تازہ واقعۂ خارجہ کے حوالے سے چند نکات
واقعے کا پس منظر:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں جماعت سابعہ کے طالب علم تھے۔ دونوں طلبہ نے اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کی بعض آراء اور تحقیقات سے ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کیا۔ سوشل میڈیا پر کی گئی کچھ پوسٹس کے ذریعے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور خاص طور پر ان نکات کو اٹھایا:
1:- تفریح الخاطر کتاب کے حوالے سے اختلاف:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن نے کہا کہ اعلی حضرت نے تفریح الخاطر کے مصنف کی تعریف کی اور فتاوی رضویہ میں اس کتاب سے استناد کیا، لیکن اس کتاب میں بعض ایسے واقعات بھی شامل ہیں جو کفر و شرک کی صورت میں قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلی حضرت کا محض اس کتاب سے حوالہ دینا اس بات کی دلیل نہیں کہ کتاب میں کوئی غلط یا قابل اعتراض بات نہیں ہو سکتی۔
2:- بزرگان دین کے واقعات کی روایت پر سوال:
ان طلبہ نے اس بات پر زور دیا کہ بزرگانِ دین کے واقعات کو بغیر سند کے قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ہر روایت کو، چاہے وہ کسی بھی بزرگ سے متعلق ہو، تحقیق کے اصولوں کے مطابق جانچا جانا ضروری ہے۔
3:- فضائل اعمال میں غیر مستند روایات کا مسئلہ:
واقعے کا پس منظر:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں جماعت سابعہ کے طالب علم تھے۔ دونوں طلبہ نے اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ کی بعض آراء اور تحقیقات سے ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کیا۔ سوشل میڈیا پر کی گئی کچھ پوسٹس کے ذریعے انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور خاص طور پر ان نکات کو اٹھایا:
1:- تفریح الخاطر کتاب کے حوالے سے اختلاف:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن نے کہا کہ اعلی حضرت نے تفریح الخاطر کے مصنف کی تعریف کی اور فتاوی رضویہ میں اس کتاب سے استناد کیا، لیکن اس کتاب میں بعض ایسے واقعات بھی شامل ہیں جو کفر و شرک کی صورت میں قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اعلی حضرت کا محض اس کتاب سے حوالہ دینا اس بات کی دلیل نہیں کہ کتاب میں کوئی غلط یا قابل اعتراض بات نہیں ہو سکتی۔
2:- بزرگان دین کے واقعات کی روایت پر سوال:
ان طلبہ نے اس بات پر زور دیا کہ بزرگانِ دین کے واقعات کو بغیر سند کے قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ہر روایت کو، چاہے وہ کسی بھی بزرگ سے متعلق ہو، تحقیق کے اصولوں کے مطابق جانچا جانا ضروری ہے۔
3:- فضائل اعمال میں غیر مستند روایات کا مسئلہ:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن نے کہا کہ اعلی حضرت نے منیر العین میں یہ بیان کیا ہے کہ فضائل اعمال میں بغیر سند کے روایت کو قبول کیا جا سکتا ہے، جو ان کی ذاتی رائے ہے۔ تاہم، محدثین اور فقہاء کی ایک بڑی تعداد اس کے خلاف ہے کہ بغیر سند کے کوئی بھی روایت مقبول ہو سکتی ہے۔ ان طلبہ کے مطابق، یہاں اعلی حضرت کو تسامح ہوا ہے۔
جامعہ اشرفیہ کا رد عمل:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن کے ان خیالات کے بعد جامعہ اشرفیہ کے پرنسپل مفتی بدر عالم مصباحی صاحب نے انہیں جامعہ سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اخراج کے دوران جامعہ کے طلبہ نے "گستاخ اعلی حضرت کو بھگاؤ" جیسے نعرے بھی بلند کیے اور ان دونوں طلبہ کو خوف و ہراس کی حالت میں جامعہ سے باہر نکالا گیا۔
اس واقعے کے تناظر میں چند اہم نکات نذر قارئین ہیں:
1:- علمی اختلاف اور گستاخی میں فرق:
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی عظیم علمی شخصیت اور ان کی خدمات کا احترام ہر مسلمان پر لازم ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو ان کے پیروکار ہیں۔ لیکن اعلی حضرت کی تحقیقات یا آراء پر علمی انداز میں ادب اور احترام کے ساتھ اختلاف کرنا گستاخی نہیں، بلکہ علمی اصولوں کے مطابق جائز ہے۔ علمی اختلاف اور گستاخی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ علمی اختلاف دلیل اور ادب کے ساتھ ہوتا ہے، جب کہ گستاخی میں اہانت اور بے ادبی کی نیت شامل ہوتی ہے۔ اس لئے اس مسئلے کو گستاخی کا نام دینا غیر منصفانہ ہے اور علمی اصولوں کے خلاف ہے۔
2:- تحقیقی نظر اور تقلیدی رویہ:
علم کی اہمیت اس میں ہے کہ طلباء کو ذہنی استعداد دی جائے اور تحقیقی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ اگر ہر اختلاف کو بے ادبی یا گستاخی سمجھا جائے گا تو علم کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا اور علم کی روح ختم ہو جائے گی۔ مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن نے ادب اور احترام کے دائرے میں رہ کر علمی اختلاف کیا، جو کہ علم و تحقیق کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اگر طلباء کو تحقیقی نظر سے روکا جائے گا تو وہ اندھی تقلید کا شکار ہوں گے اور علمی ترقی رک جائے گی۔
3:- اعلی حضرت کا تحقیقی اور اجتہادی مزاج:
اعلی حضرت خود ایک عظیم محقق اور مجتہد تھے اور ان کی شخصیت اسی بنیاد پر قائم ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیقات میں روایتی اور اجتہادی دونوں انداز اپنائے۔ اعلی حضرت کے علمی کام کا مقصد یہی تھا کہ ان کے متبعین علم کی راہوں پر گامزن ہوں، نہ کہ تقلید جامد میں الجھ جائیں۔ اگر کوئی ادب اور تحقیق کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کرتا ہے، تو یہ ان کے علمی ورثے کی توسیع ہے، نہ کہ اس کی توہین۔
4:- علمی تحقیقات میں تسامح کی روایت :
علمی اصولوں میں تسامح یعنی انسانی خطا کا امکان ہر بزرگ اور عالم کی تحقیقات میں موجود ہے۔ اعلی حضرت کی تحقیقات میں بھی، ممکنہ طور پر بعض مسائل میں تسامح یا خطا کا پہلو ہو سکتا ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی علمی عظمت پر کوئی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ کوئی بھی انسان خطا سے مبرا نہیں۔ ائمہ اربعہ اور دیگر محدثین و مجتہدین کے اقوال میں بھی تسامح موجود ہے اور یہ علمی اصولوں کا حصہ ہے۔
5:- شدت پسندی کے نتائج:
طلبہ کا نعرے لگا کر "گستاخ اعلی حضرت کو بھگاؤ" جیسا رد عمل دینا جامعہ کے علمی اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ علمی ادارے میں اس طرح کی شدت پسندی کے ماحول کا ہونا خطرناک ہے اور یہ علمی تحقیق اور تفہیم کے خلاف ہے۔ علم کا مقصد دلائل کو سمجھنا اور دوسروں کی آراء کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے نہ صرف علمی ماحول کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ علمی ادارے کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔
6:- علمی ادارے کی ذمہ داریاں اور برداشت کا کلچر:
جامعہ اشرفیہ جیسے علمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی اختلافات کو کھلے ذہن کے ساتھ برداشت کرے اور انہیں علمی دلائل اور تحقیق کے ذریعے حل کرنے کا راستہ اپنائے۔
اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علمی اختلاف اور گستاخی میں فرق سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
جامعہ اشرفیہ کا رد عمل:
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن کے ان خیالات کے بعد جامعہ اشرفیہ کے پرنسپل مفتی بدر عالم مصباحی صاحب نے انہیں جامعہ سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اخراج کے دوران جامعہ کے طلبہ نے "گستاخ اعلی حضرت کو بھگاؤ" جیسے نعرے بھی بلند کیے اور ان دونوں طلبہ کو خوف و ہراس کی حالت میں جامعہ سے باہر نکالا گیا۔
اس واقعے کے تناظر میں چند اہم نکات نذر قارئین ہیں:
1:- علمی اختلاف اور گستاخی میں فرق:
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی عظیم علمی شخصیت اور ان کی خدمات کا احترام ہر مسلمان پر لازم ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو ان کے پیروکار ہیں۔ لیکن اعلی حضرت کی تحقیقات یا آراء پر علمی انداز میں ادب اور احترام کے ساتھ اختلاف کرنا گستاخی نہیں، بلکہ علمی اصولوں کے مطابق جائز ہے۔ علمی اختلاف اور گستاخی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ علمی اختلاف دلیل اور ادب کے ساتھ ہوتا ہے، جب کہ گستاخی میں اہانت اور بے ادبی کی نیت شامل ہوتی ہے۔ اس لئے اس مسئلے کو گستاخی کا نام دینا غیر منصفانہ ہے اور علمی اصولوں کے خلاف ہے۔
2:- تحقیقی نظر اور تقلیدی رویہ:
علم کی اہمیت اس میں ہے کہ طلباء کو ذہنی استعداد دی جائے اور تحقیقی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ اگر ہر اختلاف کو بے ادبی یا گستاخی سمجھا جائے گا تو علم کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا اور علم کی روح ختم ہو جائے گی۔ مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن نے ادب اور احترام کے دائرے میں رہ کر علمی اختلاف کیا، جو کہ علم و تحقیق کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اگر طلباء کو تحقیقی نظر سے روکا جائے گا تو وہ اندھی تقلید کا شکار ہوں گے اور علمی ترقی رک جائے گی۔
3:- اعلی حضرت کا تحقیقی اور اجتہادی مزاج:
اعلی حضرت خود ایک عظیم محقق اور مجتہد تھے اور ان کی شخصیت اسی بنیاد پر قائم ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیقات میں روایتی اور اجتہادی دونوں انداز اپنائے۔ اعلی حضرت کے علمی کام کا مقصد یہی تھا کہ ان کے متبعین علم کی راہوں پر گامزن ہوں، نہ کہ تقلید جامد میں الجھ جائیں۔ اگر کوئی ادب اور تحقیق کے دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کرتا ہے، تو یہ ان کے علمی ورثے کی توسیع ہے، نہ کہ اس کی توہین۔
4:- علمی تحقیقات میں تسامح کی روایت :
علمی اصولوں میں تسامح یعنی انسانی خطا کا امکان ہر بزرگ اور عالم کی تحقیقات میں موجود ہے۔ اعلی حضرت کی تحقیقات میں بھی، ممکنہ طور پر بعض مسائل میں تسامح یا خطا کا پہلو ہو سکتا ہے، اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی علمی عظمت پر کوئی سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ بلکہ یہ ایک فطری عمل ہے کہ کوئی بھی انسان خطا سے مبرا نہیں۔ ائمہ اربعہ اور دیگر محدثین و مجتہدین کے اقوال میں بھی تسامح موجود ہے اور یہ علمی اصولوں کا حصہ ہے۔
5:- شدت پسندی کے نتائج:
طلبہ کا نعرے لگا کر "گستاخ اعلی حضرت کو بھگاؤ" جیسا رد عمل دینا جامعہ کے علمی اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ علمی ادارے میں اس طرح کی شدت پسندی کے ماحول کا ہونا خطرناک ہے اور یہ علمی تحقیق اور تفہیم کے خلاف ہے۔ علم کا مقصد دلائل کو سمجھنا اور دوسروں کی آراء کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے نہ صرف علمی ماحول کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ علمی ادارے کا وقار بھی متاثر ہوتا ہے۔
6:- علمی ادارے کی ذمہ داریاں اور برداشت کا کلچر:
جامعہ اشرفیہ جیسے علمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی اختلافات کو کھلے ذہن کے ساتھ برداشت کرے اور انہیں علمی دلائل اور تحقیق کے ذریعے حل کرنے کا راستہ اپنائے۔
اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علمی اختلاف اور گستاخی میں فرق سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔
مولوی ہشام الدین اور مولوی عاشق الرحمن کا اخراج علمی اصولوں اور روایات کے خلاف ہے۔ علمی ادارے کا بنیادی مقصد تحقیق اور تعلیم کا فروغ ہے، اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں طلباء کو دوبارہ داخلہ دینا اور علمی گفتگو کا موقع فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ علم کی دنیا میں علمی برداشت کا کلچر قائم کرنا چاہیے تاکہ تحقیق اور تنقید کو فروغ دیا جا سکے۔