نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا حصّہ دوم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے پر مودودی اور اس کے پیروکاروں کے اعتراضات اور ان کے جوابات : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے پر اعتراض کرتے ہوئے مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ لکھتا ہے :
ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضور کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقتور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے ‘ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضور لکھے پڑھے تھے یا بعد میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا ‘ وہ اوّل تو پہلی ہی نظر میں رد کردینے کے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ‘ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی ‘ ان میں سے ایک بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاملہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام کے ساتھ رسول اللہ لکھنے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضور نے کاتب (یعنی حضرت علی) حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ (الی قولہ) ہوسکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علی نے ” رسول اللہ “ کا لفظ مٹانے سے انکار کردیا تو آپ نے اس کی جگہ ان سے پچھ کر اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ کے الفاظ لکھوا دئے ہوں (الی قولہ) تاہم اگر واقعہ یین ہو کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں ۔ (تفہیم القرآن جلد ٣ صفحہ ٧١٣ ۔ ٧١٤ ملتخصا مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
جواب : پہلی بات یہ ہے کہ سید مودودی کا یہ لکھنا غلط ہے کہ اعلان نبوت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا قرآن مجید کی اس آیت اور اس استدلال کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید نے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی مطلقاً نفی نہیں کی ‘ بلکہ نزول قرآن سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے کی نفی کی ہے۔ لہذا نزول قرآن کے بعد جن احادیث میں آپ کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ روایات قرآن مجید کے خلاف نہیں ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم اور دیگر بکثرت کتب صحاح سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا ثابت ہے اور سید مودودی کا ان احادیث کو بجائے خود کمزور کہنا لائق التفات نہیں ہے۔ ثالثاً سید مودودی نے جو یہ تاویل کہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے کسی اور کاتب سے لکھوا دیا ہو سو یہ احتمال بلا دلیل ہے اور الفاظ کو بلا ضرورت مجاز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ رابعاً اس بحث کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سید مودودی نے نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام ان پڑھ لوگون پر قیاس کیا ہے اور لکھا ہے اگر آپ نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو اییل مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے ‘ نہ لکھ سکتے ہیں۔ عام لوگوں کا ان پڑھ ہونا ان کا نقص اور ان کی جہالت ہے اور رسول اللہ کا امی ہونا ‘ آپ کا کمال ہے ‘ کہ دنیا میں کسی استاد کے آگے زانو تلمذتمہ نہیں کیا ‘ کسی مکتب میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور براہ راست خدائے لم یزل سے علم پاکر اولیں اور آخرین کے علوم بیان فرمائے اور پڑھ کر بھی دکھایا اور لکھ بھی دکھایا ۔
یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست
کتب خانہ چند ملت بشت
اب ہم قارئین کے سامنے بکثرت حوالہ جات کے ساتھ وہ احادیث پیش کرتے ہیں ‘ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لکھنے کا اسناد کیا گیا ہے : ⏬
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کر دیا ‘ حتی کہ اس بات پر صلح کی آپ آئندہ سال عمرہ کریں اور مکہ میں صرف تین دن قیام کریں ‘ جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی ‘ کفار مکہ نے کہا کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ منع کرتے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا میں تو رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں ۔ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا رسول اللہ (کے الفاظ) مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو ہرگز نہیں مٹاٶں گا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لکھنا شروع کیا ‘ اور آپ اچھی طرح (مہارت سے) نہیں لکھتے تھے ۔ پس آپ نے لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی کہ کوئی شخص مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوگا ‘ سو اس کے کہ تلوار نیام میں ہو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٥١‘ مسند احمد ج ٤‘ ص ٢٩٨‘ جامع الا صول ج ٨ رقم الحدیث : ٦١٣٣)
امام بخاری نے اس واقعہ کو ایک اور سند کے ساتھ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں اس طرح ہے : جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ ہے جس پر محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی کفار مکہ نے کہا ہم اس کو نہیں مانتے اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو منع نہ کرتے ‘ لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں ‘ آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں ‘ پھر آپ نے حضرت علی سے کہا رسول اللہ (کے الفاظ) کو مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو نہیں مٹائوں گا ‘ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مکتوب کو پکڑا اور لکھا : وہ یہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٩)
ابوالاعلی مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ ان احادیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے : حضرت براء رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضطراب ہے اور راویوں نے حضرت براء کے جوں کے توں الفاظ نقل نہیں کیے۔ کسی روایت میں لکھنے کا مطلقاً ذکر نہیں ‘ کسی میں صرف ” کتب “ ہے اور کسی میں ہے ” لیس یحسن یکتب ۔ (تفہیم القرآن ‘ ج ٣‘ ص ٧١٤‘ ملحصا ‘ مطبوعہ ادارہ ترجمن القرآن)
یعنی بعض روایات میں ہے ۔ آپ نے لکھا اور بعض روایات میں ہے آپ اچھی طرح یعنی مہارت سے نہیں لکھتے تھے ۔ مودودی کا اس اختلاف کا اضطراب قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔ یہ ایسا اختلاف نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ان روایات کا معنی مضطرب ہوجائے۔ اگر اس قسم کی اختلاف کو اضطرا کہا جائے تو پھر تمام احادیث ساقط الاستدلال قرار پائیں گی ۔
علاوہ ازیں جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ اور بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور ان میں ” کتب “ اور ” لیس یحسن یکتب “ کا اختلاف بھی نہیں ہے ۔ اب ہم دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کو پیش کر رہے ہیں : ⏬
سعید بن جیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جمعرات کا دین ! کیسا تھا وہ جمعرات کا دن ! پھر وہ رونے لگے حتی کہ ان کے آنسوٶں سے سنگریزے بھیگ گئے ۔ پس میں نے کہا اے ابن عباس ! جمعرات کے دن میں کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور زیادہ ہو گیا تھا ‘ آپ نے فرمایا میرے پاس (قلم اور کاغذ) لاٶ میں تمہیں ایک ایسا مکتوب لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ‘ پس صحابہ میں اختلاف ہوگیا اور نبی (علیہ السلام) کے پاس اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ‘ صحابہ نے کہا آپ کا کیا حال ہے ؟ کیا آپ بیماری میں کچھ کہہ رہے ہیں ؟ آپ سے پوچھ لو ۔ مسلم کی ایک روایت (٤١٥٢) میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان کا اختلاف اور شور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے لکھنے کے درمیان حائل ہو گیا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣١،چشتی)(صحیح مسلم ‘ الوصیۃ ‘ ٢٠‘ (١٦٣٧) ٤١٥٤)(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٢٩ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض میں مجھ سے فرمایا میرے لیے ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلائو حتی کہ میں ایک مکتوب لکھ دوں ‘ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے الا کہے گا میں ہی (خلافت کا) مستحق ہوں ‘ اور اللہ اور مومنین ابوبکر کے غیر پر انکار کردیں گے ۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابتہ ١١‘ (٢٣٨٧) ٦٠٦٤ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روم کی طرف مکتوب لکھنے کا ارادہ کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا وہ صرف اسی مکتوب کو پڑھتے ہیں جس پر مہر لگی ہوئی ہو ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی گویا کہ میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دیکھ رہا تھا اس پر نقش تھا ” محمد رسول اللہ ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٥،چشتی)(صحیح مسلم ‘ لباس ‘ ٥٦‘ (٢٠٩٢) ٥٣٧٩)(سنن التسائی رقم الحدیث : ٥٢٠٢)(سنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٤٨ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسری کی طرف ‘ قیصر کی طرف ‘ نجاشی کی طرف اور ہر جابر بادشاہ کی طرف مکاتب لکھے ۔ آپ ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور یہ وہ نجاشی نہیں ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھتی تھی ۔ (صحیح مسلم ١ الجہادو السیر ٧٥‘ (١٧٧٤) ٤٥٢٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٧٢٣‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٤٧ )
امام بخاری اور امام مسلم نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں اور امام ابو دائود اور امام داری نے صرف اس واقعہ کو روایت کیا ہے : حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یلہ کے بادشاہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خط لکھا اور ایک سفید خچر آپ کو ہدیہ میں بھجی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کو خط لکھا اور اس کو ایک چادر ہدیہ میں بھجی ‘ اور آپ نے حکم دیا کہ وہ سمندر کے ساتھ جس شہر میں رہتے ہیں اس میں ان کو جزیہ پر رہنے دیا جائے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٨)(صحیح مسلم ‘ فضائل ‘ ١٢‘ (١٣٩٢) ٥٨٣٩)(سسن ابوداٶد رقم الحدیث : ٣٠٧٩،چشتی)(سنن واری رقم الحدیث : ٢٤٩٥)(مسند احمد ج ٥‘ ص ٤٢٥ )
حضرت سہل بن ابی حشمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محیصہ کسی کام سے خیبر گئے ‘ پھر حجرت محیصہ کو خبر پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن سہل کو قتل کر کے کنویں میں ڈال دیا گیا ‘ وہ یمود کے پاس گئے ‘ (الی ان قال) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو یمود تمہارے مقتول کی دیت ادا کریں گے اور یا وہ اعلان جنگ کو قبول کرلیں ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ (فیصلہ) یمود کی طرف لکھ کر بھیج دیا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١٩٢‘ صحیح مسلم الحدود ‘ ٦ (١٦٦٩) ٤٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٥٢١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٧٢٥۔ ٤٧٢٤‘ موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٦٣٠)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہ حضرت عباس ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت انس ‘ حضرت ابو حمید ساعدی اور حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہم کی روایات ہیں اور یہ سب صحاح ستہ کی روایات ہیں ‘ ان میں سے کسی حدیث کی سند ضعیف نہیں ہے ‘ اور ان تمام احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے کی تصریح ہے اور ان سب کی یہ تاویل کرنا کہ لکھنے سے مراد لکھنے کا حکم دینا ہے صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ مجاز ہے اور جب تک کوئی عقلی یاشرعی استحالہ نہ ہو کسی لفظ کو حقیقت سے ہٹا کر مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں ہے اور بلا وجہ حدیث کے الفاظ کو اپنی مرضی کا معنی پہنانا محض اتباع ہوس ہے ‘ خصوصاً اس صورت میں جب کہ قرآن مجید سے نزول قرآن کے بعد آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ‘ نیز لکھنا اور پڑھنا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور کمال ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کیا مت کو توبہ نعمت عطا فرمائے اور آپ کو اس نعمت سے محروم رکھے ‘ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ کو لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا تھا تو لازم آئے گا کہ اس نعمت اور کمال میں امت آپ سے بڑھ جائے اور یہ کسی طرح جائز نہیں ہے ‘ امت کو اپنے نبی پر مطلقاً فضیلت نہیں ہوتی ‘ جزوی نہ کلی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے کے متعلق محدثین علیہم الرحمہ کی تحقیق : ⏬
علامہ ابو العباس احمد بن عمرالقرطبی المالکی التموفی ٦٥٦ ھ حضرت براء بن عازب ص سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا محمد بن عبداللہ اور ایک روایت میں ہے آپ نے یہ لکھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے ۔ (صحیح البخاری ٤٢٨١‘ ٢٦١٩) ۔ علامہ السمنانی ‘ علامہ ابوزر اور باجی نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا ہے اور ان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اور نہ اس آیت کے معارض ہے ‘ اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ۔ (العنکبوت : ٤٨) اور نہ اس حدیث کے خلاف ہے ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ٧٦١‘ سنن ابودائود ٢٣١٩،چشتی) ۔ بلکہ ان کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کے معجزہ کا اور زیادہ ہونا ہے ‘ اور یہ آپ کے صدق اور آپ کی رسالت کی اور قوی دلیل ہے ‘ آپ نے کسی سے سیکھے بغیر اوعر اس کے عادی اسباب کے حصول کے بغیر لکھا ہے لہذا یہ اپنی جگہ ایک الگ معجزہ ہے ‘ اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی سے پڑھے بغیر اور علم کے دیگر اسباب حاصل کیے بغیر لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور اعلیٰ درجہ کی فضلیت ہے ‘ اسی طرح کسی سے سیکھے بغیر لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا اس وقت آپ نے چند لکیریں ڈالی ہوں اور ان کا مفہوم محمد بن عبداللہ ہو ‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ان حروف کی شناخت ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی شناخت نہ ہو اور ہر تقدیر پر آپ سے امی کا لقب ساقط نہیں ہوگا ‘ اندلسی اور اندلس کے علاوہ دوسرے ممالک کے علماء نے اس نظریہ کی مخالفت کی بلکہ علامہ باجی کی تکفیر کی لیکن یہ درست نہیں ہے اور شریعت میں اس پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے ۔ (المفہم ج ٤‘ ص ٦٣٨ ا ٔ٦٣٧‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی المتوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں : قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اس حدیث سے علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر یہ لکھائی جاری کردی ‘ یا تو آپ کے علم کے بغیر قلم نے لکھ دیا یا اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے لکھنے کا علم دے دیا اور آپ کو پڑھنے والا بنادیا جب کہ آپ اعلان نبوت کے بعد پڑھتے نہ تھے ‘ اور اس سے آپ کے امی ہونے پر اعتراض نہیں ہوتا اور انہوں نے اس موقف پر شعبی کی روایات سے استدلال کیا ہے ‘ اوعر بعض سلف سے منقول ہے کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھ نہیں لیا آپ کی وفات نہیں ہوئی ‘ اور اکثر علماء نے یہ کہا ہے کہ آپ کا لکھنا مطقاً ممنوع ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ۔ (العنکبوت : ١٤٨) ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے استدال کیا ہے : ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں ‘ نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم : ٧٦١‘ ابودائود ‘ ٢٣١٩) ۔ اور بخاری اور مسلم کی حدیث میں جو ہے کہ آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس کا معنی ہے کہ آپ نے اس کے لکھنے کا حکم دیا ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کو رحم کیا ‘ یا آپ نے چور کے ہاتھ کاٹے یا شرابی کو کوڑے لگائے ۔
قاضی عیاض نے کہا لکھنے کے قائلین نے اس آیت کا یہ جواب دیا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر نزول وحی سے پہلے آپ کتبا سے پڑھتے یا لکھتے تو کفار اس قرآن کے متعلق شک میں پڑجاتے ‘ اور جس طرح آپ کا تلاوت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آپ کا لکھنا بھی جائز ہے اور یہ آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے کیونکہ نزول وحی سے پہلے آپکا نہ پڑھنا اور نہ لکھنا ‘ اور نہ لکھنا ‘ اور پھر قرآن پیش کرنا اور ان علوم کو پیش کرنا جن کو امی نہیں جانتے یہ ایک معجزہ ہے ۔ اور جن لوگوں نے اس حدیث میں یہ تاویل کہ ہے کہ لکھنے کا معنی ہے آپ نے لکھنے کا حکم دیا۔ یہ تاویل ظاہر حدیث سے بلا ضرورت عدول کرنا ہے ‘ جب کہ حدیث کی عبارت یہ ہے کہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے ‘ پھر آپ نے لکھا ‘ اس میں یہ تصریح ہے کہ ٓپ نے خود لکھا اور جس طرح قرآن مجید میں ہے : ہم نے آپ کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ یہ آپ کے لائق ہے ۔ (یسین : ٦٩) ۔ اس کے باوجود آپ نے منظوم کلام کہا مثلاً : ⏬
ھل انت الا اصبع دمیت
وفی سبیل اللہ ما لقیت
تو صرف ایک انگلی ہے جو زخمی ہوئی ہے ‘ حالانکہ تیرے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ کی راہ میں ہوا ہے ۔
کیونکہ آپ نے شعر گوئی کے قصد اور ارادہ کے بغیر یہ منظوم کلام فرمایا اسی طرح ہوسکتا ہے کہ لکھنا بھی آپ سے اسی طرح صادر ہوا ہو ۔ (شرح الطیبی ج ٨‘ ص ٧٧ : ٧٦‘ مطبوعہ ادارہ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤١٣ ھ)
علامہ طیبی کی اس آخری توجہیہ سے ہم متفق نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک آپ کو لکھنے کا علم تھا اور آپ نے قصداً لکھا تھا ‘ غیر ارادی طور پر آپ سے لکھنا صادر نہیں ہوا۔ جو شخص آپ کے امی ہونے کی وجہ سے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کا انکار کرتا ہے ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم ہیں یا نہیں۔ اگر وہ آپ کو عالم نہیں مانتا تو وہ مسلمان نہیں ہے اور اگر وہ آپ کو عالم مانتا ہے تو جس طرح لکھنا پڑھنا امی کے منافی ہے ‘ اسی طرح عالم ہونا بھی امی کے منافی ہیں۔ خصوصا وہ جو تمام مخلوقات سے بڑے عالم ہوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام شرعیہ کے الم ہیں اور اسرار الہیہ کے عارف ہیں ایک امی کی یہ صفت کیسے ہوسکتی ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے امی ہونے کے باوجود آپ کو ان علوم سے نوازا ‘ اسی طرح آپ کو لکھنے اور پڑھنے کے علم سے بھی نوازا ۔ علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٢٧٦ ھ ‘ علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ اور علامہ سنوسی متوفی ٨٩٥ ھ ‘ ان سب نے قاضی عیاض کی عبارت نقل کی ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے۔ جنہوں نے علامہ باجی مالکی متوفی ٨٩٤ ھ پر تشنیع کی ہے ۔ (صحیح مسلم مع شرح النوادی ج ٨‘ ص ٤٩٦٦‘ اکمال المعلم ج ٦‘ ص ٤٢٢۔ ٤٢١‘ معلم اکمال الاکمال ‘ ج ٦‘ ص ٤٢١،چشتی) علامہ بدالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : میں یہ کہتا ہوں کہ یہ منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا ۔ (عمدہ القاری ج ٢‘ ص ٣٠‘ مطبوعہ مصر)
نیز لکھتے ہیں : اور یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٢‘ ص ١٧١‘ مطبوعہ مصر)
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس پر یہ سوال ہوا کہ آپ تو امی تھے آپ نے اپنا نام کیسے لکھا ؟
علامہ عینی نے اس کے تین جواب دیے ہیں : پہلا جواب یہ ہے کہ امی وہ شخص ہے جو مہارت سے نہ لکھتا ہو نہ کہ وہ جو مطلقاً نہ لکھتا ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں اسناد مجازی ہے ‘ اور تیسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ (عمدۃ القاری ‘ ج ١٨‘ ص ١١٣‘ مطبوعہ مصر)
علامہ عینی کا دوسرا جواب صحیح نہیں ہے اور ان کی پہلی تصریحات کے بھی غلاف ہے۔ انہوں نے یہ جواب علامہ باجی کے مخالفین سے نقل کیا ہے ‘ صحیح جواب دہ ہے جس کو انہوں نے آخر میں ذکر کیا ہے ۔
حافظ شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ء نے اس مسئلہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے ‘ ہم یہ پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ہرچند کہ اس کی بعض چیزیں علامہ طیبی کی عبارت میں آچکی ہیں ۔
علامہ ابوالولید باجی مالکی نے صیحح بخاری کی اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے پر استدلال کیا ہے ‘ جس میں ہے ” پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھا “ یہ محمد بن عبداللہ کا فیصلہ ہے ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے۔ ان کے زمانہ کے علماء اندلس نے ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ قول قرآن مجید کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں ہے : ” وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک “ آپ نزول قرآن سے پہلے نہ تو کتاب سے پڑھتے تھے نہ لکھتے تھے۔ علامہ باجی نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن مجید میں نزول قرآن میں نزول قرآن سے پہلے آپ کے پڑھنے اور لکھنے کی نفی ہے ‘ اور جب معجزات سے آپ کی نبوت ثابت ہوگئی اور آپ کی نبوت میں شک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ کے پڑھنے اور لکھنے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی ‘ اور یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے۔ علامہ ابن وحیہ نے کہا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے علامہ باجی کے موقف کی حمایت کی ‘ ان میں شیخ ابوذر ہر وی ‘ ابو الفتح نیشا پوری اور افریقہ اور دوسرے شہروں کے علماء شامل ہیں۔ بعض علماء نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے پر امام ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے : مجاہد ‘ عون بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے ‘ جب تک آپنے لکھ اور پڑھ نہیں لیا ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ نے شعبی سے اس روایت کا ذکر کیا انہوں نے کہا عون بن عبداللہ نے سچ کہا ہے ‘ میں اس روایت کا سنا ہے ‘ (حافظ ابن ھجر لکھتے ہیں) سہل بن حنظلیہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاویہ سے کہا کہ وہ اقراع اور عینہ کے لیے لکھیں۔ عینہ نے اس پر کہا تمارا کیا خیال ہے کیا میں متلمس کا صحیفہ لے کر جائوں گا ؟ (یعنی تم نے کچھ کا کچھ تو نہیں لکھ دیا ؟ ) اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحیفہ پر نظر ڈالی اور فرمایا معاویہ نے وہی لکھا ہے جو میں نے کہا تھا یونس کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول قرآن کے بعد لکھا ہے (سہل بن حنظلیہ کی روایت مذکورہ میں آپ کے پڑھنے کا ثبوت ہے) قاضی عیاض نے کہا ہے کہ بعض آثار سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لکھنے اور خوش خطی کی معرفت تھی ‘ کیونکہ آپ نے کاتب سے فرمایا قلم اپنے کان پر رکھو یہ تم کو یاد دلائے گا اور آپ نے حضرت معاویہ سے فرمایا دوات رکھ اور قلم ایک کنار سے رکھو ‘ باء کو لمبا کر کے لکھو ‘ سین دندانے دار لکھو اور میم کو کا نا مت کرو۔ قاضی عیاض نے کہا ہرچند کہ اس روایت سے آپ کا لکھنا ثابت نہیں ہوتا لیکن آپ کو لکھنے کا علم دیا جانا مستبعد نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کو ہر چیز کو علم دیا گیا ہے ‘ اور جمہور نے ان احادیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں اور حدیبہ کی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ ایک واقعہ ہے اور اس میں لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے ‘ اور مسور کی حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حجرت علی نے لکھا تھا اور صحیح بخاری کی حدیث میں تقدیر عبارت اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح نامہ کو لیا اور اس میں محمد رسول اللہ کو مٹا دیا پھر حضرت علی کو وہ صلح نامہ دوبارہ دے دیا ‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس میں لکھا۔ علامہ ابن التین نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث میں جو ہے ” آپ نے لکھا “ اس معنی ہے آپ نے لکھنے کا حکم دیا ‘ اور اس کی حدیث میں بہت مثالیں ہیں ‘ جیسے ہے آپ نے قیصر کی طرف لکھا اور آپ نے کسریٰ کی طرف لکھا ‘ اور اگر اس حدیث کو اپنے ظاہر پر بھی محمول کیا جائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا اسم مبارک لکھا تھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ لکھنے کے عالم ہوں اور آپ امی نہ ہوں ‘ کیونہ بہت سے لوگ مہارت سے نہیں لکھتے ‘ اس کے باوجود وہ بعض الفاظ کو پہنچانتے ہیں اور ان کو اپنی جگہ پر رکھ سکتے ہیں خصوصا اسماء کو ‘ اور اس وصف کی وجہ سے وہ امی (ان پڑھ) ہونے سے خارج نہیں ہوتے۔ جیسا اکثر بادشاہ اسی طرح ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت آپ کے ہاتھ پر لکھنے کا عمل جاری ہوگیا ہو اور آپ مہارت سے نہ لکھتے ہوں اور اس صلحنامہ کو آپ نے حسب منشا لکھ دیا ہو ‘ اور یہ اس خاص وقت میں الگ ایک معجزہ ہو ‘ اور اس سے آپ امی ہونے سے خارج نہ ہوں۔ اشاعرہ کے ائمہ اصول میں سے علامہ السمنانی نے یہی جواب دیا ہے ‘ اور علامہ ابن جوزی نے بھی ان کی اتباع کی ہے ‘ علامہ سہیلی نے اس جواب کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ہرچند کہ یہ ممکن ہے اور آپ کے لکھنے سے ایک اور معجزہ ثابت ہوتا ہے ‘ لیکن یہ اس کے مخالف ہے کہ آپ امی تھے جو لکھتا نہیں ‘ اور جس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ” اگر آپ نزول قرآن سے پہلے لکھتے ہوتے تو منکرین آپ کی نبوت کے متعلق شک میں پڑجاتے “ اس آیت نے تمام شکوک و شبہات کی جڑ کاٹ دی ہے ‘ اگر نزول وحی کے بعد کے بعد آپ کا لکھنا جائز ہوتا تو منکرین پھر شبہ میں پڑجاتے اور قرآن کے معاندین یہ کہتے کہ آپ مہارت سے لکھتے تھے لیکن اس کو چھپاتے تھے ‘ علامہ سہیلی نے اس کے جواب میں کہا یہ محال ہے کہ بعض معجزات ‘ بعض دوسرے معجزات کے مخالف ہوں ‘ اور حق یہ ہے کہ آپ کے لکھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی ص کو لکھنے کا حکم دیا ‘ علامہ سہیلی کی بات ختم ہوئی ‘ حاٖط عسقلانی فرماتے ہیں : یہ کہ ان کہ فقط اپنا نام لکھنا ‘ آپکے امی ہونے اور معجزہ کے مخالف ہے۔ سو یہ بہت قابل اعتراض ہے ۔ (فتح الباری ج ٧‘ ص ٥٠٤‘ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ،چشتی)
جواب : پہلی بات یہ ہے کہ سید مودودی کا یہ لکھنا غلط ہے کہ اعلان نبوت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا قرآن مجید کی اس آیت اور اس استدلال کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید نے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی مطلقاً نفی نہیں کی ‘ بلکہ نزول قرآن سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے کی نفی کی ہے۔ لہذا نزول قرآن کے بعد جن احادیث میں آپ کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ روایات قرآن مجید کے خلاف نہیں ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم اور دیگر بکثرت کتب صحاح سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا لکھنا ثابت ہے اور سید مودودی کا ان احادیث کو بجائے خود کمزور کہنا لائق التفات نہیں ہے۔ ثالثاً سید مودودی نے جو یہ تاویل کہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ آپ نے کسی اور کاتب سے لکھوا دیا ہو سو یہ احتمال بلا دلیل ہے اور الفاظ کو بلا ضرورت مجاز پر محمول کرنا صحیح نہیں ہے۔ رابعاً اس بحث کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سید مودودی نے نبی امی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام ان پڑھ لوگون پر قیاس کیا ہے اور لکھا ہے اگر آپ نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو تو اییل مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں ‘ باقی کوئی چیز نہیں پڑھ سکتے ‘ نہ لکھ سکتے ہیں۔ عام لوگوں کا ان پڑھ ہونا ان کا نقص اور ان کی جہالت ہے اور رسول اللہ کا امی ہونا ‘ آپ کا کمال ہے ‘ کہ دنیا میں کسی استاد کے آگے زانو تلمذتمہ نہیں کیا ‘ کسی مکتب میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور براہ راست خدائے لم یزل سے علم پاکر اولیں اور آخرین کے علوم بیان فرمائے اور پڑھ کر بھی دکھایا اور لکھ بھی دکھایا ۔
یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست
کتب خانہ چند ملت بشت
اب ہم قارئین کے سامنے بکثرت حوالہ جات کے ساتھ وہ احادیث پیش کرتے ہیں ‘ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لکھنے کا اسناد کیا گیا ہے : ⏬
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ میں عمرہ کیا تو اہل مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کر دیا ‘ حتی کہ اس بات پر صلح کی آپ آئندہ سال عمرہ کریں اور مکہ میں صرف تین دن قیام کریں ‘ جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی ‘ کفار مکہ نے کہا کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو نہ منع کرتے لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا میں تو رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں ۔ پھر آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا رسول اللہ (کے الفاظ) مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو ہرگز نہیں مٹاٶں گا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (لکھنا شروع کیا ‘ اور آپ اچھی طرح (مہارت سے) نہیں لکھتے تھے ۔ پس آپ نے لکھا یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی کہ کوئی شخص مکہ میں ہتھیار لے کر داخل نہیں ہوگا ‘ سو اس کے کہ تلوار نیام میں ہو ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٥١‘ مسند احمد ج ٤‘ ص ٢٩٨‘ جامع الا صول ج ٨ رقم الحدیث : ٦١٣٣)
امام بخاری نے اس واقعہ کو ایک اور سند کے ساتھ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں اس طرح ہے : جب انہوں نے صلح نامہ لکھا تو اس میں یہ لکھا کہ یہ وہ ہے جس پر محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی کفار مکہ نے کہا ہم اس کو نہیں مانتے اگر ہم کو یہ یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو منع نہ کرتے ‘ لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں ‘ آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں اور میں محمد بن عبداللہ ہوں ‘ پھر آپ نے حضرت علی سے کہا رسول اللہ (کے الفاظ) کو مٹا دو ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ! خدا کی قسم ! میں آپ (کے الفاظ) کو نہیں مٹائوں گا ‘ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مکتوب کو پکڑا اور لکھا : وہ یہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٩)
ابوالاعلی مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ ان احادیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے : حضرت براء رضی اللہ عنہ کی روایت میں اضطراب ہے اور راویوں نے حضرت براء کے جوں کے توں الفاظ نقل نہیں کیے۔ کسی روایت میں لکھنے کا مطلقاً ذکر نہیں ‘ کسی میں صرف ” کتب “ ہے اور کسی میں ہے ” لیس یحسن یکتب ۔ (تفہیم القرآن ‘ ج ٣‘ ص ٧١٤‘ ملحصا ‘ مطبوعہ ادارہ ترجمن القرآن)
یعنی بعض روایات میں ہے ۔ آپ نے لکھا اور بعض روایات میں ہے آپ اچھی طرح یعنی مہارت سے نہیں لکھتے تھے ۔ مودودی کا اس اختلاف کا اضطراب قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔ یہ ایسا اختلاف نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ان روایات کا معنی مضطرب ہوجائے۔ اگر اس قسم کی اختلاف کو اضطرا کہا جائے تو پھر تمام احادیث ساقط الاستدلال قرار پائیں گی ۔
علاوہ ازیں جن احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے کا ثبوت ہے وہ اور بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں اور ان میں ” کتب “ اور ” لیس یحسن یکتب “ کا اختلاف بھی نہیں ہے ۔ اب ہم دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کو پیش کر رہے ہیں : ⏬
سعید بن جیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا جمعرات کا دین ! کیسا تھا وہ جمعرات کا دن ! پھر وہ رونے لگے حتی کہ ان کے آنسوٶں سے سنگریزے بھیگ گئے ۔ پس میں نے کہا اے ابن عباس ! جمعرات کے دن میں کیا بات ہے ؟ انہوں نے کہا اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور زیادہ ہو گیا تھا ‘ آپ نے فرمایا میرے پاس (قلم اور کاغذ) لاٶ میں تمہیں ایک ایسا مکتوب لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ‘ پس صحابہ میں اختلاف ہوگیا اور نبی (علیہ السلام) کے پاس اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ‘ صحابہ نے کہا آپ کا کیا حال ہے ؟ کیا آپ بیماری میں کچھ کہہ رہے ہیں ؟ آپ سے پوچھ لو ۔ مسلم کی ایک روایت (٤١٥٢) میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ان کا اختلاف اور شور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے لکھنے کے درمیان حائل ہو گیا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣١،چشتی)(صحیح مسلم ‘ الوصیۃ ‘ ٢٠‘ (١٦٣٧) ٤١٥٤)(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٢٩ )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض میں مجھ سے فرمایا میرے لیے ابوبکر کو اور اپنے بھائی کو بلائو حتی کہ میں ایک مکتوب لکھ دوں ‘ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہنے الا کہے گا میں ہی (خلافت کا) مستحق ہوں ‘ اور اللہ اور مومنین ابوبکر کے غیر پر انکار کردیں گے ۔ (صحیح مسلم فضائل الصحابتہ ١١‘ (٢٣٨٧) ٦٠٦٤ )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روم کی طرف مکتوب لکھنے کا ارادہ کیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا وہ صرف اسی مکتوب کو پڑھتے ہیں جس پر مہر لگی ہوئی ہو ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی گویا کہ میں اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دیکھ رہا تھا اس پر نقش تھا ” محمد رسول اللہ ۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : ٦٥،چشتی)(صحیح مسلم ‘ لباس ‘ ٥٦‘ (٢٠٩٢) ٥٣٧٩)(سنن التسائی رقم الحدیث : ٥٢٠٢)(سنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٤٨ )
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسری کی طرف ‘ قیصر کی طرف ‘ نجاشی کی طرف اور ہر جابر بادشاہ کی طرف مکاتب لکھے ۔ آپ ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے اور یہ وہ نجاشی نہیں ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھتی تھی ۔ (صحیح مسلم ١ الجہادو السیر ٧٥‘ (١٧٧٤) ٤٥٢٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٧٢٣‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٨٤٧ )
امام بخاری اور امام مسلم نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں اور امام ابو دائود اور امام داری نے صرف اس واقعہ کو روایت کیا ہے : حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یلہ کے بادشاہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خط لکھا اور ایک سفید خچر آپ کو ہدیہ میں بھجی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کو خط لکھا اور اس کو ایک چادر ہدیہ میں بھجی ‘ اور آپ نے حکم دیا کہ وہ سمندر کے ساتھ جس شہر میں رہتے ہیں اس میں ان کو جزیہ پر رہنے دیا جائے ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٨)(صحیح مسلم ‘ فضائل ‘ ١٢‘ (١٣٩٢) ٥٨٣٩)(سسن ابوداٶد رقم الحدیث : ٣٠٧٩،چشتی)(سنن واری رقم الحدیث : ٢٤٩٥)(مسند احمد ج ٥‘ ص ٤٢٥ )
حضرت سہل بن ابی حشمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سہل اور حضرت محیصہ کسی کام سے خیبر گئے ‘ پھر حجرت محیصہ کو خبر پہنچی کہ حضرت عبداللہ بن سہل کو قتل کر کے کنویں میں ڈال دیا گیا ‘ وہ یمود کے پاس گئے ‘ (الی ان قال) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو یمود تمہارے مقتول کی دیت ادا کریں گے اور یا وہ اعلان جنگ کو قبول کرلیں ‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ (فیصلہ) یمود کی طرف لکھ کر بھیج دیا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١٩٢‘ صحیح مسلم الحدود ‘ ٦ (١٦٦٩) ٤٧٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٥٢١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٧٢٥۔ ٤٧٢٤‘ موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٦٣٠)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے علاوہ یہ حضرت عباس ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت انس ‘ حضرت ابو حمید ساعدی اور حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہم کی روایات ہیں اور یہ سب صحاح ستہ کی روایات ہیں ‘ ان میں سے کسی حدیث کی سند ضعیف نہیں ہے ‘ اور ان تمام احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے کی تصریح ہے اور ان سب کی یہ تاویل کرنا کہ لکھنے سے مراد لکھنے کا حکم دینا ہے صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ مجاز ہے اور جب تک کوئی عقلی یاشرعی استحالہ نہ ہو کسی لفظ کو حقیقت سے ہٹا کر مجاز پر محمول کرنا جائز نہیں ہے اور بلا وجہ حدیث کے الفاظ کو اپنی مرضی کا معنی پہنانا محض اتباع ہوس ہے ‘ خصوصاً اس صورت میں جب کہ قرآن مجید سے نزول قرآن کے بعد آپ کے لکھنے اور پڑھنے کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں ‘ نیز لکھنا اور پڑھنا اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور کمال ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کیا مت کو توبہ نعمت عطا فرمائے اور آپ کو اس نعمت سے محروم رکھے ‘ اور اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ کو لکھنا اور پڑھنا نہیں آتا تھا تو لازم آئے گا کہ اس نعمت اور کمال میں امت آپ سے بڑھ جائے اور یہ کسی طرح جائز نہیں ہے ‘ امت کو اپنے نبی پر مطلقاً فضیلت نہیں ہوتی ‘ جزوی نہ کلی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے کے متعلق محدثین علیہم الرحمہ کی تحقیق : ⏬
علامہ ابو العباس احمد بن عمرالقرطبی المالکی التموفی ٦٥٦ ھ حضرت براء بن عازب ص سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا محمد بن عبداللہ اور ایک روایت میں ہے آپ نے یہ لکھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے ۔ (صحیح البخاری ٤٢٨١‘ ٢٦١٩) ۔ علامہ السمنانی ‘ علامہ ابوزر اور باجی نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر محمول کیا ہے اور ان کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے ‘ اور نہ اس آیت کے معارض ہے ‘ اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ۔ (العنکبوت : ٤٨) اور نہ اس حدیث کے خلاف ہے ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ٧٦١‘ سنن ابودائود ٢٣١٩،چشتی) ۔ بلکہ ان کی تحقیق یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کے معجزہ کا اور زیادہ ہونا ہے ‘ اور یہ آپ کے صدق اور آپ کی رسالت کی اور قوی دلیل ہے ‘ آپ نے کسی سے سیکھے بغیر اوعر اس کے عادی اسباب کے حصول کے بغیر لکھا ہے لہذا یہ اپنی جگہ ایک الگ معجزہ ہے ‘ اور جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی سے پڑھے بغیر اور علم کے دیگر اسباب حاصل کیے بغیر لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور اعلیٰ درجہ کی فضلیت ہے ‘ اسی طرح کسی سے سیکھے بغیر لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں اور یہ آپ کا بہت بڑا معجزہ ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا اس وقت آپ نے چند لکیریں ڈالی ہوں اور ان کا مفہوم محمد بن عبداللہ ہو ‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ان حروف کی شناخت ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کو ان کی شناخت نہ ہو اور ہر تقدیر پر آپ سے امی کا لقب ساقط نہیں ہوگا ‘ اندلسی اور اندلس کے علاوہ دوسرے ممالک کے علماء نے اس نظریہ کی مخالفت کی بلکہ علامہ باجی کی تکفیر کی لیکن یہ درست نہیں ہے اور شریعت میں اس پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے ۔ (المفہم ج ٤‘ ص ٦٣٨ ا ٔ٦٣٧‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی المتوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں : قاضی عیاض نے کہا ہے کہ اس حدیث سے علماء نے اس پر استدلال کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر یہ لکھائی جاری کردی ‘ یا تو آپ کے علم کے بغیر قلم نے لکھ دیا یا اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے لکھنے کا علم دے دیا اور آپ کو پڑھنے والا بنادیا جب کہ آپ اعلان نبوت کے بعد پڑھتے نہ تھے ‘ اور اس سے آپ کے امی ہونے پر اعتراض نہیں ہوتا اور انہوں نے اس موقف پر شعبی کی روایات سے استدلال کیا ہے ‘ اوعر بعض سلف سے منقول ہے کہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھ نہیں لیا آپ کی وفات نہیں ہوئی ‘ اور اکثر علماء نے یہ کہا ہے کہ آپ کا لکھنا مطقاً ممنوع ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور آپ نزول قرآن سے پہلے کسی کتاب کو نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ۔ (العنکبوت : ١٤٨) ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے استدال کیا ہے : ہم ان پڑھ امت ہیں نہ لکھتے ہیں ‘ نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح مسلم : ٧٦١‘ ابودائود ‘ ٢٣١٩) ۔ اور بخاری اور مسلم کی حدیث میں جو ہے کہ آپ نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس کا معنی ہے کہ آپ نے اس کے لکھنے کا حکم دیا ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کو رحم کیا ‘ یا آپ نے چور کے ہاتھ کاٹے یا شرابی کو کوڑے لگائے ۔
قاضی عیاض نے کہا لکھنے کے قائلین نے اس آیت کا یہ جواب دیا ہے کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر نزول وحی سے پہلے آپ کتبا سے پڑھتے یا لکھتے تو کفار اس قرآن کے متعلق شک میں پڑجاتے ‘ اور جس طرح آپ کا تلاوت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح آپ کا لکھنا بھی جائز ہے اور یہ آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے کیونکہ نزول وحی سے پہلے آپکا نہ پڑھنا اور نہ لکھنا ‘ اور نہ لکھنا ‘ اور پھر قرآن پیش کرنا اور ان علوم کو پیش کرنا جن کو امی نہیں جانتے یہ ایک معجزہ ہے ۔ اور جن لوگوں نے اس حدیث میں یہ تاویل کہ ہے کہ لکھنے کا معنی ہے آپ نے لکھنے کا حکم دیا۔ یہ تاویل ظاہر حدیث سے بلا ضرورت عدول کرنا ہے ‘ جب کہ حدیث کی عبارت یہ ہے کہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے ‘ پھر آپ نے لکھا ‘ اس میں یہ تصریح ہے کہ ٓپ نے خود لکھا اور جس طرح قرآن مجید میں ہے : ہم نے آپ کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ یہ آپ کے لائق ہے ۔ (یسین : ٦٩) ۔ اس کے باوجود آپ نے منظوم کلام کہا مثلاً : ⏬
ھل انت الا اصبع دمیت
وفی سبیل اللہ ما لقیت
تو صرف ایک انگلی ہے جو زخمی ہوئی ہے ‘ حالانکہ تیرے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اللہ کی راہ میں ہوا ہے ۔
کیونکہ آپ نے شعر گوئی کے قصد اور ارادہ کے بغیر یہ منظوم کلام فرمایا اسی طرح ہوسکتا ہے کہ لکھنا بھی آپ سے اسی طرح صادر ہوا ہو ۔ (شرح الطیبی ج ٨‘ ص ٧٧ : ٧٦‘ مطبوعہ ادارہ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤١٣ ھ)
علامہ طیبی کی اس آخری توجہیہ سے ہم متفق نہیں ہیں۔ ہمارے نزدیک آپ کو لکھنے کا علم تھا اور آپ نے قصداً لکھا تھا ‘ غیر ارادی طور پر آپ سے لکھنا صادر نہیں ہوا۔ جو شخص آپ کے امی ہونے کی وجہ سے آپ کے لکھنے اور پڑھنے کا انکار کرتا ہے ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم ہیں یا نہیں۔ اگر وہ آپ کو عالم نہیں مانتا تو وہ مسلمان نہیں ہے اور اگر وہ آپ کو عالم مانتا ہے تو جس طرح لکھنا پڑھنا امی کے منافی ہے ‘ اسی طرح عالم ہونا بھی امی کے منافی ہیں۔ خصوصا وہ جو تمام مخلوقات سے بڑے عالم ہوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام شرعیہ کے الم ہیں اور اسرار الہیہ کے عارف ہیں ایک امی کی یہ صفت کیسے ہوسکتی ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے امی ہونے کے باوجود آپ کو ان علوم سے نوازا ‘ اسی طرح آپ کو لکھنے اور پڑھنے کے علم سے بھی نوازا ۔ علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٢٧٦ ھ ‘ علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ اور علامہ سنوسی متوفی ٨٩٥ ھ ‘ ان سب نے قاضی عیاض کی عبارت نقل کی ہے اور ان لوگوں کا رد کیا ہے۔ جنہوں نے علامہ باجی مالکی متوفی ٨٩٤ ھ پر تشنیع کی ہے ۔ (صحیح مسلم مع شرح النوادی ج ٨‘ ص ٤٩٦٦‘ اکمال المعلم ج ٦‘ ص ٤٢٢۔ ٤٢١‘ معلم اکمال الاکمال ‘ ج ٦‘ ص ٤٢١،چشتی) علامہ بدالدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : میں یہ کہتا ہوں کہ یہ منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے لکھا ۔ (عمدہ القاری ج ٢‘ ص ٣٠‘ مطبوعہ مصر)
نیز لکھتے ہیں : اور یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٢‘ ص ١٧١‘ مطبوعہ مصر)
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محمد بن عبداللہ لکھا ‘ اس پر یہ سوال ہوا کہ آپ تو امی تھے آپ نے اپنا نام کیسے لکھا ؟
علامہ عینی نے اس کے تین جواب دیے ہیں : پہلا جواب یہ ہے کہ امی وہ شخص ہے جو مہارت سے نہ لکھتا ہو نہ کہ وہ جو مطلقاً نہ لکھتا ہو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں اسناد مجازی ہے ‘ اور تیسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا لکھنا آپ کا معجزہ تھا۔ (عمدۃ القاری ‘ ج ١٨‘ ص ١١٣‘ مطبوعہ مصر)
علامہ عینی کا دوسرا جواب صحیح نہیں ہے اور ان کی پہلی تصریحات کے بھی غلاف ہے۔ انہوں نے یہ جواب علامہ باجی کے مخالفین سے نقل کیا ہے ‘ صحیح جواب دہ ہے جس کو انہوں نے آخر میں ذکر کیا ہے ۔
حافظ شہاب الدین احمد بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ء نے اس مسئلہ پر بہت تفصیل سے لکھا ہے ‘ ہم یہ پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ہرچند کہ اس کی بعض چیزیں علامہ طیبی کی عبارت میں آچکی ہیں ۔
علامہ ابوالولید باجی مالکی نے صیحح بخاری کی اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے پر استدلال کیا ہے ‘ جس میں ہے ” پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھا “ یہ محمد بن عبداللہ کا فیصلہ ہے ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے۔ ان کے زمانہ کے علماء اندلس نے ان پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ قول قرآن مجید کے خلاف ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں ہے : ” وما کنت تتلوا من قبلہ من کتب ولا تخطہ بیمینک “ آپ نزول قرآن سے پہلے نہ تو کتاب سے پڑھتے تھے نہ لکھتے تھے۔ علامہ باجی نے اس کے جواب میں کہا کہ قرآن مجید میں نزول قرآن میں نزول قرآن سے پہلے آپ کے پڑھنے اور لکھنے کی نفی ہے ‘ اور جب معجزات سے آپ کی نبوت ثابت ہوگئی اور آپ کی نبوت میں شک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ کے پڑھنے اور لکھنے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی ‘ اور یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے۔ علامہ ابن وحیہ نے کہا ہے کہ علماء کی ایک جماعت نے علامہ باجی کے موقف کی حمایت کی ‘ ان میں شیخ ابوذر ہر وی ‘ ابو الفتح نیشا پوری اور افریقہ اور دوسرے شہروں کے علماء شامل ہیں۔ بعض علماء نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے پر امام ابن ابی شیبہ کی اس روایت سے استدلال کیا ہے : مجاہد ‘ عون بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے ‘ جب تک آپنے لکھ اور پڑھ نہیں لیا ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ نے شعبی سے اس روایت کا ذکر کیا انہوں نے کہا عون بن عبداللہ نے سچ کہا ہے ‘ میں اس روایت کا سنا ہے ‘ (حافظ ابن ھجر لکھتے ہیں) سہل بن حنظلیہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاویہ سے کہا کہ وہ اقراع اور عینہ کے لیے لکھیں۔ عینہ نے اس پر کہا تمارا کیا خیال ہے کیا میں متلمس کا صحیفہ لے کر جائوں گا ؟ (یعنی تم نے کچھ کا کچھ تو نہیں لکھ دیا ؟ ) اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحیفہ پر نظر ڈالی اور فرمایا معاویہ نے وہی لکھا ہے جو میں نے کہا تھا یونس کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول قرآن کے بعد لکھا ہے (سہل بن حنظلیہ کی روایت مذکورہ میں آپ کے پڑھنے کا ثبوت ہے) قاضی عیاض نے کہا ہے کہ بعض آثار سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لکھنے اور خوش خطی کی معرفت تھی ‘ کیونکہ آپ نے کاتب سے فرمایا قلم اپنے کان پر رکھو یہ تم کو یاد دلائے گا اور آپ نے حضرت معاویہ سے فرمایا دوات رکھ اور قلم ایک کنار سے رکھو ‘ باء کو لمبا کر کے لکھو ‘ سین دندانے دار لکھو اور میم کو کا نا مت کرو۔ قاضی عیاض نے کہا ہرچند کہ اس روایت سے آپ کا لکھنا ثابت نہیں ہوتا لیکن آپ کو لکھنے کا علم دیا جانا مستبعد نہیں ہے ‘ کیونکہ آپ کو ہر چیز کو علم دیا گیا ہے ‘ اور جمہور نے ان احادیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ احادیث ضعیف ہیں اور حدیبہ کی حدیث کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ ایک واقعہ ہے اور اس میں لکھنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے ‘ اور مسور کی حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حجرت علی نے لکھا تھا اور صحیح بخاری کی حدیث میں تقدیر عبارت اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح نامہ کو لیا اور اس میں محمد رسول اللہ کو مٹا دیا پھر حضرت علی کو وہ صلح نامہ دوبارہ دے دیا ‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس میں لکھا۔ علامہ ابن التین نے اسی پر اعتماد کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث میں جو ہے ” آپ نے لکھا “ اس معنی ہے آپ نے لکھنے کا حکم دیا ‘ اور اس کی حدیث میں بہت مثالیں ہیں ‘ جیسے ہے آپ نے قیصر کی طرف لکھا اور آپ نے کسریٰ کی طرف لکھا ‘ اور اگر اس حدیث کو اپنے ظاہر پر بھی محمول کیا جائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا اسم مبارک لکھا تھا ‘ حالانکہ آپ مہارت سے نہیں لکھتے تھے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ لکھنے کے عالم ہوں اور آپ امی نہ ہوں ‘ کیونہ بہت سے لوگ مہارت سے نہیں لکھتے ‘ اس کے باوجود وہ بعض الفاظ کو پہنچانتے ہیں اور ان کو اپنی جگہ پر رکھ سکتے ہیں خصوصا اسماء کو ‘ اور اس وصف کی وجہ سے وہ امی (ان پڑھ) ہونے سے خارج نہیں ہوتے۔ جیسا اکثر بادشاہ اسی طرح ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت آپ کے ہاتھ پر لکھنے کا عمل جاری ہوگیا ہو اور آپ مہارت سے نہ لکھتے ہوں اور اس صلحنامہ کو آپ نے حسب منشا لکھ دیا ہو ‘ اور یہ اس خاص وقت میں الگ ایک معجزہ ہو ‘ اور اس سے آپ امی ہونے سے خارج نہ ہوں۔ اشاعرہ کے ائمہ اصول میں سے علامہ السمنانی نے یہی جواب دیا ہے ‘ اور علامہ ابن جوزی نے بھی ان کی اتباع کی ہے ‘ علامہ سہیلی نے اس جواب کا رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ہرچند کہ یہ ممکن ہے اور آپ کے لکھنے سے ایک اور معجزہ ثابت ہوتا ہے ‘ لیکن یہ اس کے مخالف ہے کہ آپ امی تھے جو لکھتا نہیں ‘ اور جس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ ” اگر آپ نزول قرآن سے پہلے لکھتے ہوتے تو منکرین آپ کی نبوت کے متعلق شک میں پڑجاتے “ اس آیت نے تمام شکوک و شبہات کی جڑ کاٹ دی ہے ‘ اگر نزول وحی کے بعد کے بعد آپ کا لکھنا جائز ہوتا تو منکرین پھر شبہ میں پڑجاتے اور قرآن کے معاندین یہ کہتے کہ آپ مہارت سے لکھتے تھے لیکن اس کو چھپاتے تھے ‘ علامہ سہیلی نے اس کے جواب میں کہا یہ محال ہے کہ بعض معجزات ‘ بعض دوسرے معجزات کے مخالف ہوں ‘ اور حق یہ ہے کہ آپ کے لکھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے حضرت علی ص کو لکھنے کا حکم دیا ‘ علامہ سہیلی کی بات ختم ہوئی ‘ حاٖط عسقلانی فرماتے ہیں : یہ کہ ان کہ فقط اپنا نام لکھنا ‘ آپکے امی ہونے اور معجزہ کے مخالف ہے۔ سو یہ بہت قابل اعتراض ہے ۔ (فتح الباری ج ٧‘ ص ٥٠٤‘ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ،چشتی)
حافظ ابن حجر عسقلانی کی اس آخری بات سے یہ معلوم ہوا کہ جس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے کا ذکر ہے اس سے آپ کا لکھنا مراد ہے اور آپ کا لکھنا مراد ہے اور آپکا لکھنا آپ کے معجزہ یا آ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے۔ چناچہ جسٹس محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں : حافظ کا میلان اس طرف ہے کہ اس باب کی حدیث (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا نام لکھنا) اپنے ظاہر پر محمول ہے ‘ اور اس خاص وقت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امی ہونے کے باوجود اپنا نام لکھنا آپ کا معجزہ ہے ۔ (نکتملتہ فتح المعلم ‘ ج ٣‘ ص ١٨٠‘ مطبوعہ مکتبہ دارالعلوم کراچی ’ ١٤١٤ ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس حدیث کو ظاہر پر محمول کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امی ہونے اور معجزہ کے خلاف ہے اس میں نظر کبیر ہے یعنی بہت بڑا اعتراض ہے ‘ ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ نے اس نظر کبیر کو بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں : معجزہ قرانیہ وجوہ کثیرہ سے ثابت ہے۔ اگر اس سے قطع نظر کرلی جاتی کہ قرآنی لانے والے امی ہیں ‘ تب بھییہ معجزہ تھا ‘ اور جب اس پر یہ وصف زائدہ ہوا کہ قرآن کو لانے والے پہلے پڑھتے اور لکھتے نہ تھے تو اس سے اس کا معجزہ ہونا بہ طریق کمال ظاہر ہوا۔ اور معاندین کے اعتراضات منہدم ہوگئے ‘ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتدا ہی سے قاری اور کاتب ہوتے اور قرآن پیش کرتے ‘ تب بھی یہ آپ کا معجزہ ہوتا اور بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ (مرقات ج ٨‘ ص ٧٨‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)
نیز ملا علی قاری دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : قاضی عیاض نے کہا ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تلاوت کرنا آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے اسی طرح آپ کا لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے ‘ آپ نے جب پہلے لکھے ‘ پڑھے بغیر قرآن مجید کو پیش کیا تو آپ کا معجزہ تھا ‘ پھر آپ نے قرآن مجید میں ایسے علوم پیش کیے جن کو امی نہیں جانتے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ نے ایسے علوم پیش کیئے جن کو تمام علماء نہیں جانتے اور وہ ایسے علوم ہیں کہ اگر آپ بالکل امی نہ ہوتے تو پھر بھی ان علوم کو پیش کرنا آپ کا معجزہ تھا ‘ کیونکہ قرآن معجزات کثیرہ پر مشتمل ہے اور جن لوگوں نے یہ توجیہہ کی ہے کہ آپ کے لکھنے کا معنی یہ ہے کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا یہ بلاضرورت ظاہر معنی سے عدول کرنا ہے۔ یہاں پر قاضی عیاض کی عبارت ختم ہوئی ‘ (ملا علی قاری کہتے ہیں) اس تو جیہہ میں مجھے قاضی عیاض کے ساتھ توا رد ہو گیا ہے ۔ جیسا کہ ان لوگوں پر ظاہر ہو گیا ۔ (مرقات ج ٨‘ ص ٩٢۔ ١٩‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ‘ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)
شیخ امین احسن اصلاحی امی کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : امی ‘ مدرسی و کتابی تعلیم و تعلم سے نا آشنا کو کہتے ہیں ‘ امیین کا لفظ اسماعیلی عربوں کےلیے بطور لقب استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مدرسی اور رسمی تعلیم و کتابت سے نا آشنا اپنی بدویانہ سادگی پر قائم تھے۔ اور اسی طرح بنی اسرائیل جو کہ حامل کتاب تھے ان کے مقابل کے لیے امیت ایک امتیازی علامت تھی۔ (الی قولہ) چناچہ قرآن نے اس لفظ کو عربوں کے لیے ان کو اہل کتاب سے محض ممیز کرنے کےلیے استعمال کیا ہے۔ اسی پہلو سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نبی امی کالقب استعمال ہوا ہے ۔ (تدبر قرآن ج ٢‘ ص ٥٣‘ مطبوعہ فار ان فائونڈیشن ‘ ١٤٠٦ ھ)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ نے کسی مدرسہ میں جا کر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ‘ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو براہ راست لکھنا پڑھنا سکھا دے اور آپ لکھیں اور پڑھیں تو وہ آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے ‘ یا بنو اسرائیل سے امتیاز کےلیے آپ کو امی فرمایا سو یہ بھی آپ کے لکھنے پڑھنے کے خلاف نہیں ہے ‘ جیسا کہ قرآن مجید نے تمام اہل مکہ کو امین فرمایا حالانکہ ان میں لکھنے پڑھنے والے بھی تھے ‘ کاتیبین وحی تھے اور بدر کے بعض قیدیوں کے پاس فدیہ کےلیے رقم نہیں تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا فدیہ یہ مقرر فرمایا کہ وہ انصاری کی اولاد کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔
(مسند احمد رقم الحدیث : ٢٢١٦‘ المستد رک ج ٢‘ ص ١٤٠،چشتی)
’’اُمی‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک لقب ہے جو قرآن مجید میں دو بار وارد ہوا ہے اس لقب کی اصل کے سلسلے میں علما نے کئی توجیہات پیش کی ہیں۔ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں کہ : اُمی اسے کہتے ہیں جو لکھنا نہ جانتا ہو، زجاج کہتے ہیں اُمی اسے کہتے ہیں کہ جو اپنی خلقت کے اعتبار سے ہی اصل/ جڑ ہو اور جو لکھنا نہ جانتا ہو۔ التنزیل العزیز میں ہے کہ اُمی انہیں کہتے ہیں کہ جو لکھنا نہیں جانتے۔
(لسان العرب، ج: 1، ص: 34 )
علامہ طوسی لفظ ’’اُمی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اُمی کو اس امت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو اصل پر قائم ہو، جس نے لکھنا اور پڑھنا نہ سیکھا ہو۔ اس کے علاوہ اسے ماں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کہ جس طرح کوئی ماں کی تربیت میں رہتا ہے اور وہ آدمی صرف وہی کچھ جانتا ہے جو اس کی ماں اسے سکھاتی ہے۔
(ابوجعفر محمد الطوسی، تہذیب الاحکام، ج: 1، ص: 95)
گویا اُمی کا لفظ اُمّ سے نکلا ہے اور امّ عربی زبان و ادب میں دو معنوں میں مستعمل ہے: 1۔ اصل اور جڑ 2۔ ماں ۔
ذیل میں اس کی وضاحت درج کی جاتی ہے : ⏬
(1) اُم بمعنی اصل : اگر لفظ اُم اصل کے معنوں میں مستعمل ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ذات جو اپنی اصل پر قائم ہو۔ اصل اور جڑ وہ فطرت ہے جس پر رب کائنات انسان کو تخلیق کرتا ہے ۔ ارشاد باری ہے : فِطْرَتَ اللهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا ۔ (الروم، 30: 30)
ترجمہ : اللہ کی (بنائی ہوئی) فطرت (اسلام) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہے (اسے اختیار کر لو) ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ ۔ (بخاری الصحیح، 5: 143، رقم: 127)
گویا ہر بچہ خواہ وہ کسی یہودی کے ہاں پیدا ہو یا نصرانی کے ہاں، کسی مسلمان گھرانے میں اس کی ولادت ہو یا کسی ہندو کے گھرانے میں آنکھ کھولے، ابتداء سے اللہ کی توحید اور معرفت اس کے من میں موجود ہوگی۔ جب وہ آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اپنے گھر کے ماحول سے اثر قبول کرتا ہے۔ اگر اس کےو الدین ہندو ہوں گے تو وہ بھی ہندو بنے گا، اگر یہودی ہوں گے تو بچہ بھی یہودی بنے گا اور اگر مسلمان ہوں گے تو بچہ بھی مسلمان ہو گا ۔
بچے کی مذہب سے وابستگی عموماً اسے والدین کی طرف سے منتقل ہوتی ہے یا وہ ماحول کے اثر کو قبول کرتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اس وقت انتقال فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک صرف چھ سال تھی ۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہاں ہر طرف کفرو شرک اور ظلم و بربریت کے ڈیرے تھے۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن سے لے کر لڑکپن تک کا مطالعہ کریں تو اس خوشگوار حیرت کا انکشاف ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے مذہبی افکار ونظریات سے کوئی اثر قبول نہ کیا۔ اپنے زمانے کی سماجی قدریں اور خارجی ماحول جو صنم تراشی اور صنم پرستی سے عبارت تھا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قطعاً متاثر نہ ہوئے اور ایک بچے کی جو اصل فطرت ہوتی ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں کسی شکست و ریخت کا شکار ہوئے بغیر محفوظ رہی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ مقدسہ کے ابتدائی چالیس سال ایک ایسے ماحول میں گزارے جہاں سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش ہوتی تھی، حرمِ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت نصب تھے جنہیں لوگ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارتے تھے۔ اخلاقی اقدارکا جنازہ نکل چکا تھا، زمین پر آباد انسانی معاشرے حیوانی معاشروں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ کوئی قانون اور ضابطہ نہ تھا۔ بات بات پر تلواریں نیام سے باہر آجاتیں۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم رہتا۔ قبائلی عصبیت انتقام در انتقام میں ڈھل کر اوراقِ زندگی پر انسانی لہو کی ارزانی کی علامت بن جاتی۔ جھوٹ، دغا، منافقت، دجل اور فریب نے زمین پر محیط طویل شبِ زندگی کے اندھیروں کو کچھ اور بھی گہرا کردیا تھا۔ شرک اور کفر کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن اور لڑکپن گزرا۔ کردار کی مضبوطی کا یہ عالم تھا کہ یقین کی شمع آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و عمل میں ہمیشہ فروزاں رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامنِ عصمت بداخلاقی کے چھینٹوں سے کبھی داغدار نہ ہو سکا ۔
گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی فطرت پر اسی طرح پاک اور صاف رہے جس فطرت پر رب کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق مکمل کی تھی۔ استحصال اور ظلم پر مبنی اس بے روح معاشرے میں زندگی کی چالیس بہاریں دیکھ چکنے کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امیت اور اصلیت اپنی فطرت پر قائم رہی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان بعثت کے وقت کردار کی اسی خوشبو اور شخصیت کی اسی روشنی کو نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ۔
(2) اُم بمعنی ماں : لفظ اُم اگر بمعنی ماں مستعمل ہو تو اس لحاظ سے اُمی کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ ہستی جو اپنی ساری زندگی گزار کر بھی اسی حالت میں ہو جس حالت میں ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئی تھی۔ کیونکہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو یہ دو بنیادی خوبیوں کا حامل ہوتا ہے ایک یہ کہ وہ برائی، گناہ اور آلائش سے پاک ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ تمام اکتسابی علوم سے بھی منزہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اکتساب کا تعلق پیدائشِ انسانی کے بعد شروع ہوتا ہے اور جب انسان سیکھنے کے عمل کا آغاز کرتا ہے تو اچھائی اور برائی دونوں کا اس کی سیرت کا جزو بننے کا امکان ہوتا ہے ۔
قرآن حکیم میں رب کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس لیے اُمی قرار دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزار کر بھی اسی طرح معصوم تھے جیسے اپنی پیدائش کے وقت۔ ماحول کی گندگی کا ہلکا سا دھبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ روز و شب کو داغدار نہ کر سکا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی ظاہری و باطنی طہارت اور پاکیزگی کی بنا پر قرآن مجید نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’النبی الامی‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ ۔ (الاعراف، 7: 157)
ترجمہ : (یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) ۔
دوسرے مقام پر ارشاد خداوندی ہے : فَاٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ۔(الاعراف، 7: 158)
ترجمہ : سو تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ جو شانِ اُمیّت کا حامل نبی ہے ۔
آیات مذکورہ سے واضح ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمی نبی ہیں ۔ اس لیے کہ انھوں نے سوائے اپنے رب کے کسی سے کچھ پڑھا اور نہ کچھ سیکھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم عطائی ہے، اکتسابی نہیں اور یہ علم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کرنے والا ان کا پروردگار ہے جو کل جہانوں کا پالنے والا اور ہر مخلوق کا خالق ہے اور جس کی قدرتِ مطلقہ کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی کہنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی جہاں لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ عرب میں یہود و نصاریٰ اہل کتاب کہلاتے تھے اور وہ لوگ جوکسی آسمانی کتاب رکھنے کے مدعی نہ تھے، اُمیین کہلاتے تھے ۔ یہ اصطلاح اس لیے تھی کہ اہلِ کتاب ان لوگوں کو اپنے سے الگ کرکے مخاطب کرتے تھے جیسا کہ سورۃ آل عمران میں ارشاد ہوا : وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ أَ اَسْلَمْتُمْ ۔ (آل عمران، 3: 20)
ترجمہ : اور آپ اہلِ کتاب اور ان پڑھ لوگوں سے فرما دیں: کیا تم بھی اللہ کے حضور جھکتے ہو (یعنی اسلام قبول کرتے ہو) ۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رشد و ہدایت کےلیے قوانینِ الہٰی کا جو نظام قائم کیا، وہ انبیائے کرام علیہم السلام کی وساطت سے ان کو ملتا رہا اور اس سلسلہ کی آخری کڑی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لوگوں کے درمیان مبعوث فرمایا گیا جو اُمیین کہلاتے تھے یعنی جاہل یا ان پڑھ نہیں بلکہ جن کے پاس اس سے پہلے کوئی آسمانی کتاب نہیں تھی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا نظام متشکل فرمایا جس کے ذریعہ ان لوگوں کی صلاحیتوں کی برومندی اور ان کی ذات کی نشوونما ہو سکے ۔ اس حقیقت کو سورۃ الجمعہ کی دوسری آیت میں اس طرح واضح فرمایا گیا کہ : هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِہٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰـلٍ مُّبِیْنٍ ۔ (الجمعۃ، 62: 2)
ترجمہ : وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اُمیین سے مراد ناخواندہ یا ان پڑھوں کی جماعت نہیں بلکہ عرب باشندوں کی وہ جماعت ہے جو اہلِ کتاب کے مقابلے میں اس وقت حاملِ کتاب نہیں تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعلق انہی اُمیین سے تھا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اُمّیت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ قرار پاتی ہے ۔ اللہ رب العزت نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی کہا تو یقیناً اس میں ہزارہا حکمتیں پوشید ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہر حکمت اور ہر دانش کا سرچشمہ ہے ، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی کہنا بھی خالی از حکمت نہیں ہو سکتا ۔ ذیل میں چند حکمتیں ذکر کی جاتی ہیں : ⏬
پہلی حکمت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کتاب کو پڑھنا جانتے تھے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے لکھنا سیکھا تھا۔ اس وصف سے باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو کیوں مزین کیا اس کا جواب قرآن یوں دیتا ہے : وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّا رْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ۔ (العنکبوت، 29: 48)
ترجمہ : اور (اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ اہلِ باطل اسی وقت ضرور شک میں پڑ جاتے ۔
علامہ شہاب الدین محمود آلوسی فرماتے ہیں : اس میں ایک حکمتِ الہٰیہ یہ بھی تھی کہ استاد کی فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ثابت نہ ہو، نیز یہ کہ کلام اللہ کو مخالف لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اکتسابی علوم و فنون کا نتیجہ نہ سمجھ لیں ۔ چنانچہ اُمی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں صفتِ مدح ہے جو دوسروں کے حق میں نہیں ۔ (روح المعانی، ج: 9، ص: 70)
گویا معلم اعظم حضور رحمتِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی قرار دینے کی پہلی حکمت یہ تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی استاد سے کچھ پڑھا ہوتا، کسی مکتب میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہوتی، لکھنا سیکھا ہوتا اور اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منصبِ رسالت پر جلوہ افروز ہونے کا اعلان فرماتے اور احکامِ الہٰی بیان کرتے تو شک کرنے والے حاسدین اور معاندین یہ تہمت عائد کرتے کہ یہ احکام منجانب اللہ نہیں، یہ وحی الہٰی نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات فلاں کتاب سے پڑھ کر یا فلاں استاد سے سیکھ کر بیان کررہے ہیں۔ یوں انہیں شانِ نبوت میں تنقیص کا موقع مل جاتا اور وہ تحریک اسلامی اور اس کے عظیم قائد کے خلاف اپنا پروپیگنڈہ تیز کردیتے۔ یہ نکتہ تحریکِ اسلامی کی قیادت کی کردار کشی کی مہم میں خوب اچھالا جاتا اور نبوت کی صداقت اور حقانیت پر مسلمانوں کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے منصبِ نبوت کو اس اتہام سے بچانے کے لیے اور تمام کسبی علوم سے اکتساب کے امکان کو رد کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چالیس سالہ حیاتِ مقدسہ کا ایک ایک لمحہ ان کے سامنے رکھا ۔
دوسری حکمت : اکتسابی اور وہبی علم میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ اکتسابی علم کو دہرانے سے الفاظ ادھر ادھر ہوجاتے ہیں حتی کہ بعض اوقات مفہوم میں بھی تھوڑا بہت فرق آجاتا ہے لیکن وہبی علم میں ایسا ممکن نہیں ہوتا ۔ بار بار دہرانے سے بھی ایک لفظ اِدھر اُدھر نہیں ہوتا ۔ یہی وجہ ہے کہ آیاتِ قرآنی میں کسی لفظی تبدیلی کا امکان ہی نہیں۔ پوری دنیا کے حفاظ جن کی زبانیں مختلف، ثقافتیں الگ، رہن سہن کے طریقے جدا جدا، لیکن جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو اس میں زیر زبر کا بھی فرق نہیں ہوتا ۔ آقائے کل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن بذریعہ وحی نازل ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں سالہا سال سیکڑوں بار ان آیات کو دہرایا لیکن ایک لفظ تو کجا ایک حرف بھی کبھی تبدیل نہ ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ان آیاتِ مقدسہ کو حفاظ کی طرح از بر نہیں کیا بلکہ ہر آیت اپنی صحتِ لفظی کے ساتھ خود بخود زبانِ اقدس پر جاری ہو جاتی ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس دائمی معجزے کا فیض قیامت تک جاری رہے گا، اس لیے کہ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو النبی الامی کی شان کے ساتھ مبعوث کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس کو اکتسابی علم کی ہر آلائش سے پاک کردیا تھا ۔
تیسری حکمت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی قرار دینے کی تیسری حکمت اور اس میں کارفرما فلسفہ یہ تھا کہ وہبی علم کے مقابلے میں دنیوی علم ظنی ہوتا ہے۔ اس میں گمان اور غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو دنیوی علوم اور کتابوں سے اس لیے بے نیاز کردیا کہ غلطی، گمان اور نقص کا احتمال تک باقی نہ رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس کو ظنی نہیں بلکہ یقینی علم کا گنجینہ بنادیا گیا۔ یقینِ کامل ایمان کی بنیاد ہے اور یقین کامل عموماً اکتسابی عمل کی نہیں بلکہ وہبی علم کی عطا ہے اور اس میں نقص یا غلطی کا امکان نہیں ہوتا۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم وہبی تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلقِ خدا میں ایمان کے ساتھ یقینِ کامل کی دولت بھی تقسیم کی۔ قرآن مجید اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے : مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ ۔ (الشوریٰ، 42: 52)
ترجمہ : اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں) ۔
رسول اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا منبع و سرچشمہ وحی الہٰی تھا، دنیوی یا اکتسابی علم نہ تھا۔ وحی الہٰی میں جہاں غلطی، گمان یا نقص کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہوتا، وہاں اس کے ذریعہ حاصل ہونے والا علم یقینی، حتمی اور قطعی بھی ہوتا ہے۔ غبارِ تشکیک اس علم کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے اور نہ ذہنِ انسانی اس میں اختراع کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ اکتسابی علوم و فنون کو حرفِ آخر ہونے کی سند عطا کی جاسکتی ہے کیونکہ ان میں اصلاح و ترمیم اور اضافہ کی گنجائش ہر لمحہ موجود رہتی ہے جبکہ اس کے برعکس وہبی علم ان اسقام سے پاک ہوتا ہے۔ اس لیے انبیاء و مرسلینf کے علاوہ کوئی فلاسفر یا دانشور یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کی نگارشات میں کسی غلطی کا امکان موجود نہیں۔ صرف انبیاء و رسلf ایسی ہستیاں ہیں جن کی زبانِ ترجمانِ حقیقت سے جو صادر ہوتا ہے، اس میں قیامت تک اصلاح و ترمیم اور اضافہ ممکن نہیں۔ وہ حرفِ آخر ہوتا ہے اور قیامت تک اس میں کسی قسم کا کوئی ردوبدل نہیں کیا جا سکتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی کہا گیا تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھانے والا خود اس کائنات کا رب ہے جو ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے مبرا ہے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات بھی ظنی علوم کے نقائص سے پاک اور مبرا ہیں ۔
چوتھی حکمت : عربی گرائمر کی رو سے لفظ نبی ؛ نباء سے مشتق ہے ۔ نباء کا معنی غیب کی خبریں جاننا یا غیب کی خبریں دینا ہے۔ اس اعتبار سے نبی اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب کی خبریں نہ صرف جانتا ہو بلکہ لوگوں کو ان سے آگاہ بھی کرتا ہو ۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْکَ ۔ (آل عمران، 3: 44)
ترجمہ : (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرماتے ہیں ۔‘
جب نبی کی تعریف ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف خود غیب کی خبریں رکھتا ہے بلکہ ان خبروں سے دوسروں کو بھی مطلع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبی کا سارا علم غیبی ہوتا ہے ۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُمی نہ ہوتے تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استاد بھی ہوتا لیکن یہ صورت حال اللہ رب العزت کو گوارہ نہ ہوئی کہ ہو تو ہمارا محبوب لیکن اس کا معلم کوئی عام شخص ہو۔ یہ چیز شانِ نبوت کے بھی منافی ہوتی۔چنانچہ باری تعالیٰ نے اکتسابی علم کےسارے دروازے بند کردیئے کہ محبوب ہم اپنی وحی کے ذریعے آپ کو پڑھاتے بھی ہیں اور سکھاتے بھی ہیں اور پھر آپ سارے انسانوں اور سارے زمانوں کے معلم قرار پائیں گے ۔ آپ شہر علم ہوں گے اور ساری دنیا آپ کے در سے حصولِ علم کی خیرات کی تمنائی ہو گی ۔ پس اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمی بنایا گیا تاکہ کوئی شخص حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معلم ہونے کا دعویٰ نہ کر سکے ۔
اُمی ہونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھرپور مجلسی، ثقافتی، عائلی اور سماجی زندگی بسر کی۔ بکریوں کو چرانے سے لے کر تجارت کے لیے شام تک کا سفر اختیار کیا۔ کفار و مشرکین کے ساتھ معاہدات کیے، غزوات میں شرکت کی، ثالث بن کر لوگوں کے جھگڑے ختم کرائے، تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دیا لیکن دنیاوی علم کے حصول کی کبھی دل میں خواہش پیدا نہ ہوئی۔ کسی کے در پر حصولِ علم کے لیے دستک دینا بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اقدس کے منافی ہوتا۔ اکتسابی علوم کے حصول کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اس کا سبب فقط یہ تھا کہ انہیں بتادیا گیا تھا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم کے سارے خزانے آپ کے قدموں کی خیرات ہیں۔ چنانچہ وقت آنے پر یہ سارے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کھلتے گئے اور سارے علومِ غیب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منکشف ہوتے چلے گئے ۔ امام خازن اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمی ہونا کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اُمی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا پھر ایسی کتاب بھی لائے جس میں اولین و آخرین کے علوم و غیوب ہیں ۔ (تفسیر خازن، 2: 138،چشتی)
ہر چیز پر قادر رب نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام علوم کی کنجیاں عطا فرمائیں ۔ اس کائنات کی کوئی چیز بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائرہ علم سے باہر نہیں۔ معراج کی شب تمام حجابات اٹھادیے گئے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدارِ الہٰی کے شرفِ عظیم سے بھی مشرف ہوئے اور کوئی چیز آپ ﷺ کی نظروں سے اوجھل نہ رہی ۔ دکھانے اور سکھانے والے نے علمِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی حد مقرر نہ کی ۔ اس حقیقت کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے : وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا ۔ (النساء، 4: 113)
ترجمہ : اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں جانتے تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم عطائی ہے، ذاتی نہیں اور یہ علم عطا کرنے والا اس کائنات کا خالق ہے ۔ اس کائناتِ رنگ و بو میں سوائے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ لوگو! جو کچھ تم نہیں جانتے، مجھے وہ بھی عطا کردیا گیا ہے۔ کوئی شخص بیک وقت سارے علوم پر دسترس نہیں رکھ سکتا لیکن تمام علوم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش کفِ پا کا تصدق ہیں ۔ اللہ رب العزت مذکورہ آیاتِ مقدسہ میں حضور رحمتِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بارگاہ سے تمام علوم عطا کیے جانے کو اپنا بہت بڑا فضل قرار دے رہا ہے۔ اس آیت کریمہ کی رو سے تمام عوالم اور کائنات کی ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احاطہ علم میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا انکار اللہ رب العزت کے علم کے انکار کے مترادف ہے ۔ کفار و مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم پر طعن کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دل کی کیفیت کو نہیں جانتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا : سلونی عما شئتم ۔ (صحیح البخاری، کتاب العلم، 1: 162، رقم:90،چشتی)
ترجمہ : جس چیز کے متعلق مجھ سے پوچھنا چاہو، پوچھ لو ۔
اپنے اس ارشادِ گرامی سے قیامت تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب پر اعتراض کرنے والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ہی جواب دے دیا ۔ ایک اور مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ان لوگوں کی تباہی کا کیا عالم ہوگا جو میرے علم کی وسعت پر طعن زنی کرتے ہیں (آؤ) تم اس وقت سے لے کر قیامت تک جو بات چاہو، مجھ سے پوچھ لو ۔ (تفسیر بغوی، 2: 381-382)
اس اعتماد کے ساتھ وہی ذات دعویٰ کرسکتی ہے جسے اس کے رب نے قیامت تک کے حالات سے آگاہ کردیا ہو ۔
خلاصہ کلام : بچہ جب رحمِ مادر سے دنیا میں آتا ہے تو وہ اَن پڑھ اور ناخواندہ ہوتا ہے ، اسی نسبت سے عرب میں اُمی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ اگرچہ یہ لفظ کسی شخص کےلیے صفتِ مدح نہیں ہے بلکہ ایک عیب سمجھا جاتا ہے ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم و معارف اور خصوصیات و حالات و کمالات کے ساتھ اُمی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے بڑی صفت کمال بن گئی ہے ۔ ایک ایسے شخص کا جس نے کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہ کیا ہو ، اس کا علوم و معارف کا دریا بہادینا اور اس سے ایسے بیش بہا علوم اور بے نظیر حقائق و معارف کا صدور ایک ایسا کھلا معجزہ ہے جس سے کوئی معاند و مخالف بھی انکار نہیں کرسکتا۔ خصوصاً جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کے چالیس سال مکہ میں سب کے سامنے اس طرح گزرے ہوں کہ کسی سے ایک حرف پڑھا اور نہ سیکھا اور پھر ٹھیک چالیس سال پورے ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک پر وہ کلام جاری ہوا جس کی ایک چھوٹی سی آیت کی مثال لانے سے پوری دنیا عاجز ہو گئی تو ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول من جانب اللہ ہونے اور قرآن کے کلامِ الہٰی ہونے پر ایک بڑی شہادت ہے ۔ پس اس لیے اُمی ہونا اگرچہ دوسروں کےلیے کوئی صفتِ مدح نہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے عظیم صفتِ مدح و کمال ہے۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوراں حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی