طارق مسعود کی جعلی توبہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طارق مسعود کی پہلی توبہ
تم نے پہلے توبہ کی صرف اس وجہ سے کہ لوگوں نے اس کو غلط سمجھا۔ تم نے دو ٹوک کہا کہ لوگوں نے یہ سمجھا ہے اس لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔
تم نے پہلے توبہ کی صرف اس وجہ سے کہ لوگوں نے اس کو غلط سمجھا۔ تم نے دو ٹوک کہا کہ لوگوں نے یہ سمجھا ہے اس لیے میں معذرت چاہتا ہوں۔
مطلب لوگوں کو چونا لگانے کے لیے مکاری سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا گرویدہ بنانے کے لیے معذرت کے دو لفظ بول دیے۔ ۔۔۔۔۔ نہ اللہ سے توبہ کی نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی اور نہ
بد عقیدے برے الفاظ انداز نازیبہ الفاظ انداز سے رجوع کیا
طارق مسعود کی دوسری توبہ
دوسری توبہ تم نے اکابرین کو راضی کرنے کے لیے کر دی صاف صاف کہہ دیا کہ جی میرے اکابرین کو مجھ پر اطمینان نہیں ہوا اس لیے ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں توبہ کر لیتا ہوں الفاظ واپس لے لیتا ہوں رجوع کر لیتا ہوں لوگوں سے معذرت کر لیتا ہوں بلکہ کر رہا ہوں اور اکابرین کو چونا لگانے کے لیے بول دیا کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی توبہ کرتا ہوں، الفاظ واپس لیتا ہوں ، الفاظوں سے رجوع کرتا ہوں لیکن یہ سارا ڈرامہ سب کچھ اکابرین کے لیے کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ افسوس
طارق مسعود کا اصل جرم!!
دوسری توبہ تم نے اکابرین کو راضی کرنے کے لیے کر دی صاف صاف کہہ دیا کہ جی میرے اکابرین کو مجھ پر اطمینان نہیں ہوا اس لیے ان کو اطمینان دلانے کے لیے میں توبہ کر لیتا ہوں الفاظ واپس لے لیتا ہوں رجوع کر لیتا ہوں لوگوں سے معذرت کر لیتا ہوں بلکہ کر رہا ہوں اور اکابرین کو چونا لگانے کے لیے بول دیا کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی توبہ کرتا ہوں، الفاظ واپس لیتا ہوں ، الفاظوں سے رجوع کرتا ہوں لیکن یہ سارا ڈرامہ سب کچھ اکابرین کے لیے کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ افسوس
طارق مسعود کا اصل جرم!!
تمہارا اصل جرم تو یہ ہے کہ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی کو کوئی حیثیت ہی نہیں دی۔۔۔۔اپ کے بیان سے ایسے لگا جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ 10 سال مکہ والے ہمارے لیے زندگی کے لیے نمونہ ہی نہیں ہیں۔ پھر اگے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ کا لچھر انداز میں تذکرہ کیا ،جوتے تیری تشریف پہ پڑنے چاہیے۔۔۔۔۔۔ کتنی ڈٹائی بے شرمی سے بول کر گئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ بھی نہ چلا صحابہ کرام کو پتہ بھی نہ چلا اور قران مجید میں سو فیصد غلطی جاری ہے جسے کوئی مائی کا لال بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔
یہ آپ کے بیان کا خلاصہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپ نے درج ذیل جرم کیے ہیں
1۔۔۔اللہ کی توہین کہ اللہ اپنے کلام مجید کی حفاظت نہ کر سکا اور گرامر کی غلطی کروا دی
2۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اتنا بھی پتہ نہیں چلا کہ کلام مجید میں گرامر کی بہت بڑی غلطی ہو رہی ہے نعوذ باللہ
3۔۔۔۔صحابی رضی اللہ تعالی عنہ پر پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے گرامر کی غلطی جان بوجھ کر لکھ دی نعوذ باللہ تعالی۔
جعلی توبہ
عوام نے اپ کو خوب سمجھایا لیکن اپ کی سمجھ میں کھوپڑی میں کچھ بات بیٹھی ہی نہیں۔۔۔۔اپ تو اپنے اپ کو عقل کل سمجھتے ہیں سوشل میڈیا کے نمبر ون ہیرو سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن ریٹنگ کا مسئلہ تھا عوام متنفر ہو رہی تھی اور اپ کے اکابرین بھی متنفر ہو رہے تھے جب اکابرین متنفر ہو جائیں گے تو باہر کے سفر کہاں ہوں گے ڈالر شالر کہاں سے ملیں گے۔۔۔۔۔۔ لہذا نعوذ باللہ غلطی تسلیم کیے بغیر عوام اور اکابرین کو خوش کرنے کے لیے ان سے معذرت کر لی اور ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے الفاظ واپس لے لیے اور ان کو خوش کرنے کے لیے رجوع کر لیا۔
اصلی توبہ کا طریقہ
ارے یار کوئی تجھے بتائے توبہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہوتی ہے، عوام کو اکابرین کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہوتی چاہے عوام اور اکابرین خوش ہوں نہ ہوں ہمیں اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنی چاہیے۔۔۔۔چاہے عوام کچھ بھی سمجھے بےعزتی سمجھے یا بھلائی سمجھے کہ کتنا نیک ادمی ہے اتنا بڑا پاپولر ہو کر بھی ندامت سے اچھے طریقے سے شریعت پر عمل کرتے ہوئے توبہ کر رہا ہے۔۔۔۔ہمیں کسی کی پرواہ کیے بغیر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنی ہے اور توبہ کی جو تعلیمات شرائط وغیرہ اسلام نے مقرر فرمائی ان پہ عمل کرنا ہے....
عوام کو بعض اوقات توبہ کا صرف اس لیے بتایا جاتا ہے تاکہ عوام بدگمانی نہ کرے ،عوام کو پتہ چل جائے کہ میرا پہلے والا موقف کلدم ہو چکا ہے، اکابرین کو بھی فقط اس لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔
ورنہ توبہ کی اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ کریم کی بارگاہ میں ندامت سے توبہ کی جائے بد عقیدے سے برے الفاظ سے تشویش ناک الفاظ سے توبہ کی جائے، ایسے الفاظ و انداز کو کلعدم قرار دے کر رجوع کیا جائے، اور درست عقیدے کو واضح الفاظ میں بیان کر دے کہ یہ میرا عقیدہ ہے نظریہ ہے پہلے والے عقیدے نظریے سے میں رجوع کر رہا ہوں اور اللہ کو راضی کیا جائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معافی مانگی جائے کہ یا رسول اللہ اپ کے متعلق نازیبہ الفاظ نکل گئے اس نکمے کو معاف فرما دیجئے ائندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
طارق مسعود صاحب کیا اپ نے اپنے برے عقیدے سے رجوع کر کے یہ کہا کہ اب یہ درست عقیدہ فلاں عقیدہ اپنا رہا ہوں ظاہری مسٹیک 100 فیصد مسٹیک والی بات سے رجوع کر رہا ہوں رسول کریم کو علم نہیں تھا اس بات سے رجوع کر رہا ہوں صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے غلطی کو لکھا ان الفاظ سے میں رجوع کر رہا ہوں کیونکہ یہ سب جو کچھ میں نے کہا غلط کہا اور درست یہ ہے کہ جو دلائل کی بنیاد پر میرے اسلاف نے بتایا ہے۔۔۔۔۔۔ پھر اپ اپنے اسلاف کے مطابق جو عقیدہ بنتا ہے وہ بیان کر دیتے ہیں تو پتہ چلتا کہ اپ کا عقیدہ کیا ہے یہ گول مول سی توبہ رجوع عوام کو چونا لگانا نہیں تو اور کیا ہے تمہارے اکابرین کی ملی بھگت لگتی ہے کہ عوام کو کیسے چونا لگایا جائے عوام کو کیسے گرویدہ بنایا جائے عوام کو کیسے اپنا محب بنایا جائے۔
یہ ہے اصل توبہ ۔۔۔۔ یہ ہے واقعی ندامت ۔۔۔۔ پھر یہ توبہ اکثر اکیلے میں کی جاتی ہے لیکن اگر جرم سرعام ہوا ہو تو توبہ ندامت کے ساتھ اوپر والے طریقے کی مثل الفاظ و انداز سے کی جاتی ہے اور پھر ضمنا عوام کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے کہ اے میرے مسلمان بھائیو گواہ ہو جاو
میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت کرتا ہوں، یا اللہ مجھے معاف فرما یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف فرما دیجئے اور حقیقتا برے عقیدے یا ظاہری بری عقیدے حقیقتا برے الفاظ یا ظاہرا برے الفاظ تشویش ناک الفاظ اور ایسے انداز سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہوں یا اللہ میری توبہ قبول فرما یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف فرما اے صحابی رسول اپ کے متعلق بھی نازیبہ کہا معذرت چاہتا ہوں معاف فرما دیجئے اللہ کی رضا کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اے طارق مسعود صاحب اپ کہتے کہ اے عوام اے اکابرین لہذا اپ مجھے اب مجرم مت سمجھنا اے اکابرین اب اپ مجھے مجرم مت سمجھنا میں ائندہ احتیاط کروں گا اللہ اور اس کے رسول کو ناراض نہیں کروں گا اور اپ لوگوں کا دل نہیں دکھاؤں گا۔۔۔۔۔ان شاء اللہ عزوجل۔
اپنے عقیدے سے ہٹے بغیر برے الفاظوں تشویش ناک الفاظوں سے ہٹے بغیر برے انداز سے بیزاری کا اعلان کیے بغیر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کیے بغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت کیے بغیر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس عوام اور اکابرین کو چونا لگانے کے لیے ڈالر شالر کے چکر میں عزت نفس کے چکر میں عام معافی کر لینا کہ لوگوں مجھے معاف کر دو اکابرین مجھے معاف کر دو تو یہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ تو نہ ہوئی ناں۔۔۔ یہ تو مکاروں کی جھوٹوں کی توبہ ہے, یہ تو ٹھٹھہ مذاق ہے ڈرامہ بازی ہے
الحدیث:
التائب من الذنب كمن لا ذنب له، والمستغفر من الذنب وهو مقيم عليه كالمستهزئ بربه
گناہ سےسچی توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں لیکن گناہ(یا اس کے متعلقات)پر رہتے ہوئے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسےاللہ عزوجل سے مذاق کرے(نعوذ باللہ تعالی)
(كنز العمال حدیث10176)
(شعب الإيمان - ط الرشد9/363)
(الجامع الصغير سيوطي حدیث6247)
ذا النون يقول: الاستغفار من غير إقلاع توبة الكذابين
حضرت ذو النون مصری صوفی فرماتے ہیں کہ جرم کو جڑ سے اکھاڑے بغیر توبہ کرنا بہت بڑی جھوٹی توبہ ہے
(شعب الإيمان - ط الرشد9/362)
إذا عملت سيئة) أي عملا من حقه أن يسوءك (فأحدث) بقطع الهمزة وكسر الدال (عندها توبة) تجالسها بحيث يكون (السر بالسر والعلانية) أي الباطن بالباطن والظاهر بالظاهر فإذا عصى ربه بسره تاب إليه بسره باكتساب ما يزيله وإذا عصاه بجوارحه الظاهرة تاب إليه بها مع رعاية المقابلة وتحقق المشاكلة هذا هو الأنسب
اگر اعلانیہ گناہ نہیں کیا تو اس کی توبہ اعلانیہ نہیں ہے بلکہ مخفی طریقے سے بھی کافی ہے اور اگر گناہ و جرم اعلانیہ کیا ہے تو توبہ بھی اس کے مقابلے کی کرے اعلانیہ کرے۔۔۔۔دل دکھایا ہے کسی کا تو ان کو راضی کرے۔۔۔۔کسی کا حق مارا ہے تو حق ادا کر دے ۔۔۔۔۔گناہ جیسا کیا جیسا بڑا کیا جیسا گندا کیا تو توبہ بھی ایسی کرے کہ جو اس کی برابری کرے کہ اس کو رفع کر سکے کہ اس کو دور کر سکے کہ اس کا ازالہ کر سکے
(فیض القدیر1/406مشرحا)
التوبة: الإقلاع عن الذنب، والندم على ما سلف، والعزم على ألا يعاوده.: فى حق الآدمى وهو رد مظلمته إليه
جرم و گناہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور جو کچھ جرم و گناہ کیا اس پر نادم ہو ندامت کریں اور ائندہ جرم و گناہ و نافرمانی نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے اور جو حقوق بنتے ہوں وہ ادا کرے مثلا معافی تلافی کرے لوگوں کا دل دکھایا ہو تو اس سے معافی مانگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگے تو یہ توبہ ہے
(اکمال المعلم شرح مسلم8/241مشرحا)
فالتوبة الرجوع عما كَانَ مذموما فِي الشرع إِلَى مَا هُوَ محمود فِيهِ وَقَالَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الندم التوبة فأرباب الأصول من أهل السنة قَالُوا: شرط التوبة حَتَّى تصح ثلاثة أشياء الندم عَلَى مَا عمل من المخالفات، وترك الزلة فِي الحال، والعزم عَلَى أَن لا يعود إِلَى مثل مَا عمل من المعاصي فَهَذِهِ الأركان لابد منها حَتَّى تصح توبته
توبہ یہ ہے کہ شریعت میں جس کام کی مذمت ہے جس چیز کی مذمت ہے اس سے پلٹ کر اس سے رجوع کر کے اسکے متعلقات سے نکل کر( مثلا اگر کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے معافی کرے کسی کا قرض دینا ہو تو قرض ادا کرے اور دیگر متعلقات بھی ادا کرے گناہ جرم کو گناہ و جرم سمجھ کر اس سے پلٹ کر) اچھائی کی طرف جائے اور ندامت ہو اور جرم و گناہ کو فورا چھوڑ دے اور مصمم ارادہ کرے کہ ائندہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کی توبہ ہے
(رسالہ قشیریہ فی التصوف1/208ملخصا)
کتبہ:- العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
یہ آپ کے بیان کا خلاصہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اپ نے درج ذیل جرم کیے ہیں
1۔۔۔اللہ کی توہین کہ اللہ اپنے کلام مجید کی حفاظت نہ کر سکا اور گرامر کی غلطی کروا دی
2۔۔۔۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کر دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اتنا بھی پتہ نہیں چلا کہ کلام مجید میں گرامر کی بہت بڑی غلطی ہو رہی ہے نعوذ باللہ
3۔۔۔۔صحابی رضی اللہ تعالی عنہ پر پر الزام لگا دیا کہ انہوں نے گرامر کی غلطی جان بوجھ کر لکھ دی نعوذ باللہ تعالی۔
جعلی توبہ
عوام نے اپ کو خوب سمجھایا لیکن اپ کی سمجھ میں کھوپڑی میں کچھ بات بیٹھی ہی نہیں۔۔۔۔اپ تو اپنے اپ کو عقل کل سمجھتے ہیں سوشل میڈیا کے نمبر ون ہیرو سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن ریٹنگ کا مسئلہ تھا عوام متنفر ہو رہی تھی اور اپ کے اکابرین بھی متنفر ہو رہے تھے جب اکابرین متنفر ہو جائیں گے تو باہر کے سفر کہاں ہوں گے ڈالر شالر کہاں سے ملیں گے۔۔۔۔۔۔ لہذا نعوذ باللہ غلطی تسلیم کیے بغیر عوام اور اکابرین کو خوش کرنے کے لیے ان سے معذرت کر لی اور ان کو خوش کرنے کے لیے اپنے الفاظ واپس لے لیے اور ان کو خوش کرنے کے لیے رجوع کر لیا۔
اصلی توبہ کا طریقہ
ارے یار کوئی تجھے بتائے توبہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہوتی ہے، عوام کو اکابرین کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہوتی چاہے عوام اور اکابرین خوش ہوں نہ ہوں ہمیں اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنی چاہیے۔۔۔۔چاہے عوام کچھ بھی سمجھے بےعزتی سمجھے یا بھلائی سمجھے کہ کتنا نیک ادمی ہے اتنا بڑا پاپولر ہو کر بھی ندامت سے اچھے طریقے سے شریعت پر عمل کرتے ہوئے توبہ کر رہا ہے۔۔۔۔ہمیں کسی کی پرواہ کیے بغیر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنی ہے اور توبہ کی جو تعلیمات شرائط وغیرہ اسلام نے مقرر فرمائی ان پہ عمل کرنا ہے....
عوام کو بعض اوقات توبہ کا صرف اس لیے بتایا جاتا ہے تاکہ عوام بدگمانی نہ کرے ،عوام کو پتہ چل جائے کہ میرا پہلے والا موقف کلدم ہو چکا ہے، اکابرین کو بھی فقط اس لیے بتایا جاتا ہے کہ وہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھیں۔
ورنہ توبہ کی اصل حقیقت تو یہی ہے کہ اللہ کریم کی بارگاہ میں ندامت سے توبہ کی جائے بد عقیدے سے برے الفاظ سے تشویش ناک الفاظ سے توبہ کی جائے، ایسے الفاظ و انداز کو کلعدم قرار دے کر رجوع کیا جائے، اور درست عقیدے کو واضح الفاظ میں بیان کر دے کہ یہ میرا عقیدہ ہے نظریہ ہے پہلے والے عقیدے نظریے سے میں رجوع کر رہا ہوں اور اللہ کو راضی کیا جائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معافی مانگی جائے کہ یا رسول اللہ اپ کے متعلق نازیبہ الفاظ نکل گئے اس نکمے کو معاف فرما دیجئے ائندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
طارق مسعود صاحب کیا اپ نے اپنے برے عقیدے سے رجوع کر کے یہ کہا کہ اب یہ درست عقیدہ فلاں عقیدہ اپنا رہا ہوں ظاہری مسٹیک 100 فیصد مسٹیک والی بات سے رجوع کر رہا ہوں رسول کریم کو علم نہیں تھا اس بات سے رجوع کر رہا ہوں صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے غلطی کو لکھا ان الفاظ سے میں رجوع کر رہا ہوں کیونکہ یہ سب جو کچھ میں نے کہا غلط کہا اور درست یہ ہے کہ جو دلائل کی بنیاد پر میرے اسلاف نے بتایا ہے۔۔۔۔۔۔ پھر اپ اپنے اسلاف کے مطابق جو عقیدہ بنتا ہے وہ بیان کر دیتے ہیں تو پتہ چلتا کہ اپ کا عقیدہ کیا ہے یہ گول مول سی توبہ رجوع عوام کو چونا لگانا نہیں تو اور کیا ہے تمہارے اکابرین کی ملی بھگت لگتی ہے کہ عوام کو کیسے چونا لگایا جائے عوام کو کیسے گرویدہ بنایا جائے عوام کو کیسے اپنا محب بنایا جائے۔
یہ ہے اصل توبہ ۔۔۔۔ یہ ہے واقعی ندامت ۔۔۔۔ پھر یہ توبہ اکثر اکیلے میں کی جاتی ہے لیکن اگر جرم سرعام ہوا ہو تو توبہ ندامت کے ساتھ اوپر والے طریقے کی مثل الفاظ و انداز سے کی جاتی ہے اور پھر ضمنا عوام کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے کہ اے میرے مسلمان بھائیو گواہ ہو جاو
میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت کرتا ہوں، یا اللہ مجھے معاف فرما یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف فرما دیجئے اور حقیقتا برے عقیدے یا ظاہری بری عقیدے حقیقتا برے الفاظ یا ظاہرا برے الفاظ تشویش ناک الفاظ اور ایسے انداز سے اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہوں یا اللہ میری توبہ قبول فرما یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف فرما اے صحابی رسول اپ کے متعلق بھی نازیبہ کہا معذرت چاہتا ہوں معاف فرما دیجئے اللہ کی رضا کی خاطر۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اے طارق مسعود صاحب اپ کہتے کہ اے عوام اے اکابرین لہذا اپ مجھے اب مجرم مت سمجھنا اے اکابرین اب اپ مجھے مجرم مت سمجھنا میں ائندہ احتیاط کروں گا اللہ اور اس کے رسول کو ناراض نہیں کروں گا اور اپ لوگوں کا دل نہیں دکھاؤں گا۔۔۔۔۔ان شاء اللہ عزوجل۔
اپنے عقیدے سے ہٹے بغیر برے الفاظوں تشویش ناک الفاظوں سے ہٹے بغیر برے انداز سے بیزاری کا اعلان کیے بغیر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کیے بغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں معذرت کیے بغیر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس عوام اور اکابرین کو چونا لگانے کے لیے ڈالر شالر کے چکر میں عزت نفس کے چکر میں عام معافی کر لینا کہ لوگوں مجھے معاف کر دو اکابرین مجھے معاف کر دو تو یہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ تو نہ ہوئی ناں۔۔۔ یہ تو مکاروں کی جھوٹوں کی توبہ ہے, یہ تو ٹھٹھہ مذاق ہے ڈرامہ بازی ہے
الحدیث:
التائب من الذنب كمن لا ذنب له، والمستغفر من الذنب وهو مقيم عليه كالمستهزئ بربه
گناہ سےسچی توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں لیکن گناہ(یا اس کے متعلقات)پر رہتے ہوئے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسےاللہ عزوجل سے مذاق کرے(نعوذ باللہ تعالی)
(كنز العمال حدیث10176)
(شعب الإيمان - ط الرشد9/363)
(الجامع الصغير سيوطي حدیث6247)
ذا النون يقول: الاستغفار من غير إقلاع توبة الكذابين
حضرت ذو النون مصری صوفی فرماتے ہیں کہ جرم کو جڑ سے اکھاڑے بغیر توبہ کرنا بہت بڑی جھوٹی توبہ ہے
(شعب الإيمان - ط الرشد9/362)
إذا عملت سيئة) أي عملا من حقه أن يسوءك (فأحدث) بقطع الهمزة وكسر الدال (عندها توبة) تجالسها بحيث يكون (السر بالسر والعلانية) أي الباطن بالباطن والظاهر بالظاهر فإذا عصى ربه بسره تاب إليه بسره باكتساب ما يزيله وإذا عصاه بجوارحه الظاهرة تاب إليه بها مع رعاية المقابلة وتحقق المشاكلة هذا هو الأنسب
اگر اعلانیہ گناہ نہیں کیا تو اس کی توبہ اعلانیہ نہیں ہے بلکہ مخفی طریقے سے بھی کافی ہے اور اگر گناہ و جرم اعلانیہ کیا ہے تو توبہ بھی اس کے مقابلے کی کرے اعلانیہ کرے۔۔۔۔دل دکھایا ہے کسی کا تو ان کو راضی کرے۔۔۔۔کسی کا حق مارا ہے تو حق ادا کر دے ۔۔۔۔۔گناہ جیسا کیا جیسا بڑا کیا جیسا گندا کیا تو توبہ بھی ایسی کرے کہ جو اس کی برابری کرے کہ اس کو رفع کر سکے کہ اس کو دور کر سکے کہ اس کا ازالہ کر سکے
(فیض القدیر1/406مشرحا)
التوبة: الإقلاع عن الذنب، والندم على ما سلف، والعزم على ألا يعاوده.: فى حق الآدمى وهو رد مظلمته إليه
جرم و گناہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے اور جو کچھ جرم و گناہ کیا اس پر نادم ہو ندامت کریں اور ائندہ جرم و گناہ و نافرمانی نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرے اور جو حقوق بنتے ہوں وہ ادا کرے مثلا معافی تلافی کرے لوگوں کا دل دکھایا ہو تو اس سے معافی مانگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگے تو یہ توبہ ہے
(اکمال المعلم شرح مسلم8/241مشرحا)
فالتوبة الرجوع عما كَانَ مذموما فِي الشرع إِلَى مَا هُوَ محمود فِيهِ وَقَالَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الندم التوبة فأرباب الأصول من أهل السنة قَالُوا: شرط التوبة حَتَّى تصح ثلاثة أشياء الندم عَلَى مَا عمل من المخالفات، وترك الزلة فِي الحال، والعزم عَلَى أَن لا يعود إِلَى مثل مَا عمل من المعاصي فَهَذِهِ الأركان لابد منها حَتَّى تصح توبته
توبہ یہ ہے کہ شریعت میں جس کام کی مذمت ہے جس چیز کی مذمت ہے اس سے پلٹ کر اس سے رجوع کر کے اسکے متعلقات سے نکل کر( مثلا اگر کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے معافی کرے کسی کا قرض دینا ہو تو قرض ادا کرے اور دیگر متعلقات بھی ادا کرے گناہ جرم کو گناہ و جرم سمجھ کر اس سے پلٹ کر) اچھائی کی طرف جائے اور ندامت ہو اور جرم و گناہ کو فورا چھوڑ دے اور مصمم ارادہ کرے کہ ائندہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کی توبہ ہے
(رسالہ قشیریہ فی التصوف1/208ملخصا)
کتبہ:- العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر