Type Here to Get Search Results !

کیا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے فتاویٰ رضویہ میں تساحل وغلطی ہوئی ہے؟

قسط اول
جب کوئی شخص سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم قدس سرہ بریلی شریف کی علمی تحقیقات خصوصا فتاویٰ رضویہ کے خلاف مسلمانوں کو بہکائے فتنہ وفساد پیدا کرے تو اس کا دفع اور قلوب مسلمین سے شبہات کا رفع کرنا مناسب ہے
••────────••⊰❤️⊱••───────••
حضور مفتی اعظم بہار مضمون یا لفاظی سے بحث نہیں کرتے ہیں بلکہ معترض کے اعتراضات کے دنداں شکن جوابات دلائل کی روشنی میں دیتے ہیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
سوال اول :- کیا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے فتاویٰ رضویہ میں تساحل وغلطی ہوئی ہے؟
الجواب:- بالکل نہیں یہ جملہ وہی کہہ سکتا ہے جو فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ نہ کیا ہو ویسے ہمارے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں کہ کسی بشر غیر معصوم کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں کچھ متروک نہ ہو ۔
سیدنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
کل ماخوذ من قولہ و مردود علیہ الا صاحب ھذہ القبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یعنی یہ تمام حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سوا ہر ایک اپنے قول پر ماخوذ ہوگا اور قول کو اس پر رد کیا جائے گا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 296)
ہاں یہ ممکن ہے کہ فتاوی رضویہ میں کاتب یا تصحیح کرنے والے سے غلطی ہو جائے اس سے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت کی ذات پاک پر یا علمی تحقیقات پر کوئی اثر نہیں ہے لہذا یہ کہنا کہ اعلی حضرت عظیم البرکت سے تساحل ہوئی یہ سراسر جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے اگر آپ اپنے قول میں سچے ہیں تو وہ مسائل بیان فرمائیں جہاں تساحل یا غلطی ہوئی ذرا ہم بھی دیکھیں ۔
 سوال دوم :۔معترض کا کہنا ہے منیر العین میں یہ بیان کیا ہے کہ فضائل اعمال میں بغیر سند کے روایت کو قبول کیا جاسکتا ہے جو ان کی ذاتی رائے ہے تاہم محدثین اور فقہاء کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف ہے کہ بغیر سند کے کوئی بھی روایت مقبول ہوسکتی ہے اعلی حضرت کو تسامح ہوا ہے ؛کیا یہ قول صحیح ہے ؟
الجواب ۔یہ بھی افتراء ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف کا کوئی بھی قول ذاتی رائے نہیں ہے بلکہ سب پر کثیر دلائل نقل ہیں اگر آپ سچے ہیں تو کوئی بھی قول نقل فرماکر دکھائیں ۔
سند کے متعلق سرکارِ اعلی حضرت عظیم البرکت قدس سرہ خود نقل فرماتے ہیں کہ امام مبارک (عبداللہ بن مبارک )فرماتے ہیں کہ
لولا الاسناد لقال من شاء ماشاء یعنی اگر سند کا اعتبار نہ ہوتا تو کسی کی مرضی ہوتی وہی کہتا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 624 اور فتاوی رضویہ جلد جدید 26 ص) 
پھر سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت منیر العین کہ افادہ بست و ششم (26) کے تحت فرماتے ہیں کہ 
ایسی جگہ اگر سند کسی قابل نہ ہو تو صرف تجربہ سند کافی ہے
افادہ 26 سے واضح ہوا کہ  
کسی حدیثِ فضائل میں اگر سند کسی قابل نہ ہو تو صرف تجربہ سند کافی ہے 
یہاں سند کی بنیاد تجربہ ہے یعنی سند کے لئے تجربہ ہی کافی ہے جو کتابوں کے مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ان کو معلوم ہوگا تجربہ کی بنیاد پر کافی مسائل نقل کئے گئے ہیں
رسالہ منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین جو فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم میں ص 430 سے لے کر ص 628 تک ہے جس میں حدیث ضعیف یا حدیث فضائل کی تحقیقات و تدقیقات اور توضیحات و تشریحات کا ایسا امتیازی وصف نمایاں ہے کہ ایک ذی علم و شعور محقق اور ریسرچ اسکالر کے اور مسلک احناف کے علماء کے خصوصا دیگر مسالک کے علماء کے لئے مشعل راہ اور صحیح رہنما کا درجہ رکھتا ہے یہ پورا رسالہ فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم کے صفحہ 430 سے تقریبا 198 صفحات پر 628 تک ہے ان میں کسی ایک صفحہ میں بھی سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت کا کوئی ایک بھی ذاتی رائے نہیں ہے ایک مثال ملاحظہ فرمائیں 
ایک حدیث شریف ہےکہ 
من بلغہ عن اللہ تعالیٰ فضیلۃ فلم یصدق بھا لم یثلھا۔
یعنی جسے اللہ تعالیٰ سے کسی فضیلت کی خبر پہنچے وہ اسے نہ مانے اس فضل سے محروم رہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 488 بحوالہ مسند ابویعلی انس بن مالک حدث 3440 جلد 3 ص 387) 
اس حدیث میں من بلغہ عنہ اس بات کی دلیل ہے کہ دستور کے مطابق نہ راوی ہے اور نہ کوئی سند پھر بھی یہ حدیث علماء کو مقبول اس لئے عمل جائز کہ علماء کا قبول کوئی مضر نہیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت اس حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ ان حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ جسے اس قسم کی خبر پہنچی کہ جو ایسا کرے گا کہ فائدہ پائے گا اسے چاہئے نیک نیتی سے اس پر عمل کرلے اور تحقیق صحت حدیث ونظافت سندکے پیچھے نہ پڑے وہ ان شاءاللہ اپنے حسن نیت سے اس نفع کو پہنچ ہی جائے گا ( ص 488) 
اقول : کے تحت سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں یعنی جب تک اس حدیث کا بطلان ظاہر نہ ہو کہ بعد ثبوت بطلان رجاء وامید کے کوئی معنی نہیں 
علمائے اہل سنت کو ظاہرا یہ ارشاد واضح ہوتا ہے کہ یہ سرکار سیدی اعلی حضرت کی ذاتی رائے ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے جو اسے ذاتی رائے مانے اس کےکم علمی کم فہمی ہونے کی دلیل ہے کیونکہ حضور مجدداعظم نے اپنے اس قول کی قوت و تائید میں تین احادیث شریف نقل فرماتے ہیں 
(1) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آنا عند ظن عبدی بی یعنی میں اپنے بندہ کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو بندہ مجھ سے گمان رکھتا ہے (اسے بخاری ۔مسلم ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور حاکم نے حضرت انس بن مالک سے معنا اسے روایت کیا 
اس قول کی قوت کے لئے ایک دوسری حدیث لاتے ہیں کہ 
(2) فلیظن بی ماشاء
یعنی آپ جیسا چاہے مجھ پر گمان کرے
پھر ایک تیسری حدیث نقل فرماتے ہیں
(3) ان ظن خیر ا فلہ وان ظن شرا فلہ
یعنی اگر بھلا گمان کرے گا تو اس کے لئے بھلائی ہے اور جو برا گمان کرے گا اس کے لئے برائی ہے اب ان احادیث کو نقل فرماکر پھر آخر میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں جب اس نے اپنی نیت صدق سے اس پر عمل کیا اور رب عزوجل سے اس نفع کی امید رکھی تو مولیٰ تبارک وتعالیٰ اکرم الاکرمین ہے اس کی امید ضائع نہیں کرے گا اگرچہ حدیث واقع میں کیسی ہی ہو۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 488.488)
اس کو غور سے پڑھیں اور اس قول کی نظافت سند کے پیچھے نہ پڑے کہ دلیل تلاش کیجئے وہ دلیل اسی حدیث سے ظاہر۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف
افادہ چہار دہم (14)کے تحت فرماتے ہیں حصول قوت کو دو سندوں سے آنا کافی ہے یعنی حصول قوت کے لئے کچھ بہت سے ہی طرق کی حاجت نہیں صرف دو بھی مل کر قوت پاجاتے ہیں۔پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم افادہ بست و ہفتم (27) کے تحت فرماتے ہیں کہ بالفرض اگر کتب حدیث میں اصلا پتا نہ ہوتا تاہم ایسی حدیث کا بعض کلمات علماء میں بلا سند مذکور ہونا ہی بس ہے (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 5 ص 555)
اس افادہ میں یہ بیان ہے کہ کچھ ایسی ہی حدیث کے کلمات علماء میں بے سند مذکور ہونا ہی بس ہے ۔
یہاں سند کی بنیاد کلمات علماء ہیں اس پر کافی اقوال نقل ہے 
اس سے واضح ہوا کہ بالفرض اگر ایسی جگہ ضعف سند اسی حد پر ہوکہ اصلا قابل اعتماد نہ رہے مگر جو بات اس میں مذکور ہوئی وہ علماء صلحاء کے تجربہ میں آچکی تو علمائے کرام اس تجربہ ہی کو سند کافی سمجھتے ہیں کہ آخر سند کذب واقعی کو مستلزم نہ تھا۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید پنجم ص 551)
اس بات کی تائید میں صفحہ 555/ 552.553.554 پر کافی دلائل نقل فرماتے ہیں ۔
اے معترض صاحبان اگر کتاب موجود ہو تو اس کو پڑھیں کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے یا اس پر دلائل موجود ہیں ۔
پھر سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت 
افادہ بست و نہم (29) کے تحت فرماتے ہیں کہ 
اعمال مشائخ محتاج سند نہیں اعمال میں تصرف و ایجاد مشائخ کو ہمیشہ گنجائش (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 5 ص 571،)
یعنی کوئی مشائخ کوئی دعا ایجاد کرے تویہ اعمال خیر دلیل محتاج نہیں مشائخ کا قبول کرنا ہی کافی ہے جیسے دلائل الخیرات شریف۔دعاء مغنی شریف ۔دعا فتح مقدمہ یا برائے قضائے حاجات کے اذکار وغیرہ وغیرہ  
سوال : بے سند سے کیا مراد ہے؟
حدیث ارسال وہ ہے جس میں سند کا ذکر نہ ہو 
توضیح میں ہے 
الارسال عدم الاسناد وھو ان یقول الراوی قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم من غیر ان یذکر الاسناد یعنی ارسال وہ ہے جس میں سند کا ذکر نہ ہو ۔وہ یوں کہ کوئی راوی بغیر سند ذکر کئے کہہ دے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید پنجم ص 622)
اس افادہ سے یہ واضح ہوا کہ حدیث ارسال قبول کرنے کے لئے بے سند حدیث ہی کافی ہے 
فتاوی رضویہ جلد جدید پنجم میں ص 621 کے فائدہ بارہ (12) میں فرماتے ہیں کہ حدیث بے سند مذکور علماء کے قبول میں نفیس وجلیل احقاق اور اوہام قاصرین زماں کا ابطال وازہاق کے تحت صفحہ 621 سے صفحہ 622.623.624.625.626.627 پر کافی دلائل نقل ہیں ) یعنی اس قول پر تقریبا سات اوراق پر جزیات اور اقوال علماء نقل ہیں 
کہنے کا مطلب ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قدس سرہ بریلی شریف کا کوئی قول بے دلیل نہیں ہے جو لوگ کہتے ہیں بے دلیل ہے وہ افتراء کررہے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو وہ اقوال نقل فرمائیں ہاں اقول کے تحت بھی کافی جزیات نقل ہوتے ہیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی جواب میں بطور حوالہ جزیہ نقل نہ ہو لیکن جو عالم ہوتے ہیں وہ کتابوں میں جزیہ تلاش کرلیتے ہیں پہلے کے وقت مفتیان کرام جوابات میں جلد نمبر اور صفحہ نمبر اور ناشر یا مکتبہ کا نام نہیں لکھتے تھے کہ اس کا دستور نہیں تھا جیسا کہ آج کل دستور ہے اسی لئے بے علم والے اعتراض کردیتے ہیں۔
  سوال ؛ معترض کا یہ کہنا کہ اعلی حضرت نے تفریح الخاطر کے مصنف کی تعریف کی اور فتاوی رضویہ میں اس کتاب سے اسناد کیا 
لیکن اس کتاب میں بعض ایسے واقعات بھی شامل ہیں جو کفر وشرک کی صورت میں قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں کیا یہ قول درست ہے ؟
الجواب ۔جو قابل تعریف شخصیت ہیں ان کی تعریف کی جاتی ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدداعظم امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں 
یہ روایت کہ سوال میں تحفہ قادریہ سے ماثور ہے ۔اس کی اصل بھی حضرات مشائخ کرام قدست اسرارہم میں مذکور ۔فاضل عبد القادر قادری بن شیخ محی الدین اربلی ۔تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں لکھتے ہیں کہ جامع شریعت وحقیقت شیخ رشید بن محمد جنید رحمتہ اللہ علیہ کتاب حرزالعاشقین میں فرماتے ہیں یعنی شب معراج جبریل علیہ السلام خدمت حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں براق حاضر لائے الخ  
اس فتوی کے نیچے حاشیہ میں تخریج کرنے والے علماء لکھتے ہیں کہ 
فاضل عبد القادر قادری کوئی معمولی شخصیت کے مالک نہ تھے بہت اچھے عالم اور صاحب تصانیف کثیرہ ہیں
  حضرت علامہ عبد القادر بن محی الدین الصدیقی الاربلی جامع علوم شریعت و حقیقت تھے ۔علماء کرام اور صوفیاء عظام میں عمدہ مقام پایا ۔آپ کے اساتذہ میں الشیخ عبد الرحمن الطالبائی جیسے اجلہ فضلاء شامل ہیں
اورفہ میں 1325 ھ / 1897ء میں وصال پایا ۔آپ کی تصانیف میں سے پندرہ مشہور کتابوں کے نام فتاوی رضویہ جلد جدید 28 ص 476 نیچے حاشیہ پر نقل ہے مثلا 
(1) آداب المریدین و نجاۃ المسترشدین 
(2) تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبد القادر
(3) النفس الرحمانیہ فی معرفۃ الحقیقۃ الانسانیہ 
(4) الدرالمکنون فی معرفۃ السرا لمصنون 
(5)حدیقۃ الازھار فی الحکمۃ والاسرار 
(6) شرح الصلاۃ المختصرۃ للشیخ الاکبر 
(7)الدررا لمعتبرۃ فی شرح شرح الابیات الثمامیۃ عشرہ 
(8) شرح اللمعات لفخر الدین العراقی اسی طرح پندرہ کتابوں کے ناموں کی فہرست ہے 
 اسی کتاب تفریح الخاطر سے حضور مجدداعظم امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے اسناد کیا اس جواب کے آخر میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے فرمایا کہ
فایاک یا اخی ان تکون من المنکرین المتعجبین من حضور روحہ لیلۃ المعراج لانہ وقع من غیرہ فی تلک اللیلۃ کماھو ثابت بالاحادیث یعنی اے برادر ! بچ اور ڈر اس سے کہ کہیں تو انکار کر بیٹھے اور شب معراج کی حاضری پر تعجب کرے کہ یہ امر تو حدیثوں میں اوروں کے لئے وارد ہوا ہے الحاصل؛ بھول کر بھی مشائخ کی ذات پر ان کی کرامت پر ان کی عبادات پر کسی چیز پر اعتراض نہ کرے ۔
سوال کیا کسی بزرک کی کرامت کے لئے تحقیق انیق کی حاجت ہے
الجواب ۔ کوئی تحقیق انیق کی ضرورت نہیں ہے کسی ایک ثقہ عالم کی کتاب میں مذکور ہونا یا کسی کی زبان سے سننا ہی کافی ہے کیونکہ یہ باب احکام فقہ سے نہیں ہے جب حدیث فضائل میں کثیر راوی نہ ہوتا پھر بھی قبول کرلیا جاتا ہے اور یہاں تو کرامت کی بات ہے اس میں تحقیق انیق کی کیا ضرورت 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف تحریر فرماتے ہیں
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اپنے رسالہ ھدی الحیران فی نفی النفی دن سید الاکوان میں بعونہ تعالیٰ ایک فائدہ جلیلہ لکھا کہ مطالب چند قسم ہیں ۔ہر قسم کا مرتبہ جدا اور ہر قسم کا پایہ ثبوت علیحدہ ۔اس قسم مطالب احادیث میں ظہور نہ ہونا مضر نہیں ۔بلکہ کلمات علماء و مشائخ میں ان کا ذکر کافی۔
(فتاویٰ رضویہ جدید 28) 
پھر ایک حدیث شریف کے متعلق امام جلال الدین سیوطی قدس سرہ الشریف کے ایک قول کو نقل فرماتے ہیں کہ امام جلال الدین سیوطی نے مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء میں مرثیہ امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ :بابی انت و امی یا رسول اللہ ( یعنی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ) کی نسبت فرماتے ہیں 
لم اجدہ فی شئی من کتب الحدیث الاثر لکن صاحب 
اقبتاس الانوار و ابن الحاج فی مدخلہ ذکراہ فی ضمن حدیث طویل و کفی بذلک سند المثلہ فانہ لیس مما یتعلق بالاحکام 
یعنی میں نے یہ روایت کسی کتاب حدیث میں نہ پائی مگر صاحب اقتباس الانوار اور امام ابن الحاج نے اپنی مدخل میں اسے ایک حدیث طویل کے ضمن میں ذکر کیا اور ایسی روایت کو اس قدر سند کفایت کرتی ہے کہ انہیں کچھ باب احکام سے تعلق نہیں 
علامہ شہاب الدین خفاجی مصری رحمۃ اللہ علیہ نے نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض میں نقل کیا اور مقرر رکھا۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 28 ص 412)
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ امام جلال الدین سیوطی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ 
بابی انت و امی یا رسول اللہ یعنی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان 
اس روایت کو کسی حدیث کی کتاب میں نہ پائی مگر صاحب اقتباس الانوار اور امام ابن الحاج نے کتاب مدخل میں ذکر کیا صرف ان دو کتابوں میں لکھا مل جانا ہی اس کی قوت کی دلیل کے لئے کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ حدیث کی ہر کتاب میں مذکور ہو جب حدیث قبول کرنے کے لئے کسی ایک کتاب میں مذکور ہونا کافی ہے اسی طرح کسی کرامت کا کسی ایک کتاب میں مذکور ہونا قبول کرنے کے لئے کافی ہے 
اس سے واضح ہوا کہ جب حدیث شریف کا دو کتابوں کے علاوہ کسی کتاب میں ذکر نہیں پائی گئی پھر بھی حدیث مقبول ہے اسی طرح کسی ثقہ بزرگ کی کرامت کا کسی ایک کتاب میں مذکور ہونا ہی اس کی قوت کی دلیل کے لئے کافی ہے یہ ضروری نہیں اس کرامت کے راوی کی تحقیق کی جائے کہ مشائخ کی کرامت اور اعمال ذکر و اذکار محتاج دلیل نہیں ہے
بالجملہ روح مقدس کا شب معراج کو حاضر ہونا اور حضور صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت غوثیت کی گردن مبارک قدم اکرم رکھ کر براق یا عرش پر جلوہ فرمانا ۔اور سرکار ابد قرار سے فرزند ارجمند کو اس خدمت کے صلہ میں یہ انعام عظیم عطا ہونا ۔ان میں کوئی امر نہ عقلا اور نہ شرعا مہجور اور کلمات مشائخ میں مسطور و ماثور کتب حدیث میں ذکر معدوم ۔نہ کہ عدم ذکر ۔نہ روایات مشائخ اس طریقہ سند ظاہری میں محصور ۔اور قدرت قادر وسیع و موفور ۔اور قدر قادری کی بلندی مشہور پھر رد و انکار کیا مقتضائے ادب وشعور
سوال : کیا فتاوی رضویہ میں غلط مسائل نقل ہے ؟
 آج فتاوی رضویہ کے تین ایڈیشن ہیں 
(1) اولا فتاوی رضویہ قدیم جو بارہ جلدوں والی 
(2) فتاوی رضویہ جدید کامل جو 22 جلدوں والی 
(3) فتاوی رضویہ جدید مترجم مکمل بائیس ہزار )22000,) صفحات پر تیس جلدوں والی  
جب کسی مسئلہ میں شک وشبہ پیدا ہو تو ان تینوں جلدوں میں دیکھا جائے اگر تینوں جلدوں میں اختلاف ہو تو ماخذ کو دیکھا جائے 
کہ یہ مسئلہ صحیح ہے یا نہیں
کیونکہ اکثر کاتب سے غلطی ہوجاتی ہے یا پھر تصحیح کرنے والے دھیان نہیں دیتے مثلا میں خود ایک مسئلہ میں اختلاف دیکھا کہ جو پاکستان رضا فاؤنڈیشن سے چھپی ہے اس میں غلط لکھا ہوا ہے کہ” لڑکی پیدا ہوگی” جبکہ ہونا چاہئے کہ لڑکا ہوگا تو پھر میں نے دوسرے ایڈیشن پور بندر والی میں دیکھا اس میں صحیح لکھا ہوا ہے پتہ چلا کہ یہاں کاتب نے غلطی کی ہے اس طرح آپ کو دیکھنا ہوگا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کتاب فتاوی رضویہ غیر مستند ہے یا اعلی حضرت عظیم البرکت سے غلطی ہوئی 
ہاں کچھ مسائل میں اختلاف زمانہ ضرورت وتعامل وغیرہ جن وجوہ سے قول دیگر پر فتوی دیا اور مانا جاتا ہے ان وجوہ سے فتوی دیا گیا ہے مگر وہ درحقیقت یہ نہیں کہا جائے گا کہ فتاوی رضویہ کے خلاف فتوی دیا گیا لیکن اس کے لئے کافی علم کی ضرورت ہے اور یہ اصول و ضوابط خود اعلی حضرت عظیم البرکت نے بیان کیا ہے کہ ان وجوہ سے حکم بدل جاتا ہے لیکن اس کے لئے بھی کافی علم کی ضرورت ہے۔
لہذا معترض کے تمام اعتراض لغو و باطل ہے کہ امام اہل سنت مجدداعظم ہیں اور خدا تعالیٰ مجدد کو احیاء دین کے لیے بھیجتا ہے تو بھلا ان سے غلطی کا امکان کیوں کر ممکن ؟ ہاں کاتب سے غلطی ہوسکتی ہے اور جب مصنف تفریح الخاطر ایک اچھے عالم اور مصنف اور صوفی ہیں تو ان کی تعریف کرنے میں کیا حرج اور اس کرامت غوثیہ کو مصنف نے حرزالعاشقین سے نقل فرماکر بیان کیا ہے اور مصنف حرزالعاشقین کو علماء نے جامع شریعت و حقیقت تسلیم کیا ہے اور اس کرامت کو کسی کتاب سے اسناد کرنا کیوں کر منع ہوگا ؟ ہاں وہ بات جو خلاف شرع ہے اس کو قبول کرنے میں حرج ہے اور یہ واقعہ شرعا وعقلا محال نہیں ہے اگرچہ کسی حدیث شریف میں ذکر نہ ہوا ہو مشائخ کی کتاب میں مل جانا ہی کافی ہے اس لئے معترض کے تمام اعتراضات لغو و باطل ہے
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مورخہ 10 جمادی الاول 1446/13 نومبر 2024)
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
من جانب:- مولانا محمد جنید عالم شؔارق مصباحی مدرسہ رضویہ فیض العلوم پرسا  

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area