Type Here to Get Search Results !

مقام سادات تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی میں قسط اول

----------مقام سادات----------
 تعلیمات اعلیٰ حضرت کی روشنی
-----------قسط اول------------
از قلم:- شبیر احمد راج محلی۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز بارگاہ رب العالمین میں یوں عرض کرتے ہیں:
حُبِّ اہلِ بیت دے آلِ محمد کے لیے
کر شہیدِ عشق حمزہ پیشوا کے واسطے
دو جہاں میں خادمِ آلِ رسول اللہ کر
حضرتِ آلِ رسولِ مقتدا کے واسطے
(حدائق بخشش)
قارئین حضرات!مندرجہ ذیل میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز کی چند عبارات نقل ہیں ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک سادات کرام یعنی سیدوں کا مقام و مرتبہ کیا ہے۔
چناں چہ ایک جگہ عنوان قائم کرتے ہیں:
"اہل بیت(نبی میں)سے کوئی کوئی بھی جہنمی نہیں" 
پھر اس کے تحت یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
"سألت ربي تعالى أن لا يدخل أحدا من أهل بيتي النار فأعطانيها"(کنز العمال حدیث نمبر ٣٣١٤٩،حرف الفاء،تابع لکتاب الفضائل من قسم الأفعال،الباب الخامس،من فضل اہل بیت،الفصل الأول في فضلهم مجملا،الناشر موسسۃ الرسالۃ لبنان)
(یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ)"میں نے اپنے رب عز وجل سے سوال کیا کہ میرے اہل بیت سے کسی کو دوزخ میں نہ ڈالے اس نے میری یہ مراد عطا فرمائی"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣١،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
اسی طرح ایک جگہ عنوان قائم کرتے ہیں:
"اہل بیت عذاب سے بری ہیں"
پھر اس کے تحت یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِفَاطِمَةَ:«إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرَ مُعَذِّبِكِ، وَلَا وَلَدِكِ»
(المعجم الکبیر للطبراني،حدیث نمبر ١١٦٨٥،باب العین،عِكْرِمَةُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،دار النشر: مكتبة ابن تيمية - القاهرة) 
یعنی:حضرت ابن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے ارشاد فرمایا:"بیشک اللہ تعالٰی نہ تجھے عذاب فرمائے گا نہ تیری اولاد کو"
پھر یہ حدیث نقل کرتے ہیں:
«إنما سميت فاطمة، لأن الله قد فطمها وذريتها عن النار يوم القيامة»
(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج ١ ،المقصد الثانی،ص ٤٨٢،الفصل الثانى فى ذكر أولاده الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام،الناشر المکتبۃ التوفيقیۃ القاہرۃ)
یعنی:حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:فاطمہ(میری بیٹی کا)اس لئے نام ہوا کہ اللہ عزوجل نے اسے اور اس کی نسل کو روز قیامت آگ سے محفوظ فرمادیا۔
اسی طرح ایک جگہ عنوان قائم کرتے ہیں:
"اہل بیت(نبی جہنم کی)آگ میں نہیں جا سکتے"
پھر اس کے تحت"تفسیر قرطبی" سے آیت "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضى" کے تحت درج"حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول یہ روایت نقل کرتے ہیں:
"رَضِيَ مُحَمَّدٌ أَلَّا يَدْخُلَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ النَّارَ"
(تفسیر قرطبی سورۃ الضحٰی تحت الآيات ٤ الى ٥،الناشر: دار الكتب المصرية - القاهرة)
یعنی:ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ:اللہ عزوجل نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے راضی کر دینے کا وعدہ فرمایا اور محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضا اس میں ہے کہ ان کے اہل بیت(اطہار)سے کوئی دوزخ میں نہ جائے۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣١ تا ٧٣٢،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز ان عنوانات کو قائم کرکے اور ان کے تحت مذکورہ دلائل کو نقل کرکے یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ سادات عظام یعنی صحیح النسب سیدوں کی عظمت و فضیلت یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں جائیں گے۔
مذکورہ طریقے پر ایک جگہ عنوان قائم کرتے ہیں:
"سید کفریہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا"
پھر اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
"جو کافر ہو وہ قطعاً سید نہیں......نہ اسے سید کہنا جائز"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٠،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات،شعبان المعظم ١٤٢٤ھ اکتوبر ٢٠٠٣ء،بموقعہ عرس قاسمی مارہرہ مقدسہ یوپی،)
پھر ایک عنوان قائم کرتے ہیں:
"منافق کو سید نہ کہو"
پھر اس کے تحت لکھتے ہیں:
"پھر یہی نہیں کہ یہاں صرف اطلاق لفظ سے ممانعت شرعی اور نسب سیادت کا انتفائے حکمی ہو حاشا بلکہ واقع میں کافر اس نسل طیب و طاہر سے تھا ہی نہیں اگرچہ سید بنتا اور لوگوں میں براہ غلط سید کہلاتا ہو ائمہ دین اولیائے کاملین علماے عالمین رحمۃ اللہ تعالی علیہم اجمعین تصریح فرماتے ہیں کہ سادات کرام بحمد اللہ تعالیٰ خباثت کفر سے محفوظ و مصئون ہیں جو واقعی سید ہے اس سے کبھی کفر واقع نہ ہوگا،قال اللہ تعالیٰ:اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا(سورۃ الاحزاب آیت ٣٣)اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے نجاست دور رکھے اے نبی کے گھر والو!اور تمہیں خوب پاک کر دے ستھرا کرکے.......حاکم بافادہ تصحیح مستدرک میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روای رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:«إِنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَحَرَّمَ اللَّهُ ذُرِّيَتَهَا عَلَى النَّارِ»
[الحاكم، أبو عبد الله ,المستدرك على الصحيحين للحاكم ,حديث ٤٧٢٦،کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم،وَمنْ مَنَاقِبِ أَهْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،الناشر دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان]
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣١،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
معلوم ہوا اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ یہ نظریہ پیش کر رہے ہیں کہ جو صحیح النسب سید ہیں وہ عقائد کفریہ نہیں رکھ سکتے وہ منافق نہیں ہو سکتے،ان سے کفر واقع نہیں ہو سکتا کیوں کہ صحیح النسب سادات عظام خباثت کفر سے محفوظ و مصئون ہیں۔لیکن ہاں!اگر کوئی سید کہلاتا ہے اور کافر قطعی ہو جائے تو وہ اپنے دعویٰ سیادت میں جھوٹا ہے۔
پھر ایک لکھتے ہیں:
"نار دوقسم کی ہے،نارِ تطہیر کہ مومن عاصی جس کا مستحق ہو، اور نارِ خلود کافرکے لئے ہے،اہل بیت کرام میں حضرت امیر المؤمنین مرتضیٰ و حضرت بتول زہرا و حضرت سید مجتبٰی و حضرت شہید کربلا صلی اللہ تعالٰی علٰی سید ہم و علیہم وبارک وسلم تو بالقطع والیقین ہر قسم سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ ہیں اس پر تو اجماع قائم اور نصوص متواترہ حاکم،باقی نسل کریم تا قیام قیامت کے حق میں اگر بفضلہٖ تعالٰی مطلق دخول سے محفوظی لیجئے اور یہی ظاہر لفظ سے متبادر،اور اسی طرف کلماتِ اہل تحقیق ناظر،جب تو مراد بہت ظاہر، اور منع خلود مقصود جب بھی نفی کفر پر دلالت موجود۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٢ تا ٧٣٣،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
مذکورہ عبارات سے معلوم واضح ہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ یہ نظریہ دے رہے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا و حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ تعالٰی عنہما یہ چاروں حضراتِ اہل بیت اطہار تو قطعی اور یقینی طور پر ہر دو طرح کی نار،نار تطہیر جس میں گناہ گار مومنوں کو داخل کیا جائے گا و نار خلود جس میں کافروں کو داخل کیا جائے گا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہیں اور عقیدہ پر حدیث متواتر بھی موجود اور اجماع امت بھی قائم،اب رہی بات قیامت تک کے سادات عظام کے متعلق عقیدہ تو اس پر بھی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے یہ نظریہ دیا کہ ان سب کو بھی نار تطہیر و نار خلود دونوں سے محفوظ مان لیا جائے کیوں کہ اہل تحقیق اسی طرف گئے ہیں نیز اعلیٰ حضرت امام اہل سنت یہ بھی پیغام دے رہے ہیں کہ اگر سنی سادات عظام کو نار خلود سے تو محفوظ مانتا ہے لیکن نار تطہیر سے محفوظ نہیں مانتا تو کوئی مسئلہ نہیں،نار تطہیر سے محفوظ نہ ماننا ہمارے اس نظریہ کے خلاف نہیں کہ جملہ صحیح النسب سیدوں سے کفر واقع نہیں ہو سکتا۔
ضروری نوٹ:کوئی یہ سمجھے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز کا جو یہ موقف ہے کہ"سادات عظام سے کفر واقع نہیں ہوتا"اس میں آپ علیہ الرحمہ اکیلے نہیں بلکہ بہت سے اکابرین اہل سنت و جماعت یہی نظریہ ہے جس کا ذکر اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزيز کی نقل کردہ مندرجہ بالا عبارت میں بھی موجود ہے نیز اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے باضابطہ اپنے موقف کی تائید میں اکابرین اہل سنت و جماعت کی عبارات بھی نقل کی ہے ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں:
"شیخ اکبر اور اہل بیت"شیخ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ"فتوحات مکیہ باب ۲۹ میں فرماتے ہیں:
" لما کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عبدا مخصا قد طھرہ اللہ و اھل بیتہ تطھیرا واذھب عنہم الرجس وھو کل ما یشینھم فھم المطھرون بل ھم عین الطھارۃ فھذہ الاٰیۃ تدل علی ان اللہ تعالٰی قد شرک اھل البیت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی قولہ تعالٰی لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر، و ای وسخ وقذر من الذنوب فطھر اللہ سبحانہ نبیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالمغفرۃ ممّا ھو ذنب بالنسبۃ الینا فدخل الشرفاء اولاد فاطمۃ کلھم رضی اللہ تعالٰی عنہم الی یوم القٰیمۃ فی حکم ھذہ الاٰیۃ من الغفران الی اٰخر ما افادوا جا دو ثمہ کلام طویل نفیس جلیل فعلیک بہ رزقنا اللہ العمل بما یحبہ ویرضاہ اٰمین"
یعنی شیخ اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:"جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالٰی کے خاص عبد ہیں کہ ان کو اور ان کے اہل بیت کو کامل طور پر پاک کردیا ہے اور ناپاکی کو ان سے دور کردیا ہے اور رجس ہر ایسی چیز ہے جو ان حضرات کو داغدار کرے تو وہ پاکیزہ لوگ بلکہ وہ عین طہارت ہیں، تو اللہ تعالٰی نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اہل بیت کو طہارت میں شریک فرمایا ہے جس پر آیہ کریمہ ہے"لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ"اللہ تعالٰی نے آپ کے لئے پہلے اور پچھلے آپ کے خطایا معاف کردئے یعنی گناہوں کی میل و قذر سے آپ کو پاک رکھا ہے جو ہماری نسبت سے گناہ ہوسکتے ہیں تو تمام سادات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی اولاد اس حکم میں داخل ہے الخ،تک جو حضر ت شیخ نے بہترین فائدہ مند کلام فرمایا یہاں آپ کا جلیل نفیس طویل کلام ہے تو آپ پر لازم ہے کہ اس کی طرف راجع ہوں اللہ تعالٰی ہمیں اپنے پسندیدہ عمل کا حصّہ عطا فرمائے، آمین۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٦،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
فتوحات مکیہ کی مذکورہ عبارت جن کو اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے نقل کیا اس سے بھی ثابت ہوا کہ سادات کرام کا مقام اتنا بلند و بالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو بھی گناہوں کی میل و قذر سے پاک رکھا ہے۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:
"امام ابن حجر کے الفاظ ملاحظہ فرمائے ہوں گے:لاننی اکادان اجزم ان حقیقۃ الکفرلا تقع الخ۔اس لئے کہ بے شک میں اس بات پر جزم کرتا ہوں کہ صحیح النسب سید سے حقیقی کفر کا وقوع نہیں ہوتا۔الخ(ت) (جزاء اللہ عدوہ بابائہٖ ختم النبوۃ نوری کتب خانہ لاہور ص۱۲۲،بحوالہ فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٣٠،ص ٧٧،مسئلہ۱ تا ٤،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
اسی طرح ایک جگہ لکھتے ہیں:
"فتاوٰی حدیثیہ امام ابن حجر مکی میں ہے:
انما قلت ان فرض لا ننی اکادان اجزم ان حقیقۃ الکفر لا تقع ممن علم اتصال نسبہ الصحیح بتلک البضغۃ الکریمۃ حاشا ھم اللہ من ذٰلک و قد احال بعضھم وقوع نحو الزنا واللواط ممن علم شرفہ فما ظنک بالکفر۔میں نے صرف فرض کرنے کی بات اس لئے کی ہے کیونکہ مجھے جزم کی حد تک یقین ہے کہ جو صحیح النسب سید ہو اس سے حقیقی کفر کا وقوع نہیں ہوسکتا اللہ تعالٰی ان کو اس سے بلند رکھے، بعض نے ان سے زنا اور لواطت جیسے افعال کو بھی محال کہا ہے بشرطیکہ ان کی نسبی شرافت یقینی ہو تو پھر کفر کے متعلق تیرا کیا خیال ہے(فتاوٰی حدیثیہ، طلب ما الحکمۃ فی خصوص اولاد فاطمہ بالمشرف، المطبعۃ الجمالیہ، مصر، ص ۱۲۲، بحوالہ فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٥،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات )
معلوم ہوا کہ امام جلال الدین السیوطی رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی سادات کرام کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ ان حضرات سے کفر واقع نہیں ہوسکتا۔
ضروری تنبیہ!یہاں اس بات کو یاد رکھیں کہ اعلی حضرت امام اہل سنت و دیگر اکابرین اہل سنت و جماعت کا جو یہ موقف ہے کہ:سادات عظام سے کفر واقع نہیں ہو سکتا"یہ قطعی عقیدہ نہیں ہے بلکہ ظنی عقیدہ ہے تو واضح ہے کہ اس موقف کا اگر کوئی سنی منکر ہے تو وہ نہ تو کافر ہے نہ خارج اہل سنیت ہے،چناں چہ اس موقف کے ظنی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت لکھتے ہیں:
"اوربالفرض نفی خلود بلکہ بفرض غلط نفی دخول ہی قطعی مان لی جائے تو کس کے لئے،ان کے لیے جو عند الله سادات کرام ہیں،نہ ہر اس شخص کے لئے جو سید کہلاتا ہو اگرچہ واقع میں نہ ہو"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ٣٠،ص ٧٧،مسئلہ۱ تا ٤،ناشر رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مذکورہ موقف کے رد میں کچھ لوگ موجودہ زمانہ کے قادیانی و رافضی جو خود کو سید کہتے ہیں ان کی تثمیل بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سادات عظام سے کفر واقع ہے بلکہ بہت سادات کافر ہوچکے ہیں تو جواب بھی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ سے لیتے جائیں!
 اعلیٰ حضرت امام اہل سنت ایک عنوان قائم کرتے ہیں:
"بدعقیدہ سید"
پھر اس کے تحت لکھتے ہیں:
اگر(کوئی)کہے بعض کٹر نیچری بیشمار اشد غالی رافضی بہت سچّے ملحد جھوٹے صوفی کچھ ہفت خاتم شش مثل والے وہابی غرض بکثرت کفار کہ صراحۃً منکرین ضروریات دین ہیں سید کہلاتے میر فلاں لکھے جاتے ہیں۔
اقول:(میں احمد رضا خان بریلوی قادری کہتا ہوں)کہلانے سے واقعیت تک ہزاروں منزل ہیں نسب میں اگرچہ شہرت پر قناعت والناس امناء علٰی انسابھم (لوگ اپنے نسبوں میں امین ہیں۔ت) مگر جب خلاف پر دلیل قائم ہو تو شہرت بے دلیل نامقبول وعلیل اور خود اس کے کفر سے بڑھ کر نفی سیادت پر اور کیا دلیل درکار،کافر نجس ہے،قال تعالٰی:انما المشرکون نجس،(اللہ تعالٰی نے فرمایا:بے شک مشرک نر ے ناپاک ہیں)(القرآن الکریم ۹/ ۲۸)اور ساداتِ کرام طیب و طاہر،قال اللہ تعالٰی:ویطھر کم تطھیرا،(القرآن الکریم ۳۳/ ۳۳)(اللہ تعالٰی نے فرمایا: اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کردے)اور نجس و طاہر باہم متبائن ہیں کہ ایک شیئ پر معاً ان کا صدق محال، جب علمائے کرام تصریح فرما چکے کہ سید صحیح النسب سے کفر واقع نہ ہوگا اور یہ شخص صراحۃً کافر تو اس کا سید صحیح النسب نہ ہونا ضرورۃً ظاہر، اب اگر اس نسب کریم سے انتساب پر کوئی سند معتمد نہ رکھتا ہو تو امر آسان ہے ہزاروں اپنی اغراضِ فاسدہ سے براہِ دعوٰی سید بن بیٹھے"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٧،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
پھر ایک جگہ عنوان قائم کرتے ہیں:
"رافضی سید"
پھر اس کے تحت لکھتے ہیں:
"رافضی صاحبوں کے یہاں تو(سید بننا)یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، آج ایک رذیل سا رذیل دوسرے شہر میں جاکر رفض اختیار کرے کل میر صاحب کا تمغا پائے تو فلاں کافر سے کیا دور ہے کہ خود(سید)بن بیٹھا ہو یا اس کے باپ دادا میں کسی نے ادعائے سیادت کیا اور جب سے یونہی مشہور چلا آتا ہو،اور اگر بالفرض کوئی سند بھی ہو تو اس پر کیا دلیل ہے کہ یہ اسی خاندان کا ہے جس کی نسبت یہ شہادت تامہ ہے........
پھر ایک جگہ لکھتے ہیں:
"حاشا اللہ ہزار ہزار حاشاللہ نہ بطن پاک حضرت بتول زہرا میں معاذ اللہ کفر و کافری کی گنجائش، نہ جسم اطہر سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا کوئی پارہ کتنے ہی بُعدپر عیاذاً باللہ دخولِ نار کے لائق، الحمداللہ یہ دو دلیل جلیل واجب التعویل ہیں کہ کوئی عقیدہ کفریہ رکھنے والا رافضی وہابی متصوف نیچری ہر گز سید صحیح النسب نہیں"
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٧ تا ٧٣٨،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
مذکورہ بالا عبارات سے بھی معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری قدس سرہ العزيز کے نزدیک صحیح النسب سادات کرام مقام و مرتبہ یہ ہے ان سے کفر واقع نہیں ہو سکتا۔
مزید اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ صحیح النسب سادات کرام سے کفر واقع نہ ہوگا پر قیاسی دلیل دیتے ہیں ہوئے لکھتے ہیں:
" قیاس پر مشتمل دلیلیں"
دلیل اوّل:
(۱) یہ شخص(جو ضروریات دینی کا منکر ہے)کافر ہے اور ہر کافر نجس۔
نتیجہ:یہ شخص نجس ہے۔
(۲) ہر سید صحیح النسب طاہر ہے اور کوئی طاہر نجس نہیں،
نتیجہ: کوئی سید صحیح النسب نجس نہیں۔
(۳) اب یہ دونوں نتیجے ضم کیجئے یہی شخص نجس ہے اور کوئی سید صحیح النسب نجس نہیں۔ 
نتیجہ:یہ شخص سید صحیح النسب نہیں۔
قیاس اول کا صغرٰی مفروض اور کبرٰی منصوص اور دوم کا صغرٰی منصوص اور کبرٰی بدیہی تو نتیجہ قطعی۔
دلیل دوم:
قیاس مرکب، یہ بھی تین قیاسوں کو متضمن، یہ شخص(ضروریات دینی کا منکر ہے)کافر ہے اور ہر کافر مستحقِ نار۔
نتیجہ: یہ شخص مستحقِ نار ہے اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جسم اقدس کا کوئی پارہ مستحقِ نار نہیں۔
نتیجہ:یہ شخص نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جسمِ اقدس کا پارہ نہیں اور ہر سیدصحیح النسب نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جسم اقدس کا پارہ ہے۔
نتیجہ: یہ شخص سید صحیح النسب نہیں۔
پہلا کبرٰی منصوص قرآن، اور دوسرے کا شاہد ہر مومن کا ایمان، اور تیسرا عقلاً و فقہاً واضح البیان۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ١٥،ص ٧٣٨،ناشر بار دوم مرکز اہل سنت برکات رضا پور بندر گجرات)
......جاری........
ضروری اپیل!اہل علم سے گزارش ہے کہ راقم سے کوئی عبارت سمجھنے میں یا نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی خطا ہوئی تو ضرور مطلع فرمائیں تاکہ اصلاح کرلی جائے۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
طالب دعا:- شبیر احمد راج محلی۔
جنرل سیکریٹری:-
تنظیم علمائے اہل سنت راج محل(رجسٹرڈ)
و خادم التدريس دارالعلوم گلشن کلیمی راج محل۔
٢١/اگست ٢٠٢٤ء بروز بدھ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area