خطبہ جمعہ (سلسلہ نمبر2)
حضرت عمر بن عبد العزیز کےعدل و انصاف کے نمایاں کارنامے!!
حضرت عمر بن عبد العزیز کےعدل و انصاف کے نمایاں کارنامے!!
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ترتیب :محمد قمرانجم قادری فیضی
میڈیا سکریٹری ایم ایس او،یوپی!!
پیشکش:کل ہند مرکزی امام فاؤنڈیشن دہلی
ترتیب :محمد قمرانجم قادری فیضی
میڈیا سکریٹری ایم ایس او،یوپی!!
پیشکش:کل ہند مرکزی امام فاؤنڈیشن دہلی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
نَحمَدہُ و نُصلی علی رسولہ الکریم
اَمّاَ بَعَدْ!!!
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الْشَّیْطٰنِ الْرّجِیْمِ
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ!
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)
ترجمہ:
بیشک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
عزیزان ملت اسلامیہ :
نَحمَدہُ و نُصلی علی رسولہ الکریم
اَمّاَ بَعَدْ!!!
فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الْشَّیْطٰنِ الْرّجِیْمِ
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ!
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(90)
ترجمہ:
بیشک اللہ عدل اور احسان اور رشتے داروں کو دینے کا حکم فرماتا ہے اور بے حیائی اور ہر بری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
عزیزان ملت اسلامیہ :
ہماری تلاوت کردہ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو عدل وانصاف احسان، کرنے کا حکم دیا ہے اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی، حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ،بے حیائی اور ہر بری باتوں سے اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ لہذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کے اُمور میں عدل اور احسان دونوں سے کام لے اور صرف عدل کرنے پر اِکتفا نہ کرے ۔چنانچہ اسی بات کو سمجھاتے ہوئے امام محمد غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ نے عدل و احسان دونوں کا حکم دیا ہے اور عدل ہی نجات کا باعث ہے اور تجارت میں وہ مالِ تجارت کی طرح (ضروری) ہے اور احسان کامیابی اور خوش بختی کا سبب ہے اور تجارت میں یہ نفع کی طرح ہے لہٰذا وہ آدمی عقل مند لوگوں میں شمار نہیں ہوتا جو دُنْیوی معاملات میں صرف مال پر اِکتفا کرے اسی طرح آخرت کا معاملہ ہے لہٰذا دیندار آدمی کے لئے مناسب نہیں کہ عدل قائم کرنے اور ظلم سے بچنے پر ہی اِکتفا کرے اور احسان کے دروازوں کو چھوڑ دے۔
اللّٰہ تعالیٰ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رشتے دار قریب کے ہوں یا دور کے،اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے حاجت سے زائد کچھ مال انہیں دے کر ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور اگر اپنے پا س زائد مال نہ ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا مستحب ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدنا عُمر بن عبدُالعزیز کی کنیت ابوحَفص،نام عمر بن عبدالعزیز ہے آپ کو عمرِثانی بھی کہا جاتا ہے آپ کا شمار مجددین اسلام میں ہوتا ہے آپ کی والدہ حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی پوتی سیّدتنا اُمِّ عاصم بنتِ عاصم تھیں۔
پیدائش:
آپ کی پیدائش 2/نومبر 681ء/مطابق 61ھ/ یا 63 ھ میں پاکیزہ شہر مدینہ منورہ میں ہوئی ،آپ عابد و زاہد،بُردبَار، عاجِزی و اِنکِساری کے پیکر، خوفِ خدا سے لبریز، عدل و انصاف قائم کرنے، بھلائی اور نیکیوں کو محبوب رکھنے، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والے تھے۔ آپ کا شمار اُن خلفائے راشدین میں ہوتا ہے جو خلیفہ ہونے کے باوجود شان و شوکت اور عیش و عِشْرت کی زندگی سے دور رہے تا عمر دور رہے ۔ آپ نےصرف 29 /ماہ کےعرصے میں دنیا کے ایک بڑے حصے میں خوش حالی کا ایسا اِسلامی اِنقلاب برپا کیا جس کی مثال صَدْیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ملتی، آپ نے عَہْدِ خُلفائے راشِدین کی یاد تازہ کردی۔آپ کے عدل و انصاف کو دیکھ کر عمُرِثانی کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بشارت:
امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم نے ایک دن کوئی خواب دیکھا اور بیدار ہونے کے بعد فرمایا " میری اولاد میں سے ایک شخص جس کے چہرے پر زخم کا نشان ہوگا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم اکثر کہا کرتے تھے : ليْتَ شَعْرِي مَنْ هَذَا الَّذِي مِنْ وَلَدٍ عُمَرَ فِي وَجْهِهِ عَلَامَةٌ يَمُلُو الْأَرْضَ عَدْلًا: یعنی کاش مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے ابو جان یعنی حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی المولی عنہ کی اولاد میں سے کون ہو گا جس کے چہرے پر نشان ہوگا اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا ؟ وقت گزرتا رہا، دن مہینوں میں اور مہینے سال میں تبدیل ہوتے رہے اور فاروقی خاندان حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے خواب کی تعبیر دیکھنے کا منتظر رہا یہاں تک کہ حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے نواسے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی ولادت ہوئی۔
خوابِ فاروقی کی تعبیر:
حضرت سید نا عمر بن عبد العزیز اپنے والد محترم سے ملنے مصر آئے تو کچھ عرصہ وہاں رہے۔ ایک دن دراز گوش یعنی گدھے پر سوار تھے کہ زمین پر گر گئے، ان کی پیشانی پر زخم آیا، ان کے کم سن سوتیلے بھائی اصبح بن عبد العزیز نے جب ان کی پیشانی سے خون بہتا دیکھا تو خوشی سے اچھلنے لگے ، جب ان کے والد حضرت سیدنا عبد العزیز علیہ الرحمہ کو معلوم ہوا تو ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم اپنے بھائی کے زخمی ہونے پر ہنستے ہو، اصبح نے وضاحت پیش کی، میں ان کی مصیبت پر ہرگز خوش نہیں ہوا اور نہ ان کے گرنے پر ہنسا ہوں بلکہ میری خوشی کا سبب یہ تھا کہ میں دیکھتا تھا کہ ان میں کہ بنو امیہ کی ساری علامتیں موجود ہیں مگر پیشانی پر زخم کا نشان نہیں ، جب یہ سواری سے گرے اور پیشانی پر زخم آیا تو میں بے اختیار خوشی کے مارے جھومنے لگا۔ یہ سن کر والد صاحب خاموش ہو گئے اور کہا: جس سے اس قسم کی اُمیدیں وابستہ ہوں اس کی تعلیم و تربیت مدینہ شریف میں ہونی چاہئے۔ چنانچہ انہیں مدینے شریف بھیج دیا۔ اور وہاں کے مشہور عالم اور محدث حضرت سیدنا صالح بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کا اتالیق (یعنی نگران استاد ) مقرر کیا ۔
نمایاں کارنامے :
آپ خلیفہ منتخَب ہوئے تو اس وقت مُعاشَرے کی حالت بہت بری تھی،اُمَراء نے لوگوں کی جائیداوں پر ناحق قبضے کئے ہوئے تھے،دین سے بے راہ روی عام تھی، شراب نوشی عام ہونے کے علاوہ بہت سی ممنُوعاتِ شرعیہ مَملکتِ اسلامیہ میں رائج ہوچکی تھیں۔ آپ نےدینی،حکومتی اورمُعاشرتی شعبہ جات میں اِصلاح کے لئے انقلابی کوششیں فرمائیں۔ دعوتِ دین:آپ نے دینِ اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے تِبَّت، چین اور دُوردراز مَمالک میں وُفود روانہ کئےاور وہاں کے حکمرانوں کو دعوتِ اِسلام پیش کی جس کے اثر سے مشرق و مغرب میں کئی بادشاہوں اور راجاؤں نے اسلام قبول کیا۔
عدل و انصاف:
آپ نے مجبوروں، مظلوموں اور مَحْروموں کو ان کی وہ جائیدادیں واپس دلائیں جنہیں شاہی خاندان کے افراد، حُکومتی اَہلکاروں اور دیگر اُمَرا نے اپنے تَصَرُّف میں لے رکھا تھا۔
غیر شرعی اُمور کا خاتمہ: شراب نوشی کے خاتِمہ کے لئے مختلف تدبیریں فرمائیں، مثلاً شرابیوں کو سخت سزائیں دیں اور ذِمّیوں کو بھی حکم فرمایاکہ وہ ہمارے شہروں میں ہرگز شراب نہ لائیں۔
غیر مسلموں کے مذہبی تَہْوارکے موقع پر مسلمانوں کوتحفے تحائف (Gifts)بھیجنے سے روکا۔ آپ کو صحابۂ کرام علیہمُ الرضوان سے اس قدر مَحبّت تھی کہ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ اور حضرت سیّدنا امیرمُعاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شان میں نازیبا الفاظ بکنے والوں کوسختی سے منع فرمایا ۔ نیز یزید کو امیرُالمومنین کہنے والے کو بھی کوڑے لگوائے۔
فلاح عامہ : آپ نے ایک لنگر خانہ قائم کیا جس میں فُقراو مساکین اور مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔
اسی طرح مُسافروں کے لئے سرائے خانے اور ان کی سواریوں کے لئے اَصْطَبل تعمیر کروائے، نابیناؤں، فالج زدہ، یتیموں اور معذوروں کی خدمت کے لئے غلام اور اَخراجات عطا فرمائے اور بچوں کے وظائف بھی مُقرّر فرمائے۔
مَعاشی انقلاب:آپ کے عدل وانصاف اورحُسنِ انتظام سےایسا انقلاب (Revolution) آیاکہ زکوٰۃ لینے والے زکوۃ دینے والے بن گئے اور زکوٰۃ دینے والوں کو فُقراء تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عدل و انصاف واقعات کے تناظر میں
(1) سمر قند کے غیر مسلموں (ذمیوں) نے حضرت عمر بن عبد العزيز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک وفد بھیجا ، اس وفد کے سربراہ نے آپ سے شکایت کی کہ مسلم سپہ سالار نے آپکی اسلامی شریعت کے اصولوں سے انحراف کیا ہے اور ہم سے کوئی بات چیت کیے بغیر ہمارے شہر پر دھاوا بول دیا ہے اور اس پر قبضہ کر لیا ہے ۔ لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمیں انصاف دلائیں ، آپ نے سمرقند کے گورنر سلیمان ابن ابی سری کو گرامی نامہ لکھا کہ سمر قند کے شہریوں نے مجھ سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت کی ہے، میرا خط ملتے ہی ان کا مقدمہ سننے کیلئے کوئی قاضی مقرر کرو اگر اس قاضی نے انکے حق میں فیصلہ کردیا، تو وہ لوگ دوبارہ اپنا اقتدار سنبھال لیں گے اور مسلمان پہلے والے مقام پر واپس آجائیں گے ۔ گورنرنے آپکے حکم کی تعمیل میں ایک قاضی کا تقرر کردیا قاضی صاحب نے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ذمیوں کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ شہر اور چھاونی خالی کردیں اور اپنے پہلے والے مقام پر واپس چلے جائیں ۔ وہاں جاکر اہل سمر قند سے مصالحت کی کوشش کریں، اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو پھر بیشک جنگ کا راستہ اختیار کریں۔ عدل و انصاف کے اس مظاہرے کو دیکھ کر اہل سمر قند بہت حیران ہوئے انھیں توقع نہ تھی کہ ایک مسلمان قاضی، مسلم لشکر کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دے گا۔ انھوں نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ہم پہلی والی حالت میں ہی ٹھیک ہیں ۔ ہم نے مسلمانوں کا اقتدار دیکھ لیا ہے، وہ کوئی ظلم و ستم نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ امن وامان کی زندگی بسر کرتے ہیں، جنگ کی صورت میں قتل و خون ہی ہوگا اور نہ جانے کامیابی کس کی ہوگی لہٰذا ہمیں بخوشی مسلمانوں کا اقتدار قبول ہے۔
(2) ایک بار حیرہ کے ایک مسلمان نے وہاں کے ایک غیر مسلم شہری کو قتل کردیا۔ حضرت عمر بن عبد العزيز کو خبر ملی تو آپ نے وہاں کے گورنر کو لکھا کہ قاتل کو فوراً گرفتار کرو اور اسکا معاملہ مقتول کے ورثاء کے سپرد کردو اگر وہ بدلہ میں اسکی جان لینا چاہیں تو انھیں اختیار ہے اگر خون بہا یا معافی پر راضی ہوجائیں تو یہ انکی صوابدید ہے چنانچہ قاتل کو گرفتار کرکے معاملہ مقتول کے ورثاء کے سپرد کر دیا۔ جنہوں نے قتل کے بدلے میں قتل ہی کو پسند کیا۔
(3) حضرت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں شریک ہوا ، واپسی کے سفر میں ایک نصرانی راہب نے مجھ سے پوچھا کیا آپ حضرت عمر بن عبد العزیز کے وصال کے وقت وہاں موجود تھے۔ میں نے کہا باہمیں اتفاق سے دمشق میں ہی تھا یہ سن کر اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے میں نے کہا: تم ان کیلئے کیوں رو رہے ہو، وہ کوئی تمہارے ہم مذہب تو نہیں تھے، اس نے کہا: میں ان پر نہیں رو رہا بلکہ میں تو اس نور پر گریہ کر رہا ہوں جو زمین پر تھا اور اب بجھا دیا گیا ہے۔
(4) حضرت عمر بن عبد العزیز کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے اپنے بچوں کے لئے ایک دینار بھی نہیں چھوڑا تھا . کسی نے پوچھا تو کہا ، " حرام کھلایا نہیں اور حلال تھا نہیں اگر میرے بچے نیک ہوئے تو اللہ تعالی انکو سنبھال لے گا اور اگر بد ہوئے تو میرا ان کی زندگی و بلاکت سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا ۔
ان کے بعد ہشام بن عبد الملک خلیفہ بنا بیس سال خلافت کی انتہائی کنجوس انسان ، انتہائی بخیل خلیفہ تھا ۔ ایک بار بچوں نے خرچ کے حوالے سے شکایت کی تو کہا یہ میں تم سب کے لئے ہی جمع کر رہا ہوں جب مرنے لگا تو ہر بچے کے لئے دس دس لاکھ درہم چھوڑ کر مرا اور پھر تاریخ نے دیکھا جلد بی ہشام کے بچے دمشق کی جامع مسجد کے باہر بھیک مانگتے نظر آئے اور عمر بن عبدالعزیز کی اولاد ایک ایک مجلس میں سو سو گھوڑے اور اونٹوں کو عطیہ کیا کرتی تھی۔
(5) حضرت عمر بن عبد العزيز جنھیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے ان کے انصاف اور عدل کی مثالیں آج تک بیان کی جاتی ہیں، سلطنت کا عالم یہ ہے کہ تین بر اعظم پر حکومت تھی اور تین بر اعظموں تک کوئی زکوة لینے والا نہ تھا۔۔ ان کی حکومت دمشق سے دیپال پور کشمیر تک ،دمشق سے کاشغر چین تک ،دمشق سے سینیگال چاڈ تک، اور دمشق سے جنوبی فرانس تک لاکھوں مربع میل تھی اور یہ عالم تھا کہ لاکھوں مربع میل میں كوئى زکوٰۃ لینے والا نہ تھا.. لیکن اپنا گھر خالی تھا عید کا موقع ہے بارہ بچے ہیں اور پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔ بچے ماں کے پاس آتے ہیں کہ ہمیں ابا سے کہہ کر کپڑے تو لے دیں، ماں یعنی فاطمہ بنت عبدالملک سات نسبتوں سے شہزادی ہیں۔ ان کے دادا خلیفہ بنے، ان کے والد عبدالملک خلیفہ بنے۔ ان کے چار بھائی خلیفہ بنے اور ان کے شوہر عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے۔ اور ان کا باپ عبدالملک اپنی بیٹی کو ہیروں میں تولتا تھا اب عالم یہ ہے کہ بچوں کے پاس عید پر پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔ شام کو عمر بن عبد العزيز گھر تشریف لائے تو آپ نے کہا عید آ رہی ہے بچے کپڑے مانگ رہے ہیں۔۔ تو آپ فرمانے لگے "فاطمہ! میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ تین براعظموں میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ہے اور خلیفہ کے پاس بچوں کی عید کے لیے پیسے نہیں فاطمہ نے فرمایا میرے پاس ایک ترکیب ہے کہ آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں ان سے بچوں کے کپڑے سی لیتے ہیں اگلے ماہ میں گھر میں اون صاف کر کے یا چھوٹی موٹی مزدوری کر کے گھر کا خرچہ چلا لوں گی۔ اللہ اکبر یہ خاتون اول فرما رہی ہیں کہ میں چھوٹی موٹی مزدوری کر کے خرچہ چلا لوں گی۔ آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں... عمر بن عبد العزيز نے اتفاق کیا اور باہر نکلے جا کر اپنی خزانچی مزاحم سے ملے اور فرمایا " بھائی مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دو بچوں کے لیے عید کے کپڑے لینے ہیں..... آپ ملاحظہ کیجیے کہ لاکھوں مربع میل کا حاکم اپنے خزانچی سے ادھار تنخواہ کی منت کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ خزانچی بھی ان کا ماتحت ہے وہ چاہتے تو حکمیہ لہجہ اپنا سکتے تھے لیکن نہیں وہ عمر بن عبد العزیز تھے.... مزاحم بھی ان کا تربیت یافتہ تھا اس نے جواب دیا امیر المومنين آپ اگلے ماہ کی تنخواه ایڈوانس مانگ رہے ہیں آپ مجھے لکھ کر دے دیں آپ ایک ماہ زندہ رہیں گے میں آپ کو ایڈوانس تنخواہ دے دیتا ہوں... سبحان اللہ .. يعنى خزانچی بھی ان کا تربیت یافتہ تھا وہ بھی اپنے پیشے سے بد دیانتی نہیں کر رہا تھا، اگر حضرت عمر بن عبد العزيز ان سے ایک ماہ کی تنخواہ لے لیتے اور وفات پا جاتے۔ ایک ماہ کام نہ کر پاتے تو وہ تنخواه حرام کہلانی تھی چونکہ کام جو نہیں کر پائے۔۔۔ عمر بن عبد العزیز گھر واپس لوٹ کر آتے ہیں فاطمہ سے فرماتے ہیں فاطمہ! میرے بچوں کو کہہ دو میں انھیں عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سكتا عید کی نماز ہوئی سارے سردران ملنے آئے ، وہیں عمر عبد العزيز کے بچے بھی انہی پرانے کپڑوں میں بیٹھے تھے ، عمر بن عبد العزیز نے اپنے بچوں سے فرمایا آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا کہ عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکا.. عمر بن عبد العزیز کے ایک بیٹے کا نام عبد الملک تھا جو عمر بن عبد العزيز کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا انھوں نے جواب دیا نہیں ابا آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے ہمارے باپ نے خیانت نہیں کی۔
(6) ایک بار کا واقعہ ہے کہ آپ گھر میں تشریف لائے تو بچیاں منہ پر کپڑا رکھ کر بات کر رہی تھیں ، استفسار کیا منہ پر کپڑا رکھ کر کیوں بات کر رہی بیٹیوں نے جواب دیا آج ہم نے کچے پیاز سے روٹی کھائی ہے ہم نہیں چاہتیں ہمارے منہ سے آنے والی پیاز کی بدبو سے آپ کو پریشانی ہو حضرت عمر بن عبد العزيز رونے لگے اور فرمایا میری بچیو کوئی باپ اپنی اولاد کو دکھ نہیں دینا چاہتا۔ میں چاہوں تو تمہیں شہنشابی زندگی دے دوں لیکن میں تمہاری خاطر جہنم کی آگ نہیں خرید سکتا ." یہ تین براعظموں کے خلیفہ حاکم کے گھر کا حال ہے کہ عید کے کپڑے نہیں ، کھانے کو کچا پیاز ہے۔
(7) 25/ رجب المرجب 101ھ/ میں آپ بیمار پڑگئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروادیں اور غلام کو آزاد کردیا ۔ زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ خلفائے راشدین کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزيز رحمة اللہ علیہ بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے ۔ طبیعت بہت خراب ہوگئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ 25 رجب المرجب مطابق 05 فروری 720ء/کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 40 سال تھی۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔ ان کا جب انتقال ہوا انھیں قبر میں اتارا گیا.رجاء قبر میں اترے وصیت کے مطابق ان کے کفن کی گرہ کھول کر دیکھی۔ رجاء نے فرمایا میں نے دیکھا عمر بن عبدالعزیز کا چہرہ قبلہ کی جانب تھا اور چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا یوں لگتا تھا چودہویں کا چاند قبر میں اتر آیا ہو ایسے تھے ہمارے امیرالمومنین، ایسے تھے مسلمانوں کے خلیفہ۔۔۔۔
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا وہ کیابہک سکےجویہ سراغ لیکے چلے
نوجوانوں کو اعلی تعلیم کیوں ضروری ہے :
کشمیر کے ہندواڑہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کے بیٹے محمد حارث میر نے 2023ء/ میں سول سروسز کے میدان میں کئی دیگر چہروں کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر اپنے عزم و محنت کے بدولت پہلی ہی کوشش میں یو پی ایس سی کا باوقار امتحان 345 رینک حاصل کر کے پاس کیا ۔
ڈاکٹر عبدالوحید میر کے 25 سالہ بیٹے نے اپنے والد کی طرح فزیکل سائنسز یا میڈیکل کے شعبے میں جانے کے بجائے ہیومینیٹیز اسٹریم کو اپنا کر لائن کا انتخاب کیا۔
پلس ٹو لیول مکمل کرنے کے بعد محمد حارث میر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے لاء، بی اے، ایل ایل بی کے پانچ سالہ ڈگری کورس میں داخلے لئے، اور 2017 سے 2022 تک کامیابی کے ساتھ کورس مکمل کیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ حارث میر نے بغیر کسی کوچنگ کے خود تیاری کرنے کو ترجیح دی۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی لاء کی ڈگری مکمل کرنے کے فوراً بعد میں نے یو پی ایس سی امتحان کے لیے خود مطالعہ کرنے کی تیاری شروع کر دی، یہ ایک پورا سال مطالعہ تھا جس میں سخت محنت شامل تھی، جس کی وجہ سے میں نے پہلی ہی کوشش میں امتحان پاس کر لیا۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے تھا کہ کوچنگ تقریباً پانچ مہینے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی ، میرے لیے درمیان میں اس میں شامل ہونا ممکن نہیں تھا، پھر فائنل امتحانات کی تیاری کے لیے کافی وقت تھا۔
یو پی ایس سی میں کوشش کرنے والے طلباء کے لیے اپنے پیغام میں حارث میر کہتے ہیں کہ اگرچہ والدین کی طرف سے کوئی مالی رکاوٹ نہیں تھی لیکن اس کے لیے باوقار سول سروسز امتحان کی تیاری کے دوران مطالعہ پر توجہ مرکوز کرنا اتنا مشکل نہیں تھا۔ تاہم ذہنی چیلنجز تھے، جیسے گھر سے بہت دور تنہائی محسوس کرنا، حالانکہ وہ کھانے، کپڑے دھونے اور صحت کی دیکھ بھال کے مسائل کو حل کرنا سیکھ گئے تھے۔ سلیبس پر قائم رہیں ہر مضمون کے صرف ایک وسائل سے بار بار طنز اور مواد دیں یہ عزم اور محنت ہمت ہی ہے جو ہر صورت میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اس لڑکے نے اتنی بڑی کامیابی و ترقی تعلیم کی وجہ سے حاصل کی، اس لئے مسلم نوجوانوں و عوام کو تعلیم کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گھر والے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کی طرف راغب کریں تاکہ وہ بھی باوقار امتحانات یوپی ایس سی پاس کرکے زندگی میں ترقیاں حاصل کریں اور اپنی قوم و ملت اپنے خاندان کا نام روشن و تابناک کریں!!
اللّٰہ تعالیٰ رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رشتے دار قریب کے ہوں یا دور کے،اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں سے حاجت سے زائد کچھ مال انہیں دے کر ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا اور اگر اپنے پا س زائد مال نہ ہو تو رشتہ داروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا اور ان کے لئے دعائے خیر کرنا مستحب ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت سیِّدنا عُمر بن عبدُالعزیز کی کنیت ابوحَفص،نام عمر بن عبدالعزیز ہے آپ کو عمرِثانی بھی کہا جاتا ہے آپ کا شمار مجددین اسلام میں ہوتا ہے آپ کی والدہ حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی پوتی سیّدتنا اُمِّ عاصم بنتِ عاصم تھیں۔
پیدائش:
آپ کی پیدائش 2/نومبر 681ء/مطابق 61ھ/ یا 63 ھ میں پاکیزہ شہر مدینہ منورہ میں ہوئی ،آپ عابد و زاہد،بُردبَار، عاجِزی و اِنکِساری کے پیکر، خوفِ خدا سے لبریز، عدل و انصاف قائم کرنے، بھلائی اور نیکیوں کو محبوب رکھنے، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے والے تھے۔ آپ کا شمار اُن خلفائے راشدین میں ہوتا ہے جو خلیفہ ہونے کے باوجود شان و شوکت اور عیش و عِشْرت کی زندگی سے دور رہے تا عمر دور رہے ۔ آپ نےصرف 29 /ماہ کےعرصے میں دنیا کے ایک بڑے حصے میں خوش حالی کا ایسا اِسلامی اِنقلاب برپا کیا جس کی مثال صَدْیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ملتی، آپ نے عَہْدِ خُلفائے راشِدین کی یاد تازہ کردی۔آپ کے عدل و انصاف کو دیکھ کر عمُرِثانی کے لقب سے یاد کیاجاتا ہے۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بشارت:
امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق اعظم نے ایک دن کوئی خواب دیکھا اور بیدار ہونے کے بعد فرمایا " میری اولاد میں سے ایک شخص جس کے چہرے پر زخم کا نشان ہوگا ، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم اکثر کہا کرتے تھے : ليْتَ شَعْرِي مَنْ هَذَا الَّذِي مِنْ وَلَدٍ عُمَرَ فِي وَجْهِهِ عَلَامَةٌ يَمُلُو الْأَرْضَ عَدْلًا: یعنی کاش مجھے معلوم ہو جائے کہ میرے ابو جان یعنی حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی المولی عنہ کی اولاد میں سے کون ہو گا جس کے چہرے پر نشان ہوگا اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا ؟ وقت گزرتا رہا، دن مہینوں میں اور مہینے سال میں تبدیل ہوتے رہے اور فاروقی خاندان حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے خواب کی تعبیر دیکھنے کا منتظر رہا یہاں تک کہ حضرت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے نواسے حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز کی ولادت ہوئی۔
خوابِ فاروقی کی تعبیر:
حضرت سید نا عمر بن عبد العزیز اپنے والد محترم سے ملنے مصر آئے تو کچھ عرصہ وہاں رہے۔ ایک دن دراز گوش یعنی گدھے پر سوار تھے کہ زمین پر گر گئے، ان کی پیشانی پر زخم آیا، ان کے کم سن سوتیلے بھائی اصبح بن عبد العزیز نے جب ان کی پیشانی سے خون بہتا دیکھا تو خوشی سے اچھلنے لگے ، جب ان کے والد حضرت سیدنا عبد العزیز علیہ الرحمہ کو معلوم ہوا تو ناراضگی کا اظہار کیا کہ تم اپنے بھائی کے زخمی ہونے پر ہنستے ہو، اصبح نے وضاحت پیش کی، میں ان کی مصیبت پر ہرگز خوش نہیں ہوا اور نہ ان کے گرنے پر ہنسا ہوں بلکہ میری خوشی کا سبب یہ تھا کہ میں دیکھتا تھا کہ ان میں کہ بنو امیہ کی ساری علامتیں موجود ہیں مگر پیشانی پر زخم کا نشان نہیں ، جب یہ سواری سے گرے اور پیشانی پر زخم آیا تو میں بے اختیار خوشی کے مارے جھومنے لگا۔ یہ سن کر والد صاحب خاموش ہو گئے اور کہا: جس سے اس قسم کی اُمیدیں وابستہ ہوں اس کی تعلیم و تربیت مدینہ شریف میں ہونی چاہئے۔ چنانچہ انہیں مدینے شریف بھیج دیا۔ اور وہاں کے مشہور عالم اور محدث حضرت سیدنا صالح بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ کو آپ کا اتالیق (یعنی نگران استاد ) مقرر کیا ۔
نمایاں کارنامے :
آپ خلیفہ منتخَب ہوئے تو اس وقت مُعاشَرے کی حالت بہت بری تھی،اُمَراء نے لوگوں کی جائیداوں پر ناحق قبضے کئے ہوئے تھے،دین سے بے راہ روی عام تھی، شراب نوشی عام ہونے کے علاوہ بہت سی ممنُوعاتِ شرعیہ مَملکتِ اسلامیہ میں رائج ہوچکی تھیں۔ آپ نےدینی،حکومتی اورمُعاشرتی شعبہ جات میں اِصلاح کے لئے انقلابی کوششیں فرمائیں۔ دعوتِ دین:آپ نے دینِ اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے تِبَّت، چین اور دُوردراز مَمالک میں وُفود روانہ کئےاور وہاں کے حکمرانوں کو دعوتِ اِسلام پیش کی جس کے اثر سے مشرق و مغرب میں کئی بادشاہوں اور راجاؤں نے اسلام قبول کیا۔
عدل و انصاف:
آپ نے مجبوروں، مظلوموں اور مَحْروموں کو ان کی وہ جائیدادیں واپس دلائیں جنہیں شاہی خاندان کے افراد، حُکومتی اَہلکاروں اور دیگر اُمَرا نے اپنے تَصَرُّف میں لے رکھا تھا۔
غیر شرعی اُمور کا خاتمہ: شراب نوشی کے خاتِمہ کے لئے مختلف تدبیریں فرمائیں، مثلاً شرابیوں کو سخت سزائیں دیں اور ذِمّیوں کو بھی حکم فرمایاکہ وہ ہمارے شہروں میں ہرگز شراب نہ لائیں۔
غیر مسلموں کے مذہبی تَہْوارکے موقع پر مسلمانوں کوتحفے تحائف (Gifts)بھیجنے سے روکا۔ آپ کو صحابۂ کرام علیہمُ الرضوان سے اس قدر مَحبّت تھی کہ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ اور حضرت سیّدنا امیرمُعاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی شان میں نازیبا الفاظ بکنے والوں کوسختی سے منع فرمایا ۔ نیز یزید کو امیرُالمومنین کہنے والے کو بھی کوڑے لگوائے۔
فلاح عامہ : آپ نے ایک لنگر خانہ قائم کیا جس میں فُقراو مساکین اور مسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔
اسی طرح مُسافروں کے لئے سرائے خانے اور ان کی سواریوں کے لئے اَصْطَبل تعمیر کروائے، نابیناؤں، فالج زدہ، یتیموں اور معذوروں کی خدمت کے لئے غلام اور اَخراجات عطا فرمائے اور بچوں کے وظائف بھی مُقرّر فرمائے۔
مَعاشی انقلاب:آپ کے عدل وانصاف اورحُسنِ انتظام سےایسا انقلاب (Revolution) آیاکہ زکوٰۃ لینے والے زکوۃ دینے والے بن گئے اور زکوٰۃ دینے والوں کو فُقراء تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کا عدل و انصاف واقعات کے تناظر میں
(1) سمر قند کے غیر مسلموں (ذمیوں) نے حضرت عمر بن عبد العزيز رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک وفد بھیجا ، اس وفد کے سربراہ نے آپ سے شکایت کی کہ مسلم سپہ سالار نے آپکی اسلامی شریعت کے اصولوں سے انحراف کیا ہے اور ہم سے کوئی بات چیت کیے بغیر ہمارے شہر پر دھاوا بول دیا ہے اور اس پر قبضہ کر لیا ہے ۔ لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمیں انصاف دلائیں ، آپ نے سمرقند کے گورنر سلیمان ابن ابی سری کو گرامی نامہ لکھا کہ سمر قند کے شہریوں نے مجھ سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی شکایت کی ہے، میرا خط ملتے ہی ان کا مقدمہ سننے کیلئے کوئی قاضی مقرر کرو اگر اس قاضی نے انکے حق میں فیصلہ کردیا، تو وہ لوگ دوبارہ اپنا اقتدار سنبھال لیں گے اور مسلمان پہلے والے مقام پر واپس آجائیں گے ۔ گورنرنے آپکے حکم کی تعمیل میں ایک قاضی کا تقرر کردیا قاضی صاحب نے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ذمیوں کے حق میں فیصلہ دیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ شہر اور چھاونی خالی کردیں اور اپنے پہلے والے مقام پر واپس چلے جائیں ۔ وہاں جاکر اہل سمر قند سے مصالحت کی کوشش کریں، اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو پھر بیشک جنگ کا راستہ اختیار کریں۔ عدل و انصاف کے اس مظاہرے کو دیکھ کر اہل سمر قند بہت حیران ہوئے انھیں توقع نہ تھی کہ ایک مسلمان قاضی، مسلم لشکر کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دے گا۔ انھوں نے متفقہ طور پر طے کیا کہ ہم پہلی والی حالت میں ہی ٹھیک ہیں ۔ ہم نے مسلمانوں کا اقتدار دیکھ لیا ہے، وہ کوئی ظلم و ستم نہیں کرتے اور ہمارے ساتھ امن وامان کی زندگی بسر کرتے ہیں، جنگ کی صورت میں قتل و خون ہی ہوگا اور نہ جانے کامیابی کس کی ہوگی لہٰذا ہمیں بخوشی مسلمانوں کا اقتدار قبول ہے۔
(2) ایک بار حیرہ کے ایک مسلمان نے وہاں کے ایک غیر مسلم شہری کو قتل کردیا۔ حضرت عمر بن عبد العزيز کو خبر ملی تو آپ نے وہاں کے گورنر کو لکھا کہ قاتل کو فوراً گرفتار کرو اور اسکا معاملہ مقتول کے ورثاء کے سپرد کردو اگر وہ بدلہ میں اسکی جان لینا چاہیں تو انھیں اختیار ہے اگر خون بہا یا معافی پر راضی ہوجائیں تو یہ انکی صوابدید ہے چنانچہ قاتل کو گرفتار کرکے معاملہ مقتول کے ورثاء کے سپرد کر دیا۔ جنہوں نے قتل کے بدلے میں قتل ہی کو پسند کیا۔
(3) حضرت امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے جنازے میں شریک ہوا ، واپسی کے سفر میں ایک نصرانی راہب نے مجھ سے پوچھا کیا آپ حضرت عمر بن عبد العزیز کے وصال کے وقت وہاں موجود تھے۔ میں نے کہا باہمیں اتفاق سے دمشق میں ہی تھا یہ سن کر اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے میں نے کہا: تم ان کیلئے کیوں رو رہے ہو، وہ کوئی تمہارے ہم مذہب تو نہیں تھے، اس نے کہا: میں ان پر نہیں رو رہا بلکہ میں تو اس نور پر گریہ کر رہا ہوں جو زمین پر تھا اور اب بجھا دیا گیا ہے۔
(4) حضرت عمر بن عبد العزیز کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے اپنے بچوں کے لئے ایک دینار بھی نہیں چھوڑا تھا . کسی نے پوچھا تو کہا ، " حرام کھلایا نہیں اور حلال تھا نہیں اگر میرے بچے نیک ہوئے تو اللہ تعالی انکو سنبھال لے گا اور اگر بد ہوئے تو میرا ان کی زندگی و بلاکت سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا ۔
ان کے بعد ہشام بن عبد الملک خلیفہ بنا بیس سال خلافت کی انتہائی کنجوس انسان ، انتہائی بخیل خلیفہ تھا ۔ ایک بار بچوں نے خرچ کے حوالے سے شکایت کی تو کہا یہ میں تم سب کے لئے ہی جمع کر رہا ہوں جب مرنے لگا تو ہر بچے کے لئے دس دس لاکھ درہم چھوڑ کر مرا اور پھر تاریخ نے دیکھا جلد بی ہشام کے بچے دمشق کی جامع مسجد کے باہر بھیک مانگتے نظر آئے اور عمر بن عبدالعزیز کی اولاد ایک ایک مجلس میں سو سو گھوڑے اور اونٹوں کو عطیہ کیا کرتی تھی۔
(5) حضرت عمر بن عبد العزيز جنھیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے ان کے انصاف اور عدل کی مثالیں آج تک بیان کی جاتی ہیں، سلطنت کا عالم یہ ہے کہ تین بر اعظم پر حکومت تھی اور تین بر اعظموں تک کوئی زکوة لینے والا نہ تھا۔۔ ان کی حکومت دمشق سے دیپال پور کشمیر تک ،دمشق سے کاشغر چین تک ،دمشق سے سینیگال چاڈ تک، اور دمشق سے جنوبی فرانس تک لاکھوں مربع میل تھی اور یہ عالم تھا کہ لاکھوں مربع میل میں كوئى زکوٰۃ لینے والا نہ تھا.. لیکن اپنا گھر خالی تھا عید کا موقع ہے بارہ بچے ہیں اور پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔ بچے ماں کے پاس آتے ہیں کہ ہمیں ابا سے کہہ کر کپڑے تو لے دیں، ماں یعنی فاطمہ بنت عبدالملک سات نسبتوں سے شہزادی ہیں۔ ان کے دادا خلیفہ بنے، ان کے والد عبدالملک خلیفہ بنے۔ ان کے چار بھائی خلیفہ بنے اور ان کے شوہر عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے۔ اور ان کا باپ عبدالملک اپنی بیٹی کو ہیروں میں تولتا تھا اب عالم یہ ہے کہ بچوں کے پاس عید پر پہننے کو کپڑے نہیں ہیں۔ شام کو عمر بن عبد العزيز گھر تشریف لائے تو آپ نے کہا عید آ رہی ہے بچے کپڑے مانگ رہے ہیں۔۔ تو آپ فرمانے لگے "فاطمہ! میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ تین براعظموں میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ہے اور خلیفہ کے پاس بچوں کی عید کے لیے پیسے نہیں فاطمہ نے فرمایا میرے پاس ایک ترکیب ہے کہ آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں ان سے بچوں کے کپڑے سی لیتے ہیں اگلے ماہ میں گھر میں اون صاف کر کے یا چھوٹی موٹی مزدوری کر کے گھر کا خرچہ چلا لوں گی۔ اللہ اکبر یہ خاتون اول فرما رہی ہیں کہ میں چھوٹی موٹی مزدوری کر کے خرچہ چلا لوں گی۔ آپ اگلے ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں... عمر بن عبد العزيز نے اتفاق کیا اور باہر نکلے جا کر اپنی خزانچی مزاحم سے ملے اور فرمایا " بھائی مجھے اگلے مہینے کی تنخواہ ایڈوانس میں دے دو بچوں کے لیے عید کے کپڑے لینے ہیں..... آپ ملاحظہ کیجیے کہ لاکھوں مربع میل کا حاکم اپنے خزانچی سے ادھار تنخواہ کی منت کر رہا ہے۔ حالانکہ وہ خزانچی بھی ان کا ماتحت ہے وہ چاہتے تو حکمیہ لہجہ اپنا سکتے تھے لیکن نہیں وہ عمر بن عبد العزیز تھے.... مزاحم بھی ان کا تربیت یافتہ تھا اس نے جواب دیا امیر المومنين آپ اگلے ماہ کی تنخواه ایڈوانس مانگ رہے ہیں آپ مجھے لکھ کر دے دیں آپ ایک ماہ زندہ رہیں گے میں آپ کو ایڈوانس تنخواہ دے دیتا ہوں... سبحان اللہ .. يعنى خزانچی بھی ان کا تربیت یافتہ تھا وہ بھی اپنے پیشے سے بد دیانتی نہیں کر رہا تھا، اگر حضرت عمر بن عبد العزيز ان سے ایک ماہ کی تنخواہ لے لیتے اور وفات پا جاتے۔ ایک ماہ کام نہ کر پاتے تو وہ تنخواه حرام کہلانی تھی چونکہ کام جو نہیں کر پائے۔۔۔ عمر بن عبد العزیز گھر واپس لوٹ کر آتے ہیں فاطمہ سے فرماتے ہیں فاطمہ! میرے بچوں کو کہہ دو میں انھیں عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سكتا عید کی نماز ہوئی سارے سردران ملنے آئے ، وہیں عمر عبد العزيز کے بچے بھی انہی پرانے کپڑوں میں بیٹھے تھے ، عمر بن عبد العزیز نے اپنے بچوں سے فرمایا آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہو گا کہ عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکا.. عمر بن عبد العزیز کے ایک بیٹے کا نام عبد الملک تھا جو عمر بن عبد العزيز کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا انھوں نے جواب دیا نہیں ابا آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے ہمارے باپ نے خیانت نہیں کی۔
(6) ایک بار کا واقعہ ہے کہ آپ گھر میں تشریف لائے تو بچیاں منہ پر کپڑا رکھ کر بات کر رہی تھیں ، استفسار کیا منہ پر کپڑا رکھ کر کیوں بات کر رہی بیٹیوں نے جواب دیا آج ہم نے کچے پیاز سے روٹی کھائی ہے ہم نہیں چاہتیں ہمارے منہ سے آنے والی پیاز کی بدبو سے آپ کو پریشانی ہو حضرت عمر بن عبد العزيز رونے لگے اور فرمایا میری بچیو کوئی باپ اپنی اولاد کو دکھ نہیں دینا چاہتا۔ میں چاہوں تو تمہیں شہنشابی زندگی دے دوں لیکن میں تمہاری خاطر جہنم کی آگ نہیں خرید سکتا ." یہ تین براعظموں کے خلیفہ حاکم کے گھر کا حال ہے کہ عید کے کپڑے نہیں ، کھانے کو کچا پیاز ہے۔
(7) 25/ رجب المرجب 101ھ/ میں آپ بیمار پڑگئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہوگیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروادیں اور غلام کو آزاد کردیا ۔ زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ خلفائے راشدین کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزيز رحمة اللہ علیہ بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے ۔ طبیعت بہت خراب ہوگئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ 25 رجب المرجب مطابق 05 فروری 720ء/کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کرلیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 40 سال تھی۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔ ان کا جب انتقال ہوا انھیں قبر میں اتارا گیا.رجاء قبر میں اترے وصیت کے مطابق ان کے کفن کی گرہ کھول کر دیکھی۔ رجاء نے فرمایا میں نے دیکھا عمر بن عبدالعزیز کا چہرہ قبلہ کی جانب تھا اور چودھویں کے چاند کی طرح روشن تھا یوں لگتا تھا چودہویں کا چاند قبر میں اتر آیا ہو ایسے تھے ہمارے امیرالمومنین، ایسے تھے مسلمانوں کے خلیفہ۔۔۔۔
ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا وہ کیابہک سکےجویہ سراغ لیکے چلے
نوجوانوں کو اعلی تعلیم کیوں ضروری ہے :
کشمیر کے ہندواڑہ علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کے بیٹے محمد حارث میر نے 2023ء/ میں سول سروسز کے میدان میں کئی دیگر چہروں کی کامیابیوں سے متاثر ہو کر اپنے عزم و محنت کے بدولت پہلی ہی کوشش میں یو پی ایس سی کا باوقار امتحان 345 رینک حاصل کر کے پاس کیا ۔
ڈاکٹر عبدالوحید میر کے 25 سالہ بیٹے نے اپنے والد کی طرح فزیکل سائنسز یا میڈیکل کے شعبے میں جانے کے بجائے ہیومینیٹیز اسٹریم کو اپنا کر لائن کا انتخاب کیا۔
پلس ٹو لیول مکمل کرنے کے بعد محمد حارث میر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے لاء، بی اے، ایل ایل بی کے پانچ سالہ ڈگری کورس میں داخلے لئے، اور 2017 سے 2022 تک کامیابی کے ساتھ کورس مکمل کیا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ حارث میر نے بغیر کسی کوچنگ کے خود تیاری کرنے کو ترجیح دی۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی لاء کی ڈگری مکمل کرنے کے فوراً بعد میں نے یو پی ایس سی امتحان کے لیے خود مطالعہ کرنے کی تیاری شروع کر دی، یہ ایک پورا سال مطالعہ تھا جس میں سخت محنت شامل تھی، جس کی وجہ سے میں نے پہلی ہی کوشش میں امتحان پاس کر لیا۔ یہ اس حقیقت کی وجہ سے تھا کہ کوچنگ تقریباً پانچ مہینے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی ، میرے لیے درمیان میں اس میں شامل ہونا ممکن نہیں تھا، پھر فائنل امتحانات کی تیاری کے لیے کافی وقت تھا۔
یو پی ایس سی میں کوشش کرنے والے طلباء کے لیے اپنے پیغام میں حارث میر کہتے ہیں کہ اگرچہ والدین کی طرف سے کوئی مالی رکاوٹ نہیں تھی لیکن اس کے لیے باوقار سول سروسز امتحان کی تیاری کے دوران مطالعہ پر توجہ مرکوز کرنا اتنا مشکل نہیں تھا۔ تاہم ذہنی چیلنجز تھے، جیسے گھر سے بہت دور تنہائی محسوس کرنا، حالانکہ وہ کھانے، کپڑے دھونے اور صحت کی دیکھ بھال کے مسائل کو حل کرنا سیکھ گئے تھے۔ سلیبس پر قائم رہیں ہر مضمون کے صرف ایک وسائل سے بار بار طنز اور مواد دیں یہ عزم اور محنت ہمت ہی ہے جو ہر صورت میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
اس لڑکے نے اتنی بڑی کامیابی و ترقی تعلیم کی وجہ سے حاصل کی، اس لئے مسلم نوجوانوں و عوام کو تعلیم کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گھر والے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کی طرف راغب کریں تاکہ وہ بھی باوقار امتحانات یوپی ایس سی پاس کرکے زندگی میں ترقیاں حاصل کریں اور اپنی قوم و ملت اپنے خاندان کا نام روشن و تابناک کریں!!