Type Here to Get Search Results !

کئی اشخاص کے لئے ایک ہی عمرہ کرنا کیسا ہے؟

کئی اشخاص کے لئے ایک ہی عمرہ کرنا کیسا ہے؟
حضور مفتئ اعظم بہار شیخ طریقت حضرت مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناءالقادری مرپاوی صاحب کی عمرہ کے متعلق تحقیق انیق۔
ناشر:-
محمد محب اللہ خان ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ 
من جانب:-
محمد جنید عالم شارق مصباحی خلیفہ سلسلہ ثنائیہ مرپا شریف
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کئی اشخاص کے لئے ایک ہی عمرہ کرنا کیسا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کئی اشخاص کے نام کا ایک ہی عمرہ کرنا کیسا ہے؟ کیا ہر کسی کو الگ الگ ثواب ملے گا ۔؟ جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی 
سائل :- محمد مفید عالم قادری اتردیناج پور
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
 زندہ و مردہ کسی بھی مومن و مومنہ کی طرف سے طواف وعمرہ کرسکتے ہیں اسی لئے ایک عمرہ میں ثواب پہنچانے کی نیت سے کئی اشخاص کا نام شامل کرسکتے ہیں ہر ایک کے لئے الگ الگ عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اپنے عزیز و اقارب کی طرف سے بھی عمرہ کیا جاسکتا ہے یعنی عمرہ دوسروں کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے
ایک ہوتا ہےکوئی کسی کے نام سے عمرہ کرے تاکہ اس کے ذمہ سے عمرہ کی ادائے گی ساقط ہوجائے یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ عمرہ سنت مؤکدہ ہے جیسا کہ حبیب الفتاوی میں درمختار کے حوالہ سے ہے کہ 
"(والعمرۃ) فی العمر ( مرۃ سنۃ موکدۃ) علی المذہب (وھی احرام و طواف وسعی) وحلق او تقصیر فالا حرام شرط ومعظم الطواف رکن وغیرھما واجب ھو المختار ویفعل فیھا کفعل الحاج" (ملخصا) یعنی زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ سنت مؤکدہ ہے ۔یہ احرام اور صفا و مروہ کی سعی بال منڈوانا یا کم کرانا ،احرام شرط ہے اور طواف کا اکثر حصہ رکن ہے اور باقی چیزیں واجب ہیں ۔یہی مختار ہے جیسے حاجی حج کے اندر کرتا ہے عمرہ والا بھی ویسا ہی کرے گا۔
(حبیب الفتاوی جلد 2 ص 92)
  عمرہ کے کچھ ارکان ہیں جو ادا کرنا ہوتا ہے مثلا مختصر کہ عمرہ کے لیے اگر مکہ میں ہے مسجد عائشہ میں جاکر دو رکعت نماز پڑھیں پھر جس کی طرف سے عمرہ کرنا اس کی نیت کریں" اے اللہ نیت کی میں نے عمرہ کرنے کی فلاں کی طرف سے اس کا کرنا میرے لئے آسان فرمادے اور اس کو فلاں کی طرف سے قبول فرما" اس کے بعد تلبیہ پڑھیں پھر مسجد عائشہ سے نکل کر کعبہ شریف میں آکر طواف کریں پھر دو رکعت نماز نفل بھی طواف کی نیت سے پھر آب زمزم پیئے اور صفاو مروہ پہاڑ پر جاکر سعی کریں اس کے بعد حلق یعنی بال منڈوائے یا قصر کرے یہ ایک عمرہ ہوا ۔ یہ اس کے لئے جو مکہ میں رہتا ہے۔ باہر والوں کے لئے؛ اگر دہلی یا ممبئی سے فلائٹ ہے تو اسی وقت ائیر پورٹ پر احرام باندھے پھر دو رکعت نماز نفل حالت احرام میں پڑھے ،نماز میں سر پر کپڑا رہے گا یعنی وہ چادر بعد ختم سر سے ہٹا لے گا عمرہ کی نیت کرکے تلبیہ کے بعد وہی طواف سعی اور حلق یا قصر کرنا ہوتا ہے  
  ہاں ایک عمرہ میں تمام مومنین و مومنات کو ثواب پہنچانے کی نیت کی جائے تو یہ جائز ہے کئی اشخاص ہی کیا ؛ تمام مسلمانوں کو ثواب بھیجنا جائز ہے اور سب کو الگ الگ ثواب ملے گا اور ثواب بھیجنے والے کو تمام مسلمانوں کے برابر بلکہ اس سے زائد ثواب ملے گا ۔
نفلی عمرہ کے ثواب میں ایک سے زیادہ افراد کو شامل کرنا درست ہے
حضرت علامہ مولانا مفتی اختر حسین قادری صاحب قبلہ تحریر فرماتے ہیں کہ طواف وعمرہ نفلی عبادات ہیں جن میں شریعت مطہرہ کی جانب سے وسعت و گنجائش ہے نفلی امور میں افضل یہ ہے کہ تمام مومنین و مومنات کو ثواب پہنچانے کی نیت کی جائے لہذا طواف وعمرہ کا ثواب پہنچانے کے لئے ہر ایک کی الگ الگ نیت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمام پیغمبران کرام اور جمیع مسلمین کو ثواب پہنچانے کی بیک وقت میں نیت کرسکتا ہے ( فتاوی علیمیہ جلد اول ص 458) اس تفصیل سے واضح ہوا کہ ایک عمرہ میں ثواب پہنچانے کی نیت سے کئی اشخاص کی نیت کرسکتے ہیں ہر ایک کے لئے الگ الگ نیت کی ضرورت نہیں ہے 
"ردالمختار علی الدرالمختار جلد چہارم ص 10 باب الحج عن الغیر "میں ہے کہ 
"الأصل أن كل من أتى بعبادة ما له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه لظاهر الأدلة"یعنی قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کوئی بھی عبادت کرے اس کے لئے جائز ہے کہ اس کا ثواب کسی اور کے لئے کردے اگرچہ اس نے فعل کرتے وقت اپنے لئے اس کی نیت کی ہو کیونکہ اس کے بارے میں ادلہ ظاہر ہے ۔ 
"(قوله بعبادة ما) أي سواء كانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام والاولیاء والصالحین وتکفین الموتی وجمیع انواع البر کما فی الھندیۃ " یعنی خواہ وہ نمازیں ہو ،روزہ ہو ،صدقہ ہو ،قرات ہو ،ذکر ہو ،حج ہو ،عمرہ ہو یا اس کے علاوہ یعنی انبیاء علیھم السلام ،شہداء ،اولیاء اور صالحین کی قبور کی زیارت ہو ۔مردوں کا کفن دینا ہو اور تمام قسم کی نیکیاں ہوں جس طرح ہندیہ میں ہے ۔
"وقدمنا فی الزکاۃ عن التاتارخانیہ عن المحیط ": "الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المومنین والمومنات لانھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شیئ" اھ یعنی کتاب الزکاۃ میں تاتارخانیہ سے انہوں نے" المحیط" سے نقل کیا ہے : جو نفلی صدقہ کرتا ہے اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ تمام مومنین و مومنات کی نیت کرے کیونکہ وہ انہیں پہنچتا ہے اور اس کے اجر میں کوئی شئ کم نہیں ہوتی۔
"(قوله لغيره) أي من الأحياء والأموات بحر عن البدائع قلت: وشمل إطلاق الغير النبي ﷺ ولم أر من صرح بذلك من أئمتنا وفيه نزاع طويل لغيرهم"یعنی وہ زندہ ہوں یا مردہ ہوں بحر میں البدائع سے مروی ہے ۔و فیہ ایضا: (608/2، ط: دار الفکر)
"فإذا أحرم بحجة عن اثنين أمره كل منهما بأن يحج عنه وقع عنه ولا يقدر على جعله لأحدهما وإن أحرم عنهما بغير أمرهما صح جعله لأحدهما أو لكل منهما"
کوئی بھی نفلی عبادت مرحومین کی طرف سے کرنا یا کرکے اس کا ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے۔ مرحومین کے ایصال ثواب کی غرض سے عمرہ کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی عمرہ اپنی نیت سے ادا کرنے کے بعد اس کا ثواب مرحومین کو بخش دے، اسی طرح سے نفلی قربانی اور تلاوتِ قرآنِ مجید بھی کرکے ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ میری طرف سے قربانی کرنا، چناں چہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضور ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے، اور امتِ محمدیہ میں وفات یافتگان، زندہ اور قیامت تک آنے والے تمام مسلمان داخل ہیں۔
حدیث پاک میں ہے:عن ابی رزین ا لعقيلي انه اتى النبي ﷺ فقال: يا رسول الله (ﷺ) ان ابی شیخ كبير لا يستطيع الحج ولا العمرة ولا الظعن، قال: حج عن ابيك و اعتمر ۔
حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ،عرض کیا: یارسول اللہ (ﷺ ) میرے والد بہت بوڑھے ہیں جو نہ حج و عمرہ کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ سوار ہونے کی ۔ ارشاد فرمایا: اپنے باپ کی طرف سے حج اور عمرہ کرو۔"
(جامع الترمذي، ص 309، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ، لاہور)
مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فتاوی امجد یہ میں فرماتے ہیں :"ایصال ثواب مستحب ہے اور جو کچھ نیک کام کیا ہو اور اس کا ثواب کسی کو پہنچاناچاہتا ہو تو یہ دعا کرے کہ الہی اسے قبول فرما اور اس کا ثواب فلاں فلاں کو پہنچا بلکہ بہتر یہ ہے کہ جمیع مومنین و مومنات کوپہنچائے۔امید کہ سب کو پورا پورا ثواب ملے اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو بلکہ سب کے مجموعے کے برابر ہے ۔
 ردالمحتار میں ہے "صرح علماءنافي باب الحج عن الغيربان للانسان ان يجعل ثواب عمله لغيره صلوة او صوما أو صدقة أو غيرها كذافي الهدايه بل في زكاة التاتارخانيه عن المحيط الافضل لمن يتصدق نقلا ان ينوى لجميع المومنين والمؤمنات لانها تصل اليهم ولا ينقص من أجره شي وهو مذهب أهل السنة والجماعة "
ہمارے علماء نے باب الحج عن الغیر میں اس کی تصریح کی ہے کہ انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے یہ عمل نماز ہو روزہ ہو صدقہ ہو یا کچھ اور ہو ہدایہ میں بھی یہ ہی ہے۔ بلکہ تاتارخانیہ کی کتاب الزکوۃ میں محیط سے یہ نقل کیا کہ" ایصال ثواب کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ تمام مومنین و مومنات کی نیت کرے اس لیے کہ ثواب سب کو پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی یہ ہی اہلسنت وجماعت کا مذہب ہے"۔
اسی میں ہے " وفی البحر من صام وصلی او تصدق وجعل ثوابه لغيره من الاموات والاحياء جاز ويصل ثوابها اليهم عند أهل السنة والجماعة كذافي البدائع ثم قال وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا و حياو الظاهر انه لا فرق بين الفرض والنفل " بحر الرائق میں ہے کسی نے نماز پڑھی اور روزہ ر کھا خیرات کیا اور اس کا ثواب کسی مردے یا زندہ کو بخش دیا یہ جائز ہے اور ان کو ثواب ملے گا اہلسنت وجماعت کے نزدیک بدائع میں بھی ایسے ہی ہے۔ پھر صاحب بحرنے فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ جسے ثواب بخشا گیا وہ زندہ ہو یامردہ ہو کوئی فرق نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جس عمل کا ثواب بخشا گیاوہ نفل ہو یا فرض۔
(فتاوی امجد یہ ، ج 1 ، حصہ،01،ص337/336، مکتبہ رضویہ ،کراچی)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- محمد ثناءاللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
مفتی اعظم بہار دارالافتاء مرپا شریف
نائب مفتی:- شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خان نوری صاحب  
صدر المدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناءالمصطفی مرپا شریف

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area