Type Here to Get Search Results !

علم اور عالم حق کی فضیلت

علم اور عالم حق کی فضیلت
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
(1) علم دین موت آنے سے پہلے تک حاصل کرتے رہیں
حضور حکیم الامت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
صوفیہ فرماتے ہیں:
  اطلبوا العلم من المھد الی اللحد۔
یعنی گہوارہ سے قبر تک علم سیکھو 
(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول ص 191)
(2)عالم کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے
وعن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم لن یشبع المؤمن من خیر یسمعہ حتی یکون منتھاہ الجنۃ یعنی روایت ہے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مومن خیر کے سننے سے کبھی سیر نہ ہوگا تاآنکہ اس کی انتہا جنت ہوجائے۔
( ترمذی شریف۔مشکواۃ شریف ) 
اس حدیث کے تحت حضرت علامہ مولانا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں مومن آخر عمر تک طلب علم کی دھن میں رہتا ہے اور اس کی برکت سے بہشت میں پہنچ جاتا ہے اس حدیث میں طالب علم کے لئے بشارت ہے کہ وہ دنیا سے ان شاءاللہ بالایمان جائے گا ۔یہی بشارت حاصل کرنے کے لئے بعض اہل اللہ آخر عمر تک طلب اور تحصیل علم میں مشغول رہے حالانکہ وہ اہل اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم علم میں مرتبہ اعلی حاصل کر چکے تھے تو جو شخص علم یعنی تعلیم دینے اور تصنیف کرنے میں مشغول ہے وہ حقیقۃ طالب علم ہے اور اسے کامل کرنے میں لگا ہوا ہے (اشعۃ اللمعات جلد اول کتاب العلم) 
حضور حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں علم کے حریص کو جنت کی بشارت ہے ان شاءاللہ علم دین کا متلاشی مرتے ہی جنتی ہے علماء فرماتے ہیں کہ کسی کو اپنے خاتمہ کی خبر نہیں سوا عالم دین کے کہ ان کے لئے حضور نے وعدہ فرمایا کہ اللہ جس کہ بھلائی چاہتا ہے اسے علم دین دیتا ہے
(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول ص 191)
(3) علم بقدر تقوی حاصل ہوتا ہے
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
فان العلم فضل من الہ
وفضل اللہ لایعطی لعاص
یعنی علم اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل عاصی اور گنہگار کو عطا نہیں کیا جاتا (اشعۃ اللمعات جلد اول کتاب العلم )
اور حضور حکیم الامت حضرت مولانا مفتی محمد احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم واخلاق بقدر تقوی ملتے ہیں گندے گھر میں بادشاہ نہیں آتا اور گندے دل میں حضور کے اخلاق اور حضور کا علم نہیں سماتے۔
کتابیں پڑھیں دینداری نہ آئی
بخار آگیا پر بخاری نہ ائی
 (مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول ص 190)
(4) مسائل پوچھنے والا مجاہد فی سبیل اللہ ہے
وعن انس قال قال رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ حتی یرجع
یعنی روایت ہے حضور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے کہ جو تلاش علم میں نکلا وہ واپسی تک اللہ کی راہ میں ہے (مشکوٰۃ شریف)
اس حدیث کے تحت حضور حکیم الامت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے اپنے گھر سے یا علم کی جستجو میں اپنے وطن سے علماء کے پاس گیا وہ بھی مجاہد فی سبیل اللہ ہے 
غازی کی طرح گھر لوٹنے تک اس کا سارا وقت اور ہر وقت اور ہر حرکت عبادت ہوگی گھر آجانے کے بعد یہ ثواب ختم ہو جائے گا ( مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول ص 190)
علم سیکھنے کے لئے پوچھا جائز ہے لیکن کسی کو ذلیل کرنے کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہے 
حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علماء کا امتحان لینے یا انہیں ذلیل کرنے کی نیت سے پوچھنا حرام ہے۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری شریف جلد اول ص 352)
پھر فرماتے ہیں کہ حکم شرعی بتانے کے لئے ضروری نہیں کہ انسان پورا عالم ہو ۔جس کو جو حکم شرعی یا دینی بات معتمد طریقے سے معلوم ہوا اور اچھی طرح یاد ہو تو دوسروں کو بتا سکتا ہے۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد اول ص 343)
پھر فرماتے ہیں کہ
سائل کہ لازم ہے کہ جب شیخ یا مفتی کسی سے بات میں مشغول ہو تو اس وقت سوال نہ کرے جب بات پوری کرلے تو سوال کرے اور زیادہ ادب یہ ہے کہ جب وہ متوجہ ہوتا سوال کرے۔(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری جلد اول ص 349)
(5) عالم باعمل کا چرچہ ملکوت میں ہوتا ہے
قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نعم الرجل الفقیہ فی الدین ان احتیج الیہ نفع وان الستغنی عنہ اغنی نفسہ
یعنی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ عالم دین بہت اچھا ہے کہ اگر اس کی ضرورت پڑے تو نفع پہنچاوے اگر اس سے بے پرواہی ہو تو اپنے کو بے نیاز رکھے (مشکوٰۃ شریف) 
حضور حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ مرقاۃ میں ہے کہ عالم باعمل کا چرچہ ملکوت میں ہوتا ہے فرشتے اسے عظیم کہتے ہیں یعنی بڑا آدمی ۔خیال رہے کہ 
جس عالم میں تین باتیں جمع ہوں وہ زمانہ کا سردار ہوگا
(1) علم دین کامل
(2) قناعت اور استغناء
(3) اعمال صالحہ
(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد اول ص 203)
(6)علماء کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور رزق ملتی ہے
حضور محقق دہلوی حضرت علامہ مولانا محمد عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ آسمان سے پانی علماء حقانی کی برکت سے نازل ہوتی ہے جیسا کہ ایک حدیث شریف میں ہے بھم یمطرون وںھم یرزقون یعنی انہی کی بدولت بارش ہوتی ہے اور انہی کی برکت سے اللہ تعالیٰ دنیا والوں کو روزی عطا کرتا ہے (اشعۃ اللمعات جلد اول کتاب العلم)
(7)عالم کے گناہ بخشے ہوئے ہیں
حدیث شریف میں ہے کہ
یستغفر لہ من فی السموات ومن فی الارض یعنی عالم دین کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی ہر چیز بخشش طلب کرتی ہے۔
(مشکواۃ شریف) 
اس حدیث شریف کے تحت حضور علامہ مولانا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں اس حدیث شریف معلوم ہوتا ہے کہ عالم کے گناہ ان شاءاللہ تعالیٰ بخشے ہوئے ہیں کیونکہ تمام زمین وآسمان والے اس کے لئے دعائے مغفرت میں مصروف ہیں وھوالغفور الرحیم 
(اشعۃ اللمعات جلد اول کتاب العلم)
عالم ربانی لالچی نہیں ہوتے ہیں
کیونکہ لالچی انسان حق بول نہیں سکتا ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ حق کہو اگرچہ کڑوی ہو لالچی انسان بزدل ہوتا ہے اور بزدل کبھی شیر کہ طرح زندگی نہیں گزارتا ہے لالچی انسان ذہنی اعتبار سے کمزور ہوتا ہے اس لئے ہرشخص کو خاص کر وسلم دین کو لالچی نہیں ہونا چاہئے 
عن سفیان ان عمر بن الخطاب قال لکعب من ارباب العلم قال کعب الذین یعملون بما یعلمون قال فما آخرج العلم من قلوب العلماء قال الطمع
یعنی حضرت سفیان ثوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب سے پوچھا ارباب علم کون لوگ ہوتے ہیں ؟حضرت کعب نے کہا وہ لوگ جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو علماء کے قلوب سے علم کو کس چیز نے نکالا ہے فرمایا طمع اور لالچ نے۔
(مشکوٰۃ المصابیح شریف کتاب العلم)
اس حدیث کے تحت حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
(2) کس چیز نے علم کا نور ۔اس کی ہیبت وبرکت علماء کے دلوں سے نکال باہر کی ہے 
(3) حضرت کعب احبار نے فرمایا علماء کے دلوں سے علم کو نکالنے والی چیز مال وجاہ کا طمع ولالچ اور دنیا کا مال و متاع ہے مشہور مقولہ ہے 
الطمع یصیر الاسد ابابا
یعنی طمع شیر کو مکھی بنا دیتا ہے اور طمع کی موجودگی میں کلمہ حق کہنا مشکل ہوجاتا ہے
حضرت عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
لالچ ختم کر اور حکمت و دانائی کا دفتر دھو ڈال 
طمع توڑ دے اور جو کچھ تو جانتا کہ 
طمع کے تین حرف ہیں اور تینوں ہی خالی ہیں اس وجہ سے لالچی لوگ خیر وبرکت سے محروم رہتے ہیں
السلامۃ فی الدین بترک الطمع فی المخلوقین 
یعنی دین کی سلامتی مخلوق سے طمع ولالچ کو ترک کردینے میں ہے 
(اشعۃ اللمعات جلد اول کتاب العلم)
 کچھ حضرات دوسرے اہل علم کی اس لئے قدر نہیں کرتے ہیں کہ میں خاندانی ہوں فلاں کا بیٹا ہوں سب کچھ میں ہی ہوں وہ کیا ہے وہ مجھ سے کم علم والا بے اس چیز کو ختم کردینا چایئے اور حق گوئی سے کام لینا چاہیے اسی لئے
ہمارے استاد مکرم حضرت بحر العلوم مفتی سلیمان صاحب قبلہ مرحوم باتھوی رحمتہ اللہ علیہ (جن کا مزار شریف بنگلور میں ہے) نے مجھ سے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
یعنی اے جامی جب تو بندہ عشق بن گیا تو اب خاندانی نسب پر فخر چھوڑ دے کیونکہ اس راہ میں فلاں بن فلاں کوئی چیز نہیں
اسی لئے کسی کو اپنے علم پر کسی کو اپنی سرداری پر کسی کو اپنے خاندان پر عجب نہیں کرنا چاہیے کیونکہ حضرت موسیٰ نبی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خطبہ دیا پوچھا گیا کون سب سے زیادہ علم والا ہے فرمایا :-میں: اس کہنے کی وجہ سے اللہ عزوجل نے موسی ہر عتاب فرمایا کہ انہوں نے یہ نہیں فرمایا ک واللہ اعلم یعنی اللہ خوب جانتا ہے اس کے تحت حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق صاحب امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر سے بدرجہ اعلم تھے لیکن اس جواب میں خود بینی خود نمائی کی بو تھی جو ان کے شایان شان نہ تھی اس لئے ان پر عتاب ہوا جیسا روایت میں ہے
*اعجب موسی بعلمہ نعاتبہ بما القی الخضر* یعنی موسی جو کو اپنے علم پر عجب ہوا اس لئے ان پر عتاب ہوا اور خضر کے ساتھ وہ واقعہ پیش آیا 
اور حقیقت میں یہ امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ وہ عجب میں مبتلا نہ ہوں۔
(نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری شریف جلد اول ص 420)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 25 ربیع الثانی 1446
29 اکتوبر 2024

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area