(سوال نمبر 5269)
طلاق طلاق طلاق زید نے اپنی بیوی سے کہا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین بار کہا طلاق طلاق طلاق اور طلاق دینے کے بعد زید نے اپنی بیوی ہندہ کو کہا گھر سے نکل جا؟ اور زید کے تین بچے بھی ہے وہ بچے کس کے پاس رہے گا؟ اور ان کو خرچا کون دے گا؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد مفید عالم قادری اتردیناج پور بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ جب زید نے اپنی بیوی سے کہا طلاق طلاق طلاق اور بعد میں تاکید بھی کردی کہ اب تو گھر سے نکل جا اب اگرچہ اصافت نہیں تجھے یا تم کو لفظ اضافت سے نہیں کہا چونکہ حال و قال دال ہے
اس لئے مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں نکاح ختم ہو گیا بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے اب رجوع جائز نہیں بیوی اپنی عدت پوری تین ماہ گزار کر اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے البتہ عدت گزارنے کے بعد بیوی اگر کسی دوسری جگہ شادی کرے اور اس دوسرے شوہر سے صُحبت جسمانی تعلق ہو جائے اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے یا بیوی طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہو جائےتو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے اس کے بغیر دونوں کا آپس میں نکاح کر نا اور ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں۔
٢/جب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی ماں انہیں اپنی پرورش میں رکھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کرلے۔تب تک کے سارا خرچ باپ کے ذمہ ہوگا اس کے بعد باپ بچے کو لے جا سکتے ہیں۔اور تین ماہ کا عدت کا خرچ بھی شوہر کو دینا ہوگا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها ( کتاب الطلاق، الباب السادس،1/535،)
فتاوی شامی میں ہے
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته.
فتاوی رضویہ میں ایک سوال کہ طلاق طلاق طلاق زید نے کہا آپ جواب میں فرماتے ہیں
اگر اس نے اتنے ہی لفظ کہے کہ طلاق طلاق طلاق، نہ یہ کہا کہ دی، نہ یہ کہاکہ تجھ کو یا اس عورت کو، نہ یہ الفاظ کسی ایسی بات کے جواب میں تھے جس سے عورت کو طلاق دینا مفہوم ہو،تو طلاق اصلاً نہ ہوئی، وہ بدستور اس کی عورت ہے دوبارہ نکاح کی حاجت نہیں، اور اگر اس کے ساتھ یا اس بات میں جس کے جواب میں یہ الفاظ تھے وُہ لفظ موجود تھے جن سے یہ مفہوم ہو کہ اس نے اپنی عورت کو طلاق دی یا وہ اقرار کرےکہ میں نے یہ الفاظ عورت کو طلاق دینے کی نیّت سے کہے تھے تو تین طلاقیں ہوگئیں بے حلالہ اُس کے نکاح میں نہیں آسکتی،(فتاوی رضویہ ج ١٢ص ١٠٩)
قرآن میں ہے
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
تیسری طلاق کے بعد عورت حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے
ایک مقام پر فرماتے ہیں
یعنی اگر کسی شخص نے اپنی عورت سے حالتِ غضب میں کہا_تو میری عورت ہے توتین طلاق اور یوں نہ کہا کہ۔تو میری عورت ہے تو تجھے تین طلاق_طلاق نہ ہوگی کہ جب اس نے تجھے کا لفظ نہ کہا تو طلاق کو عورت کی طرف اضافت نہ کیا-
طلاق طلاق طلاق زید نے اپنی بیوی سے کہا شرعا کیا حکم ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اپنی بیوی کو تین بار کہا طلاق طلاق طلاق اور طلاق دینے کے بعد زید نے اپنی بیوی ہندہ کو کہا گھر سے نکل جا؟ اور زید کے تین بچے بھی ہے وہ بچے کس کے پاس رہے گا؟ اور ان کو خرچا کون دے گا؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد مفید عالم قادری اتردیناج پور بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ جب زید نے اپنی بیوی سے کہا طلاق طلاق طلاق اور بعد میں تاکید بھی کردی کہ اب تو گھر سے نکل جا اب اگرچہ اصافت نہیں تجھے یا تم کو لفظ اضافت سے نہیں کہا چونکہ حال و قال دال ہے
اس لئے مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں نکاح ختم ہو گیا بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے اب رجوع جائز نہیں بیوی اپنی عدت پوری تین ماہ گزار کر اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے البتہ عدت گزارنے کے بعد بیوی اگر کسی دوسری جگہ شادی کرے اور اس دوسرے شوہر سے صُحبت جسمانی تعلق ہو جائے اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے یا بیوی طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہو جائےتو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے اس کے بغیر دونوں کا آپس میں نکاح کر نا اور ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں۔
٢/جب تک بچوں کی عمر سات سال اور بچیوں کی عمر نو سال نہیں ہوجاتی ماں انہیں اپنی پرورش میں رکھ سکتی ہے بشرطیکہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کرلے۔تب تک کے سارا خرچ باپ کے ذمہ ہوگا اس کے بعد باپ بچے کو لے جا سکتے ہیں۔اور تین ماہ کا عدت کا خرچ بھی شوہر کو دینا ہوگا ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے
وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها ( کتاب الطلاق، الباب السادس،1/535،)
فتاوی شامی میں ہے
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته.
فتاوی رضویہ میں ایک سوال کہ طلاق طلاق طلاق زید نے کہا آپ جواب میں فرماتے ہیں
اگر اس نے اتنے ہی لفظ کہے کہ طلاق طلاق طلاق، نہ یہ کہا کہ دی، نہ یہ کہاکہ تجھ کو یا اس عورت کو، نہ یہ الفاظ کسی ایسی بات کے جواب میں تھے جس سے عورت کو طلاق دینا مفہوم ہو،تو طلاق اصلاً نہ ہوئی، وہ بدستور اس کی عورت ہے دوبارہ نکاح کی حاجت نہیں، اور اگر اس کے ساتھ یا اس بات میں جس کے جواب میں یہ الفاظ تھے وُہ لفظ موجود تھے جن سے یہ مفہوم ہو کہ اس نے اپنی عورت کو طلاق دی یا وہ اقرار کرےکہ میں نے یہ الفاظ عورت کو طلاق دینے کی نیّت سے کہے تھے تو تین طلاقیں ہوگئیں بے حلالہ اُس کے نکاح میں نہیں آسکتی،(فتاوی رضویہ ج ١٢ص ١٠٩)
قرآن میں ہے
فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ
تیسری طلاق کے بعد عورت حلال نہیں تاوقتیکہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے
ایک مقام پر فرماتے ہیں
یعنی اگر کسی شخص نے اپنی عورت سے حالتِ غضب میں کہا_تو میری عورت ہے توتین طلاق اور یوں نہ کہا کہ۔تو میری عورت ہے تو تجھے تین طلاق_طلاق نہ ہوگی کہ جب اس نے تجھے کا لفظ نہ کہا تو طلاق کو عورت کی طرف اضافت نہ کیا-
(فتاوی رضویہ ج ١٣ص ٦٠)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/11/2023
28/11/2023