Type Here to Get Search Results !

حیلہ شرعی اورہماری بے احتیاطی


حیلہ شرعی اورہماری بے احتیاطی
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
حیلہ شرعی کیا ہے پہلے لغۃ و اصطلاحا اسے جانیں:
لغۃ :- مطلب کو تدبیر سے حاصل کرنا۔ شرعی تدبیر۔شرعی رخصت وغیرہ۔
اصطلاحا: حیلہ شرعی حرام و گناہ سے بچنے،معصیت کا دروازہ بند کرنے اور شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حلال کو طلب کرنے والے کسی کام کو حیلہ کہتے ہیں۔
حیلہ شرعی کا وجود کہاں سے ثابت ہے؟
تو جان لیں کہ حیلہ شرعی کا وجود قرآن مبین سے ثابت ہے۔
قرآن پاک کی آیت کریمہ:
خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ۔
اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار د ے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔(صٓ: ۳۸،آیت ۴۴)
اس آیت کا پس منظر ملاحظہ فرمائیں:
بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سےگئیں تو دیر سے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں،اس پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔جب حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام صحت یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں،چنانچہ حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام نے سَوتیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔
(بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، جلالین، ص، تحت الآیۃ: ۴۴،ص۳۸۳، ملتقطاً)
اس آیت کریمہ سے حیلہ شرعی کا وجود ملتا ہے،علاوہ ازیں حدیث پاک سے بھی اس کا ثبوت ہے۔
چنانچہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک بار گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ چولہا پر گوشت کی ہنڈیا جوش مار رہی ہے گھر کے لوگوں نے روٹی اور کوئی دوسرا سالن حضور کی خدمت میں پیش کیا آپ نے فرمایا کیا میں گوشت کی ہنڈیا کھولتی نہیں دیکھ رہا ہوں گھر والوں نے کہا حضور وہ ہماری کنیز بریرہ کو کسی نے صدقہ کا گوشت دیاتھا اور آپ صدقہ نہیں کھاتے آپ نے فر مایا ہاں وہ صدقہ وہ صدقہ کا گوشت ضرور تھا لیکن بریرہ جو صدقہ لینے کی اہل ہے جب اس نے قبول کر لیا اور وہ اپنی طرف سے ہم کو دے گی وہ ہمارے لئے ہدیہ ہو گا۔(مشکوۃ شریف کتاب الزکاۃ ۳۳۸ : مسلم شریف کتاب الزکاۃ ۱۰۷۵)
اس حدیث شریف سے ائمہ اعلام علمائے کرام نے یہ قاعدہ ثابت کیا کہ قبضہ بدل جانے سے مال کا حکم بدل جاتا ہے صدقہ کا گوشت جب تک بریرہ کے کے قبضے میں نہیں آیا تھا اس کا حکم یہی تھا کہ وہ صدقہ کا مال ہے اور جب بریرہ نے وصول کرلیا تو اب وہ اس کی مالک بن گئیں اور جب مالک ہوگئیں تو وہ اپنی طرف سے جس کو بطور تحفہ دیں لینا بھی جائز اور کھانا بھی جائز اگر چہ مالدار ہی کیوں نہ ہو۔(فتاویٰ بحرالعلوم ج دوم ص ۱۸۴، شبیر برادرز)
یہاں تک حیلہ شرعی کےحوالے سے معلومات ہوئی،اب حیلہ شرعی کو لے کر جو دھاندلی ہوتی ہے اسے بھی ملاحظہ فرمائیں:
اس سے پہلے یہ مسئلہ جان لیں کہ مصارف زکاۃ کے علاوہ زکاۃ وصدقات واجبہ کااستعمال حرام ہے،کیوں کہ غیر مصرف میں استعمال کرنا مستحقین کا حق مارنا ہے جس کا تاوان خود استعمال کرنے والے پر لازم ہے۔
اور جو زکاۃ و صدقات واجبہ کی رقم مدارس اسلامیہ میں لگتی ہے وہ حیلہ شرعی کے ذریعے لگتی ہے،ورنہ مدارس اسلامیہ میں بھی زکاۃ کی رقم نہیں لگ سکتی اور نا ہی اس سے مدرسین کو تنخواہیں دی جاسکتی ہیں کیونکہ تنخواہ معاوضہ عمل ہے اورزکاۃ خالصا اللہ کے لیے ہے،اور ناہی طلبہ کو کھانا کھلایا جاسکتا کیونکہ یہ کھانا انہیں بطور اباحت کھلایا جاتا ہے مالک نہیں بنایا جاتا ہے،جبکہ زکاۃ دینے میں مالک بنانا شرط ہے،ورنہ زکاۃ ادا نہ ہوگی۔ہاں جب زکاۃ کی رقم حاصل ہو تو اسے جدا رکھے اس رقم سے نادار طلبہ کو کتابیں خرید کر انہیں اس کا مالک بنا دے، یاکپڑا خرید کر طالب کو مالک بنادے وغیرہ۔
(فتاویٰ رضویہ ج ۱۰ ملخصا ص ۲۵۴ و فتاویٰ فقیہ ملت ج ۱ ص ۳۱۱)
بس ایک ہی راستہ ہے حیلہ شرعی کا جس کے ذریعے مدارس اور مدرسین کی تنخواہوں کے واسطے زکاۃ کی رقم استعمال کی جاسکتی ہے۔
مگر حیلہ شرعی کیا ہے حیلہ کا وجود کیوں ہوا حیلہ شرعی کا جائز استعمال کیا ہے پیسے آنے کے بعد ساری باتیں نسیا منسیا ہوجاتی ہیں بس پیسے جمع ہونے کے بعد ذمہ داران کو ایک بات سوجھتی ہے کہ تخت شاہی ہواور تخت شاہی کی زینت بڑھانے کے لیے علماء کرام ہوں جو دست بستہ کھڑے ہوکر حاصل ہوئے پیسوں کو ماہانہ لیتے رہیں،گرچہ ان کے حق میں حرام ہے یا حلال کچھ فرق نہیں پڑتا بس پیسہ ہو چاہے جیسا ہو۔ الا ماشاءاللہ۔
باتیں ایسی بھی سامنے آئی ہیں کہ بڑے بڑے ادارے کے ذمہ داران بھی حیلہ شرعی کرائے بغیر ہی زکاۃ کا مال مدارس و مدرسین کی تنخواہ پر استعمال کرتے ہیں جو کہ بالکل خلاف شرع ہے اور یہ بات ہر عالم وذمہ دار کو معلوم ہے،مگر اسلامی نظام کا پاس و لحاظ نہیں۔اس کے برعکس کچھ ایسے بھی ادارے ہیں جو اس حکم شرع کا پاس و لحاظ رکھتے اورحیلہ شرعی کراتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کرتے ہیں۔الحمدللہ۔
یہ تو مدارس ومدرسین کے حوالے سے باتیں ہیں بات یہاں تک سامنے آئی کہ زکاۃ و صدقات واجبہ کو ایسی ایسی جگہوں پر استعمال کیا جانے لگا ہے کہ جس کا کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے مثلا میرج ہال کے لیے،تراویح کے نذرانہ کے لیے، تجہیز و تکفین کے لیے وغیرہ۔ اللہ خیر کرے۔
یار رہے! خلاف شرع کام کرنے پر یقینا رب کے غضب کو چیلنج کرنا ہےاور رب کے غضب ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلم جماعت دنیا میں ایک بوجھ کے سوا اور کچھ بھی نہیں،جس بوجھ کو دنیا برداشت کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۔
وہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ تو اپنے پیٹ میں نری آ گ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے (آتش کدے) میں جائیں گے۔(نساء آیت ۱۰ )
اس لیے اللہ کے قہروغضب کو ہرگز دعوت نہ دے کر،اپنی اپنی ذمہ داری سمجھیں اور جو بھی زکاۃ و صدقات واجبہ ہو اسے اس کے مستحق تک دیانۃ ضرور پہنچائیں اور اگر مدارس اسلامیہ میں لگانا ہے تو حیلہ شرعی کی جانب لوگوں کی تاکیدا رہنمائی کریں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
✍️حنظلہ خان مصباحی گونڈوی
۲۳ رمضان المبارک ۱۴۴۵ھ
      ۳ اپریل ۲۰۲۴ء

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area