نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا قسط اول
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
محترم قارئینِ کرام :
محترم قارئینِ کرام :
عرب میں ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ جس ذات کے جتنے کثیر اسماء ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ معظم و مکرم ہے ، ان زائد اسماء کو لقب یا صفت کہا جاتا ہے ، اللہ عزوجل کا ذاتی نام ”اللہ“ ہے مگر صفاتی نام بہت ہیں ۔ اللہ عزوجل کے 99 نام معروف ہیں ۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےذاتی نام ”محمد و احمد“ ہیں جبکہ صفاتی نام کثیر ہیں ۔ ان موضوعات پر علمائے اسلام نے کئی کتب و رسائل لکھے ہیں جن میں اسمائے صفاتیہ کی وجوہات و حکمتوں پر کلام کیا گیا ہے ۔ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "امی" ہیں اور اس میں کوئی عیب و نقصان نہیں بلکہ بے شمار معجزات میں سے ایک معجزہ آپ کا "امی" ہونا بھی ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن مجید و فرقان حمید میں ایک جگہ نہیں بلکہ کٸی مقامات پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امی کے خطاب سے مخاطب فرمایا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ٧٨ و سورہ اعراف آیت ١٥٧ و ١٥٨ و سورہ جمعہ آیت ٢ و دیگر مقامات پر لفظ امی موجود ہے۔
عربی لغت میں ایک لفظ کے بے شمار معانی ہوتے ہیں ، اُمی کا ایک معنی ہے اصل ، جڑ۔
مکہ کو ام القری بھی کہتے ہیں ، کیونکہ سب سے پہلے مکہ کو سرزمین بنایا گیا۔
اسی طرح ماں کو عربی زبان میں ام کہتے ہیں ، کیونکہ یہ اپنی اولاد کی اصل ہوتی ہے ، اسی طرح حضرت اماں حوا کو اماں اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ تمام انسانوں کی اصل اور جڑ ہیں ۔
دوسرا معنی ہے ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں ، یہی معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ہے۔
دوسرا معنی ہے ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں ، یہی معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے ہے۔
اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی انسان سے علم حاصل نہیں کیا۔
انسانوں میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استاد نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمیع علوم سکھائے ہیں ۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جو ساری دنیا کو سکھانے کےلیے آیا ہو ، سیدھا راستہ دکھانے کےلیے آیا ہو ، وہ خود ہی کچھ نہ جانتا ہو ۔ ایسا کوئی بدبخت ، بد نصیب اور گستاخ ہی سوچ سکتا ہے کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پڑھ ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا کہنا ، سوچنا اور عقیدہ رکھنا کفر ہے۔
لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن مجید میں جو امی کہا گیا ہے اس کا معنی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی مخلوق سے پڑھنا نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا کے سارے علوم آتے ہیں ۔
قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے :
قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے :
سورہ بقرہ آیت نمبر 78 میں ارشاد ہوا:
وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ ۔
ترجمہ : اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں ۔
سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں فرمایا :
ترجمہ : اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں ۔
سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں فرمایا :
هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ ۔
ترجمہ : وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں ۔
سورۂ اعراف کے 2 مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’امی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا ۔ آیت نمبر 157 میں : اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘ ۔
ترجمہ : وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں ۔
اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158 میں : فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون ۔
ترجمہ : تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو ۔
حدیث پاک میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ “ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 631 حدیث نمبر 1913 دارالکتب العلمیہ بیروت)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمَيَّةٍ “ یعنی مجھے امی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ۔ (صحیح ابن حبان جلد 3 صفحہ 14 حدیث نمبر 739 موسسۃ الرسالہ بیروت)
شارحین کا بیان کردہ معنیٰ : ⏬
ان دونوں احادیث پر امام ابوالسعادات مبارک بن محمد جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے ، اور (اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا ۔ (النہایۃ فی غریب الاثر جلد 1 صفحہ 69 دارالکتب العلمیہ بیروت)
شیخ امام عبدالرحمٰن جوزی رحمہ اللہ آخری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: لفظ امیۃ سے مراد وہ قوم ہے جو لکھنا نہ جانتی ہو (غریب الحدیث لابن جوزی ، 1/ 41، دار الکتب العلمیہ بیروت)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اپنے لیے امی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩١٣‘ صحیح مسلم الصیام ‘ ١٥ (١٠٨٠) ٢٤٧٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣١٩‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢١٤١‘ السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢٤٥١‘ مسند احمد ج ٢‘ ص ٤٤‘ طبع قدیم ‘ جامع الاصول ج ٦‘ رقم الحدیث : ٤٣٩٣)
لفظ ’’اُمّی ‘‘ کا لغوی معنیٰ : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت ”اُمّی“ بھی ہے ۔ چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لیے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں : اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل ، اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو ، اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس الغات، تاج العروس و صحاح وغیرہم)
علامہ راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : امی وہ شخص ہے جو نہ لکھتا ہو اور نہ کتاب سے دیکھ کر پڑھتا ہو۔ اس آیت میں امی کا یہی معنی ہے ” ھوالذی بعث فی المیین رسولا منھم “ قطرب نے کہا امیہ “ کے معنی غفلت اور جہالت ہیں سوامی کا معانی قلیل المعرفت ہیں۔ اسی معنی میں ہے ” ومنہم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی “ یعنی وہ امی ہیں جب تک ان پر تلاوت نہ کی جائے وہ از خود نہیں جانتے۔ فراء نے کہا یہ وہ عرب لوگ ہیں جن کے پاس کتاب نہ تھی اور قرآن مجید میں ہے ” والنبی الامی الدی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل “ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ امین کے نبی تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب سے پڑھتے تھے ‘ اور یہ آپ کی فضیلت ہے کیونکہ آپ حفظ کرنے سے مستغنی تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی ضمانت پر اعتماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” سنقرئک فلا تنسسی “ عنقریب ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ نہیں بھولیں گے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے ۔ (المفردات ج ا ‘ ص ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)
علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں ہے ” انا امۃ لا نکتب ولا تحسب “ ہم اہل عرب امی ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ” آپ کی مراد یہ تھی کہ ہم اسی طرح ہیں جس طرح اپنی مائوں سے پیدا ہوئے تھے۔ یعنی اپنی جبلت اولیٰ پر ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امی وہ ہے جو لکھتا نہ ہو۔ نیز حدیث میں ہے بعثت الی امۃ امیۃ “ میں امی امت کی طرف بھیجا گیا ہوں “ یا امی سے عرب مراد ہیں کیونکہ عرب میں لکھنا بالکل نہ تھا یا بہت کم تھا۔ (النہایہ ج ١‘ ص ٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
علامہ محمد طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں ہے ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ یعنی اپنی ماں سے پیدائش کی اصل پر ہیں۔ لکھنا سیکھا ہے نہ حساب کرنا۔ تو وہ اپنی اصل جبلت پر ہیں اور اسی نہج پر ہے امیین میں رسول بھیجا گیا۔ علامہ کرمانی نے کہا اس میں ام القریٰ کی طرف نسبت ہے یعنی مکہ والوں کی طرف۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عرب میں لکھنے والے بھی تھے اور ان میں سے اکثر حساب جاننے والے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لکھنا نہیں جانتے تھے اور حساب سے مراد ستاروں کا حساب ہے اور وہ اس کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ علامہ طیبی نے کہا کہ ابن صیاد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ امین کے رول ہیں اس شیطان کا مطلب یہ تھا کہ آپ صرف عرب کے رسول ہیں دوسروں کے نہیں ۔ (مجمع بحارالانوارج ١‘ ص ١٠٧‘ مطبوعہ مکتبہ دارالامان ‘ المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)
علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : قاموس میں ہے امی وہ شخص ہے جو لکھتا نہ ہو یا اپنی ماں سے پیدائش کے حال پر باقی ہو اور امی غبی اور قلیل الکلام کو بھی کہتے ہیں۔ اس کی تشریح میں علامہ زبیدی لکھتے ہیں : حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا جاتا ہے کہ عرب قوم لکھتی تھی نہ پڑھتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا در آنحالیکہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب کو پڑھتے تھے۔ اور یہ آپ کا معجزہ ہے کیونکہ آپ نے بغیر کسی تغیر اور تبدل کے بار بار قرآن مجید کو پڑھا۔ قرآن مجید میں ہے ” وما کنت تتلو من قبلہ من کتاب “ (الایۃ) حافظ ابن حجر عسقلانی نے احادیث رافعی کی تخریج میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لکھنے اور شعر گوئی کو حرام کردیا گیا تھا۔ یہ اس وقت ہے اگر آپ شعر گوئی اور لکھنے کو اچھی طرح بروئے کار لاتے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ کو شعر اور خط میں مہارت تو نہیں تھی لیکن آپ اچھے اور برے شعر میں تمیز رکھتے تھے۔ اور بعض علماء کا یہ دعویٰ ہے کہ پہلے آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن بعد میں آپ نے لکھنا جان لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما کنت تتلوا من قبلہ (الایہ) آپ سے پہلے نہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اور ” اس سے پہلے “ کی قید کا یہ معنی ہے کہ بعد میں آپ نے اس کو جان لیا ‘ کیونکہ آپ کا پہلے نہ جاننا معجزہ کے سبب سے تھا اور جب اسلام پھیل گیا اور لوگوں کے شکوک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ نے اس کو جان لیا ‘ اور امام ابن ابی شیبہ اور دیگر محدثین نے مجاہد سے روایت کیا ہے ” مامات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی کتب وقرء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے لکھ نہیں لیا ‘ اور پڑھ نہیں لیا اور مجاہد نے شعبی سے کہا ‘ اس آیت میں اس کے خالف نہیں ہے۔ ابن وحیہ نے کہا کہ علامہ ابوذر ‘ علامہ ابو ذر ‘ علامہ ابوالفتح نیشاپوری اور علامہ باجی مالکی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ علامہ باجی نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ‘ بعض افیقی علماء نے بھی علامہ باجی کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ امی ہونے کے بعد لکھنے کو جان لینا معجزہ کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے ‘ کیونکہ بغیر کسی انسان کے سکھائے کتاب کو پڑھنا اور لکھنا بھی معجزہ ہے۔ ابو محمد بن مفوز نے علامہ باجی کی کتاب کا رد لکھا ہے اور علامہ سمنانی وغیرہ نے کہا ہے کہ آپ بغیر علم کے لکھتے تھے ‘ جیسے بعض ان پڑھ بادشاہ بعض حروف لکھ لیتے تھے حالانکہ ان کو حروف کی تمیز اور شناخت نہیں ہوتی تھی ۔ (تاج العروس جلد ٨ صفحہ ١٩١‘ مطبوعہ المطبعہ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ،چشتی)
علامہ سید محمود آلو سی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٢٧٠ ھ امی کی تفسیر میں لکھتے ہیں : زجاج نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا ہے کہ آپ امت عرب کی طرف منسوب ہیں جس کے اکثر افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اور امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ اہم امی لوگ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ گنتی کرتے ہیں۔ امام باقر نے کہا ہے کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو امی فرمایا ‘ آپ اپنی ام (ماں) کی طرف منسوب تھے ‘ یعنی آپ اسی حالت پر تھے جس حال پر اپنی ماں سے پیدا ہوئے تھے ‘ آپ کا یہ وصف اس تنبیہہ کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ آپ اپنی پیدائشی حالت پر قائم رہنے (یعنی کسی سے پڑھنا ‘ لکھنا نہ سیکھنے) کے باوجود اس قدر عظیم علم رکھتے تھے سو یہ آپ کا معجزہ ہے۔ امی کا لفظ صرف آپ کے حق میں مدح ہے اور باقی کسی کے لیے ان پڑھ ہونا باعث فضلیت نہیں ہے ‘ جیسا کہ تکبر کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے باعث مدح ہے اور دوسروں کے حق میں باعث مذمت ہے ۔
نیز علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی وقت لکھنے کا صدور ہوا ہے یا نہیں ہوا ؟ ایک قول یہ ہے کہ ہاں صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے صلح نامہ لکھا اور یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے اور احادیث ظاہرہ کا بھی یہی تقاضا ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ نے بالکل نہیں لکھا اور آپ کی طرف لکھنے کی نسبت مجاز ہے ‘ اور بعض اہل بیت سے روایت ہے کہ آپ لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھ کر پڑھتے تھے لیکن اس روایت کی کوئی معتمد سند نہیں ہے ‘ ہاں ابو الشیخ نے اپنی سند کے ساتھ عقبہ سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک آپ نے پڑھا اور لکھا نہیں ‘ شعبی نے اس روایت کی تصدیق کی ہے ۔ (روح المعانی ‘ ج ٩‘ ص ٧٩‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت)
اُمّی کا معنی و ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے’’بے پڑھے ‘‘ فرمایا اور یہ ترجمہ بالکل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمّی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اَوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الاعراف تحت الآیۃ ۱۵۷ جلد ۲ صفحہ ۱۴۷،چشتی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ”امی“ کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں کہ ”امی“ جو پڑھنے ، لکھنے سے علیحدہ ہو یعنی بے پڑھے، لکھے ہوئے یعنی ماں کی پیٹ سے عالم و عارف پیدا ہونے والے جن کےدامن میں کسی کی شاگردی، کسی کی مریدی ، کسی سے فیض لینے کا دھبہ نہ ہو ۔ ( تفسیر نعیمی پارہ ٧ صفحہ ٢٤٨)
حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری رضوی ازہری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : بیشک ہمارے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی لقب ہیں ، اور امی اسے کہتے ہیں جو اسی حالت پر باقی ہو جس پر وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو ، یعنی کسی سے پڑھنا لکھنا نہ سیکھا ہو ، اور یہ وصف عامۃ الناس میں عیب کا ہے بخلاف ہمارے نبی امی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہ ان میں یہ وصف کمال ہے اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی استاد ومذہب اخلاق کا مرہون منت نہ کیا اور نہ بنایا ، ایسا دانا کہ سارے عالم کے دانا ان کے آگے ہیج ہیں ۔ بلکہ ان کی دانائی ہمارے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی دین ہے ، اور تہذیب سے نا آشناؤں میں ایسا مؤدب و آراستہ اٹھایا کہ خلق مجسم بنا دیا ۔ قال اللہ تعالیٰ انک لعلی خلق عظیم ، اور ایک عالم کی بھلائی انہیں کے اخلاق حمیدہ کی پیروی میں ہے ، قال اللہ تعالیٰ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ، اور جس طرح علوم و اخلاق وعادات میں یہ کمال خاصہ آنجناب ہے اسی طرح یہ لقب امی ان کا خاصہ ہے اور اس کا معظم و محترم ہونا ضروریات دین سے ہے اور اسے محل تعظیم آنجناب میں بولنا لازم ہے اور اسے محل اہانت میں بولنا قلب و عکس مراد قرآن ہے اور یہ کفر ہے ۔ (دعوت شریعت صفحہ ٢٣ ، ٢٤)
لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے ”اصل“۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپ کی فروعات (یعنی اولاد/امتی /آپ ہی کے دم قدم سے ہے) ہیں ۔ اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں اس کی پابندی کریں غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔ امام عشق و محبت ، امام اہل سنت سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس تخیل کو کیسے خوبصورت انداز میں بصورت شعری فرماتے ہیں : ⏬
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
(حدائقِ بخشش صفحہ 206 مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)
مذکورہ دلاٸل سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری زندگی ایسے ہی رہے جو کہ سراسر خلافِ واقعہ بات ہے ، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضور کےلیے ثابت کرتے ہیں ، حالانکہ حضور کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے یہ معنیٰ نہیں کہ ربِ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوب کی شان میں فرماتا ہے : وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا ۔
ترجمہ : اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔ (سورہ النساء آیت:4)
صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں لکھتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا اوریہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے ۔
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ۔
ترجمہ : اور اس (نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے ۔ (سورہ العنکبوت آیت:48)
ان آیات سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرما دیے ۔
ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل آپ کو صفتِ امِیَّت پر رکھنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، اب وہ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں : ⏬
(1) ابھی جو آیت کریمہ گزری اس میں ہی ایک حکمت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ لکھتے پڑھتے تو یہود آپ کی ضرور تکذیب کرتے اس لیے کہ ان کی کتب میں آخری نبی کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لیے نہ مل سکا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ نشانی موجود تھی ۔
(2) ایک حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ، آپ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے چونکہ یہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے سے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا ۔ ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں ، جب وہ لوگ کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کےلیے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا آپ کو تمام علوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب عزوجل نے عطا فرمائے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفتِ محمودہ ہے ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا : ⏬
ایسا اُمّی کس لیے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں
(حدائق بخشش صفحہ 106)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے اور پڑھنے پر قرآن مجید سے دلائل : ⏬
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما کنت تتلومن قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا الار تاب المبطلون ۔ (العنکبوت : ٤٨ )
ترجمہ : اس (کتاب کے نزول) سے پہلے آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ‘ ایگر ایسا ہوتا تو باطل پرستوں کو شبہ پڑ جاتا ۔
اس آیت کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی استاد سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا ‘ قریش مکہ کے سامنے آپ کی پوری زندگی تھی ‘ آپ کے اہل وطن اور رشتہ داروں کے سامنے ‘ روز پیدائش سے اعلان نبوت تک آپ کی ساری زندگی گزری اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی نہ قلم ہاتھ میں لیا اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آسمانی کتابوں کی تعلیمات ‘ گزشتہ انبیاء ورسل کے حالات ‘ قدیم مذاہب کے عقائد ‘ تاریخ ‘ تمدن ‘ اخلاق اور عمرانی اور عائلی زندگی کے جن اہم مسائل کو یہ امی شخص انتہائی فصیح وبلیغ زبان سے بیان کر رہے ہیں ‘ اس کا وحی الہٰی کے سوا اور کوئی سبب نہیں ہوسکتا ‘ اگر انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم پائی ہوتی اور گذشتہ مذاہب اور تاریخ کو پڑھا ہوتا تو پھر اس شبہ کی بنیاد ہوسکتی تیے کہ جو کچھ یہ بیان کر رہے ہیں وہ دراصل ان کا حاصل مطالعہ ہے ۔ ہرچند کہ کوئی پڑھا لکھا انسان بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے آدمی مل کر اور تمام علمی وسائل بروئے کار لا کر بھی ایسی بےنظیر کتاب تیار نہیں کرسکتے ‘ تاہم اگر آپ نے اعلان نبوت سے پہلے لکھنے پڑھنے کا مشغلہ اختیار کیا ہوتا تو جھوٹوں کو ایک بات بنانے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ‘ لیکن جب آپ کا امی ہونا ‘ فریق مخالف کو بھی تسلیم تھا تو اس سر سری شبہ کی بھی جڑ کٹ گئی اور یوں کہنے کو تو ضدی اور معاند لوگ پھر بھی یہ کہتے تھے : وقالو اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا (الفرقان : ٥)
ترجمہ : اور انہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کے لکھے ہوے قصے ہیں جو اس (رسول) نے لکھوا لیے ہیں ‘ سو وہ صبح و شام اس پر پڑھے جاتے ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے لکھنے اور پڑھنے کی نفی کو آپ کے اعلان نبوت سے پہلے کی قید سے مقید کیا ہے اور یہی مقصود ہے۔ کیونکہ اگر اعلان نبوت اور نزول قرآن سے پہلے آپ کا لکھنا پڑھنا ثابت ہوتا تو اس شبہ کی راہ نکل سکتی تھی اور اس آیت سے آپ کی نبوت اور قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے پر استدلال نہ ہوسکتا۔ اور اس قید لگانے کا یہ تقاضا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد آپ سے لکھنے اور پڑھنے کا صدور ہو سکتا ہے اور بعد میں آپ کا لکھنا اور پڑھنا اس استدلال کے منافی نہیں ہے ۔
ترجمہ : وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں ۔
سورۂ اعراف کے 2 مقامات پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’امی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا ۔ آیت نمبر 157 میں : اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘ ۔
ترجمہ : وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں ۔
اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158 میں : فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون ۔
ترجمہ : تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو ۔
حدیث پاک میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ “ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 631 حدیث نمبر 1913 دارالکتب العلمیہ بیروت)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمَيَّةٍ “ یعنی مجھے امی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ۔ (صحیح ابن حبان جلد 3 صفحہ 14 حدیث نمبر 739 موسسۃ الرسالہ بیروت)
شارحین کا بیان کردہ معنیٰ : ⏬
ان دونوں احادیث پر امام ابوالسعادات مبارک بن محمد جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے ، اور (اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا ۔ (النہایۃ فی غریب الاثر جلد 1 صفحہ 69 دارالکتب العلمیہ بیروت)
شیخ امام عبدالرحمٰن جوزی رحمہ اللہ آخری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: لفظ امیۃ سے مراد وہ قوم ہے جو لکھنا نہ جانتی ہو (غریب الحدیث لابن جوزی ، 1/ 41، دار الکتب العلمیہ بیروت)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اپنے لیے امی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩١٣‘ صحیح مسلم الصیام ‘ ١٥ (١٠٨٠) ٢٤٧٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٣١٩‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢١٤١‘ السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ٢٤٥١‘ مسند احمد ج ٢‘ ص ٤٤‘ طبع قدیم ‘ جامع الاصول ج ٦‘ رقم الحدیث : ٤٣٩٣)
لفظ ’’اُمّی ‘‘ کا لغوی معنیٰ : ⏬
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت ”اُمّی“ بھی ہے ۔ چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لیے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں : اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل ، اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو ، اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس الغات، تاج العروس و صحاح وغیرہم)
علامہ راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : امی وہ شخص ہے جو نہ لکھتا ہو اور نہ کتاب سے دیکھ کر پڑھتا ہو۔ اس آیت میں امی کا یہی معنی ہے ” ھوالذی بعث فی المیین رسولا منھم “ قطرب نے کہا امیہ “ کے معنی غفلت اور جہالت ہیں سوامی کا معانی قلیل المعرفت ہیں۔ اسی معنی میں ہے ” ومنہم امیون لا یعلمون الکتاب الا امانی “ یعنی وہ امی ہیں جب تک ان پر تلاوت نہ کی جائے وہ از خود نہیں جانتے۔ فراء نے کہا یہ وہ عرب لوگ ہیں جن کے پاس کتاب نہ تھی اور قرآن مجید میں ہے ” والنبی الامی الدی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل “ ایک قول یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے فرمایا ہے کہ آپ امین کے نبی تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب سے پڑھتے تھے ‘ اور یہ آپ کی فضیلت ہے کیونکہ آپ حفظ کرنے سے مستغنی تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی ضمانت پر اعتماد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” سنقرئک فلا تنسسی “ عنقریب ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ نہیں بھولیں گے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کو امی اس لیے فرمایا کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ مکرمہ کے رہنے والے تھے ۔ (المفردات ج ا ‘ ص ٢٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت،چشتی)
علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں ہے ” انا امۃ لا نکتب ولا تحسب “ ہم اہل عرب امی ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں ” آپ کی مراد یہ تھی کہ ہم اسی طرح ہیں جس طرح اپنی مائوں سے پیدا ہوئے تھے۔ یعنی اپنی جبلت اولیٰ پر ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ امی وہ ہے جو لکھتا نہ ہو۔ نیز حدیث میں ہے بعثت الی امۃ امیۃ “ میں امی امت کی طرف بھیجا گیا ہوں “ یا امی سے عرب مراد ہیں کیونکہ عرب میں لکھنا بالکل نہ تھا یا بہت کم تھا۔ (النہایہ ج ١‘ ص ٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
علامہ محمد طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں ہے ہم امی لوگ ہیں لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں۔ یعنی اپنی ماں سے پیدائش کی اصل پر ہیں۔ لکھنا سیکھا ہے نہ حساب کرنا۔ تو وہ اپنی اصل جبلت پر ہیں اور اسی نہج پر ہے امیین میں رسول بھیجا گیا۔ علامہ کرمانی نے کہا اس میں ام القریٰ کی طرف نسبت ہے یعنی مکہ والوں کی طرف۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ عرب میں لکھنے والے بھی تھے اور ان میں سے اکثر حساب جاننے والے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لکھنا نہیں جانتے تھے اور حساب سے مراد ستاروں کا حساب ہے اور وہ اس کو بالکل نہیں جانتے تھے۔ علامہ طیبی نے کہا کہ ابن صیاد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ امین کے رول ہیں اس شیطان کا مطلب یہ تھا کہ آپ صرف عرب کے رسول ہیں دوسروں کے نہیں ۔ (مجمع بحارالانوارج ١‘ ص ١٠٧‘ مطبوعہ مکتبہ دارالامان ‘ المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ،چشتی)
علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : قاموس میں ہے امی وہ شخص ہے جو لکھتا نہ ہو یا اپنی ماں سے پیدائش کے حال پر باقی ہو اور امی غبی اور قلیل الکلام کو بھی کہتے ہیں۔ اس کی تشریح میں علامہ زبیدی لکھتے ہیں : حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا جاتا ہے کہ عرب قوم لکھتی تھی نہ پڑھتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا در آنحالیکہ آپ لکھتے تھے نہ کتاب کو پڑھتے تھے۔ اور یہ آپ کا معجزہ ہے کیونکہ آپ نے بغیر کسی تغیر اور تبدل کے بار بار قرآن مجید کو پڑھا۔ قرآن مجید میں ہے ” وما کنت تتلو من قبلہ من کتاب “ (الایۃ) حافظ ابن حجر عسقلانی نے احادیث رافعی کی تخریج میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لکھنے اور شعر گوئی کو حرام کردیا گیا تھا۔ یہ اس وقت ہے اگر آپ شعر گوئی اور لکھنے کو اچھی طرح بروئے کار لاتے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ ہرچند کہ آپ کو شعر اور خط میں مہارت تو نہیں تھی لیکن آپ اچھے اور برے شعر میں تمیز رکھتے تھے۔ اور بعض علماء کا یہ دعویٰ ہے کہ پہلے آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن بعد میں آپ نے لکھنا جان لیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وما کنت تتلوا من قبلہ (الایہ) آپ سے پہلے نہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ اور ” اس سے پہلے “ کی قید کا یہ معنی ہے کہ بعد میں آپ نے اس کو جان لیا ‘ کیونکہ آپ کا پہلے نہ جاننا معجزہ کے سبب سے تھا اور جب اسلام پھیل گیا اور لوگوں کے شکوک کا خطرہ نہ رہا تو پھر آپ نے اس کو جان لیا ‘ اور امام ابن ابی شیبہ اور دیگر محدثین نے مجاہد سے روایت کیا ہے ” مامات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حتی کتب وقرء رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے لکھ نہیں لیا ‘ اور پڑھ نہیں لیا اور مجاہد نے شعبی سے کہا ‘ اس آیت میں اس کے خالف نہیں ہے۔ ابن وحیہ نے کہا کہ علامہ ابوذر ‘ علامہ ابو ذر ‘ علامہ ابوالفتح نیشاپوری اور علامہ باجی مالکی کا بھی یہی نظریہ ہے۔ علامہ باجی نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے ‘ بعض افیقی علماء نے بھی علامہ باجی کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ امی ہونے کے بعد لکھنے کو جان لینا معجزہ کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ آپ کا دوسرا معجزہ ہے ‘ کیونکہ بغیر کسی انسان کے سکھائے کتاب کو پڑھنا اور لکھنا بھی معجزہ ہے۔ ابو محمد بن مفوز نے علامہ باجی کی کتاب کا رد لکھا ہے اور علامہ سمنانی وغیرہ نے کہا ہے کہ آپ بغیر علم کے لکھتے تھے ‘ جیسے بعض ان پڑھ بادشاہ بعض حروف لکھ لیتے تھے حالانکہ ان کو حروف کی تمیز اور شناخت نہیں ہوتی تھی ۔ (تاج العروس جلد ٨ صفحہ ١٩١‘ مطبوعہ المطبعہ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ،چشتی)
علامہ سید محمود آلو سی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ١٢٧٠ ھ امی کی تفسیر میں لکھتے ہیں : زجاج نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امی اس لیے کہا ہے کہ آپ امت عرب کی طرف منسوب ہیں جس کے اکثر افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اور امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابن عمر (رض) سے یہ حدیث روایت کی ہے کہ اہم امی لوگ ہیں نہ لکھتے ہیں نہ گنتی کرتے ہیں۔ امام باقر نے کہا ہے کہ آپ ام القریٰ یعنی مکہ کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کو امی فرمایا ‘ آپ اپنی ام (ماں) کی طرف منسوب تھے ‘ یعنی آپ اسی حالت پر تھے جس حال پر اپنی ماں سے پیدا ہوئے تھے ‘ آپ کا یہ وصف اس تنبیہہ کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ آپ اپنی پیدائشی حالت پر قائم رہنے (یعنی کسی سے پڑھنا ‘ لکھنا نہ سیکھنے) کے باوجود اس قدر عظیم علم رکھتے تھے سو یہ آپ کا معجزہ ہے۔ امی کا لفظ صرف آپ کے حق میں مدح ہے اور باقی کسی کے لیے ان پڑھ ہونا باعث فضلیت نہیں ہے ‘ جیسا کہ تکبر کا لفظ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے باعث مدح ہے اور دوسروں کے حق میں باعث مذمت ہے ۔
نیز علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی وقت لکھنے کا صدور ہوا ہے یا نہیں ہوا ؟ ایک قول یہ ہے کہ ہاں صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے صلح نامہ لکھا اور یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے اور احادیث ظاہرہ کا بھی یہی تقاضا ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ نے بالکل نہیں لکھا اور آپ کی طرف لکھنے کی نسبت مجاز ہے ‘ اور بعض اہل بیت سے روایت ہے کہ آپ لکھے ہوئے الفاظ کو دیکھ کر پڑھتے تھے لیکن اس روایت کی کوئی معتمد سند نہیں ہے ‘ ہاں ابو الشیخ نے اپنی سند کے ساتھ عقبہ سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تک فوت نہیں ہوئے جب تک آپ نے پڑھا اور لکھا نہیں ‘ شعبی نے اس روایت کی تصدیق کی ہے ۔ (روح المعانی ‘ ج ٩‘ ص ٧٩‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ‘ بیروت)
اُمّی کا معنی و ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے’’بے پڑھے ‘‘ فرمایا اور یہ ترجمہ بالکل حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے ارشاد کے مطابق ہے اور یقیناً اُمّی ہونا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ دنیا میں کسی سے پڑھا نہیں اور کتاب وہ لائے جس میں اَوّلین و آخرین اور غیبوں کے علوم ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الاعراف تحت الآیۃ ۱۵۷ جلد ۲ صفحہ ۱۴۷،چشتی)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ”امی“ کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں کہ ”امی“ جو پڑھنے ، لکھنے سے علیحدہ ہو یعنی بے پڑھے، لکھے ہوئے یعنی ماں کی پیٹ سے عالم و عارف پیدا ہونے والے جن کےدامن میں کسی کی شاگردی، کسی کی مریدی ، کسی سے فیض لینے کا دھبہ نہ ہو ۔ ( تفسیر نعیمی پارہ ٧ صفحہ ٢٤٨)
حضرت تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری رضوی ازہری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : بیشک ہمارے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی لقب ہیں ، اور امی اسے کہتے ہیں جو اسی حالت پر باقی ہو جس پر وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو ، یعنی کسی سے پڑھنا لکھنا نہ سیکھا ہو ، اور یہ وصف عامۃ الناس میں عیب کا ہے بخلاف ہمارے نبی امی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہ ان میں یہ وصف کمال ہے اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کسی استاد ومذہب اخلاق کا مرہون منت نہ کیا اور نہ بنایا ، ایسا دانا کہ سارے عالم کے دانا ان کے آگے ہیج ہیں ۔ بلکہ ان کی دانائی ہمارے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی دین ہے ، اور تہذیب سے نا آشناؤں میں ایسا مؤدب و آراستہ اٹھایا کہ خلق مجسم بنا دیا ۔ قال اللہ تعالیٰ انک لعلی خلق عظیم ، اور ایک عالم کی بھلائی انہیں کے اخلاق حمیدہ کی پیروی میں ہے ، قال اللہ تعالیٰ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ ، اور جس طرح علوم و اخلاق وعادات میں یہ کمال خاصہ آنجناب ہے اسی طرح یہ لقب امی ان کا خاصہ ہے اور اس کا معظم و محترم ہونا ضروریات دین سے ہے اور اسے محل تعظیم آنجناب میں بولنا لازم ہے اور اسے محل اہانت میں بولنا قلب و عکس مراد قرآن ہے اور یہ کفر ہے ۔ (دعوت شریعت صفحہ ٢٣ ، ٢٤)
لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے ”اصل“۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپ کی فروعات (یعنی اولاد/امتی /آپ ہی کے دم قدم سے ہے) ہیں ۔ اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں اس کی پابندی کریں غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔ امام عشق و محبت ، امام اہل سنت سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس تخیل کو کیسے خوبصورت انداز میں بصورت شعری فرماتے ہیں : ⏬
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
(حدائقِ بخشش صفحہ 206 مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)
مذکورہ دلاٸل سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری زندگی ایسے ہی رہے جو کہ سراسر خلافِ واقعہ بات ہے ، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضور کےلیے ثابت کرتے ہیں ، حالانکہ حضور کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے یہ معنیٰ نہیں کہ ربِ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوب کی شان میں فرماتا ہے : وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا ۔
ترجمہ : اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔ (سورہ النساء آیت:4)
صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں لکھتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا اوریہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے ۔
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ۔
ترجمہ : اور اس (نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے ۔ (سورہ العنکبوت آیت:48)
ان آیات سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرما دیے ۔
ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل آپ کو صفتِ امِیَّت پر رکھنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، اب وہ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں : ⏬
(1) ابھی جو آیت کریمہ گزری اس میں ہی ایک حکمت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ لکھتے پڑھتے تو یہود آپ کی ضرور تکذیب کرتے اس لیے کہ ان کی کتب میں آخری نبی کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لیے نہ مل سکا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں یہ نشانی موجود تھی ۔
(2) ایک حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ، آپ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے چونکہ یہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے سے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا ۔ ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں ، جب وہ لوگ کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کےلیے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا آپ کو تمام علوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب عزوجل نے عطا فرمائے ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفتِ محمودہ ہے ۔
امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا : ⏬
ایسا اُمّی کس لیے منت کشِ استاد ہو
کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں
(حدائق بخشش صفحہ 106)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھنے اور پڑھنے پر قرآن مجید سے دلائل : ⏬
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما کنت تتلومن قبلہ من کتاب ولا تخطہ بیمینک اذا الار تاب المبطلون ۔ (العنکبوت : ٤٨ )
ترجمہ : اس (کتاب کے نزول) سے پہلے آپ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ‘ ایگر ایسا ہوتا تو باطل پرستوں کو شبہ پڑ جاتا ۔
اس آیت کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی استاد سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا ‘ قریش مکہ کے سامنے آپ کی پوری زندگی تھی ‘ آپ کے اہل وطن اور رشتہ داروں کے سامنے ‘ روز پیدائش سے اعلان نبوت تک آپ کی ساری زندگی گزری اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی نہ قلم ہاتھ میں لیا اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آسمانی کتابوں کی تعلیمات ‘ گزشتہ انبیاء ورسل کے حالات ‘ قدیم مذاہب کے عقائد ‘ تاریخ ‘ تمدن ‘ اخلاق اور عمرانی اور عائلی زندگی کے جن اہم مسائل کو یہ امی شخص انتہائی فصیح وبلیغ زبان سے بیان کر رہے ہیں ‘ اس کا وحی الہٰی کے سوا اور کوئی سبب نہیں ہوسکتا ‘ اگر انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم پائی ہوتی اور گذشتہ مذاہب اور تاریخ کو پڑھا ہوتا تو پھر اس شبہ کی بنیاد ہوسکتی تیے کہ جو کچھ یہ بیان کر رہے ہیں وہ دراصل ان کا حاصل مطالعہ ہے ۔ ہرچند کہ کوئی پڑھا لکھا انسان بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے آدمی مل کر اور تمام علمی وسائل بروئے کار لا کر بھی ایسی بےنظیر کتاب تیار نہیں کرسکتے ‘ تاہم اگر آپ نے اعلان نبوت سے پہلے لکھنے پڑھنے کا مشغلہ اختیار کیا ہوتا تو جھوٹوں کو ایک بات بنانے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ‘ لیکن جب آپ کا امی ہونا ‘ فریق مخالف کو بھی تسلیم تھا تو اس سر سری شبہ کی بھی جڑ کٹ گئی اور یوں کہنے کو تو ضدی اور معاند لوگ پھر بھی یہ کہتے تھے : وقالو اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا (الفرقان : ٥)
ترجمہ : اور انہوں نے کہا یہ پہلے لوگوں کے لکھے ہوے قصے ہیں جو اس (رسول) نے لکھوا لیے ہیں ‘ سو وہ صبح و شام اس پر پڑھے جاتے ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے لکھنے اور پڑھنے کی نفی کو آپ کے اعلان نبوت سے پہلے کی قید سے مقید کیا ہے اور یہی مقصود ہے۔ کیونکہ اگر اعلان نبوت اور نزول قرآن سے پہلے آپ کا لکھنا پڑھنا ثابت ہوتا تو اس شبہ کی راہ نکل سکتی تھی اور اس آیت سے آپ کی نبوت اور قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے پر استدلال نہ ہوسکتا۔ اور اس قید لگانے کا یہ تقاضا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد آپ سے لکھنے اور پڑھنے کا صدور ہو سکتا ہے اور بعد میں آپ کا لکھنا اور پڑھنا اس استدلال کے منافی نہیں ہے ۔
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض اجلہ علماء کا یہ قول نقل کیا ہے : اس قد سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنے اور پڑھنے پر قادر تھے اور اگر اس قید کا اعتبار نہ کیا جائے تو یہ قید بےفائدہ ہوگی ۔ (تفسیر روح المعانی ج ٢١‘ ص ٥‘ مطبوعہ بیروت)
اس استدلال پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ یہ مفہوم مخالف سے استدلال ہے۔ اور فقہاء احناف کے نزدیک مفہوم مخالف سے استدلال معتبر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم مخالفت کا استدلال میں معتبر نہ ہونا اتفاقی نہیں ہے کیونکہ باقی ائمہ مفہوم مخالف کا اعتبار کرتے ہیں ‘ خصوصاً جب کہ بکثرت احادیث صحیحہ سے بعثت کے بعد آپ کا لکھنا ثابت ہے ‘ جیسا کہ ہم عنقریب انشاء اللہ با حوالہ بیان کریں گے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیگرعلمی اور عملی کمالات عطا فرمائے ہیں اسی طرح آپ کو لکھنے پڑھنے کا بھی کمال عطا فرمایا ہے ‘ لکھنے کا علم ایک عظیم نعمت ہے ‘ قرآن مجید میں ہے : الذی علم بالقلم۔ علم الانسان مالم یعلم (العلق : ٤٠٥) ” جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا ‘ اور انسان کو وہ علم دیا ‘ جس کو وہ جانتا نہ تھا “۔ امت کے ان گنت افراد کو پڑھنے اور لکھنے کا کمال حاصل ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کمال حاصل نہ ہو ! اور امی ہونے کا فقط یہ مفاد ہے کہ آپ نے کسی مخلوق سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو براہ راست یہ علم عطا فرمایا ہے اور بعثت سے پہلے آپ لکھنے اور پڑھنے میں مشغول نہیں رہے تاکہ آپ کی نبوت میں کسی شبہ نہ ہو اور بعثت کے بعد آپ نے پڑھا اور لکھا اور یہ ایک الگ معجزہ ہے ۔ کیونکہ بغیر کسی مخلوق سے کسب فیض کے پڑھنا اور لکھنا خلاف عادت ہے۔
(مزید حصّہ وم میں ان شاء اللہ)
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی