(سوال نمبر 5272)
رمضان کے روزے کی قضا اور ایام بیض کا روزہ ایک ساتھ رکھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں ایام بیض کے روزے رکھیں اور نیت یہ بھی ہو کہ ہمارے تین روزے جو چھوٹے ہوئے ہے وہ پورے ہوجائے گے یا پھر جو ہم نے نیت کی کہ ایام بیض کے روزے ہیں جو ہمنے رکھیں مطلب ہم سوچ کے رکھیں 13/14/15 تاریخ میں روزے کہ یہ ہمارے نفلی روزے ہیں اور13/14/15 کی ہی تاریخ میں رکھے تو کیا ہمیں ایام بیض کے روزے کا ثواب ملیں گا یا ہمارے نفلی روزے ہونگے۔
سائلہ:- ندا فاطمہ ممبئی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالت حیض میں رمضان کا جو روزہ چھوٹا اس کا رکھنا فرض ہے ایام بیض نفل روزے اور رمضان کی فرض روزے کی قضا دونوں دو چیزیں ہیں اور دونوں کی نیت میں بھی فرق ہے اس لئے دونوں ایک ساتھ نہیں رکھ سکتے پہلے رمضان کی قضا کرے پھر ایام بیض کا رکھے۔مذکورہ صورت جائز نہیں کہ ایام بیض کا روزے رکھے اور رمضان کی قضا روزے کی نیت کرلے اور دونوں کا ثواب پائے ایسا نہیں ہے۔
چونکہ نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے روزہ میں نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں روزے ادا نہیں ہوسکتے اور اگر کسی نے ایک روزے میں دونوں یعنی نفل اور رمضان کے قضا روزے کی نیت کرلی تو وہ قضا روزہ شمار ہوجائے گا۔
الفتاوى الهندية میں ہے
ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة
(الفتاوى الهندية (1/ 196)
فتاوٰی فیض الرسول میں ہے
قضائے رمضان، نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ کے روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یا رات میں کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا (فتاوٰی فیض رسول ج 01، ص 512، شبیر برادرز، لاہور)
بہار شریعت میں ہے
ادائے روزۂ رمضان اورنذرِ معین اور نفل کے روزوں کے لئے نیت کا وقت غروبِ آفتاب سے ضحوۂ کبریٰ تک ہے،اس وقت میں جب نیت کرلے، یہ روزے ہوجائیں گے۔ دن میں نیت کرے،تو ضرور ہے کہ یہ نیت کرے کہ میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں اور اگر یہ نیت ہے کہ اب سے روزہ دار ہوں،صبح سے نہیں،تو روزہ نہ ہوا۔دن میں وہ نیت کام کی ہے کہ صبح صادق سے نیت کرتے وقت تک روزہ کے خلاف کوئی امر نہ پایا گیا ہو۔
رمضان کے روزے کی قضا اور ایام بیض کا روزہ ایک ساتھ رکھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں ایام بیض کے روزے رکھیں اور نیت یہ بھی ہو کہ ہمارے تین روزے جو چھوٹے ہوئے ہے وہ پورے ہوجائے گے یا پھر جو ہم نے نیت کی کہ ایام بیض کے روزے ہیں جو ہمنے رکھیں مطلب ہم سوچ کے رکھیں 13/14/15 تاریخ میں روزے کہ یہ ہمارے نفلی روزے ہیں اور13/14/15 کی ہی تاریخ میں رکھے تو کیا ہمیں ایام بیض کے روزے کا ثواب ملیں گا یا ہمارے نفلی روزے ہونگے۔
سائلہ:- ندا فاطمہ ممبئی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
حالت حیض میں رمضان کا جو روزہ چھوٹا اس کا رکھنا فرض ہے ایام بیض نفل روزے اور رمضان کی فرض روزے کی قضا دونوں دو چیزیں ہیں اور دونوں کی نیت میں بھی فرق ہے اس لئے دونوں ایک ساتھ نہیں رکھ سکتے پہلے رمضان کی قضا کرے پھر ایام بیض کا رکھے۔مذکورہ صورت جائز نہیں کہ ایام بیض کا روزے رکھے اور رمضان کی قضا روزے کی نیت کرلے اور دونوں کا ثواب پائے ایسا نہیں ہے۔
چونکہ نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے روزہ میں نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں روزے ادا نہیں ہوسکتے اور اگر کسی نے ایک روزے میں دونوں یعنی نفل اور رمضان کے قضا روزے کی نیت کرلی تو وہ قضا روزہ شمار ہوجائے گا۔
الفتاوى الهندية میں ہے
ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة
(الفتاوى الهندية (1/ 196)
فتاوٰی فیض الرسول میں ہے
قضائے رمضان، نذر غیر معین اور نفل کی قضا وغیرہ کے روزوں کی نیت عین اجالا شروع ہونے کے وقت یا رات میں کرنا ضروری ہے۔ ان میں سے کسی روزہ کی نیت اگر دس بجے دن میں کی تو وہ روزہ نہ ہوا (فتاوٰی فیض رسول ج 01، ص 512، شبیر برادرز، لاہور)
بہار شریعت میں ہے
ادائے روزۂ رمضان اورنذرِ معین اور نفل کے روزوں کے لئے نیت کا وقت غروبِ آفتاب سے ضحوۂ کبریٰ تک ہے،اس وقت میں جب نیت کرلے، یہ روزے ہوجائیں گے۔ دن میں نیت کرے،تو ضرور ہے کہ یہ نیت کرے کہ میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں اور اگر یہ نیت ہے کہ اب سے روزہ دار ہوں،صبح سے نہیں،تو روزہ نہ ہوا۔دن میں وہ نیت کام کی ہے کہ صبح صادق سے نیت کرتے وقت تک روزہ کے خلاف کوئی امر نہ پایا گیا ہو۔
(بہارِ شریعت،ج1، ص 967 تا 969 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/11/2023
28/11/2023