میرے صدر الشریعہ کا دادوں کل اور آج
ایک سفر نامے کے ضمن میں
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
پندرہ اگست کو آزادی کا جشن منا کر بذریعہ بائک دادوں ضلع علی گڑھ کے لیے نکل گیا ۔
پندرہ اگست کو آزادی کا جشن منا کر بذریعہ بائک دادوں ضلع علی گڑھ کے لیے نکل گیا ۔
مارہرہ شریف سے دادوں کا فاصلہ 35 / کلو میٹر ہے، جس کو طے کرنے کی تمنا اور خواہش پچھلے پانچ سالوں سے تھی مگر آج طے ہونا مقدر تھا ۔ ساوَن کے مہینے میں بادلوں سے گھرے سُرمئ موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے صبح دس بجے مارہرہ شریف سے دادوں کے لیے عازم سفر ہوئے ۔
دو دن پہلے مولانا طارق ثقافی صاحب سے فیس بک کے ذریعہ ایک کتاب کے متعلق گفتگو ہوئی اور وہی کتاب سناشائی کا ذریعہ بنی ، ان سے ہم نے دادوں جانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے حافظ منے صاحب (دادوں والے) کا نمبر دیا ۔
چنانچہ مارہرہ شریف سے نکلتے ہی حافظ صاحب کو کال کرکے اطلاع دے دی چونکہ حافظ صاحب ہی اس وقت مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں اور اسی میں مکتب کے ذریعے ماضی کے اس عظیم الشان ادارے کی لاج بچائے ہوئے ہیں، تعلیمی سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں (خدا کرے ادارے کی عظمت رفتہ واپا آجائے ۔) ، ادھر مولانا طارق صاحب کی معرفت سے ایک اور مخلص میزبان ریاست بھائی( دادوں) کا بھی فون آگیا، دونوں حضرات ہمارے منتظر تھے، گوگل میپ کی رہبری میں قریب ساڑھے گیارہ بجے دادوں پہنچ گئے اور ریاست بھائی کی دعوت پر سب سے پہلے ان کے گھر پہنچے، چائے نوشی وغیرہ کے بعد انہی کی معیت میں مدرسہ حافظیہ سعیدیہ پہنچے، صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے، صدر دروازے کی موجودہ حالت اپنی قدامت کا پتہ دیتی ہے، مگر پھر بھی اپنی جگہ مستحکم کھڑا ہے، گیٹ کے اندر بائیں طرف مسجد ہے، مسجد کے باہر درخت کے سائے میں حافظ منے صاحب اکڑوں بیٹھے، ہمارا انتظار کر رہے تھے، سفید داڑھی اور ڈیل ڈول سے بزرگی کے آثار ہویدا تھے، ہم نے بڑھ کر سلام عرض کیا، انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ سلام کا جواب دیا، مصافحہ اور معانقہ بھی کیا ۔ اور مسجد میں لے گئے، مسجد کے بیرونی دروازے سے داخل ہوتے ہی مسجد کا چھوٹا صحن ہے، صحن کے مغرب جانب تین زینے چڑھ کر اندرونی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے، حافظ صاحب کا بیان ہے کہ حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کے زمانۂ قیام میں اس دروازے کے باہر سیڑھیوں کے پاس ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا، جس پر بیٹھ کر ہر نماز کے بعد مدرسے کے خادم ملا جی طلبہ کی حاضری لیتے تھے ۔
موجودہ دور میں بھی ارباب مدارس کو حضور صدر الشریعہ کے اس طرز صدارت کو اختیار کیا کرنا چاہیے، خوش کن نتائج سامنے آئیں گے ۔
اندرون مسجد پہنچے تو حافظ صاحب نے مصلی امامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ مصلیٰ ہے، جہاں حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ پنج وقتہ نمازوں کی امامت فرماتے تھے، اور وظائف میں مشغول ہوتے تھے ۔
سر اٹھا کر اس مسجد کے در و دیوار کو دیکھنے لگا کہ یکا یک پردہ ذہن پہ شہزادی صدر الشریعہ کی وفات کا واقعہ ابھر آیا، جن کو حضرت صدر الشریعہ” بَنّو“ کے نام سے یاد فرماتے تھے، بڑی پارسا، تہجد گزار عالمہ تھیں، آپ طویل عرصے سے بیمار تھیں، ایک دن اسی مسجد میں بعدِ ادائیگیِ نمازِ فجر تمام نمازیوں کو حضرت نے روک لیا، قرآنی خوانی کی اور پھر حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
> بنوں کی علالت طویل ہو گئی ہے علاج کارگر نہیں ہوا اور فائدہ کی کوئی صورت نہیں نکل رہی ہے، آج شب میں نے خواب میں دیکھا کہ سرور کونین رحمت عالم روحی فداہ گھر میں تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ `” ہم بنوں کو لینے آئے ہیں“`۔
> سید الانام حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھنا بھی حقیقت میں بلا شبہ آپ ہی کو دیکھنا ہے، اس لیے یہ یقین ہے کہ بنو کی دنیاوی زندگی اب پوری ہو چکی ہے اور اس جہان فانی سے وہ اب رخصت ہونے والی ہے۔ مگر وہ بڑی خوش نصیب ہے کہ اسے آقا و مولا رحمت عالم محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لینے کے لیے تشریف لائے اور میں نے خوشی سے آپ کے سپرد کیا اور اجازت دی۔
سید ظہیر احمد زیدی کہتے ہیں کہ دعا کے بعد مجلس قران خوانی ختم ہو گئی ۔ غالباً اسی دن یا دوسرے دن بنو کا انتقال ہوگیا۔
مسجد میں بیٹھے ہوئے اس یاد کو ہم نے تازہ کیا، وہاں موجود دو چار حضرات کو یہ واقعہ سنا کر اپنے محسن کے صبر وشکیب کو محسوس کرنے کی کوشش کی ۔ حافظ صاحب نے بھی اپنے بڑوں سے سنی داستانیں ہمیں سنائیں ۔( جو صدر الشریعہ نمبر میں استاذ گرامی مفتی فیضان المصطفٰی قادری صاحب قبلہ نے بیان کردی ہیں)
🔸— مسجد سے نکلے تو حافظ صاحب نے بتایا کہ یہ مغرب کی سمت بوسیدہ اور کھنڈر میں تبدیل شدہ عمارت، مدرسے کی ہے، دو منزلہ عمارت تھی اوپری حصے میں درسگاہیں آباد تھیں مگر امتداد زمانہ کے ساتھ سب زمیں بوس ہوگئی۔
اب ہماری نظریں صرف محرابی دیواروں کو ہی دیکھ سکتی ہیں کہ بس وہی دیواریں ہی بغیر چھت کے اب تک کھڑی ہیں، جن کو دیکھ کر ہم ماضی میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگے۔
ہم نے پوچھا کہ اس میں ہمارے صدر الشریعہ کی درسگاہ کدھر ہوتی تھی؟ ۔تو حافظ صاحب ہمیں ذرا آگے لے گئے اور شمال مغرب کی طرف ٹیلہ نما ایک اونچی جگہ کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں حضرت مسند نشیں ہوتے تھے ۔
حسرت سے ان کھنڈرات کو دیکھنے لگا، ذہن پہ” لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو “ کی ضرب لگائی تو عالم خیال میں طلبہ کا ایک جھرمٹ نظر آیا ، جس میں بریلی کے قاری محبوب رضا خان اور اعجاز ولی خان ہیں تو گھوسی کے عبد المصطفٰی اعظمی اور عطاء المصطفٰی اعظمی بھی ہیں، وہیں ادری کے مجیب الاسلام نسیم اعظمی بھی ہیں۔ امروہہ کے مبین الدین فاروقی ہیں تو سید ظہیر احمد زیدی نگینوی بھی ہیں۔ مارہرہ کے خلیل احمد کے ساتھ علی گڑھ کے لطف اللہ بھی ہیں۔ اور دادوں کے مولانا غلام ربانی [برادر علامہ غلام جیلانی میرٹھی] بھی ہیں ۔ مہاراشٹر کے دو شافعی طالب علم محسن فقیہ اور حامد فقیہ کے ساتھ ماریشش کے محبوب خدا بخش [جن کو مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم میرٹھی علیہ الرحمہ نے بھیجا تھا] بھی طلب علم میں منہمک نظر آتے ہیں ۔
کیا عجب سماں ہے، صدر الشریعہ اس بزم میں شمع محفل ہیں اور یہ دور و دراز سے آنے والے طلبہ مثل پروانہ ہیں۔
> ایک دن انہی میں سے بعض طلبہ نے عرضی ڈالی کہ حضور! شرح ہدایۃ الحکمت معریٰ ہے، اس کا حاشیہ قلمبند کرا دیں، حضرت نے منع فرمادیا،اگلے روز پھر عرض کیا تو معقول سبب بیان کرکے پھر منع فرما دیا ۔ مگر ان طلبہ کو حضرت کی اس ضد کا خوب علم تھا کہ کس طرح ہمارے حضرت نے سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہما کی بارگاہ میں مخلصانہ اور پیہم عرضیاں پیش کی تھیں جس کے نتیجے میں ہمیں کنز الایمان جیسی دولت نصیب ہوئی ۔ اسی طریقے پہ یہ طلبہ بھی چل پڑے، ڈانٹ سنتے رہے، ضد کرتے رہے بالآخر خلوص سے بھری ان کی ضد یہ فرماتے ہوئے قبول کرلی گئی کہ جب کچھ کرنا ہے تو حدیث شریف کی خدمت کرو، چنانچہ اسی روز سے بعد عشا طحاوی شریف ( شرح معانی الآثار) پہ حاشیہ نگاری کا کام شروع ہوگیا، ہر روز رات میں مسلسل تین گھنٹہ، کبھی اس سے بھی زائد کام ہوتا رہا اور چھ ماہ کی مدت میں ایک چوتھائی کام مکمل ہوگیا جو اب استاذ گرامی مفتی فیضان المصطفٰی قادری صاحب قبلہ کی محنتوں کے بعد شائع ہوکر مقبول عام و خاص ہے ۔
[ اس کی تفصیلی روداد کے لیے سہ ماہی امجدیہ کا صدر الشریعہ نمبر ملاحظہ کریں]
🔸— مدرسہ سے نکل کر باہر آئے تو سامنے یعنی جانب مشرق گیٹ سے متصل ایک پرانا مکان ہے، جو خلیل خاں کے مکان سے جانا جاتا ہے، یہ وہی خلیل خان تھے جن کی طرف منسوب ہوکر یہ مثل اردو زبان میں بہت مشہور ہے کہ `” وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے “` ۔
اس مثل کی بیک اسٹوری یہاں کے مقامی لوگ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ خلیل خاں اسی مکان میں داد عیش دیتے تھے، نوابی زندگی خوش حالی کے ساتھ گزر رہی تھی، کہ ایک روز دوپہر کے وقت ایک درویش دروازے پر آیا جس کو خلیل خان نے اپنے عصا سے مار کر بھگایا، درویش نے کچھ بد دعا دی، اور دن پلٹ گئے، چند ہی دنوں بعد ریاست دادوں کے نواب صاحب نے انہیں بے گھر کردیا اور پھر وہ دن آگئے کہ وہ بھیک مانگنے پہ مجبور ہوگئے۔
تو لوگ ان کو دیکھ کر کہتے کہ *” وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے “* ۔ یعنی وہ دن گئے جب خلیل خان خوشحال زندگی گزارتے تھے اور پھر یہ جملہ اردو زبان میں” خوش حالی کے بعد بدحالی کا شکار ہونے کا “ کنایہ بن گیا ۔
خلیل خان کے مکان میں ہی اس وقت مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی قدیم کتابیں رکھی ہوئی ہیں، ابن ماجہ شریف، مشکوٰۃ شریف، مختصر المعانی، شرح وقایہ و دیگر چند درس نظامیہ کے نصاب میں شامل کتابوں کی زیارت ہوئی ۔دس بکس ہیں جس میں کتابیں بھری ہوئی ہیں، اس کے علاوہ کم از کم پندرہ بوریوں میں کتابیں موجود ہیں، جن کی موجودہ حالت افسوس ناک ہے ۔ حافظ صاحب سے ہم نے اس کی حفاظت کے لیے عرض کیا تو انہوں نے بتایا کہ اندر ایک کمرہ لائبریری کے لیے تیار کر رہے ہیں، جلد ہی اس میں ریک بنوا کر ساری کتابیں محفوظ کردی جائیں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور جلد ہو ۔
کتابیں اس طرح رکھی ہوئی ہیں کہ ان کتابوں کو دیکھنے کی ہزار خواہش کے باوجود ہمت نہ ہوسکی کیوں کہ اس کے لیے وقت بھی درکار ہے اور کتابوں کے مزید ڈیمیج ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ چند کتابوں کے دیکھنے پہ ہی اکتفا کیا ۔ اگر تمام کتابیں سیٹ ہوجائیں تو ایک بار اور حاضری کا ارادہ ہے ان شاءاللہ ۔
🔸— خلیل خان کے مکان سے نکل کر شمال کی طرف بڑھے، چند قدم کے فاصلے پر شمال مغرب کی سمت ایک قدیم حویلی ہے، جس کا اکثر حصہ خراب ہوچکا ہے، غالباً یہ وہی حویلی ہے جس میں حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ رہتے تھے یا پھر ایک اور حویلی مغرب کی سمت تھی اس میں آپ کا قیام رہا ہو جو اب زمیں بوس ہوچکی، نشانات بھی مٹ چکے۔
اس حویلی سے شمال جانب نشیبی زمین ہے جہاں ایک بڑا تالاب ہے، تالاب کے چاروں طرف ہریالی نے اس منظر کو بڑا ہی خوبصورت اور دیدہ زیب بنا دیا ہے ۔ تالاب سے کچھ پہلے تک دیوار کے ذریعے باؤندڑی کی گئی ہے، بتایا گیا کہ - جنوب میں مسجد اور اس سے پیچھے کچہری کی جگہ سے تالاب سے پہلے تک کی دیوار تک - یہ پوری زمین مدرسہ پہ وقف ہے، تالاب بھی نواب صاحب کا ہی ہے ۔
دیر تک ان جگہوں کو دیکھتے رہے کہ کبھی یہ جگہ مرکز علم و فن تھی، اور آج کھنڈر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
کسی شاعر کا یہ شعر یاد آیا :
> أيا منزلي سلمى سلام عليكما
> هل الأزمن اللاتي مضين رواجع
[ اے میرے صدر الشریعہ کی یاد دلانے والے بوسیدہ مکانات! تم کو سلام! کیا وہ نو دہائیاں قبل گزرے ہوئے وقت پلٹ کر آسکتے ہیں؟]
یہ ویران عمارتیں جو اب کھنڈر ہوچکی ہیں، آج بھی اپنی عظمت رفتہ کی تلاش میں ہیں۔
ادارہ جس وقت اپنی ترقی کے نصف النہار پہ تھا بعض کرم فرماؤں کی سیاست کا گہن لگ گیا، مدرسے کا مالی انتظام نواب صاحبان کرتے تھے جنہوں نے بعد میں علی گڑھ جاکر بود و باش اختیار کرلی۔ یہی اہم وجہ ہوئی ادارے کے تنزلی کی ۔ اور دوسری وجہ مقامی صاحبان حیثیت و رئیسان ملت کی عدم توجہی ہے ۔
اور پھر بانی ادارہ نے چودہ ہزار آمدنی کی جائداد مدرسے کے لیے وقف کی تھیں، اللہ جانے وہ تمام جائداد کہاں گئیں؟ ان کی آمدنی کہاں خرچ ہورہی؟
شیرانی خاندان کے علی گڑھ کوچ کرنے کے بعد کس کے ہاتھ میں مدرسہ کی زمامِ انتظام آئی؟ یہ بھی تحقیق کے ساتھ نہیں معلوم ۔
مقامی لوگوں کی ادارے کی ترقی کی فکر نہ کرنا بھی بہت اہم ہے۔ اور فکر نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں میں علم دین کے حصول کی طرف دلچسپی ہے نہ جذبہ ۔ نہ ہی اس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ۔
دادوں چالیس ہزار مسلمانوں کی آبادی والا قصبہ ہے، اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خالص سنیوں کی آبادی ہے، کوئی بد مذہب نہیں ہے مگر علوم دینیہ سے دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی حفظ یا درس نظامیہ کی ابتدائی تعلیم کا ادارہ بھی نہیں ہے۔
اور یہ کہانی صرف دادوں ہی کی نہیں بلکہ اگر یہ کہہ لیا جائے کہ بدایوں کے بعد کاس گنج سے علی گڑھ ہوتے ہوئے دہلی تک سنیوں کا کوئی معیاری ادارہ نہیں ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ میرا ذاتی تجربہ و مشاہدہ جو پانچ سال اس علاقے میں رہ کر ہوا وہ یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ سرسید اور اس کی تحریک سے بری طرح متاثر ہے، اس علاقے کے لوگوں کو مسلم یونیورسٹی پہ فخر ہے، یہ بھی فخر ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے بھی یونیورسٹی کے لیے چندہ دیا تھا ۔ اور اسی اثر کا نتیجہ ہے کہ دینی تعلیم سے یہ پورا علاقہ دور و نفور ہے، آزدی ہند کے بعد شاید ہی کوئی چوٹی کا عالم نظر آئے ۔
🔸— بہر حال!
یادگار صدر الشریعہ مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی ویران عمارتوں کو دیکھنے کے بعد، قبرستان کے لیے چل پڑے، قبرستان؛ سانکرا - علی گڑھ روڈ کے کنارے واقع ہے۔ قبرستان کے درمیان ایک عام راستہ اس کو دو جگہ تقسیم کرتا ہے، صدر الشریعہ کے عہد میں درمیانی راستے سے قبرستان کا مغربی حصہ عام مسلمانوں کے لیے تھا اور پوربی حصہ شیرانی خاندان کے مرحومین کو دفن کرنے کے لیے خاص تھا ۔ مگر اس خاندان نے صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کے بیٹے اور بیٹی کے لیے اسی حصے میں تدفین کا حکم دیا جو اس خاندان کی حضرت سے محبت کی دلیل ہے ۔
اسی قبرستان میں مشرق و جنوب کے کونے میں حضرت مولانا نور محمد صاحب مدرس مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کا بھی مزار شریف ہے۔ حضرت کے ایک صاحب زادے مولانا ظہور احمد صاحب اس عہد زرّیں کے عینی شاہد ہیں جو ابھی با حیات ہیں لیکن میری حرماں نصیبی کہ آج وہ دادوں میں موجود نہیں تھے ۔
قبرستان کا ایک چھوٹا گیٹ ہے جو بانی ادارہ حافظ ابو بکر خان شیرانی کے پختہ مزار کے پاس ہے، گیٹ کھول کر قدم رکھتے ہی دو قدم کے فاصلے پر بانی ادارہ کا مزار ہے، اس لیے داخل ہوتے ہی آپ کی قبر پہ سلام و فاتحہ پڑھی ۔
اس کے بعد حافظ منے صاحب نے بتایا کہ شیرانی صاحب کے مزار کے بعد مغرب کی جانب پانچ یا چھ قبریں ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سب صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کے خاندان کے لوگوں کی ہیں ۔
موسم باراں کی وجہ سے قبرستان میں بڑی بڑی گھاس تھی، جس کی وجہ سے قبروں کے نشانات نظر نہیں آرہے تھے، اسی میں ایک پختہ مزار، لال قبر سے جانی جاتی ہے جو حضرت صدر الشریعہ کی صاحبزادی علیہا الرحمہ کی ہے، حافظ صاحب نے اور فقیر نے اس کے آس پاس کی گھاس اکھاڑی تو آپ علیہا الرحمہ کی قبر خوب ظاہر ہوگئی ۔
آپ کے مزار کی بائیں طرف شہزادہ صدر الشریعہ علامہ عطاء المصطفٰی علیہ الرحمہ کا مزار ہے، آپ کا مزار بھی پختہ ہے مگر لمبی لمبی اور گھنی گھاسوں میں نظر نہیں آئی۔
وہیں ایک طرف کھڑے ہوکر باادب سلام عرض کیا اور فاتحہ خوانی کرکے قبرستان سے باہر آگئے ۔
راستے کے دوسری طرف ایک پختہ مزار دیکھ کر اس کے متعلق حافظ صاحب سے دریافت کیا تو بتایا کہ یہ صدر العلماء مولانا غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ کے بھائی مولانا غلام ربانی علیہ الرحمہ کا مزار ہے، اور ان کے پہلو میں ہی ان کے والد ماجد کا بھی مزار ہے۔ بلکہ علامہ غلام جیلانی میرٹھی صاحب کی پیدائش بھی اسی دادوں میں ہوئی ہے ۔ مولانا غلام ربانی صاحب مدرسہ حافظیہ سعدیہ سے ہی فارغ تھے اور تادم آخر وہیں تدریسی خدمات انجام دی۔
کچھ دیر قبرستان کے باہر ہی کھڑے رہے، میرے لیے پہلی کوئی ایسی اجنبی جگہ تھی جہاں اجنبیت کا بالکل احساس نہیں ہورہا تھا ۔ یقین مانیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اپنوں کے درمیان ہوں اور کیوں نہ ہو کہ اس جگہ واقعی اپنوں ہی کے پاس تھا، میرے نانا جان کی ایک سگی پھوپھی اور ایک سگے چچا آرام فرما رہے ہیں، ان کے قرب میں اپنائیت کی لذتوں سے محظوظ ہورہا تھا، میں نے کہا بھی کہ یہاں کھڑے ہوکر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں گھوسی میں ہوں ۔ بڑا اچھا لگ رہا تھا، کچھ دیر وہیں کھڑے ہوکر ان بزرگوں کا تذکرہ کرتے رہے۔
پھر حافظ صاحب اپنے گھر کو چلے اور ہم مارہرہ شریف کے لیے پابہ رکاب ہوئے مگر ریاست بھائی کے اصرار پر دوپہر کا کھانا کھانے ان کے گھر جانا پڑا۔ دو بجنے والے تھے، ظہر کی جماعت کا وقت ہورہا تھا، لہٰذا ریاست بھائی کے ساتھ اسپتال والی مسجد میں پہنچ کر نمازِ ظہر باجماعت ادا کی، بعدہ ریاست بھائی کے گھر مٹی کے چولھے پہ تیار کیا ہوا نہایت لذیذ کھانا تناول کیے اور پھر مارہرہ شریف کے لیے روانہ ہوگئے ۔
بہت ہی مبارک سفر رہا، دل کو بہت سکون ملا، ادارے کی زیارت ہوئی مگر اس کی خستہ حالی پہ افسوس بھی ہوا، اہل دادوں کی محبتیں ملیں، بالخصوص حافظ منے صاحب اور ریاست بھائی کا شکر گزار ہوں کہ تقریباً تین چار گھنٹے تک ہمارے ساتھ رہے، مولانا طارق ثقافی صاحب کے بھی شکر گزار ہیں کہ ان کی وساطت سے دادوں پہنچے ۔اللہ ہمارے ان محبین کو سلامت رکھے ۔آمین
مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے کہ صدر الشریعہ کا زمانہ قیام ہی اس ادارے کا عہد زریں ہے۔ حافظ ابو بکر خاں شیروانی نے 1918ء میں ادارہ قائم کیا۔ آپ کے زمانے میں ادارہ ٹھیک چلا، آپ کے بعد آپ کے بھائی حاجی غلام محمد خاں حاجی میاں متولی ہوئے، ادارے کی بگڑی حالت کو دیکھ کر حبیب الرحمن خان شیروانی کے مشورے کے مطابق حضرت صدر الشریعہ کو بلایا ۔ (وہی حبیب الرحمن شیروانی جو ابو کلام آزاد کے دوست ہیں ، آزاد نے غبار خاطر میں بیشتر خطوط انہی کے نام لکھا ہے) ۔
حضور صدر الشریعہ کے سات سالہ عہد صدارت میں ادارہ اکناف عالم میں مشہور ہوگیا، ملک و بیرون ملک سے طلبہ آتے تھے ۔
مگر جب مولانا عبد الشاہد شیرانی بحیثیت مدرس آئے تو مدرسے کا ماحول یکسر بدل گیا، چونکہ جس وقت حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ دار العلوم معینہ عثمانیہ، اجمیر شریف میں مدرس تھے اس وقت مولانا معین الدین ٹونکی صاحب بھی مدرس تھے اور مولانا عبد الشاہد خان وہاں زیر تعلیم تھے اور مولانا ٹونکی کے قریبی شاگرد تھے ۔ چنانچہ اس وقت یہ معاملہ اٹھا کہ صدر المدرسين کون ہے؟ اکثریت صدر الشریعہ کے ساتھ تھی اس لیے آپ صدر المدرسين کے عہدے پہ متمکن کیے گئے اور مولانا معین الدین ٹونکی معزول ہوکر چند طلبہ کے ہمراہ جس میں عبد الشاہد شیرانی بھی تھے تارا گڑھ کی ایک مسجد میں تدریس شروع کی ۔
مولانا شیرانی اور ان کے رفقا نے اس کا ذمہ دار حضور صدر الشریعہ کو سمجھا، جب کہ اس پورے معاملے میں حضرت کی ادنیٰ کوششوں کا بھی دخل نہیں تھا، مگر جبھی سے شیرانی صاحب کے دل میں کدورت آگئی، چونکہ عبد الشاہد شیرانی صاحب، حاجی میاں متولی ادارہ کے خاندان سے تھے اور ان کے قریبی بھی تھی، متولی صاحب ہی نے ان کو پڑھایا لکھایا بھی تھا۔
اس لیے یہاں (دادوں) آنے کے بعد وہ کدورت [ جو اجمیر شریف کے واقعہ سے پیدا ہونے سے پیدا ہوئی تھی] اب انتقامی جذبے میں بدل گئی اور یہاں بھی سیاست شروع کردی، حضور صدر الشریعہ کو بہت پریشان کیا گیا ، زمین تنگ کردی گئی۔
بالآخر آپ نے سات سال میں اس ادارے کو اوج ثریا پہ پہنچا کر اپنے وطن لوٹ گئے ۔
( اس کی پوری تفصیل سہ امجدیہ کے صدر الشریعہ نمبر میں سید ظہیر احمد زیدی صاحب نے اپنے مضمون” صدر الشریعہ اور دادوں “ میں تحریر کی ہے۔ ہم نے اس سے بھی استفادہ کیا ہے، مزید محدث کبیر مد ظلہ العالی اور مفتی فیضان المصطفٰی صاحب قبلہ کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا ہے۔)
دو دن پہلے مولانا طارق ثقافی صاحب سے فیس بک کے ذریعہ ایک کتاب کے متعلق گفتگو ہوئی اور وہی کتاب سناشائی کا ذریعہ بنی ، ان سے ہم نے دادوں جانے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے حافظ منے صاحب (دادوں والے) کا نمبر دیا ۔
چنانچہ مارہرہ شریف سے نکلتے ہی حافظ صاحب کو کال کرکے اطلاع دے دی چونکہ حافظ صاحب ہی اس وقت مدرسہ حافظیہ سعیدیہ دادوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں اور اسی میں مکتب کے ذریعے ماضی کے اس عظیم الشان ادارے کی لاج بچائے ہوئے ہیں، تعلیمی سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں (خدا کرے ادارے کی عظمت رفتہ واپا آجائے ۔) ، ادھر مولانا طارق صاحب کی معرفت سے ایک اور مخلص میزبان ریاست بھائی( دادوں) کا بھی فون آگیا، دونوں حضرات ہمارے منتظر تھے، گوگل میپ کی رہبری میں قریب ساڑھے گیارہ بجے دادوں پہنچ گئے اور ریاست بھائی کی دعوت پر سب سے پہلے ان کے گھر پہنچے، چائے نوشی وغیرہ کے بعد انہی کی معیت میں مدرسہ حافظیہ سعیدیہ پہنچے، صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے، صدر دروازے کی موجودہ حالت اپنی قدامت کا پتہ دیتی ہے، مگر پھر بھی اپنی جگہ مستحکم کھڑا ہے، گیٹ کے اندر بائیں طرف مسجد ہے، مسجد کے باہر درخت کے سائے میں حافظ منے صاحب اکڑوں بیٹھے، ہمارا انتظار کر رہے تھے، سفید داڑھی اور ڈیل ڈول سے بزرگی کے آثار ہویدا تھے، ہم نے بڑھ کر سلام عرض کیا، انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ سلام کا جواب دیا، مصافحہ اور معانقہ بھی کیا ۔ اور مسجد میں لے گئے، مسجد کے بیرونی دروازے سے داخل ہوتے ہی مسجد کا چھوٹا صحن ہے، صحن کے مغرب جانب تین زینے چڑھ کر اندرونی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے، حافظ صاحب کا بیان ہے کہ حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کے زمانۂ قیام میں اس دروازے کے باہر سیڑھیوں کے پاس ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا، جس پر بیٹھ کر ہر نماز کے بعد مدرسے کے خادم ملا جی طلبہ کی حاضری لیتے تھے ۔
موجودہ دور میں بھی ارباب مدارس کو حضور صدر الشریعہ کے اس طرز صدارت کو اختیار کیا کرنا چاہیے، خوش کن نتائج سامنے آئیں گے ۔
اندرون مسجد پہنچے تو حافظ صاحب نے مصلی امامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وہ مصلیٰ ہے، جہاں حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ پنج وقتہ نمازوں کی امامت فرماتے تھے، اور وظائف میں مشغول ہوتے تھے ۔
سر اٹھا کر اس مسجد کے در و دیوار کو دیکھنے لگا کہ یکا یک پردہ ذہن پہ شہزادی صدر الشریعہ کی وفات کا واقعہ ابھر آیا، جن کو حضرت صدر الشریعہ” بَنّو“ کے نام سے یاد فرماتے تھے، بڑی پارسا، تہجد گزار عالمہ تھیں، آپ طویل عرصے سے بیمار تھیں، ایک دن اسی مسجد میں بعدِ ادائیگیِ نمازِ فجر تمام نمازیوں کو حضرت نے روک لیا، قرآنی خوانی کی اور پھر حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
> بنوں کی علالت طویل ہو گئی ہے علاج کارگر نہیں ہوا اور فائدہ کی کوئی صورت نہیں نکل رہی ہے، آج شب میں نے خواب میں دیکھا کہ سرور کونین رحمت عالم روحی فداہ گھر میں تشریف لائے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ `” ہم بنوں کو لینے آئے ہیں“`۔
> سید الانام حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو خواب میں دیکھنا بھی حقیقت میں بلا شبہ آپ ہی کو دیکھنا ہے، اس لیے یہ یقین ہے کہ بنو کی دنیاوی زندگی اب پوری ہو چکی ہے اور اس جہان فانی سے وہ اب رخصت ہونے والی ہے۔ مگر وہ بڑی خوش نصیب ہے کہ اسے آقا و مولا رحمت عالم محبوب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لینے کے لیے تشریف لائے اور میں نے خوشی سے آپ کے سپرد کیا اور اجازت دی۔
سید ظہیر احمد زیدی کہتے ہیں کہ دعا کے بعد مجلس قران خوانی ختم ہو گئی ۔ غالباً اسی دن یا دوسرے دن بنو کا انتقال ہوگیا۔
مسجد میں بیٹھے ہوئے اس یاد کو ہم نے تازہ کیا، وہاں موجود دو چار حضرات کو یہ واقعہ سنا کر اپنے محسن کے صبر وشکیب کو محسوس کرنے کی کوشش کی ۔ حافظ صاحب نے بھی اپنے بڑوں سے سنی داستانیں ہمیں سنائیں ۔( جو صدر الشریعہ نمبر میں استاذ گرامی مفتی فیضان المصطفٰی قادری صاحب قبلہ نے بیان کردی ہیں)
🔸— مسجد سے نکلے تو حافظ صاحب نے بتایا کہ یہ مغرب کی سمت بوسیدہ اور کھنڈر میں تبدیل شدہ عمارت، مدرسے کی ہے، دو منزلہ عمارت تھی اوپری حصے میں درسگاہیں آباد تھیں مگر امتداد زمانہ کے ساتھ سب زمیں بوس ہوگئی۔
اب ہماری نظریں صرف محرابی دیواروں کو ہی دیکھ سکتی ہیں کہ بس وہی دیواریں ہی بغیر چھت کے اب تک کھڑی ہیں، جن کو دیکھ کر ہم ماضی میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگے۔
ہم نے پوچھا کہ اس میں ہمارے صدر الشریعہ کی درسگاہ کدھر ہوتی تھی؟ ۔تو حافظ صاحب ہمیں ذرا آگے لے گئے اور شمال مغرب کی طرف ٹیلہ نما ایک اونچی جگہ کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں حضرت مسند نشیں ہوتے تھے ۔
حسرت سے ان کھنڈرات کو دیکھنے لگا، ذہن پہ” لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو “ کی ضرب لگائی تو عالم خیال میں طلبہ کا ایک جھرمٹ نظر آیا ، جس میں بریلی کے قاری محبوب رضا خان اور اعجاز ولی خان ہیں تو گھوسی کے عبد المصطفٰی اعظمی اور عطاء المصطفٰی اعظمی بھی ہیں، وہیں ادری کے مجیب الاسلام نسیم اعظمی بھی ہیں۔ امروہہ کے مبین الدین فاروقی ہیں تو سید ظہیر احمد زیدی نگینوی بھی ہیں۔ مارہرہ کے خلیل احمد کے ساتھ علی گڑھ کے لطف اللہ بھی ہیں۔ اور دادوں کے مولانا غلام ربانی [برادر علامہ غلام جیلانی میرٹھی] بھی ہیں ۔ مہاراشٹر کے دو شافعی طالب علم محسن فقیہ اور حامد فقیہ کے ساتھ ماریشش کے محبوب خدا بخش [جن کو مبلغ اسلام علامہ عبد العلیم میرٹھی علیہ الرحمہ نے بھیجا تھا] بھی طلب علم میں منہمک نظر آتے ہیں ۔
کیا عجب سماں ہے، صدر الشریعہ اس بزم میں شمع محفل ہیں اور یہ دور و دراز سے آنے والے طلبہ مثل پروانہ ہیں۔
> ایک دن انہی میں سے بعض طلبہ نے عرضی ڈالی کہ حضور! شرح ہدایۃ الحکمت معریٰ ہے، اس کا حاشیہ قلمبند کرا دیں، حضرت نے منع فرمادیا،اگلے روز پھر عرض کیا تو معقول سبب بیان کرکے پھر منع فرما دیا ۔ مگر ان طلبہ کو حضرت کی اس ضد کا خوب علم تھا کہ کس طرح ہمارے حضرت نے سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہما کی بارگاہ میں مخلصانہ اور پیہم عرضیاں پیش کی تھیں جس کے نتیجے میں ہمیں کنز الایمان جیسی دولت نصیب ہوئی ۔ اسی طریقے پہ یہ طلبہ بھی چل پڑے، ڈانٹ سنتے رہے، ضد کرتے رہے بالآخر خلوص سے بھری ان کی ضد یہ فرماتے ہوئے قبول کرلی گئی کہ جب کچھ کرنا ہے تو حدیث شریف کی خدمت کرو، چنانچہ اسی روز سے بعد عشا طحاوی شریف ( شرح معانی الآثار) پہ حاشیہ نگاری کا کام شروع ہوگیا، ہر روز رات میں مسلسل تین گھنٹہ، کبھی اس سے بھی زائد کام ہوتا رہا اور چھ ماہ کی مدت میں ایک چوتھائی کام مکمل ہوگیا جو اب استاذ گرامی مفتی فیضان المصطفٰی قادری صاحب قبلہ کی محنتوں کے بعد شائع ہوکر مقبول عام و خاص ہے ۔
[ اس کی تفصیلی روداد کے لیے سہ ماہی امجدیہ کا صدر الشریعہ نمبر ملاحظہ کریں]
🔸— مدرسہ سے نکل کر باہر آئے تو سامنے یعنی جانب مشرق گیٹ سے متصل ایک پرانا مکان ہے، جو خلیل خاں کے مکان سے جانا جاتا ہے، یہ وہی خلیل خان تھے جن کی طرف منسوب ہوکر یہ مثل اردو زبان میں بہت مشہور ہے کہ `” وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے “` ۔
اس مثل کی بیک اسٹوری یہاں کے مقامی لوگ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ خلیل خاں اسی مکان میں داد عیش دیتے تھے، نوابی زندگی خوش حالی کے ساتھ گزر رہی تھی، کہ ایک روز دوپہر کے وقت ایک درویش دروازے پر آیا جس کو خلیل خان نے اپنے عصا سے مار کر بھگایا، درویش نے کچھ بد دعا دی، اور دن پلٹ گئے، چند ہی دنوں بعد ریاست دادوں کے نواب صاحب نے انہیں بے گھر کردیا اور پھر وہ دن آگئے کہ وہ بھیک مانگنے پہ مجبور ہوگئے۔
تو لوگ ان کو دیکھ کر کہتے کہ *” وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑاتے تھے “* ۔ یعنی وہ دن گئے جب خلیل خان خوشحال زندگی گزارتے تھے اور پھر یہ جملہ اردو زبان میں” خوش حالی کے بعد بدحالی کا شکار ہونے کا “ کنایہ بن گیا ۔
خلیل خان کے مکان میں ہی اس وقت مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی قدیم کتابیں رکھی ہوئی ہیں، ابن ماجہ شریف، مشکوٰۃ شریف، مختصر المعانی، شرح وقایہ و دیگر چند درس نظامیہ کے نصاب میں شامل کتابوں کی زیارت ہوئی ۔دس بکس ہیں جس میں کتابیں بھری ہوئی ہیں، اس کے علاوہ کم از کم پندرہ بوریوں میں کتابیں موجود ہیں، جن کی موجودہ حالت افسوس ناک ہے ۔ حافظ صاحب سے ہم نے اس کی حفاظت کے لیے عرض کیا تو انہوں نے بتایا کہ اندر ایک کمرہ لائبریری کے لیے تیار کر رہے ہیں، جلد ہی اس میں ریک بنوا کر ساری کتابیں محفوظ کردی جائیں گی۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور جلد ہو ۔
کتابیں اس طرح رکھی ہوئی ہیں کہ ان کتابوں کو دیکھنے کی ہزار خواہش کے باوجود ہمت نہ ہوسکی کیوں کہ اس کے لیے وقت بھی درکار ہے اور کتابوں کے مزید ڈیمیج ہونے کا خطرہ بھی ہے۔ چند کتابوں کے دیکھنے پہ ہی اکتفا کیا ۔ اگر تمام کتابیں سیٹ ہوجائیں تو ایک بار اور حاضری کا ارادہ ہے ان شاءاللہ ۔
🔸— خلیل خان کے مکان سے نکل کر شمال کی طرف بڑھے، چند قدم کے فاصلے پر شمال مغرب کی سمت ایک قدیم حویلی ہے، جس کا اکثر حصہ خراب ہوچکا ہے، غالباً یہ وہی حویلی ہے جس میں حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ رہتے تھے یا پھر ایک اور حویلی مغرب کی سمت تھی اس میں آپ کا قیام رہا ہو جو اب زمیں بوس ہوچکی، نشانات بھی مٹ چکے۔
اس حویلی سے شمال جانب نشیبی زمین ہے جہاں ایک بڑا تالاب ہے، تالاب کے چاروں طرف ہریالی نے اس منظر کو بڑا ہی خوبصورت اور دیدہ زیب بنا دیا ہے ۔ تالاب سے کچھ پہلے تک دیوار کے ذریعے باؤندڑی کی گئی ہے، بتایا گیا کہ - جنوب میں مسجد اور اس سے پیچھے کچہری کی جگہ سے تالاب سے پہلے تک کی دیوار تک - یہ پوری زمین مدرسہ پہ وقف ہے، تالاب بھی نواب صاحب کا ہی ہے ۔
دیر تک ان جگہوں کو دیکھتے رہے کہ کبھی یہ جگہ مرکز علم و فن تھی، اور آج کھنڈر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
کسی شاعر کا یہ شعر یاد آیا :
> أيا منزلي سلمى سلام عليكما
> هل الأزمن اللاتي مضين رواجع
[ اے میرے صدر الشریعہ کی یاد دلانے والے بوسیدہ مکانات! تم کو سلام! کیا وہ نو دہائیاں قبل گزرے ہوئے وقت پلٹ کر آسکتے ہیں؟]
یہ ویران عمارتیں جو اب کھنڈر ہوچکی ہیں، آج بھی اپنی عظمت رفتہ کی تلاش میں ہیں۔
ادارہ جس وقت اپنی ترقی کے نصف النہار پہ تھا بعض کرم فرماؤں کی سیاست کا گہن لگ گیا، مدرسے کا مالی انتظام نواب صاحبان کرتے تھے جنہوں نے بعد میں علی گڑھ جاکر بود و باش اختیار کرلی۔ یہی اہم وجہ ہوئی ادارے کے تنزلی کی ۔ اور دوسری وجہ مقامی صاحبان حیثیت و رئیسان ملت کی عدم توجہی ہے ۔
اور پھر بانی ادارہ نے چودہ ہزار آمدنی کی جائداد مدرسے کے لیے وقف کی تھیں، اللہ جانے وہ تمام جائداد کہاں گئیں؟ ان کی آمدنی کہاں خرچ ہورہی؟
شیرانی خاندان کے علی گڑھ کوچ کرنے کے بعد کس کے ہاتھ میں مدرسہ کی زمامِ انتظام آئی؟ یہ بھی تحقیق کے ساتھ نہیں معلوم ۔
مقامی لوگوں کی ادارے کی ترقی کی فکر نہ کرنا بھی بہت اہم ہے۔ اور فکر نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں میں علم دین کے حصول کی طرف دلچسپی ہے نہ جذبہ ۔ نہ ہی اس کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ۔
دادوں چالیس ہزار مسلمانوں کی آبادی والا قصبہ ہے، اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خالص سنیوں کی آبادی ہے، کوئی بد مذہب نہیں ہے مگر علوم دینیہ سے دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی حفظ یا درس نظامیہ کی ابتدائی تعلیم کا ادارہ بھی نہیں ہے۔
اور یہ کہانی صرف دادوں ہی کی نہیں بلکہ اگر یہ کہہ لیا جائے کہ بدایوں کے بعد کاس گنج سے علی گڑھ ہوتے ہوئے دہلی تک سنیوں کا کوئی معیاری ادارہ نہیں ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ میرا ذاتی تجربہ و مشاہدہ جو پانچ سال اس علاقے میں رہ کر ہوا وہ یہ ہے کہ یہ پورا علاقہ سرسید اور اس کی تحریک سے بری طرح متاثر ہے، اس علاقے کے لوگوں کو مسلم یونیورسٹی پہ فخر ہے، یہ بھی فخر ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے بھی یونیورسٹی کے لیے چندہ دیا تھا ۔ اور اسی اثر کا نتیجہ ہے کہ دینی تعلیم سے یہ پورا علاقہ دور و نفور ہے، آزدی ہند کے بعد شاید ہی کوئی چوٹی کا عالم نظر آئے ۔
🔸— بہر حال!
یادگار صدر الشریعہ مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی ویران عمارتوں کو دیکھنے کے بعد، قبرستان کے لیے چل پڑے، قبرستان؛ سانکرا - علی گڑھ روڈ کے کنارے واقع ہے۔ قبرستان کے درمیان ایک عام راستہ اس کو دو جگہ تقسیم کرتا ہے، صدر الشریعہ کے عہد میں درمیانی راستے سے قبرستان کا مغربی حصہ عام مسلمانوں کے لیے تھا اور پوربی حصہ شیرانی خاندان کے مرحومین کو دفن کرنے کے لیے خاص تھا ۔ مگر اس خاندان نے صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کے بیٹے اور بیٹی کے لیے اسی حصے میں تدفین کا حکم دیا جو اس خاندان کی حضرت سے محبت کی دلیل ہے ۔
اسی قبرستان میں مشرق و جنوب کے کونے میں حضرت مولانا نور محمد صاحب مدرس مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کا بھی مزار شریف ہے۔ حضرت کے ایک صاحب زادے مولانا ظہور احمد صاحب اس عہد زرّیں کے عینی شاہد ہیں جو ابھی با حیات ہیں لیکن میری حرماں نصیبی کہ آج وہ دادوں میں موجود نہیں تھے ۔
قبرستان کا ایک چھوٹا گیٹ ہے جو بانی ادارہ حافظ ابو بکر خان شیرانی کے پختہ مزار کے پاس ہے، گیٹ کھول کر قدم رکھتے ہی دو قدم کے فاصلے پر بانی ادارہ کا مزار ہے، اس لیے داخل ہوتے ہی آپ کی قبر پہ سلام و فاتحہ پڑھی ۔
اس کے بعد حافظ منے صاحب نے بتایا کہ شیرانی صاحب کے مزار کے بعد مغرب کی جانب پانچ یا چھ قبریں ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ سب صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کے خاندان کے لوگوں کی ہیں ۔
موسم باراں کی وجہ سے قبرستان میں بڑی بڑی گھاس تھی، جس کی وجہ سے قبروں کے نشانات نظر نہیں آرہے تھے، اسی میں ایک پختہ مزار، لال قبر سے جانی جاتی ہے جو حضرت صدر الشریعہ کی صاحبزادی علیہا الرحمہ کی ہے، حافظ صاحب نے اور فقیر نے اس کے آس پاس کی گھاس اکھاڑی تو آپ علیہا الرحمہ کی قبر خوب ظاہر ہوگئی ۔
آپ کے مزار کی بائیں طرف شہزادہ صدر الشریعہ علامہ عطاء المصطفٰی علیہ الرحمہ کا مزار ہے، آپ کا مزار بھی پختہ ہے مگر لمبی لمبی اور گھنی گھاسوں میں نظر نہیں آئی۔
وہیں ایک طرف کھڑے ہوکر باادب سلام عرض کیا اور فاتحہ خوانی کرکے قبرستان سے باہر آگئے ۔
راستے کے دوسری طرف ایک پختہ مزار دیکھ کر اس کے متعلق حافظ صاحب سے دریافت کیا تو بتایا کہ یہ صدر العلماء مولانا غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ کے بھائی مولانا غلام ربانی علیہ الرحمہ کا مزار ہے، اور ان کے پہلو میں ہی ان کے والد ماجد کا بھی مزار ہے۔ بلکہ علامہ غلام جیلانی میرٹھی صاحب کی پیدائش بھی اسی دادوں میں ہوئی ہے ۔ مولانا غلام ربانی صاحب مدرسہ حافظیہ سعدیہ سے ہی فارغ تھے اور تادم آخر وہیں تدریسی خدمات انجام دی۔
کچھ دیر قبرستان کے باہر ہی کھڑے رہے، میرے لیے پہلی کوئی ایسی اجنبی جگہ تھی جہاں اجنبیت کا بالکل احساس نہیں ہورہا تھا ۔ یقین مانیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اپنوں کے درمیان ہوں اور کیوں نہ ہو کہ اس جگہ واقعی اپنوں ہی کے پاس تھا، میرے نانا جان کی ایک سگی پھوپھی اور ایک سگے چچا آرام فرما رہے ہیں، ان کے قرب میں اپنائیت کی لذتوں سے محظوظ ہورہا تھا، میں نے کہا بھی کہ یہاں کھڑے ہوکر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں گھوسی میں ہوں ۔ بڑا اچھا لگ رہا تھا، کچھ دیر وہیں کھڑے ہوکر ان بزرگوں کا تذکرہ کرتے رہے۔
پھر حافظ صاحب اپنے گھر کو چلے اور ہم مارہرہ شریف کے لیے پابہ رکاب ہوئے مگر ریاست بھائی کے اصرار پر دوپہر کا کھانا کھانے ان کے گھر جانا پڑا۔ دو بجنے والے تھے، ظہر کی جماعت کا وقت ہورہا تھا، لہٰذا ریاست بھائی کے ساتھ اسپتال والی مسجد میں پہنچ کر نمازِ ظہر باجماعت ادا کی، بعدہ ریاست بھائی کے گھر مٹی کے چولھے پہ تیار کیا ہوا نہایت لذیذ کھانا تناول کیے اور پھر مارہرہ شریف کے لیے روانہ ہوگئے ۔
بہت ہی مبارک سفر رہا، دل کو بہت سکون ملا، ادارے کی زیارت ہوئی مگر اس کی خستہ حالی پہ افسوس بھی ہوا، اہل دادوں کی محبتیں ملیں، بالخصوص حافظ منے صاحب اور ریاست بھائی کا شکر گزار ہوں کہ تقریباً تین چار گھنٹے تک ہمارے ساتھ رہے، مولانا طارق ثقافی صاحب کے بھی شکر گزار ہیں کہ ان کی وساطت سے دادوں پہنچے ۔اللہ ہمارے ان محبین کو سلامت رکھے ۔آمین
مدرسہ حافظیہ سعیدیہ کی تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے کہ صدر الشریعہ کا زمانہ قیام ہی اس ادارے کا عہد زریں ہے۔ حافظ ابو بکر خاں شیروانی نے 1918ء میں ادارہ قائم کیا۔ آپ کے زمانے میں ادارہ ٹھیک چلا، آپ کے بعد آپ کے بھائی حاجی غلام محمد خاں حاجی میاں متولی ہوئے، ادارے کی بگڑی حالت کو دیکھ کر حبیب الرحمن خان شیروانی کے مشورے کے مطابق حضرت صدر الشریعہ کو بلایا ۔ (وہی حبیب الرحمن شیروانی جو ابو کلام آزاد کے دوست ہیں ، آزاد نے غبار خاطر میں بیشتر خطوط انہی کے نام لکھا ہے) ۔
حضور صدر الشریعہ کے سات سالہ عہد صدارت میں ادارہ اکناف عالم میں مشہور ہوگیا، ملک و بیرون ملک سے طلبہ آتے تھے ۔
مگر جب مولانا عبد الشاہد شیرانی بحیثیت مدرس آئے تو مدرسے کا ماحول یکسر بدل گیا، چونکہ جس وقت حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ دار العلوم معینہ عثمانیہ، اجمیر شریف میں مدرس تھے اس وقت مولانا معین الدین ٹونکی صاحب بھی مدرس تھے اور مولانا عبد الشاہد خان وہاں زیر تعلیم تھے اور مولانا ٹونکی کے قریبی شاگرد تھے ۔ چنانچہ اس وقت یہ معاملہ اٹھا کہ صدر المدرسين کون ہے؟ اکثریت صدر الشریعہ کے ساتھ تھی اس لیے آپ صدر المدرسين کے عہدے پہ متمکن کیے گئے اور مولانا معین الدین ٹونکی معزول ہوکر چند طلبہ کے ہمراہ جس میں عبد الشاہد شیرانی بھی تھے تارا گڑھ کی ایک مسجد میں تدریس شروع کی ۔
مولانا شیرانی اور ان کے رفقا نے اس کا ذمہ دار حضور صدر الشریعہ کو سمجھا، جب کہ اس پورے معاملے میں حضرت کی ادنیٰ کوششوں کا بھی دخل نہیں تھا، مگر جبھی سے شیرانی صاحب کے دل میں کدورت آگئی، چونکہ عبد الشاہد شیرانی صاحب، حاجی میاں متولی ادارہ کے خاندان سے تھے اور ان کے قریبی بھی تھی، متولی صاحب ہی نے ان کو پڑھایا لکھایا بھی تھا۔
اس لیے یہاں (دادوں) آنے کے بعد وہ کدورت [ جو اجمیر شریف کے واقعہ سے پیدا ہونے سے پیدا ہوئی تھی] اب انتقامی جذبے میں بدل گئی اور یہاں بھی سیاست شروع کردی، حضور صدر الشریعہ کو بہت پریشان کیا گیا ، زمین تنگ کردی گئی۔
بالآخر آپ نے سات سال میں اس ادارے کو اوج ثریا پہ پہنچا کر اپنے وطن لوٹ گئے ۔
( اس کی پوری تفصیل سہ امجدیہ کے صدر الشریعہ نمبر میں سید ظہیر احمد زیدی صاحب نے اپنے مضمون” صدر الشریعہ اور دادوں “ میں تحریر کی ہے۔ ہم نے اس سے بھی استفادہ کیا ہے، مزید محدث کبیر مد ظلہ العالی اور مفتی فیضان المصطفٰی صاحب قبلہ کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا ہے۔)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
از قلم:- شاداب امجدی [ گھوسی، مئو ]
10 / صفر المظفر 1446ھ
16 / اگست 2024 ء
16 / اگست 2024 ء