نشر مکرر
افضلیت کےمعنی و مفہوم کی تعیین میں معاون چند ضروری امور
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️ مفتی محمد شاہد رضا مصباحی
٢٣؍ جمادی الآخرۃ ٢٤٤١ھ
صدرالمدرسین،مرکزی دارالقراءت جمشید پور
✍️ مفتی محمد شاہد رضا مصباحی
٢٣؍ جمادی الآخرۃ ٢٤٤١ھ
صدرالمدرسین،مرکزی دارالقراءت جمشید پور
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
اہل سنت و جماعت کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ انبیاء و مرسلین (رسل بشر اور رسل ملائکہ) کے بعد علی الاطلاق تمام انس و جن اور فرشتوں سے "افضل" ہیں۔
اس معنئ "افضلیت" کی تفہیم و تعیین میں معاون چند ضروری امور ہدیۂ قارئین ہیں۔
افضل افعل کے وزن پر اسم تفضیل کا صیغہ ہے،جس میں معنی حقیقی کے اعتبار سے دوسرے کی بہ نسبت زیادتی ہوتی ہے۔اور معنی یہ ہوتے ہیں کہ "افضل و مفضول" دونوں میں ایک ہی قسم کی فضیلت ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہے اور مفضول میں کم۔
کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ افضل میں "صفت فضیلت" ہوتی ہے اور مفضول میں نہیں ہوتی۔ جیسے زید عالم ہو اور حامد جاہل تو کہا جاتا ہے کہ زید حامد سے افضل ہے ۔
شرعی اعتبار سےافضلیت کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے :
(1) ظاہری افضلیت یعنی نیک اعمال جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کی زیادتی۔
(2) باطنی افضلیت یعنی خلوص دل، پرہیزگاری اور اجرو ثواب کی زیادتی۔
یہ بھی مد نظر رہے کہ کثرت اجر و ثواب کا مفہوم اللہ تعالی کے نزدیک زیادتِ کرامت اور کثرتِ قرب و وجاہت ہے۔
(حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت اسی معنی کے لحاظ سے ہے۔)
نہ کہ جنت کے مطاعم و ملابس و ازواج و خدم و حور و قصور میں زیادتی۔
شرح مقاصد میں ہے:
الكلام في الأفضليت بمعنى الكرامة عند الله تعالى، و كثرة الثواب.
(شرح مقاصد،ج3 ،ص523،
الفصل الرابع في الامامة)
الصواعق المحرقة میں ہے:
ثم يجب الايمان والمعرفة بأن خير الخلق و أفضلهم و أعظمهم منزلة عند الله بعد النبيين والمرسلين وأحقهم بخلافة رسول الله أبو بكر الصديق.
(الصواعق المحرقہ،ص706،خاتمہ فی امور مہمۃ)
باطنی افضلیت کا مفہوم "زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت ہے"، اس پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ایک عقلی دلیل بھی پیش فرمائی، تاکہ ہر عام وخاص کے ذہن میں افضلیت کا معنی واضح ہو جائے۔
فرماتے ہیں:
"دو درباریوں نے بادشاہ کو اپنی عمدہ کارگزاریوں سے راضی کیا
بادشاہ نے ایک کو ہزار اشرفی دے کر پائے تخت کے نیچے جگہ دی۔
دوسرے کو انعام تو ایک لاکھ اشرفی ملا، لیکن مقام اس پہلے کی کرسی منصب سے نیچے۔
پھر فرماتے ہیں:
" اے انصاف والی نگاہ!! اہل دربار میں افضل کسے کہا جائے گا؟"
اس مثال سے واضح ہوا کہ بلاشبہ جس کو بادشاہ سے زیادہ قرب ہے ، وہی سب سے زیادہ فضیلت والا ہے۔
اس کے بعد اس معنی کو کثیر دلائل سے ثابت فرمایا اور اخیر میں تحریر فرمایا:
"بالجملہ سنیوں کا حاصل مذہب یہ ہے کہ بعد انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو قرب و وجاہت، و عزت و کرامت، و علو شان، و رفعت مکان، و غزارتِ فخر، و جلالتِ قدر بارگاہ حق تبارک و تعالیٰ میں؛ حضرا ت خلفائےاربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو حاصل، ا ن کا غیر اگر چہ کسی درجہ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے، اولیٰ ہو آخری، اہل بیت ہو یا صحابی، ہر گز ہر گز اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔
مگر شیخین کو امور مذکورہ میں ختنین پر تفوق ظاہر و رجحان باہر، بغیر اس کے کہ عیاذا باللہ فضل و کمال ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے۔"
(فتاوی رضویہ،ج 21،ص 120،امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف۔ رسالہ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین۔
ـــــ ـــــــ ـــــــ ـــــــ
یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ :
افضلیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں:
افضلیت جزئیہ: یعنی افضل فضیلت کے کسی خاص باب میں بڑھا ہوا ہو۔
جیسے زید عمر سے علم نحو میں افضل ہے۔
افضلیت کلیہ افرادیہ: یعنی افضل فضیلت کے ہر باب میں مفضول سے بڑھا ہوا ہو۔
افضلیت کلیہ مجموعیہ: یعنی افضل مجموعی طور پر مفضول سے بڑھا ہوا ہو۔ جیسے مرد مجموعی طور پر عورت سے افضل ہے۔
اس افضلیت کو افضلیت مطلقہ بھی کہتے ہیں۔ جیسے زید کو جتنے مسائل یاد ہوں، بکر کو بھی اتنے ہی مسائل یاد ہوں، مگر زید کو ان کی معرفت دلائل کے ساتھ ہو اور بکر کو دلائل کے بغیر تو علی الاطلاق کہیں گے کہ زید بکر سے افضل ہے۔
افضلیت جزئیہ اور افضلیت مطلقہ میں منافات نہیں۔
یعنی ہو سکتا ہے کہ زید کو عمرو پر "افضلیت مطلقہ" حاصل ہو اور عمرو کو زید پر افضلیت جزئیہ۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد باطنی افضلیت کلیہ افرادیہ تو درکنار ظاہری افضلیت کلیہ افرادیہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی،
کیوں کہ دنیا میں بہت سے لوگ کوئی نہ کوئی ایسا نیک کام کر لیتے ہیں جو دوسرے کیے ہوئے نہیں ہوتے۔
رہی افضلیت جزئیہ تو وہ حدیث اور قرآن کے مطابق بہت سے صحابہ کو ایک دوسرے پر حاصل ہے، بلکہ اجمالاً بعض غیر صحابہ کو بھی حاصل ہے۔
افضلیت کا اثبات دو طریقے سے ہوتا ہے۔
پہلا طریقہ: یہ ہے کہ افضلیت نصوص شرعیہ سے ثابت ہو جائے، کہ فلاں، فلاں سے افضل ہے۔ یہ احسن و اسلم طریقہ ہے۔
دوسرا طریقہ: استدلال و استنباط اور ترتیب مقدمات کا ہے۔ اور یہ طریقہ تنقیح طلب۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ بنائے تفضیل دو چیزیں ہیں:
اول:ما فیہ التفاضل اس میں افضل و مفضول دونوں مشترک ہوتے ہیں۔ مگر بالتشکیک کہ افضل میں زیادہ اور مفضول میں کم۔
دوم: ما بہ الافضلیت ،یعنی جو مافیہ التفاضل میں افضل کی زیادت کرے۔ اور یہ صرف ذات افضل کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
اورمفضول کا اس میں افضل کے کم و کیف کے ساتھ اشتراک نہیں ہوتا۔
جیسے شمشیرِ تیز براں کو تیغِ کند ناکارہ پر تفضیل ہے۔
اس مثال میں ما فیہ التفاضل "قطع و جرح"ہے کہ "شمشیرِ براں"خوب کاٹتی ہے اور "تیغ کند" قطع میں قصور کرتی ہے۔
اور ما بہ الافضلیت "خوش آبی و پاکیزہ جوہری" ہے، جو "شمشیرِ براں" کے ساتھ مختص ہے۔
"باب افضلیت" میں مافیہ التفاضل تو واضح ہے اور ما بہ الافضلیت کا ادراک نہایت غامض اور مزلت اقدام ہے۔
اہل سنت و جماعت کا مرجع ہر بات میں قرآن کریم، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
اور مقام شرح و تفسیر میں پیشوا و مقتدا اکابر کے اقوال۔
اس باب میں غور کریں تو تفسیر ، شرح حدیث اور اقوال سلف پر مابہ الافضلیت
"زیادت تقوی، سبقت الی الخیرات، زمانہ غربت اسلام میں دین کی اعانت، فضل صحبت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم، کثرت نفع اسلام وغیرہ امور کثیرہ" وغیرہ اوصاف ہیں۔
ان امور کی وضاحت کے بعد
"افضلیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ" کا مفہوم یہ ہوا کہ
"عند اللہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو زیادت کرامت اورکثرت قرب و وجاہت حاصل ہے۔ اور بعد انبیا و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اس مقام رفیع میں آپ کا کوئی سہیم نہیں۔
نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی "افضلیت"، افضلیت مطلقہ ہے۔
یوں ہی "مابہ الافضلیت" والے اوصاف میں اس کم و کیف کے ساتھ جو آپ کے لیے ہے، آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں۔
واللہ تعالی اعلم۔
مذکورہ امور کی توضیح اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے رسالہ جلیلہ"مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین" اور حضرت مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر نوری پورنوی صاحب قبلہ کی تحقیقی کتاب "انبیائے کرام کے بعد افضل کون؟" سے ماخوذ و ملخص ہیں۔
اہل سنت و جماعت کا متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے کہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ انبیاء و مرسلین (رسل بشر اور رسل ملائکہ) کے بعد علی الاطلاق تمام انس و جن اور فرشتوں سے "افضل" ہیں۔
اس معنئ "افضلیت" کی تفہیم و تعیین میں معاون چند ضروری امور ہدیۂ قارئین ہیں۔
افضل افعل کے وزن پر اسم تفضیل کا صیغہ ہے،جس میں معنی حقیقی کے اعتبار سے دوسرے کی بہ نسبت زیادتی ہوتی ہے۔اور معنی یہ ہوتے ہیں کہ "افضل و مفضول" دونوں میں ایک ہی قسم کی فضیلت ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہے اور مفضول میں کم۔
کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ افضل میں "صفت فضیلت" ہوتی ہے اور مفضول میں نہیں ہوتی۔ جیسے زید عالم ہو اور حامد جاہل تو کہا جاتا ہے کہ زید حامد سے افضل ہے ۔
شرعی اعتبار سےافضلیت کا اطلاق دو معنی پر ہوتا ہے :
(1) ظاہری افضلیت یعنی نیک اعمال جیسے نماز ، روزہ وغیرہ کی زیادتی۔
(2) باطنی افضلیت یعنی خلوص دل، پرہیزگاری اور اجرو ثواب کی زیادتی۔
یہ بھی مد نظر رہے کہ کثرت اجر و ثواب کا مفہوم اللہ تعالی کے نزدیک زیادتِ کرامت اور کثرتِ قرب و وجاہت ہے۔
(حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی افضلیت اسی معنی کے لحاظ سے ہے۔)
نہ کہ جنت کے مطاعم و ملابس و ازواج و خدم و حور و قصور میں زیادتی۔
شرح مقاصد میں ہے:
الكلام في الأفضليت بمعنى الكرامة عند الله تعالى، و كثرة الثواب.
(شرح مقاصد،ج3 ،ص523،
الفصل الرابع في الامامة)
الصواعق المحرقة میں ہے:
ثم يجب الايمان والمعرفة بأن خير الخلق و أفضلهم و أعظمهم منزلة عند الله بعد النبيين والمرسلين وأحقهم بخلافة رسول الله أبو بكر الصديق.
(الصواعق المحرقہ،ص706،خاتمہ فی امور مہمۃ)
باطنی افضلیت کا مفہوم "زیادت کرامت اور کثرت قرب و وجاہت ہے"، اس پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے ایک عقلی دلیل بھی پیش فرمائی، تاکہ ہر عام وخاص کے ذہن میں افضلیت کا معنی واضح ہو جائے۔
فرماتے ہیں:
"دو درباریوں نے بادشاہ کو اپنی عمدہ کارگزاریوں سے راضی کیا
بادشاہ نے ایک کو ہزار اشرفی دے کر پائے تخت کے نیچے جگہ دی۔
دوسرے کو انعام تو ایک لاکھ اشرفی ملا، لیکن مقام اس پہلے کی کرسی منصب سے نیچے۔
پھر فرماتے ہیں:
" اے انصاف والی نگاہ!! اہل دربار میں افضل کسے کہا جائے گا؟"
اس مثال سے واضح ہوا کہ بلاشبہ جس کو بادشاہ سے زیادہ قرب ہے ، وہی سب سے زیادہ فضیلت والا ہے۔
اس کے بعد اس معنی کو کثیر دلائل سے ثابت فرمایا اور اخیر میں تحریر فرمایا:
"بالجملہ سنیوں کا حاصل مذہب یہ ہے کہ بعد انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم جو قرب و وجاہت، و عزت و کرامت، و علو شان، و رفعت مکان، و غزارتِ فخر، و جلالتِ قدر بارگاہ حق تبارک و تعالیٰ میں؛ حضرا ت خلفائےاربعہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو حاصل، ا ن کا غیر اگر چہ کسی درجہ علم و عبادت و معرفت و ولایت کو پہنچے، اولیٰ ہو آخری، اہل بیت ہو یا صحابی، ہر گز ہر گز اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔
مگر شیخین کو امور مذکورہ میں ختنین پر تفوق ظاہر و رجحان باہر، بغیر اس کے کہ عیاذا باللہ فضل و کمال ختنین میں کوئی قصور و فتور راہ پائے۔"
(فتاوی رضویہ،ج 21،ص 120،امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف۔ رسالہ مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین۔
ـــــ ـــــــ ـــــــ ـــــــ
یہاں پر یہ بھی پیش نظر رہے کہ :
افضلیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں:
افضلیت جزئیہ: یعنی افضل فضیلت کے کسی خاص باب میں بڑھا ہوا ہو۔
جیسے زید عمر سے علم نحو میں افضل ہے۔
افضلیت کلیہ افرادیہ: یعنی افضل فضیلت کے ہر باب میں مفضول سے بڑھا ہوا ہو۔
افضلیت کلیہ مجموعیہ: یعنی افضل مجموعی طور پر مفضول سے بڑھا ہوا ہو۔ جیسے مرد مجموعی طور پر عورت سے افضل ہے۔
اس افضلیت کو افضلیت مطلقہ بھی کہتے ہیں۔ جیسے زید کو جتنے مسائل یاد ہوں، بکر کو بھی اتنے ہی مسائل یاد ہوں، مگر زید کو ان کی معرفت دلائل کے ساتھ ہو اور بکر کو دلائل کے بغیر تو علی الاطلاق کہیں گے کہ زید بکر سے افضل ہے۔
افضلیت جزئیہ اور افضلیت مطلقہ میں منافات نہیں۔
یعنی ہو سکتا ہے کہ زید کو عمرو پر "افضلیت مطلقہ" حاصل ہو اور عمرو کو زید پر افضلیت جزئیہ۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعد باطنی افضلیت کلیہ افرادیہ تو درکنار ظاہری افضلیت کلیہ افرادیہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی،
کیوں کہ دنیا میں بہت سے لوگ کوئی نہ کوئی ایسا نیک کام کر لیتے ہیں جو دوسرے کیے ہوئے نہیں ہوتے۔
رہی افضلیت جزئیہ تو وہ حدیث اور قرآن کے مطابق بہت سے صحابہ کو ایک دوسرے پر حاصل ہے، بلکہ اجمالاً بعض غیر صحابہ کو بھی حاصل ہے۔
افضلیت کا اثبات دو طریقے سے ہوتا ہے۔
پہلا طریقہ: یہ ہے کہ افضلیت نصوص شرعیہ سے ثابت ہو جائے، کہ فلاں، فلاں سے افضل ہے۔ یہ احسن و اسلم طریقہ ہے۔
دوسرا طریقہ: استدلال و استنباط اور ترتیب مقدمات کا ہے۔ اور یہ طریقہ تنقیح طلب۔
اس کی توضیح یہ ہے کہ بنائے تفضیل دو چیزیں ہیں:
اول:ما فیہ التفاضل اس میں افضل و مفضول دونوں مشترک ہوتے ہیں۔ مگر بالتشکیک کہ افضل میں زیادہ اور مفضول میں کم۔
دوم: ما بہ الافضلیت ،یعنی جو مافیہ التفاضل میں افضل کی زیادت کرے۔ اور یہ صرف ذات افضل کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔
اورمفضول کا اس میں افضل کے کم و کیف کے ساتھ اشتراک نہیں ہوتا۔
جیسے شمشیرِ تیز براں کو تیغِ کند ناکارہ پر تفضیل ہے۔
اس مثال میں ما فیہ التفاضل "قطع و جرح"ہے کہ "شمشیرِ براں"خوب کاٹتی ہے اور "تیغ کند" قطع میں قصور کرتی ہے۔
اور ما بہ الافضلیت "خوش آبی و پاکیزہ جوہری" ہے، جو "شمشیرِ براں" کے ساتھ مختص ہے۔
"باب افضلیت" میں مافیہ التفاضل تو واضح ہے اور ما بہ الافضلیت کا ادراک نہایت غامض اور مزلت اقدام ہے۔
اہل سنت و جماعت کا مرجع ہر بات میں قرآن کریم، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
اور مقام شرح و تفسیر میں پیشوا و مقتدا اکابر کے اقوال۔
اس باب میں غور کریں تو تفسیر ، شرح حدیث اور اقوال سلف پر مابہ الافضلیت
"زیادت تقوی، سبقت الی الخیرات، زمانہ غربت اسلام میں دین کی اعانت، فضل صحبت سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم، کثرت نفع اسلام وغیرہ امور کثیرہ" وغیرہ اوصاف ہیں۔
ان امور کی وضاحت کے بعد
"افضلیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ" کا مفہوم یہ ہوا کہ
"عند اللہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو زیادت کرامت اورکثرت قرب و وجاہت حاصل ہے۔ اور بعد انبیا و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والتسلیم اس مقام رفیع میں آپ کا کوئی سہیم نہیں۔
نیز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی "افضلیت"، افضلیت مطلقہ ہے۔
یوں ہی "مابہ الافضلیت" والے اوصاف میں اس کم و کیف کے ساتھ جو آپ کے لیے ہے، آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں۔
واللہ تعالی اعلم۔
مذکورہ امور کی توضیح اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے رسالہ جلیلہ"مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین" اور حضرت مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر نوری پورنوی صاحب قبلہ کی تحقیقی کتاب "انبیائے کرام کے بعد افضل کون؟" سے ماخوذ و ملخص ہیں۔