کی کتابوں کے ساتھ ساتھ ' یسرنا القرآن ' کا ابتدائی قاعدہ تک فروخت کرتے اور اپنی آمدنی کو اپنا حق حلال کا محنتانہ سمجھتے ہیں ۔
ایسا دور اندیش افلاطون ان عام مسلمان دوکانداروں کو کیوں یہ لقب نہیں دے گا جو اپنی دکانوں کا نام مکہ مدینہ اور دیگر مقدسات کے ساتھ منسوب کرتے یا صبح صبح اپنی روزی کے اڈے پر قرآن مجید کی ریکارڈڈ تلاوت چلاتے ہیں اور اسے ذریعہ برکات سمجھتے ہیں ۔
کیا ایسے کرم فرماؤں نے کبھی اللہ کے نام کی جھوٹی قسمیں کھانے والے ، قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہیاں دینے والے اور ان پاک ناموں پر عام لوگوں کو دھوکا دینے والے بڑے بڑے لوگوں یا کم از کم عام افراد کو ہی دین فروش کہا ہے ؟
کیا ان کو بڑے بڑے اداروں کے ماتھوں پر لکھی ہوئی قرآن کی آیتیں اور ان اداروں میں کتابِ لاریب کی دھجیاں اڑتی دکھائی نہیں دیتیں ؟ کیا وہاں بھی کبھی ان کی جرات رندانہ نے سر اٹھایا ہے ؟
کیا کبھی ۔۔۔۔۔۔ بس حدِ ادب !!!
طبیعت کا بہاؤ اور اس میں ایک غم کی لہر تو تھمنے کا نام نہیں لے رہے لیکن تحریر طویل ہوتی جارہی ہے ۔
خیر یہ تو کچھ پس منظر تھا ، پیش منظر کے بارے بھی چند سطریں ضروری سمجھتا ہوں سو گزارش ہے کہ میں یا غالباً کوئی بھی دینی ذمہ دار فرد کسی جائز ہنر کے خلاف کبھی نہیں ہوگا بلکہ اب بھی کئی ایسے منجھے ہوئے علما ہیں جو خدمتِ دین کے ساتھ علیحدہ سے بھی اپنا کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک مضبوط عالمِ دین کے لیے یہ امر نفع بخش ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں بنتا ۔
ہماری تاریخِ اسلامی میں بھی ایسے علما کی ایک تعداد ہے جو اپنے وقت کے امامِ علم و فن ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی ہنر سے متصف رہے ہیں ؛ لیکن اکثر یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب علم و فضل کا طوطی بولتا تھا ، قرآن و سنت کے حاملین کی سر پرستی خود اسلامی حکومتیں کیا کرتی تھیں ، مساجد و مدارس کے جملہ اخراجات شاہانِ وقت کے ذمہ ہوتے تھے ، جب عام مسلمان کی ترجیحات میں دین اور دین کا علم شامل ہوتا تھا ، کئی خوش نصیب زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ہنر میں گزار کر بھی تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوجاتے اور پھر نبھا کر دکھاتے تھے۔
یہ تب کی بات ہے جب دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں تھا ، جب تحصیلِ علم کا مقصد صرف اچھی نوکری نہیں بلکہ اولین مقصد اچھا انسان بننا تھا ، جب دینی اور دنیاوی علوم کی موجودہ تقسیم کاری نہیں ہوئی تھی ، جب زندگی اتنی جنجھٹوں میں چاروں شانے چت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی بے عملی یا بد عملی کی ایسی نہ رکنے والی وبا عام ہوئی تھی ۔
ان ادوار میں جس جس نے بھی خلوص کے ساتھ دینی علوم کی طرف توجہ ، رحمت خداوندی نے اس کا آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا بلکہ فی زمانہ بھی جن خوش نصیبوں نے صبر و استقامت اور وعدہ ہائے خدا و مصطفی پر کامل یقین کے ساتھ علم دین حاصل کیا ہے لوگ ان کے جوتے اٹھانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور اگر یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ نہ بھی ہوں قسم بخدا جو انہیں قناعت و بے نیازی کی دولت سے نوازا جاتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔
لیکن عہدِ موجود کی مجموعی صورتِ حال کے تناظر میں اول تو یہ دیکھیے کہ عام لوگوں کے مقابلے میں دین پڑھنے والے ہیں ہی کتنے اور جن کو یہ توفیق مل بھی رہی ہے ان میں سے بھی ایک معتد بہ تعداد کی حالتِ زار کے پیشِ نظر خدا لگتی کہیے گا کہ جس کچے ذہن کے طالب علم کے دماغ میں یہ بات بھردی جائے کہ دنیا میں سروائیو کرنے کے لیے علمِ دین کی گہرائی اور مضبوطی کے برعکس کوئی اور ہنر از حد ضروری ہے ، جس کے بغیر زندگی کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا ۔
سچ بتائیے کہ وہ طالبِ علم دینی علوم کو کتنی اہمیت دے گا ؟ اس کی نظر میں حفظِ قرآن کی کتنی وقعت رہ جائے گی ، اس کے جذبات میں مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور وارث بننے کی کتنی حرارت بچے گی ؟
فی زمانہ عام طور پر طلبہ کی تحصیلِ علم میں لا ابالیاں جگ ظاہر ہیں ، مضبوط علما پہلے ہی تیار نہیں ہورہے ، رہی سہی کسر نکالنے کے لیے ایسے دانشمندانہ اقوالِ زریں بھی کچھ کم نہیں ۔
ایسے پلپلے ارادوں کے ساتھ طالب علم سندِ فراغت حاصل کر بھی جائے تو کیا واقعی وہ دینی خدمت کما حقہ ادا کرسکے گا ۔
آج ماہر مدرسین کی قلت کا باعث کہیں ایسے ہی خیالات تو نہیں ، آج مخلص مبلغین کی کم ہوتی تعداد کی وجوہات میں سے کہیں ایک یہ وجہ بھی تو نہیں ۔۔ ۔ ۔
تو اگر یہ چنیدہ افراد بھی دین کی صحیح تبلیغ اور ترجمانی نہیں کرسکیں گے تو پھر اس کشتی کی ناخدائی کا ذمہ کون اٹھائے گا ۔۔۔ جبکہ
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے دھندلا سا ستارا تُو ہے ۔
آج ایک جملہ نظر سے گزرا اور دیکھتے ہی آنکھیں کھولتا چلا گیا ۔ لکھا تھا : ' مدرسے کے بچوں کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھانا چاہیے ، اگر ہنر نہ ہوا تو وہ دین بیچیں گے ' ۔
مجھے نہیں معلوم یہ کس کا قول ہے اور کہنے والے نے کس نیت سے کہا ہے البتہ دیکھنے میں یہ قول اپنے قائل کی اعلی درجے کی دانشمندی ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ممکنہ تاویلات و مشاہدات کے پیشِ نظر کئی افراد کو اپنے معنی و مفہوم پر مطمئن رکھنے بلکہ بے روزگاری کے اس دور میں اہل مدرسہ کے جذبات بھڑکانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے لیکن !
کاش کوئی اس جملے کے پس منظر اور پیش منظر پر بھی توجہ دیتا اور اس سے جڑی ہوئی محرومیوں اور بے اعتنائیوں کو بھی محسوس کرتا ۔۔۔!
میں یہاں اولاً اس کے پس منظر پر کچھ معروضات پیش کرتا ہوں اور پھر کچھ باتیں پیش منظر پر ہوں گی ۔
پس منظر :
اس وقت عام لوگ عموماً اور مسجد و مدرسہ سے منسلک افراد خصوصاً، باستثنائے چند جن طوفانی حالات میں چراغِ زندگی کو روشن رکھے ہوئے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ۔
دین کے نام لیواؤں کی ایک طرف طرح طرح کی کسمپرسیاں ہیں اور دوسری طرف یار لوگوں کے کُھلے اور چھپے طعنوں کی بوچھاڑ ہے جو کبھی دشمن بن کر وار کرتے ہیں اور کبھی دوست بن کر شعوری یا غیر شعوری طور پر سنگِ راہ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
دین بیچنے کا طعنہ دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ آخر ایسے حالات بنے ہی کیوں کہ ان ہمدردوں کو یہ سب کچھ کہنے کے مواقع میسر آئے ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ اہلِ مسجد و مدرسہ کو معاشرتی طور پر کمزور کرنے کی جو داغ بیل انگریزوں نے ڈالی تھی اس پر چوکنا ہوکر روک تھام کرنے کے برعکس اس کو تقویت دی گئی ؟
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
کیا اہلِ مدرسہ کی ڈگریوں کو ان کی مستحقہ ویلیو سے محروم نہیں رکھا جاتا ؟ کیا ان پر عام اداروں کے دروازے بند رکھنے کی کامیاب کوششیں نہیں کی جاتیں !!
یہ تو بھلا ہو دینی تعلیمی بورڈز کا جن کی کوششوں کاوشوں کی بدولت ان کے متعلقہ دینی فاضلین کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خدمات سر انجام دیتے نظر آتے ہیں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے نظر آتے ہیں لیکن ۔۔۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں جہاں ان کو خدمات کا موقع ملتا ہے وہاں بھی عموماً ان کی صلاحیتوں اور حقوق کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہوتا ۔
کیا دس دس کروڑ کی عمارتِ مسجد اور لاکھوں کروڑوں کی لاگت سے بننے والے مسجد کے میناروں کے نیچے اسی مسجد کے امام صاحب عموماً بیس پچیس ہزار روپے کی تنخواہ میں سالہا سال سے اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کررہے ہوتے !!!
مدرسوں کی محدود آمدنی کے باعث اساتذہ کی معمولی تنخواہیں ہوں یا عام مسجدوں میں انتظامیہ کی کرم فرمائیوں سے کراہتے ہوئے ائمہ کے مشاہرے ؛ پرائیویٹ اسکولوں میں قاری صاحبان کے ساتھ تنخواہ کے نام پر مذاق ہو یا زندگی کے مختلف شعبوں میں دین کے خدمت گاروں کے ساتھ سوتیلے بچوں والا رویہ ؛ دنیا سب جانتی ہے ، کسی سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں لیکن کوئی اس پر بات کیوں نہیں کرتا ؟ اس کا جواب لکھوں گا تو درد و کرب بڑھنے لگے گا ۔ اگر کوئی سننے والا ہو تو جتنا لکھا ہے وہ سنانے کے لیے کافی ہے لیکن ۔۔۔
اوروں سے کہا تم نے اوروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
چاروں طرف سے ان بندگانِ خدا کا استحصال کرکے پھر انہیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ کوئی ہنر سیکھ لو وگرنہ تمہیں دین بیچنا پڑے گا ، تمہارے اخراجات نہیں پورے ہوسکیں گے ، تم اکیلے رہ جاؤ گے ، تمہارا خاندان تنہا رہ جائے گا ، تمہارے بچے بھوکے مرجائیں گے اور تم انہیں دیکھ کر لمحہ لمحہ موت کی تلخی محسوس کرتے رہو گے ۔
میں اہلِ درد اور اصحابِ بصیرت سے پوچھتا ہوں کہ کوئی یہ نعرہ کیوں نہیں لگاتا کہ ان نائبانِ انبیا و مرسلین کو دنیاوی معاملات میں اتنا بے نیاز کرو کہ پھر انہیں دین بیچنے کے طعنے نہ ملیں اور یہ پہلے سے بڑھ کر کہیں زیادہ اچھے طریقے سے خدمتِ دین کرسکیں اور معاشرہ نور و نکہت کا سماں پیش کرتا دکھائی دے۔
قلم کے رہوار کی لگامیں کھینچتے ہوئے میں اس عنوان کے آخر میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دین کوئی مولوی بیچے یا نعت خواں ، عالم بیچے یا جاہل ،دین دار بیچے دنیا دار ؛ بہر حال یہ انتہا درجے کی محرومی اور دونوں جہاں کا خسارہ ہے
لیکن ' دین بیچنے ' کا اگر کوئی یہ مفہوم نکالتا ہے کہ مسجد و مدرسہ یا دیگر دینی امور میں دیانت داری سے اپنی ذمہ داری ادا کرکے تنخواہ لینا بھی دین فروشی ہے تو وہ بے چارہ مجنون ہونے کے علاوہ قابلِ رحم بھی ہے کیونکہ عام اہلِ مسجد و مدرسہ اسی' جرم ' کے مرتکب ہیں ۔
کچھ تو سمجھے خدا کرے کوئی
اسے چاہیے کہ ہمتِ مردانہ دکھاتے ہوئے ان تمام مکتبوں کے مالکان کو بھی دین فروشی کی سند جاری کردے جو قرآن کریم سے لے کر ہزاروں دینی عنوانات کی کتابوں کے ساتھ ساتھ ' یسرنا القرآن ' کا ابتدائی قاعدہ تک فروخت کرتے اور اپنی آمدنی کو اپنا حق حلال کا محنتانہ سمجھتے ہیں ۔
ایسا دور اندیش افلاطون ان عام مسلمان دوکانداروں کو کیوں یہ لقب نہیں دے گا جو اپنی دکانوں کا نام مکہ مدینہ اور دیگر مقدسات کے ساتھ منسوب کرتے یا صبح صبح اپنی روزی کے اڈے پر قرآن مجید کی ریکارڈڈ تلاوت چلاتے ہیں اور اسے ذریعہ برکات سمجھتے ہیں ۔
کیا ایسے کرم فرماؤں نے کبھی اللہ کے نام کی جھوٹی قسمیں کھانے والے ، قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہیاں دینے والے اور ان پاک ناموں پر عام لوگوں کو دھوکا دینے والے بڑے بڑے لوگوں یا کم از کم عام افراد کو ہی دین فروش کہا ہے ؟
کیا ان کو بڑے بڑے اداروں کے ماتھوں پر لکھی ہوئی قرآن کی آیتیں اور ان اداروں میں کتابِ لاریب کی دھجیاں اڑتی دکھائی نہیں دیتیں ؟ کیا وہاں بھی کبھی ان کی جرات رندانہ نے سر اٹھایا ہے ؟
کیا کبھی ۔۔۔۔۔۔ بس حدِ ادب !!!
طبیعت کا بہاؤ اور اس میں ایک غم کی لہر تو تھمنے کا نام نہیں لے رہے لیکن تحریر طویل ہوتی جارہی ہے ۔
خیر یہ تو کچھ پس منظر تھا ، پیش منظر کے بارے بھی چند سطریں ضروری سمجھتا ہوں سو گزارش ہے کہ میں یا غالباً کوئی بھی دینی ذمہ دار فرد کسی جائز ہنر کے خلاف کبھی نہیں ہوگا بلکہ اب بھی کئی ایسے منجھے ہوئے علما ہیں جو خدمتِ دین کے ساتھ علیحدہ سے بھی اپنا کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک مضبوط عالمِ دین کے لیے یہ امر نفع بخش ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں بنتا ۔
ہماری تاریخِ اسلامی میں بھی ایسے علما کی ایک تعداد ہے جو اپنے وقت کے امامِ علم و فن ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی ہنر سے متصف رہے ہیں ؛ لیکن اکثر یہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب علم و فضل کا طوطی بولتا تھا ، قرآن و سنت کے حاملین کی سر پرستی خود اسلامی حکومتیں کیا کرتی تھیں ، مساجد و مدارس کے جملہ اخراجات شاہانِ وقت کے ذمہ ہوتے تھے ، جب عام مسلمان کی ترجیحات میں دین اور دین کا علم شامل ہوتا تھا ، کئی خوش نصیب زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے ہنر میں گزار کر بھی تحصیل علم کی طرف متوجہ ہوجاتے اور پھر نبھا کر دکھاتے تھے۔
یہ تب کی بات ہے جب دنیا میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں تھا ، جب تحصیلِ علم کا مقصد صرف اچھی نوکری نہیں بلکہ اولین مقصد اچھا انسان بننا تھا ، جب دینی اور دنیاوی علوم کی موجودہ تقسیم کاری نہیں ہوئی تھی ، جب زندگی اتنی جنجھٹوں میں چاروں شانے چت نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی بے عملی یا بد عملی کی ایسی نہ رکنے والی وبا عام ہوئی تھی ۔
ان ادوار میں جس جس نے بھی خلوص کے ساتھ دینی علوم کی طرف توجہ ، رحمت خداوندی نے اس کا آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا بلکہ فی زمانہ بھی جن خوش نصیبوں نے صبر و استقامت اور وعدہ ہائے خدا و مصطفی پر کامل یقین کے ساتھ علم دین حاصل کیا ہے لوگ ان کے جوتے اٹھانے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں اور اگر یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ نہ بھی ہوں قسم بخدا جو انہیں قناعت و بے نیازی کی دولت سے نوازا جاتا ہے اس کا کوئی جواب نہیں ۔
لیکن عہدِ موجود کی مجموعی صورتِ حال کے تناظر میں اول تو یہ دیکھیے کہ عام لوگوں کے مقابلے میں دین پڑھنے والے ہیں ہی کتنے اور جن کو یہ توفیق مل بھی رہی ہے ان میں سے بھی ایک معتد بہ تعداد کی حالتِ زار کے پیشِ نظر خدا لگتی کہیے گا کہ جس کچے ذہن کے طالب علم کے دماغ میں یہ بات بھردی جائے کہ دنیا میں سروائیو کرنے کے لیے علمِ دین کی گہرائی اور مضبوطی کے برعکس کوئی اور ہنر از حد ضروری ہے ، جس کے بغیر زندگی کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا ۔
سچ بتائیے کہ وہ طالبِ علم دینی علوم کو کتنی اہمیت دے گا ؟ اس کی نظر میں حفظِ قرآن کی کتنی وقعت رہ جائے گی ، اس کے جذبات میں مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب اور وارث بننے کی کتنی حرارت بچے گی ؟
فی زمانہ عام طور پر طلبہ کی تحصیلِ علم میں لا ابالیاں جگ ظاہر ہیں ، مضبوط علما پہلے ہی تیار نہیں ہورہے ، رہی سہی کسر نکالنے کے لیے ایسے دانشمندانہ اقوالِ زریں بھی کچھ کم نہیں ۔
ایسے پلپلے ارادوں کے ساتھ طالب علم سندِ فراغت حاصل کر بھی جائے تو کیا واقعی وہ دینی خدمت کما حقہ ادا کرسکے گا ۔
آج ماہر مدرسین کی قلت کا باعث کہیں ایسے ہی خیالات تو نہیں ، آج مخلص مبلغین کی کم ہوتی تعداد کی وجوہات میں سے کہیں ایک یہ وجہ بھی تو نہیں ۔۔ ۔ ۔
تو اگر یہ چنیدہ افراد بھی دین کی صحیح تبلیغ اور ترجمانی نہیں کرسکیں گے تو پھر اس کشتی کی ناخدائی کا ذمہ کون اٹھائے گا ۔۔۔ جبکہ
کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تُو ہے
عصرِ نو رات ہے دھندلا سا ستارا تُو ہے ۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍🏻از قلم :- مفتی شہباز احمد مدنی، گوجرانوالہ