Type Here to Get Search Results !

اہل سنت و جماعت میں فتنہ کیوں پھیلایا جا رہا ہے ؟


سیّد عالمگیر اشرفی جواب دیں یا رجوع کریں!
اہل سنت و جماعت میں فتنہ کیوں پھیلایا جا رہا ہے ؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍🏻 : سیّد عبد الحمید قادری امجدی غفر لہ
( جاجمؤ شریف کانپور یوپی )
___________________________________
قارئین!
إجمالا عرض کر دوں کہ چند روز قبل سیّد عالمگیر اشرفی ناگپوری نے خود ساختہ ایک ویڈیو کلپ میں کہا کہ :
"حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جو فضیلت و افضلیت ہے وہ مطلقہ ہے اور حضرت علی جو افضل ہیں وہ ولایت میں افضل ہیں اور روحانیت میں افضل ہیں" (رضی اللہ عنہما)
اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ہنگامہ بپا ہو گیا اہل علم حضرات نے اپنے اپنے انداز میں اس کا بخوبی رد کیا خاص طور پر مولانا حسن نوری گونڈوی صاحب نے احادیث مبارکہ اور اکابر اہل سنت کی کتب معتبرہ کی روشنی میں مدلل جوابات دئے اور تحریری مناظرہ کا چیلینج بھی کیا جس پر قائل نے اب تک لبیک نہیں کہا بلکہ آں جناب اسی قول سابق پر ڈٹے رہے، پھر کچھ ایام بعد ایک موقع پر قدرے وضاحت کرتے ہوئے کہا :
"ہم نے پہلے افضلیت مطلقہ کی بات کہی اور پھر فضیلت جزوی کی بات کہی لیکن لفظ افضل کا استعمال کر کے لیکن لوگوں کو شاید پتہ نہیں تھا کہ فضیلت جزوی میں بھی لفظ افضل کا استعمال ہوتا ہے یا نہیں لیکن اس ویڈیو (بیان) کو لوگوں نے تقابل کی حیثیت دے دی کہ کیا حضرت علی ولایت و روحانیت میں حضرت ابو بکر و حضرت عمر سے بھی افضل ہیں؟ جب کہ ہم نے تقابل کیا ہی نہیں تھا ہمارا تقابل کلی اور جزئی میں تھا اور تقابل جب کلی اور جزئی میں ہو تو یہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ شیخین کو افضیلت کلی حاصل ہے اور باب خصائص اور باب فضائل میں کوئی بھی کسی صحابی سے فضیلت جزئی رکھ سکتا ہے الخ"
قائل کو معلوم ہونا چاہیے کہ "افضل" بر وزن اَفعَل اسم تفضیل کا صیغہ ہے جس میں معنیٰ حقیقی کے اعتبار سے دوسرے کی بنسبت کثرت و زیادتی ہوتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افضل و مفضول دونوں میں ایک ہی قسم کی فضیلت جمع ہوتی ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہوتی ہے اور مفضول میں کم
جیسے : زید صاحب ترتیب ہے اور بکر نمازی تو ہے لیکن صاحب ترتیب نہیں تو کہا جائے گا کہ زید بکر سے افضل ہے.
اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ افضل میں تو صفت فضیلت ہوتی ہے لیکن مفضول میں نہیں ہوتی ہے
جیسے : زید عالم ہو اور خالد جاہل تو کہا جائے گا کہ زید خالد سے افضل ہے.
شرعی اعتبار سے افضلیت کا اطلاق دو معنیٰ پر ہوتا ہے :
(1) ظاہری افضلیت مثلا : نیک اعمال (نماز و روزہ) وغیرہ
(2) باطنی افضلیت مثلا : خلوص، تقویٰ، قربت، وجاہت اور کثرت اجر و ثواب وغیرہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت اسی معنیٰ کے اعتبار سے ہے.
اب سوال یہ ہے کہ باب افضلیت میں قائل نے صراحت کے ساتھ حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کو ولایت اور روحانیت میں سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جو افضل قرار دیا ہے وہ کس اصل پر دیا ہے ؟
ایک طرف یہ کہنا :
"کہ میری مراد تقابل نہیں کہ شیخین کی افضلیت تو مطلقہ (بغیر کسی قید) کے ہے بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ولایت و روحانیت میں افضل قرار دینے سے میری مراد فضیلت جزئیہ ہے جسے افضلیت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے"
تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ فضیلت جزئیہ (ولایت و روحانیت) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت مطلقہ و کلیہ میں موجود نہیں ؟
کیا صدیق اکبر صاحب ولایت و روحانیت نہیں ؟
اگر اس سے انکار ہے العیاذ باللہ پھر تو ایمان کی خیر منائیں اور اگر اقرار ہے کہ یہ جزئیت (ولایت و روحانیت) اُس کلّیت میں موجود ہے تو پھر حضرت علی ولایت و روحانیت میں افضل کیسے ہو گئے ؟
جب جزئی فضیلت (خصوصیت) پائی ہی نہ گئی تو جزئیت، کلّیت پر اور فضیلت، افضلیت پر کیسے فوقیت لے گئی ؟
ہم نے تسلیم کیا کہ قائل کی مراد ہرگز تقابل نہیں بالآخر مولیٰ علی کے لئے وہ کونسی ولایت و روحانیت ثابت کی گئی ہے جس میں وہ تو افضل ہیں اور وہی ولایت و روحانیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت مطلقہ و کلیہ سے جدا بھی ہے ؟
اس تجاوزی اقدام پر قائل کے پاس کیا دلیل ہے کہ جس بنا پر حضرت علی کو ولایت و روحانیت میں افضل قرار دیا
کوئی نص ؟
کوئی خبر صحیح ؟
کوئی قول حجت ؟
کوئی اصل و ضابطہ ؟
اکابر و اسلاف کی کوئی روایت ؟
یا صرف اپنی عقل و خرد کا گھوڑا دوڑا کر تفضیلیت اور رافضیت کو فروغ دیا جا رہا ہے یا اشرفی نسبت کا فائدہ اٹھا کر ملت اسلامیہ اور وابستگان سلسلہ کو فریب دیا جا رہا ہے یا امت مسلمہ کے بھولے بھالے سنیوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے یا شیوخ ایران سے روابط کو مضبوط کرنے کا بہتر موقع تصور کیا جا رہا ہے کیا یہ اجداد و اسلاف کے موقف و مسلک سے انحراف اور روگردانی نہیں ہے ؟
بالکل ہے_ بالکل ہے_
قارئین!
اہل سنت و جماعت کا متفقہ و اجماعی عقیدہ ملاحظہ ہو :
انبیائے کرام و مرسلین عظام علیہم السلام کے بعد علی الإطلاق سب سے افضل و اعلیٰ
خلیفۂ اول حضرت سیّدنا صدیق اکبر ہیں
پھر خلیفۂ دوم سیّدنا عمر فاروق اعظم ہیں
پھر خلیفۂ سوم سیّدنا عثمان ذو النورین ہیں
پھر خلیفۂ چہارم سیّدنا مولیٰ علی مشکل کشا ہیں
(رضوان اللہ علیہم اجمعین)
اور یاد رکھیں کہ ترتیب خلافت بر بنائے افضلیت ہے نا کہ ترتیب افضلیت بر بنائے خلافت یعنی ایسا نہیں کہ حضرت صدیق اکبر پہلے خلیفہ ہیں اس لئے سب سے افضل ہیں بلکہ سب سے افضل ہیں اس لئے پہلے خلیفہ ہیں پھر فاروق اعظم سب سے افضل ہیں اس لئے دوسرے خلیفہ ہیں.....الخ اور یہ افضلیت امامت و کرامت ولایت و روحانیت سب کو محیط ہے_
سیّدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ میں ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"حضرت ابو بکر کی افضلیت نسب و رشتہ سے نہیں بلکہ وہ تعظیم و محبت و جاں نثاری و پروانہ وارئ شمع رسالت ﷺ ہے جس نے صدیق اکبر کو بعد انبیاء و مرسلین علیہم السلام تمام جہان پر تفوّق بخشا اور ان کے بعد تمام عالَم، تمام خَلق، تمام اولیاء، تمام عرفاء سے افضل و اکرم اکمل و اعظم کر دیا، وہ صدیق جس کی نسبت حدیث شریف میں آیا کہ ابو بکر کو کثرتِ صوم و صلوٰۃ کی وجہ سے تم پر فضیلت نہ ہوئی بلکہ اس سِر کے سبب جو اس کے دل میں راسخ و متمکن ہے_"
اب اہل سنت و جماعت کا موقف ملاحظہ کریں :
ہم یعنی (اہل سنت و جماعت) افضلیت جزئیہ و افضلیت مطلقہ (کلیہ و مجموعیہ) میں عدم منافات کے قائل ہیں یعنی بتصریح تفضیل من جمیع الوجوہ کے منکر ہیں_
افضلیت جزئیہ :
یعنی افضل فضیلت کے کسی خاص باب میں بڑھا ہوا ہو
جیسے حضرت عثمان غنی کا ذو النورین ہونا.
افضلیت مطلقہ :
یعنی افضل مجموعی طور پر مفضول سے بڑھا ہوا ہو
جیسے مرد کی افضلیت عورت پر.
مطلع القمرین کی اس روایت کو ملاحظہ کریں :
"فضیلت اور افضلیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے وہ (فضیلت) اسی باب سے ہے جس میں ضعاف بالاتفاق قابل قبول اور یہاں (افضلیت میں) مردود و نامقبول"
مزید فرماتے ہیں :
"اس (افضلیت) کا معنیٰ ایک کو دوسرے سے عند اللہ بہتر اور افضل ماننا ہے یہ جب ہی جائز ہوگا کہ ہمیں خدا عزوجل و رسول ﷺ کے ارشاد سے خوب ثابت اور محقّق ہو جائے، ورنہ بے ثبوت حکم لگا دینے میں احتمال ہے کہ عند اللہ امر بالعکس ہو تو افضل کو مفضول بنایا، یہ تصریح تنقیصِ شان اور وہ حرام تو مفسدہ تحلیلِ حرام و تضیعِ حقِّ غیر دونوں درپیش کہ افضل کہنا حق کس کا تھا اور کہہ دیا کس کو یہ اس صورت میں تھا کہ دلائل شرعیہ سے ایک کی افضلیت معلوم نہ ہو پھر وہاں کا تو کہنا ہی کیا ہے، جہاں عقائد حقّہ میں ایک جانب کی تفصیلی محقق ہو اور اس کے خلاف احادیث مقام و ضعاف سے استناد کیا جائے جس طرح آج کل کے جہّال حضرات شیخین رضی اللہ تعالی عنہما پر تفضیل حضرت مولا علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم میں کرتے ہیں، یہ تصریح مضادت شریعت و معاندت سنت ہے ولہذا ائمہ دین نے تفضیلیہ کو روافض سے شمار کیا ہے_"
مطلع القمرین میں مزید امام اہل سنت نے فرمایا :
"بلکہ انصافاً اگر تفضیل شیخین کے خلاف کوئی حدیث صحیح بھی آئے قطعاً واجب التأويل ہے اور اگر بفرض باطل صالح تاویل نہ ہو تو واجب الرد ہے کہ تفضیل شیخین متواتر و اجماعی ہے_"
الحاصل یہ کہ مذکورہ بالا اصول اور عقائد اہل سنت کے پیش نظر قائل کا قول بالکلیہ غلط ہے لہذا اب قائل کا اصولی فریضہ ہے کہ اپنے قول کو یا تو بالدلائل مع وضاحت ثابت کرے یا اپنے قول سے رجوع کرے اور توبہ کرے_
(گزارش) :- ہم اپنے علماء و مشائخ عظام اور ائمۂ مساجد سے ادباً گزارش کرتے ہیں کہ اس وقت فتنۂ رافضیت و تفضیلیت کے رد کی اشد ضرورت ہے ہر اجلاس بلکہ ہر محفل میں اور خطاب جمعہ میں حتیٰ الوسعت اس فتنہ کی سر کوبی کرتے رہیں تاکہ لباس شیخیت و مولویت میں مستور نیم رافضیوں اور تفضیلیوں سے عوام اہل سنن کے ایمان و عقائد کی حفاظت ہو سکے_
فیضان مخدوم اشرف جاری رہے
مسلك اعلیٰ حضرت سلامت رہے
🛑 دیگر علمی حلقات اور احباب میں ضرور شئر کریں
      جزاکم اللہ خیرا کثیرا_

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area