Type Here to Get Search Results !

ماہ محرم الحرام کے موقع پر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی چند خصوصیات ملاحظہ فرمائیں قسط اول


ماہ محرم الحرام کے موقع پر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی چند خصوصیات ملاحظہ فرمائیں قسط اول
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
یا شہید کربلا یا دافع کرب و بلا
گل رخا شہزادہ گل گوں قبا امداد کن
جان حسن ایمان حسن و ایکان حسن ایشان حسن
اے جمالت لمع شمع من رای امداد کن
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی القرشی ہاشمی
آپ حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند سید الشھداء کے لقب سے یاد کیے گئے ۔
ولادت:-حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے آپ کی ولادت تاریخ 3/یا 5 شعبان المعظم 4ھ جنوری 626ء کو ہوئی ۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بڑے بھائی امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تقریبا گیارہ ماہ چھوٹے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنے دونوں نواسوں سے یکساں محبت کرتے تھے 
امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر سے سینے تک اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سینے سے قدم تک اپنے نانا جان کی تصویر تھے ۔
حضرت یعلی بن عمرو سے روایت ہے کہ 
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
حسین مجھ سے ہے ۔میں حسین سے ہوں ۔جو حسین سے محبت کرے گا اللہ عزوجل اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے دشمنی کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا ۔
 ایک دوسری روایت ہے کہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:
ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لوٹ رہا تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے گھر تشریف لے گئے اور پوچھا 
بچے کہاں ہیں؟
تھوڑی دیر میں دونوں دوڑتے ہوئے آئے اور اپنے نانا جان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے چمٹ گئے ۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
خدایا میں انہیں یعنی حسن حسین کو محبوب رکھتا ہوں اس لئے تو بھی انہیں محبوب رکھ اور ان کو محبوب رکھنے والے کو بھی محبوب رکھ (صحیح مسلم فضائل الحسن )
(اے اللہ تو گواہ رہ کہ میں ثناءاللہ خان ثناءالقادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار امام حسن اور حسین دونوں سے بے حد محبت کرتا ہوں ہماری اس محبت کو قبول فرما آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)
مالک جنت سواری ہے
جنت کے سردار سوار ہے
منقول ہے کہ حضور دوش مبارک پر سوار کرکے امام حسن کو کھلانے کے لئے نکلتے ۔ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام حسن کو کندھے پر اٹھا کر نکلے ۔ایک شخص نے دیکھ کر کہا 
صاحبزادے کیا اچھی سواری ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
سوار بھی تو کتنا اچھا ہے
(سیر الصحابہ ص 34)
نانا جان کو نواسوں سے بے حد محبت
منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سجدہ میں ہوتے تو دونوں صاحبزادے پشت مبارک پر بیٹھ جاتے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھاتے ۔جب تک دونوں خود سے اتر نہ جاتے
(اصابہ ج 2 )
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز کے دوران رکوع میں جاتے تو حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنھما دونوں ٹانگوں کے اندر گھس جاتے ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو نکلنے کے لئے ٹانگیں پھیلا کر راستہ بنادیتے
(تہذیب التہذیب ج دوم ص 296)
جنت کے دو پھول
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے
حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے جنت کے دو پھول ہیں
حسن حسین عرش کے دو گوشے ہیں
روایت ہے رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنھما عرش کے دو گوشے ہیں
جنت نے خدا تعالیٰ سے عرض کی
مجھے ضعفاو مساکین کا مسکن قرار دے
اللہ تعالیٰ اس پر ندا فرمائی
کیا تو اس پر راضی نہیں کہ میں تیرے ستونوں کو حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زینت دوں
(منتہی الامال ص 161)
امام حسن و امام حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں :
ایک دفعہ میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مغرب وعشاء کی نماز پڑھی ۔نماز عشاء کے بعد حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے چلے تو میں بھی پیچھے پیچھے ہولیا ۔میری آواز سن کر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کون
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا نام بتایا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔دیکھو ! ابھی ایک فرشتہ نازل ہوا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا ۔اس کو خدانے اجازت دی ہے کہ وہ مجھے سلام کہے اور مجھے بشارت دے کہ
فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنت کی عورتوں اور حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔
(صحیح ترمذی ۔سیر الصحابہ ص 35)
امام حسن بچپن ہی میں لوح محفوظ مطالعہ کرتے تھے
علامہ ابن حجر عسقلانی نے ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرمایا کہ : 
حضرت امام حسن کا قیاس اور بچوں پر نہیں کیا جاسکتا 
اس لئے کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن ہی میں لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے تھے
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا کس تاریخ کو پہنچے؟
یکم المحرم بمطابق 680 ء حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کربلا پہنچے ۔مکہ مکرمہ سے کربلا تک کا سفر آپ نے تقریبا بیس (20) دنوں میں طے کیا جب آپ ایک اجاڑ اور بیابان سر زمین پر جاکر اترے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا 
اس سرزمین کا نام کیا ہے؟
آپ کو بتایا گیا 
اس سر زمین کا نام کربلا ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : 
یہ کرب و بلا ہے
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے متعلق بتلانا
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا : 
مجھ کو جبریل امین نے خبر دی کہ میرا بیٹا حسین میرے بعد زمین طف میں قتل کردیا جائے گا اور جبریل میرے پاس (اس زمین کی ) یہ مٹی لائے ہیں اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہی ان کے لیٹنے ( مدفون کی جگہ ہے) 
(حضرت امام حسین کے سو قصے ص 94 بحوالہ الصواعق المحرقہ 236 ۔اور الخصائص الکںری جلد دوم ص 283)
اگرچہ اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام الشھداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طف ہی مدفون کی جگہ ہے مگر آپ کے سر مبارک کی تدفین کے متعلق مختلف آراء بیان کتابوں میں کی جارہی ہیں 
امام عالی مقام امام الشھداء امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر گھر کے افراد کو تھی اور تمام حضرات جانتے ہوئے صبر وتحمل سے رہ رہے تھے
ناراضگی منظور نہیں
ایک دفعہ حسنین کریمیں رضی اللہ تعالیٰ عنھم تختی لکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کرنے لگے : نانا جان :دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے کسی ایک کی دل شکنی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ اسے رنج نہ پہنچے خود فیصلہ نہ فرمایا اور ان کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے پاس بھیج دیا کہ وہ فیصلہ کریں ۔ حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی خود فیصلہ نہ کیا اور ان کو حضرت سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس بھیج دیا 
حضرت بی بی فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ مجھے خط کی زیادہ پہچان نہیں ہے اس لئے میں یہ سات (7) موتی زمین پر ڈالتی ہوں ۔تم میں سے جو زیادہ موتی چن لگے گا اسی کی تختی اچھی ہوگی 
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے سات موتی ہوا میں اچھال دیئے اور جب موتی زمین پر گرے تو جنت کے شہزادوں نے ان موتیوں کا چننا شروع کیا ۔دونوں نے( یعنی امام حسن اور امام حسین) تین تین موتی چن لیے ۔اب دونوں میں سے کوئی ایک ساتواں موتی اٹھا سکتا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور ساتواں موتی اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے اور دونوں شہزادوں نے آدھا آدھا اٹھا لیا ۔دونوں شہزادوں میں سے کسی کو شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑا ۔حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا 
اج اللہ تبارک وتعالی کو ان کی اتنی رنجیدگی بھی منظور نہیں اور ایک وقت آئے گا دونوں کو آزمائش میں مبتلا کیا جائے گا‌
(سیرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ص 87.88)
ہوا بھی یہی کہ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زہر کھلا کر شہید کیا گیا اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میدان کرب و بلا میں بلاکر شہید کیا گیا یہ سب اول سے آخر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جان رہے تھے 
لیکن خدا کی مرضی کے سامنے لب کشائی بھی نہیں
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوافل و عبادات اور دعوات سے فارغ ہونے کے بعد حضرت امام عالی مقام اپنے نانا جان اقا و مولی سرکار محمدرسول اللہ کے مزار انور پر حاضر ہوئے اور ہدیہ درود و سلام خوب پڑھتے۔ تھے اور روتے رہے اور قبر انور کے ساتھ لپٹ گئے اسی حالت میں آپ دیکھتے کہ فرشتوں کی ایک کثیر جماعت حاضر ہے اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور سیدنا حسین کو آپ اپنی آغوش میں لیا اور سینے اقدس سے لگایا اور چوما اور فرمایا : 
ترجمہ ::اے میرے پیارے بیٹے ! میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب تم خاک و خون میں تڑپایا جاؤگے اور میری امت کے چند اور ساتھیوں کے ساتھ زمین کربلا میں ظلم کے ساتھ ذبح کئے جاؤگے اور تم سب پیاسے بھی رہوگے اور تمہیں پانی بھی میسر نہ ہوگا اور اس کے باوجود تمہارے قاتل میری شفاعت کے امیدوار ہوں گے مگر خدا کی قسم ان کو میری شفاعت نصیب نہ ہوگی ۔گھبراو نہیں تم عنقریب اپنے ماں باپ کے پاس پہنچ جاؤگے سب تمہارے مشتاق ہیں
اسی حالت میں امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے نانا جان سے روتے ہوئے عرض کرتے ہیں ۔:
اے پیارے نانا جان ! میری دنیا سے جانے کی کوئی پرواہ نہیں سوائے اس کے کہ آپ مجھے یہی اپنے ہمراہ قبر میں جگہ دے دیں 
حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے اپنے حسین کو تسلی دی اور فرمایا: 
نہیں اے پیارے بیٹے تمہارے لئے شہادت کا عظیم مرتبہ لکھ دیا گیا اور تم اجر عظیم کے مستحق ہو۔
(الحیات الخفی 28) 
 (سیرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ص 102 بحوالہ الحیاۃ الخفی ج دوم ص 28)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
23 ذوالحجہ 1446
30 جون 2024

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area