Type Here to Get Search Results !

سراج السالکین حضرت سید میر محمد طیب بلگرامی قدس سرہ


سراج السالکین حضرت سید میر محمد طیب بلگرامی قدس سرہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
عابدِ شب زندہ دار آئینۂ زین العباد
آشنائے رازِ سجدہ، عارفِ سرِ قیام
میر طیب بلگرامی آپکی کیا شان ہے
آپکے ہر اک عمل میں سیرت قرآن ہے
 "روضۃ الاولیاء" کے اردو ترجمہ؛ (مترجم مولانا صابر رضا برکاتی مصباحی) پر ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ :
 کشورِ ہندوستان میں اسلام و ایمان، علم و فضل اور شعر و ادب کی ترویج و بقا میں صوبۂ اتر پردیش بڑا ہی زرخیز واقع ہوا ہے۔ اس صوبے کی علمی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ یہاں سے علوم و فنون کی وہ ندیاں رواں دواں ہوئیں کہ گلشنِ معرفت و روحانیت آج تک سر سبز و شاداب ہے، اس خطے کو شیرازِ ہند بھی کہا جاتا ہے۔ ریاستِ اتر پردیش کے مختلف اضلاع اور شہروں میں بڑے بڑے علما و صلحا، فقہا و صوفیہ اور مشائخِ عظام نے اپنا مسکن بنا کر تزکیۂ باطن اور اصلاح و تذکیر کے کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جون پور، لکھنؤ، الٰہ آباد، چریاکوٹ، کاکوری، سنڈیلہ، موہان، خیرآباد، بریلی، مبارک پور، کچھوچھہ، لاہر پور، بلگرام وغیرہ نہ جانے ایسے کتنے شہر ہیں جہاں علوم و فنون میں یگانہ، درس و تدریس میں مشّاق، شعر و ادب میں ممتاز اور تصنیف و تالیف میں منفرد ہستیاں جلوہ گر ہوئیں اور ان کی علمی یادگاریں آج بھی اہلِ علم و دانش اور تشنگانِ علم و فن کو سیراب کر رہی ہیں۔
بلگرام اسی ریاست کے ضلع ہردوئی کی بہ ظاہر ایک چھوٹی سی بستی کا نام ہے۔ مگر اس کی شہرت اکنافِ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ بستی دینی و علمی، روحانی و عرفانی، شعری و ادبی اور جغرافیائی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ بادشاہ شمس الدین التمش کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے قدم اس سرزمین پر پہنچے اور یہاں اسلامی شان و شوکت اور تہذیب و تمدن کا چرچا ہوا۔ ساتویں صدی ہجری میں یہاں قدم رنجہ فرمانے والے مسلمانوں میں ساداتِ زیدیہ کا بھی ایک خاندان تھا۔ جس میں جید علما، اولیا، صوفیہ، شعرا، ادبا، حکما اور فقہا گذرے ہیں۔ جنھوں نے بلگرام شریف کی سرزمین کوایسا تقدس عطا کیا کہ یہ اسلامی علوم و فنون کا گنجینہ، تزکیۂ نفس و طہارتِ قلبی کا مرکز، شعر و ادب اور علم و فن کا گہوارہ بن گئی۔
 جہاں سے بڑے بڑے اکابر اولیا و علما و فضلا و کملا مثل حضرت سید شاہ بڈھ بلگرامی ،مجدد اعظم حضرت سید میر عبدالواحد بلگرامی صاحبِ سبع سنابل شریف، قطب الاولیاء شیخ محقق حضرت میر طیب ، حضرت سیدالعارفین شاہ لدھا بلگرامی،علامہ سید عبدالجلیل بلگرامی،حضرت حسان الہند مولانا غلام علی آزادؔ اور حضرت علامۂ زماں سید مرتضیٰ بلگرامی زبیدی یمنی، صاحبِ تاج العروس شرحِ قاموس وغیرہم اجلۂ اکابر نام دار اٹھے، جن کے فضائل و کمالات علمی و عملی آج بھی چہار دانگِ عالم میں مشہور و معروف ہیں۔
انہی میں ایک معتبر ہستی شش جہات شخصیت خانوادہ واحدیہ کے چشم و چراغ قطب الاقطاب اوتاد الاوتاد مجدد وقت سراج السالکین شمس العارفین مادر زاد ولی شہنشاہ ولایت حضرت علامہ مولانا مفتی محدث میر سید محمد طیب بلگرامی قدس سرہ السامی مجدد اعظم شیخ الشیوخ حضرت سید میر عبدالواحد بلگرامی قدس سره السامی کے سب سے چھوٹے فرزند آپ کے جانشین اور سجادے کے مالک تھے آپ کی ذات ستودہ صفات بھی طیب بہت ہی اعلی اور قدسی منزلت تھی۔ اگر جن و انس آپ پر رشک کریں تو زیب دیتا ہے اور اگر ارض و فلک اپنے اوپر فخر کریں تو موزوں ہے مراۃ المبتدین کے مصنف جو کہ حضرت سیدنا میر طیب بلگرامی کے ہم عصر ہیں اس طرح رقم طراز ہیں : " 
حضرت میر سید طیب، اللہ تعالیٰ ان کی عمر دراز اور دولت زیادہ فرمائے آج دنیا کا نظام اور انسان کی برکت آپ کی ذات سے ہے قطبیت ابدالیت مجموعیت اور اوتادیت کا مرتبہ جو کچھ کہہ سکتے میں ان کی ذات میں موجود ہے دولت پیدائشی ہے عبادت کی کثرت سے ایسا معلوم کہ جیسے سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیکٹروں کرامات کے ساتھ ظاہر ہو گئے ہیں۔ جس دن سمجھ آئی نماز قضا نہیں پڑھی اگر اس زمانے سے پہلے ان کا وجود ہوتا تو لوگ انہیں مجتہدین اور سلف صالحین میں شمار کرتے ۔ آج جو شخص پہلے کے اماموں کے دیدار کا خواہش مند ہو اس کو چاہئے کہ میر سید طیب کو دیکھ لے۔ یہ داعی صرف اتنا جانتا ہے کہ دنیا کا نظام انہیں کی ذات سے قائم ہے اور جو کچھ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
 کہ ہر سو سال کے بعد ایک شخص پیدا ہو گا جو ہماری سنت کو زندہ کرے گا آج وہ میر کا وجود ہے۔
میر شاہ لدھا کے والد سید کرم اللہ قدس اللہ اسرار ھما فرماتے تھے کہ اگر کوئی پشخص روئے زمین پر فرشتہ دیکھنا چاہتا ہے تو وہ میرسید طیب کا مشاہدہ کرلے۔ سید العارفین نے ان سے فیض حاصل کیا اور اپنا مرشد کہہ کر یاد فرمایا کرتے تھے
آپ مقرب بارگاہ الٰہی اور فضیلت و روحانیت ولایت کے تاجدار طریقت کے امام تھے ۔
آپ اُن ولیوں میں شامل ہیں جو مادر زاد ہیں 
غوث بھی ہیں، فرد بھی ہیں اور بدل بھی، ذوالکرام
آپ کی نسل مبارک میں مولیٰ تعالیٰ نے ایسی برکتیں و دیعت فرمائی ہیں کہ آٹھ سوسال سے زائد آج تک زمانے کے آفتاب و مہتاب طلوع ہو رہے ہیں ۔ اولیائے کرام میں غوث، قطب، ابدال، اوتاد ،سالک غرض ہر مقام پر تاجدار بلگرام کے شہزادے فائز ہیں، آٹھ سو سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا آپ کی نسل پاک میں علم و فضل اور ولایت وکرامت کے قافلے رواں دواں ہیں ۔ حضرت سید میر عبدالواحد بلگرامی کی نسل پاک میں اللہ تعالیٰ نے کثرت سے اولیاء ، علماء ، ادباء ، شعراء ، صاحبان ذوق و حفاظ ، والیان جاہ و اقتدار پیدا ہوئے۔ آپ کی نسل میں کثرت سے مقربان بارگاہ الٰہی اور اساطین فضیلت و روحانیت پیدا ہوئے۔
حصول تعلیم :
آپ نے علوم ظاہری اور معنوی دونوں کمالات والد بزرگوار حضور سیدنا شاہ میر عبدالواحد بلگرامی کی خدمت اقدس میں رہ کر حاصل کئے۔
جہاں سے شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کے ایسے شناور و رمز شناس بن کر نکلے کہ آپ کو معاصرین نے قطب الاولیاء ،محقق زماں نیز محقق علی الاطلاق علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے شیخ طیب کے وزنی لقب سے ملقب کیا ، مذکورہ القاب آپ کی علمی وجاہت اور روحانی مقبولیت پر بین دلیل ہے اور آپ کی پوری ذات کا تعارف بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔
شیخ طیب کا لقب:- 
محدث علی الاطلاق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ آپ کو شیخ طیب کہا کرتے تھے چنانچہ بیان کیا گیا ۔ ہے کہ شیخ عبد الحق دہلوی اور حضرت سید میر طیب میں بڑی الفت و و محبت تھی۔ شیخ صاحب دہلوی بزرگی کے لحاظ سے حضرت میر کو شیخ طیب کہتے تھے۔
میر کا علمی روحانی قد:-
ایک موقع پر پیری ضعیفی کے زمانہ میں شیخ عبد الحق درس دے رہے تھے کتاب کے ایک مقام پر سوچ میں پڑ گئے ، اس وقت میرسید طیب کو یاد کیا اور فرمایا: "اگر شیخ طیب اس وقت ہوتے تو آسانی سے یہ مقام حل کر دیتے اتفاقا میر سید طیب جو دہلی کے ارادہ سے وطن سے نکلے تھے اسی لمحہ راہ سے کمر بستہ شیخ عبد الحق کی خدمت میں پہنچے، شیخ اس وقت بہت خوش ہوئے اور فرمایا : مرحبا میں آپ کی یاد میں تھا اور دوبارہ قصہ سنا کر کتاب ہاتھ میں لے کر تھوڑی دیر میں سوچا اور اس ڈھنگ سے عبارت پڑھی کہ بغیر تقریر کے مطلب خود بخود واضح ہو گیا۔ شیخ نے حاضرین سے فرمایا: میں نے نہیں کہا تھا ؟ کہ شیخ طیب اس مقام کو آسانی سے حل کریں گے۔
کشف و کرامت :-
حسان الہند مورخ اول الہند حضرت سید میر غلام علی آزاد بلگرامی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف لطیف ماثر الکرام فی بزرگان بلگرام" میں تحریر فرماتے ہیں کہ: سید ضیاء اللہ بلگرامی انہوں نے ایک دن میر سید طیب سے ملاقات کا ارادہ کیا اور خیال کیا کہ اگر آج حضرت میر طیب نے اپنے ہاتھ سے مجھے پان کا بیڑا کھلائیں گے تو میں ان کی ولایت کا معتقد ہو جاؤں گا۔ جب مجلس انور کی حاضری سے فیضاب ہوئے تو حضرت میر کو اشراق ہو گیا ۔ اپنے خادم بلونامی سے فرمایا: ” پان کے بیرے لے آؤ: خادم نے پان کے بیرے پیش کئے حضرت نے محفل کے تمام حاضرین کو بیرے تقسیم کئے اور سید ضیاء اللہ کو نہیں دیا۔ جب مجلس مبارک تمام ہوئی اور سید ضیاء اللہ تنہا رہ گئے تو حضرت میر طیب نے اپنے مبارک ہاتھ سے کھول کر سید ضیاء اللہ کے حوالہ کیا۔ سید صاحب بہت شرمندہ ہوئے حضرت میر نے انہیں ڈانٹا کہ درویشوں کا امتحان نہیں لینا چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا غصہ حرکت میں آجائے۔
شیر کے نرغے سے خادم کو بچایا آپ نے
واہ کیا زورِ کرامت تھا شہِ صد احترام
مرشد حقیقی :-
حضرت سید میر طیب بلگرامی علیہ الرحمہ لاکھوں مریدوں کے پیر بھی تھے زبر دست روحانی تصرفات کے مالک بھی۔ بہت مؤثر تعویذات و نقوش تحریر فرماتے تھے سینکڑوں مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی اس کے باوجود مزاج خالص عالمانہ تھا۔ علم دوستی کے مظاہر آئے دن دیکھنے میں آتے رہتے تھے تمام مصروفیات کے باوجود علم دین اور اس کی قدروں کا خاصا خیال فرماتے تھے علماء ذوی الاحترام حفاظ کرام کی بہت عزت افزائی فرماتے تھے اکابر علما تشریف لاتے تو اپنی جیب خاص سے انہیں نذر پیش فرماتے تھے ان کا شایان شان استقبال اور خدمت کا انتظام فرماتے تھے علمی معاملات میں خصوصی دلچسپی لیتے تھے۔ علمی کام کرنے والوں کی مختلف انداز سے حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔
مریضوں کی فریاد رسی__
آپ کے مزار مبارکہ پر حاضر ہونے والوں، مصیبت زدوں اور مریضوں کی کس قدر بھیڑ رہتی ہے، بلگرام شریف میں آکر جس کا جی چاہے خود اپنی آنکھوں سے آکر دیکھ لے۔ جمعرات کے دان تو تعداد ہزارسے متجاوز ہوتی ہے۔ آپ کے خانقاہ کے سابق سجادہ نشین حضور طاہر ملت حضرت پیر طریقت میر سید طاہر میاں قادری چشتی واحدی علیہ الرحمہ بھی اسی وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ بھی بیماروں مریضوں کی فریاد رسی فرماتے تھے آپ کا حال یہ تھا کہ ناتوانی و ناسازی نحیف طبع ہونے کے باوجود آٹھ سے دس گھنٹے تک بیک نشست آسیب زدوں کی چارہ سازی فرمار ہیں ہوتے تھے۔ نہ بھوک کا احساس نہ پیاس کا غلبہ نہ تھکن، نہ اضطراب، پر سکون انداز میں سب کے دکھ درد سنتے اور حسب حال اس کے درد کا مداوا بھی فرمارہے ہوتے تھے۔ جنجھلاہٹ کا کہیں ذرہ برابر بھی نام و نشان نہیں ۔ بتقضائے بشریت جب تک سب کو تعویذ دے نہیں دیتے ، ان کے درد دور کرنے کی تدبیر کر نہیں لیتے نشست چھوڑ کر نہیں اٹھتے تھے، چاہے صبح سے بیٹھے ہوں اور شام کے چار بچ جائیں اور تاثیر کا یہ عالم کہ سبھی فیض یاب اور با مراد ہو کر لوٹتے تھے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی اہم کام کے لئے گھر میں تشریف لے گئے۔ کوئی صاحب اس وقت آگئے تو اپنا ضروری کام چھوڑ کر ان صاحب کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور پہلے ان کی فریاد رسی کر لیتے پھر اپنا کام دیکھتے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ منجانب اللہ اس خدمت خلق پر مامور تھے۔ خانقاہ عالیہ واحدیہ طیبیہ کے سابق سجادہ نشین مخزن خیر و برکت مخدوم ملت پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت سید میر طاہر میاں قادری چشتی واحدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھ کر حضور مفتی اعظم ہند شاہ مصطفے رضا خان قادری نوری قدس سرہ السامی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔
 شارح بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ نے اپنے ایک مضمون " مفتی اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں میں حضرت مفتی اعظم کی تعویذ نویسی پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے مندرجات سے حضور طاہر ملت کی اس خدمت خلق کے کئی پہلو بھی روشن ہوں گے اور ان کی افادیت لوگوں کے سامنے واضح ہو گی ، اس لئےمضمون طویل ہونے کے باوجود پیش کرتا ہوں۔ حضرت شارح بخاری رقم طراز ہیں: اخیر دور میں جن لوگوں نے حضرت مفتی اعظم ہند کی زیارت کی ، انہوں نے تعویذ لکھتے ہی دیکھا ہے۔ ابتدا میں ہم لوگوں کو بھی اس پر تعجب ہوا اور حیرت بھی۔ اس شغل میں حضرت کو محنت بھی بہت کرنی پڑتی اور سارا وقت اس میں صرف ہو جاتا تھا۔پھر خود بھی فرماتے تعویذ والوں نے ناک میں دم کر رکھا ہے، کسی کام کا نہیں رکھا۔ آنے جانے والوں سے بات چیت بھی نہیں کر سکتا۔ مہمانوں کے پاس بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ کبھی تعویذ والے دیر میں بارہ بجے ایک بجے دن میں آتے تو فرماتے: یہ کوئی وقت تعویذ لینے کا ہے، حاجت مند عرض کرتے کہ فلاں کام میں پھنسا تھا، عور تیں عرض کرتیں: چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، کھانا پکا کر انہیں کھلا کر آئی ہوں۔ اس پر ارشاد فرماتے: اور جس کے پاس آئی ہو وہ بھوت ہے یا فرشتہ کہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے، نہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ کبھی بھیڑ زیادہ ہو جاتی ، بچے شور مچاتے تو جلال میں فرماتے کہ پیر بہوڑا کا میلہ بنا رکھا ہے، جب دیکھو چلے آ رہے ہیں ، چلے آ رہے ہیں۔ گرمیوں میں آٹھ بجے بیٹھک میں تشریف لاتے اور کبھی کبھی دو بجے تشریف لے جاتے ، مگر جب تک تمام حاضرین کو اپنی عادت کے مطابق پورا تعویذ عنایت نہ فرما لیتے ، دوپہر کا کھانا تناول نہ فرماتے ۔ خادم آکر بار بار عرض کرتا کھانا کھا لیں مگر جب تک تمام حاجت مندوں کو تعویذ نہ دے لیتے کھانا تناول نہ فرماتے۔ پھر حال یہ تھا کہ تین تعویذ سے کم کسی کو عنایت نہیں فرماتے۔ ایک عمر بھر پہنے رہنے کا ایک بھوت پریت آسیب 
وغیرہ کے اتارنے کا، ایک خاص اس مرض کا مقدمے والا آتا تو ایک ٹوپی کا، ایک گلے کا، ایک حاکم کے سامنے جائے تو چٹکی میں دہانے کا۔ کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس میں دخل دیتا ؟ لیکن ہوتا یہ کہ حضرت ہیں تو تعویذ والوں کا مجمع ہے، ورنہ میدان صاف۔ رات میں حضرت کہیں باہر تشریف لے گئے تو صبح کو سناٹا اور پھر رات میں واپس آگئے تو پھر وہی مجمع ۔ اس کو ہم حاضرین نے بار بار دیکھا۔ حیرت میں رہتے کہ کسی نے حاجت مندوں سے کہہ دیا کہ حضرت باہر ہیں اور رات میں آئے تو کس نے بتا دیا کہ آگئے ۔ اب ہم لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ من جانب اللہ ہے۔ اس نکتے پر آکر ہم لوگ بالکل خاموش ہو گئے۔ خود ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ " کچھ اللہ والے اپنی کرامتوں کو دوا اور تعویذ میں چھپاتے ہیں۔
اطاعت رسول اللہ :-
الغرض اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں بلکہ بجا ہوگا کہ آپ عارف باللہ ،فنا فی اللہ اور اپنے عہد کے قطب، اوتاد، ابدال و اولیا کرام میں ممتاز نیز مادر زاد ولی تھے ،اتباع شریعت اور اطاعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی زندگی کا خاص مقصد تھا ۔آپ خود بھی سنت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے تھے اور اپنے مریدین و متوسلین کو بھی اس کی تاکید فرماتے تھے ۔ اگر کسی کو خلاف شرع دیکھتے تو اس کی اصلاح فرماتے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی رعایت نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا ہر ایک لمحہ قوم وملت و مذہب اسلام کی ترویج واشاعت کے لئے نیز قوم وملت کی فلاح و بہبودی کے لئے صَرف کر رکھی تھی، ہمہ دم ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے،قرآن مجید کی تلاوت ،احادیث کا ورد اور کتب تصوف کا مطالعہ آپ کے روزانہ کے معمولات میں داخل تھا ۔کتب بینی آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔بعض درسی کتب ہدایہ تفسیر، بیضاوی اور اس کے علاوہ ان کے خاص خط کی حاشیہ چڑ ھائی آج بھی موجود ہیں جو ان کے تبحر علمی اور جودت فطرت پر بین ثبوت ہیں۔
وصال پر ملال و مزار مبارک:-
 حضرت میر طیب بلگرامی پانچ ربیع النور شریف میں 1066ھ/ جنت الفردوس میں جلوہ افروز ہوئے ۔ عمر مبارک 78 سال 11 ماه چار دن کی پائی۔ آپ کا مزار مبارک حضرت سید میر عبدالواحد بلگرامی قدس سرہ السامی کے مزار مبارک کے قریب علیحد و احاطہ میں ہے وصال کی تاریخ " ستون دیں افتاد"ہے واضح ہوکہ مضمون میں شامل اشعار کے خالق محمد حسین مشاہد رضوی برکاتی ہیں 
سرجھکا کر پیش کرتا ہوں بصد عجز و نیاز 
اے شہنشاہِ ولایت آپ پر لاکھوں سلام
آپ کا رتبہ وراے فہم و دانش ہے شہا
جو بھی لکھا ہے قلم نے وہ سبھی ہے ناتمام
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- مولانا عارف القادری واحدی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area