Type Here to Get Search Results !

مساجد کے ناکارہ امام ذمہ دار کون ؟ منتظمین مدارس یا‌ اہلیان مساجد؟


مساجد کے ناکارہ امام ذمہ دار کون ہے؟
منتظمین مدارس یا‌ اہلیان مساجد؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مساجد و مدارس کی اہمیت و افادیت سب کے نزدیک مسلم ہے۔ ان کے مربوطی نظام سے بھی ہر شخص واقف ہے۔
مدارس میں طرز تبلیغ، ما فی الضمیر کی تعبیر، عقائد حقہ کی توضیح و تشریح اور مسائل شرعیہ کی تفہیم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ اور جو افراد ان صلاحیتوں کے حامل ہو جاتے ہیں ان میں سے بہتوں کو قوم کا معلم و رہنما بنا کر مساجد میں بھیجا جاتا ہے تاکہ عوام کو خطائے اعتقادی و خطا فی المسائل یعنی بدعقیدگی و بدعملی سے بچا کر انہیں راہ راست پر لایا جا سکے۔
ائمہء مساجد میں جب تک مذکورہ صلاحیتیں تھیں تب تک عوام کے عقیدہء و عمل میں کوئی تزلزل و تذبذب نہیں تھا، مگر جیسے جیسے ائمہء مساجد کی صلاحیتیں مفقود اور ان کی علمی قوتیں کم زور ہوتی گئیں ویسے ویسے عوام ان کی گرفت سے دور ہوتے گیے۔ اور عوام کی عملی و اعتقادی کم زوریوں کو دیکھ کر باطل طبقات کے لوگوں نے نقب زنی شروع کر دی اور انہیں گم راہ کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کر ڈالی۔ اور آج کا حال تو کسی پر مخفی نہیں۔ افسوس اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہمارے دیار کے اکثر اماموں کی حالت یہ ہے کہ کسی باطل فرقے کے عالم و امام نہیں بلکہ ایک عام آدمی سے حسب ضرورت اس کے نظریاتی و عملیاتی معاملات میں سوائے جھگڑا کرنے کے کوئی تسلی بخش گفتگو نہیں کر سکتے۔
مثلا؛ مغالطہ عامة الورود مسائل میں سینے پر ہاتھ باندھنا، رفع یدین، آمین بالجہر، قرأت خلف الإمام اور قعدہء اخیرہ میں سلام پھیرنے تک انگشت شہادت کو اٹھائے رکھنا وغیرہ یہ وہ مسائل ہیں کہ ایک عام غیر مقلد اپنے معمولات نماز پر اپنی تائید میں اتنی حدیثیں یاد کر کے سنا دیتا ہے کہ بےچارے ہمارے امام صاحب اس رٹا مارنے والے کے سامنے لاجواب ہو جاتے ہیں، بلکہ اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہماری مساجد کے بہت سے امام مسائل طہارت و نماز سے بھی کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے، کیوں کہ انہیں تعویذ گنڈوں اور اپنے موکلوں کے ساتھ جناتی دنیا کی سیر کرنے سے فرصت ہی نہیں ملتی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے نااہل اماموں کی تعیین و تقرری کا ذمہ دار کون ہے؟ آیا وہ مدارس اسلامیہ جہاں ان کی تعلیمی نشو و نما ہوتی ہے یا مساجد کے وہ اراکین جو اماموں کو منتخب و برطرف کرنے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں؟
جواب سے پہلے یہ المناک داستان بھی سن لیں کہ آج بہت سے اہلیان مدارس کا مقصد طلبہ کی محض تعداد دکھا کر سیٹھوں سے چندہ وصول کرنا اور قرآن خوانی و دعوتوں کے ذریعے ان کی شکم سیری و تن پروری کی راہیں ہموار کرنا ہے۔ رشتہ، قرابت یا دولت کی ترجیحات کی بنا پر بحیثیت معلم منتخب کیے گیے نا اہل اساتذہ بھی اوقات تعلیم کو شعبہء وقت گزاری سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ اس لیے ان طلبہ کی نہ صحیح تعلیم و تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی فکر آخرت کے اسباق انہیں سکھائے جاتے ہیں۔
یعنی روح کو زندہ رکھنے والی روحانی و عرفانی غذاؤں سے انہیں دور رکھا جاتا ہے۔ اور ساری توجہ جسم کی فربہی، خوش نمائی، پر کشش لباس، ظاہری زیب و زینت اور چہرے کی تزئین کاری پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے حصول کے لیے تعلیم و تربیت ہی نہیں بلکہ نماز بھی قضا ہو سکتی ہے پر دعوت قضا نہیں ہوتی۔ الغرض؛ مدارس کے یہ طلبہ جو مستقبل میں امام، قاضی اور رہبران قوم و ملت بننے والے ہیں ان کی فکر و نظر کو تعلیمی و تربیتی خزانوں سے پر کرنے اور ان کے دلوں میں اسلام کی روح پھونکنےکی بجائے ان کے ذہن و فکر میں افلاس کا ڈر اور اہل ثروت کے رعب و دبدبے بھر دیے جاتے ہیں۔ دلوں کو غذائے روحانی سے محروم کر کے ان کی باحوصلہ پاکیزہ زندگی چھین لی جاتی ہے۔ ایسے مردہ دل افراد فکر آخرت نہیں بلکہ فکر معیشت کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اب جب کہ انہیں خود اپنی عبادات، اعمال و عقائد اور آخرت کی فکر نہیں ( کہ ان کے لیے علم چاہیے اور ان حضرات کی دوستی جہالت ہی سے نہیں، بلکہ جہل مرکب سے ہو چکی ہے) تو بھلا یہ لوگ قوم کی اصلاح کی فکر کیا کریں گے!؟ یہ اکثر اماموں کا سوانحی خاکہ جس کا مشاہدہ ہم سب آئے دن کرتے رہتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ ان مدارس سے فارغ ہونے والے ایسے ناخواندہ امام جو دس سال میں عالم تو بہت دور کی بات ہے مکمل حافظ بھی نہ بن سکے، اور عالم بنے تو ایسے کہ قانون شریعت کے مسائل سے بھی نابلد رہے۔ ایسے لوگوں کا علم و ادب سے کتنا گہرا رشتہ ہوگا یہ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور یہ یقین جانیں کہ جہاں علم و ادب نہیں ہوگا وہاں فتنہ و فساد لازم ہے۔ قوم کے اندر پنپنے والے بہت سے فتنوں کی وجہ یہی عجیب الخلقت ناخواندہ امام ہیں، جو اپنی اور قوم و ملت کی اصلاح کی فکر کی بجائے شب و روز بے عمل گم راہ گر پیروں، کذاب نقیبوں، پیشہ ور بے راہ رو خطیبوں اور سیٹھوں کی دلالی کرنے میں کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے۔
دوسری طرف اراکین مساجد کی حالت زار بھی کچھ کم افسوس ناک نہیں۔ انہیں امام خوش رنگ، خوش الحان، خوش پوشاک، خوش نما بدن، مروجہ خطابت اور گلوکاری کا رسیا اور معیار عمل کو چھوڑ کر حالات سے سمجھوتہ کرنے والا اور سیٹھوں کی جی حضوری کرنے والا چاہیے۔ یعنی ان کو مسلم امہ کی اصلاح کی فکر کرنے والا مخلص اور با صلاحیت امام نہیں، بلکہ ان کی ہاں میں ہاں ملانے والا مولوی نما نوکر چاہیے۔ جو مصلی پر پہنچے تو اراکین مساجد کا امام ہو اور مصلی سے اترتے ہی ان کا مقتدی و پیروکار بن جائے۔
آمدم بر سر مطلب: مساجد میں موجود ناکارہ اماموں کے ذمہ دار اراکین مساجد بھی ہیں اور اس سے کہیں زیادہ اس کے ذمہ دار وہ افراد و اہلیان مدارس ہیں جو ہر کس و ناکس اور اہل و نااہل کو سند فراغت دے کر اور قوم کے درمیان بھیج کر بھولی بھالی بکریوں کے درمیان خونخوار بھیڑیے کو چھوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ تعلیم سے کوسوں دور تو ہوتے ہی ہیں، مزید یہ کہ تربیت سے بھی وہ عاری ہوتے ہیں۔
ان اماموں کی خصوصیات بیان کرتے کرتے مضمون بہت طویل ہو جائے گا اس لیے اب اس کے حل کی طرف چلتے ہیں، کیوں کہ ان حضرات کی علمی، عملی اور فکری کم زوری کی وجہ جو بھی ہو بہر حال نقصان ملت بیضا کے ہر فرد کا ہے، لہذا اس کا مزید رونا رونے کی بجائے اس ہلاکت خیز سیلاب کا تدارک کیا جانا ہی عقل مندی ہے۔ الحمد للہ ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے راشٹریہ علما کونسل نیپال کے اراکین حتی المقدور اسی منہج پر کام کر رہے ہیں۔
الحاصل:ائمہء کرام کو قوم و ملت کے لیے نفع بخش بنانے کے لیے مندرجہ ذیل امور کو اپنانا ضروری ہے؛👇
(1)مدارس کی تعلیم میں پختگی لائیں۔
(2)اس کے لیے باصلاحیت ذمہ دار مدرسین کا انتخاب کریں۔
(3)طالب علم جب تک علمی و عملی اعتبار سے مضبوط نہ ہو جائے تب تک اسے دستار بندی و سند فراغت نہ دیں۔
(4)ہر سال کی رسمی دستار بندی کی فکر کرنے کی بجائے طلبہ کو صحیح معنوں میں دستار بندی کا اہل بنانے کی فکر کریں۔
(5)مدرسین کے مشاہرے معقول اور حسب لیاقت ہوں۔
(6)مساجد میں امامت کے لیے خالص حفاظ کی بجائے ذی استعداد مفکر و مدبر علما کا انتخاب کریں۔
(7)ائمہ کے انتخاب کے لیے ہر علاقے میں مستند ذمہ دار علما کا ایک بورڈ تیار کریں۔
(8)جمعات کی رسمی تقریروں کو بند کر کے فکر انگیز اصلاحی بیان ہو۔
(9)اس کے لیے مقتضائے حال کے مطابق موضوعات کے مواد لکھ کر ائمہ حضرات کو دیے جائیں۔
(10) مہینے یا دو مہینے میں تربیت ائمہ کیمپ لگا کر مفتیان کرام کے ذریعے ان کی رہنمائی کی جائے۔
(11)ہفتہ، دس دن یا پندرہ دن میں مساجد و دیگر مناسب مقامات پر درس قرآن و درس حدیث کی تقریب رکھیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طالب دعا
محمد_کہف_الوری_مصباحی 
مقام_جعفرپوروہ_ڈڈوا_گاؤں_پالکا
وارڈ_نمبر۲_ضلع_بانکے_نیپال 
نائب_صدر_لمبنی_پردیس_راشٹریہ_علما_کونسل_نیپال
نگران_اعلی_فروغ_اردو_زبان_تعلیمی_شاخ_ڈڈوا
گاؤں_پالکا_ضلع_بانکے_نیپال
بانی_و_مہتمم_الحفصہ_گرلس_اسکول
و_جامعہ_ازہر_اسلام_عربی_کالج

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area