جشن یوم رضا 2024 پر خصوصی تحریر
اعلی حضرت اور اسلامی اخلاق و مساوات
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:- محمد قمرانجم قادری فیضی
ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف ضلع ہردوئی، یوپی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی المولی عنہ کی شخصیت محتاج متعارف نہیں ۔آپ بوقت ظہر بروز شنبہ 10 شوال المکرّم 1272ھجری/ میں محلہ جسولی بریلی شریف میں پیدا ہوئے،اور 1340ھجری: 25/ صفرالمظفر بروزجمعہ آپ کا وصال پرملال ہوا۔ بلاشبہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کو آج پوری دنیا میں بخوبی جانا جاتا ہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے پایاں علم وفضل فکر و دانش اور حکمت و تدبر سے نوازا تھا، دنیا ئے اسلام کے آپ ایک عظیم سپوت تھے، اور اسلام کی ہرجماعت آپکے علمی فقہی کمالات و خدمات نیز آپکے فقہی و اجتہادی طرزبیان کی کَل بھی معترف تھی اورآج بھی ہرصغیر و کبیر کو اعتراف حقیقت ہے، مگر اپنے تو اپنے ہیں غیروں کو بھی اعتراف ہے۔ آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے،آپ رسول پاک کے ہر قول و فعل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نظرآتے تھے۔
علامات محبت کیا ہے • علماءِ کرام نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلّم نے محبت کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ،اُن میں سے [ 8] علامات درج ذیل ہیں :
(1) اقوال اور افعال میں حضور کی پیروی کرنا یعنی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کام کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن سے منع کیا ان سے رک جانا نیز رسول پاک کی سنتوں پر عمل کرنا۔(2) حضور نے جس عمل کی ترغیب دی اسے اپنی نَفسانی اور شَہوانی خواہشات پر ترجیح دینا۔ (3) بکثرت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکرِ جمیل کرنا اور آپ پر درود شریف پڑھنا اور آپ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنا۔(4 ) ذکرِ حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وقت تعظیم و تَوقیر بجا لانا اور اسمِ گرامی سن کر اِنکساری کا اظہار کرنا۔(5) جس سے سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبت رکھتے ہوں اس سے بھی محبت کرنا۔(6) جس چیز سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دشمنی رکھی اس سے دشمنی رکھنا اور جس سے عداوت رکھی اس سے کنارہ کشی کرنا۔ (7) قرآنِ مجید سے محبت رکھنا۔
(8) رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔
یہ سچ اور حقیقت ہے کہ اہل سنت کی بے نظیر خدمات کے باعث اہل سنت والجماعت کو مسلک اعلی حضرت سے منسوب کردیا گیا ہے مبنی بر حقیقت جملے کو اگر آپ کے دور میں اٹھنے والی متعدد باطل نظریات کے پیش نظر سمجھا جائے تو کسی بھی طرح کا کوئی خلجان باقی نہیں رہےگا، الغرض اعلی حضرت کا پیغام، اسلام و احکام قرآنیہ اور سنت رسول اللہ کی ترویج و اشاعت ہے، اور اسی کو اپنی زندگی کا خاص مقصد سمجھتے تھے، اس لئے آپ نے اپنے اور اغیار کے مابین اسلام کی حقیقی اور بنیادی تعلیم پہنچانے کے لئے کسی بھی طرح اور کسی بھی حال میں گریز نہیں کیا،اس جہان آب وگل میں آپ کل 68/ سال تک قیام پذیر رہے اپنی اس قلیل عمر میں جو علمی فقہی، اصلاحی اور تجدیدی کارنامے انجام دیئے، وہ ایک حیرت انگیز اور ناقابل فراموش کارنامے رہتی دنیا تک ہمارے لئے مشعل راہ رہیں گے، آپ کیا تھے؟اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک دفتر بھی نا کافی ہوگا،آپکی فقہیانہ اور عالمانہ شان و شوکت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ پچاس سے زائد علوم و فنون پر کامل عبور رکھتے تھے،اور کم وبیش آپ نے 900/ نو سو سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں۔جن میں فتاوی رضویہ 12/ جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد کی ضخامت تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے آپ نے اپنے تفکر و تدبر سے ایک عہد کو متاثر کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ تحقیق و تدقیق کے ذریعے افکار و اذہان کی دنیا میں صالح انقلاب پیدا کیا آپکی زندگی کا ہر ورق ورق پاکیزہ، قابل رشک اور لائق اتباع ہے آپ نے بہر صورت مسلمان سے چھوٹے بڑے کافرق مٹانے کی مکمل کوشش کی ہے، چونکہ آپ تعلیمات محمدیہ اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے نظریہ اتحاد کے سچے پیروکار تھے۔
آپ مسلمانوں کے بیچ اسلامی مساوات کے کس درجہ قائل تھے اور کتنے کوشاں رہتے تھے اس کا اندازہ آپ کی حیات مبارکہ کے تابندہ نقوش اور اس تاریخی واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو آپ کے مساویانہ نظریہ پر ایک مسلٍّم دلیل ہے،ایک صاحب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اعلیٰ حضرت بھی کبھی کبھی ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ اُن کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بے چارہ غریب مسلمان ٹوٹی ہوئی پرانی چارپائی پر جو صحن کے کنارے پڑی تھی جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحبِ خانہ نے نہایت کڑوے تیوروں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جھکائے اٹھ کر چلا گیا۔ اعلیٰ حضرت کو صاحبِ خانہ کی اس روش سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں ، کچھ دنوں بعد وہ صاحب اعلیٰ حضرت کے یہاں آئے تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر جگہ دی۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش حجام اعلیٰ حضرت کا خط بنانے کے لئے آئے، وہ اس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں ؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: بھائی کریم بخش! کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان صاحب کے قریب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ کریم بخش حجام ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر نواب صاحب کے غصے کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پھنکاریں مارتا ہے،اور فوراً اٹھ کر چلے گئے پھر کبھی نہ آئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/ 108)
اس واقعہ کے بعد آپکی زندگی کا یہ خو شگوار پہلو عیاں اور بیاں ہے کہ آپ اسلامی مساوات کے حقیقی داعی تھے، بالآخر آپکی برگزیده شخصیت پورے معاشرے کے لئے ایک آئیڈیئل ہے، آج ضرورت اس امرکی ہے کہ آپکے ماننے والے چاہنے والے تمام مسلمان اس خوش فکر نظریہ کو اپنائیں تاکہ موجودہ خانہ جنگی کے شکار سماج سے متکبرانہ مغرورانہ روش، ذاتی عصبیت، علاقائی مفاخرت، لسانی تفاوت کا خاتمہ ہوکر ان سب چیزوں کا سد باب بھی ہو سکے، چونکہ آپ نے ہمیشہ انسانوں کے غموں کا مداوا کیا ہے سماج کے ہر ایک شخص خواہ غریب ہو یا امیر ہو سب کو آپ ایک نظر سے دیکھتے تھے آپ نے معاشرہ میں ہمدری بھائی چارگی، آپسی الفت و محبت مودت پیدا کرنے کے لئے اسلامی اخوت و بھائی چارگی درد مندی داد رسی، اور اسلامی رواداری اور اسلامی مساوات کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک اَخلاق میں برائی کو بھلائی سے ٹال دینے کی انتہائی عالی شان مثالیں موجود ہیں ،ان میں سے یہاں دو واقعات ملاحظہ ہوں ،
(1) حضرت عبداللہ بن عبید رَضِی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں :جب (غزوہِ اُحد میں ) رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے والے مبارک دانت شہید ہوئے اور آپ کا چہرہِ انور لہو لہان ہو گیا تو عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! آپ ان کافروں کے خلاف دعا فرمائیں ۔تب تا جدارِ رسالت نے کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے طعنے دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے دعوت دینے والا اور رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے پھر آپ نے دعا فرمائی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو دین ِاسلام کی ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے جانتے نہیں (شعب الایمان،الرابع عشر من شعب الایمان) حضرت علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس حدیث ِپاک پر غور کرو کہ اس میں کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسنِ خُلق،بے انتہا صبر اور حِلم جیسے اَوصاف جمع ہیں کیونکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صرف ان سے خاموشی اختیار کرنے پر ہی اِکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان زخم دینے والوں کو معاف بھی فرما دیا،پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لئے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کو ہدایت دے ، پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرمادیا کہ یہ میری قوم ہے ،پھر ان کی طرف سے عذر بیان فر ما دیا کہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔ بد کریں ہر دم برائی تم کہو ان کا بھلا ہو۔۔
(2) حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں ایک مرتبہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے مو ٹے تھے، اتنے میں ایک اَعرابی مِلا اور اس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر کو پکڑ کر بڑے زور سے کھینچا یہاں تک کہ میں نے حضور اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کندھے پر زور سے چادر کھینچے جانے کی وجہ سے رگڑ کا نشان دیکھا۔ اس اَعرابی نے کہا :اے محمد! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ نے جو مال آپ کو دیا ہے وہ میرے ان اونٹوں پر لاد دو کیونکہ آپ نہ مجھے اپنے مال سے دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے والد کے مال سے دیتے ہیں ۔سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے اور صرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے اور میں تو ا س کا بندہ ہوں ،پھر ارشاد فرمایا کہ اے اَعرابی: کیا تم سے اس کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ؟اس نے عرض کی :نہیں ۔ارشاد فرمایا ’کیوں نہیں ؟اَعرابی نے عرض کی :کیونکہ آپ کی یہ عادتِ کریمہ ہی نہیں کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے لیں ۔اس کی یہ بات سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور ارشاد فرمایا: ’اس کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کوکھجور سے بھر دو۔
دین اسلام کی شاہکار تعلیم:
• ترجمہ- اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی وہ اس وقت ایسا ہو جائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔ اس آیت کریمہ کے ترجمے سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں مسلمانوں کو اَخلاقیات کی انتہائی اعلیٰ، جامع اور شاہکار تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کو بھلائی سے ٹال دو جیسے کسی کی طرف سے تکلیف پہنچنے تو اس پر صبر کرو ، کوئی جہالت اور بیوقوفی کا برتاؤ کرے تو اس پر حِلم و بُردباری کا مظاہرہ کرو اور اپنے ساتھ بد سلوکی ہونے پر عَفْوْ و در گُزر سے کام لو، اسی سے متعلق یہاں دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں۔
(1) حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی اور عرض کی کہ مجھے افضل اعمال کے بارے میں بتائیے۔ارشاد فرمایا’جو تجھے محروم کرے تم اسے عطا کرو،جو تم سے رشتہ داری توڑے تم اس کے ساتھ رشتہ داری جوڑو اورجو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔
(2) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مال میں کوئی کمی نہیں کرتا اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ یعنی صدقے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت وغیرہ کے ذریعے اضافہ کرتا ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود کسی کا قصور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں بلندی عطا فرماتا ہے۔
اعلی حضرت سرکار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توحید و رسالت کا معترف بناتے ہوئے امن و سکون کی زندگی گزارنے کاسلیقہ اور طریقہ دونوں سکھایا ہے آج اگر موجودہ دور میں اس پر عمل کریں تو مکمل معاشرہ جہالت و لاعلمی کے دلدل سے نکل کر عروج و ارتقاء کی نئی نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے نیز آنے والی نسلوں کے لئے بھی فلاح وظفر لائق تقلید تاریخ مرتب کرسکتا ہے۔ حضورسیدنا سرکار اعلی حضرت رضی المولی عنہ کا پیغام یہی ہے کہ امن وسلامتی صلہ رحمی انسانی دوستی باہمی اتحاد و اتفاق، کے درس کو عام کیا جائے اور آپسی صلح، باہمی محبت کا ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ جس سے صرف اور صرف ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی اصلاح و تریبت کی فضا پرامن طریقے سے ہموار ہو اور دیگر اقوام بھی حلقہ اسلام میں جوق در جوق شامل ہوں۔۔ہَم امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کے امن بخش ارشادات و فرمودات کی تبلیغ و ارسال کی جانب توجہ مبذول کرنے اور امام اہل سنت اعلی حضرت کے ناچاہنے والوں کو کشادہ قلبی کے ساتھ آپکی سیرت طیبہ پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ آپکے علمی، فقہی، روحانی، فیوض وبرکات سے مالامال ہوسکیں۔
ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف ضلع ہردوئی، یوپی
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی المولی عنہ کی شخصیت محتاج متعارف نہیں ۔آپ بوقت ظہر بروز شنبہ 10 شوال المکرّم 1272ھجری/ میں محلہ جسولی بریلی شریف میں پیدا ہوئے،اور 1340ھجری: 25/ صفرالمظفر بروزجمعہ آپ کا وصال پرملال ہوا۔ بلاشبہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کو آج پوری دنیا میں بخوبی جانا جاتا ہے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے پایاں علم وفضل فکر و دانش اور حکمت و تدبر سے نوازا تھا، دنیا ئے اسلام کے آپ ایک عظیم سپوت تھے، اور اسلام کی ہرجماعت آپکے علمی فقہی کمالات و خدمات نیز آپکے فقہی و اجتہادی طرزبیان کی کَل بھی معترف تھی اورآج بھی ہرصغیر و کبیر کو اعتراف حقیقت ہے، مگر اپنے تو اپنے ہیں غیروں کو بھی اعتراف ہے۔ آپ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے،آپ رسول پاک کے ہر قول و فعل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نظرآتے تھے۔
علامات محبت کیا ہے • علماءِ کرام نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلّم نے محبت کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ،اُن میں سے [ 8] علامات درج ذیل ہیں :
(1) اقوال اور افعال میں حضور کی پیروی کرنا یعنی سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جو کام کرنے کا حکم دیا انہیں کرنا اور جن سے منع کیا ان سے رک جانا نیز رسول پاک کی سنتوں پر عمل کرنا۔(2) حضور نے جس عمل کی ترغیب دی اسے اپنی نَفسانی اور شَہوانی خواہشات پر ترجیح دینا۔ (3) بکثرت نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذکرِ جمیل کرنا اور آپ پر درود شریف پڑھنا اور آپ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنا۔(4 ) ذکرِ حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وقت تعظیم و تَوقیر بجا لانا اور اسمِ گرامی سن کر اِنکساری کا اظہار کرنا۔(5) جس سے سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ محبت رکھتے ہوں اس سے بھی محبت کرنا۔(6) جس چیز سے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دشمنی رکھی اس سے دشمنی رکھنا اور جس سے عداوت رکھی اس سے کنارہ کشی کرنا۔ (7) قرآنِ مجید سے محبت رکھنا۔
(8) رسول اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت کے ساتھ شفقت و مہربانی سے پیش آنا۔
یہ سچ اور حقیقت ہے کہ اہل سنت کی بے نظیر خدمات کے باعث اہل سنت والجماعت کو مسلک اعلی حضرت سے منسوب کردیا گیا ہے مبنی بر حقیقت جملے کو اگر آپ کے دور میں اٹھنے والی متعدد باطل نظریات کے پیش نظر سمجھا جائے تو کسی بھی طرح کا کوئی خلجان باقی نہیں رہےگا، الغرض اعلی حضرت کا پیغام، اسلام و احکام قرآنیہ اور سنت رسول اللہ کی ترویج و اشاعت ہے، اور اسی کو اپنی زندگی کا خاص مقصد سمجھتے تھے، اس لئے آپ نے اپنے اور اغیار کے مابین اسلام کی حقیقی اور بنیادی تعلیم پہنچانے کے لئے کسی بھی طرح اور کسی بھی حال میں گریز نہیں کیا،اس جہان آب وگل میں آپ کل 68/ سال تک قیام پذیر رہے اپنی اس قلیل عمر میں جو علمی فقہی، اصلاحی اور تجدیدی کارنامے انجام دیئے، وہ ایک حیرت انگیز اور ناقابل فراموش کارنامے رہتی دنیا تک ہمارے لئے مشعل راہ رہیں گے، آپ کیا تھے؟اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایک دفتر بھی نا کافی ہوگا،آپکی فقہیانہ اور عالمانہ شان و شوکت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ پچاس سے زائد علوم و فنون پر کامل عبور رکھتے تھے،اور کم وبیش آپ نے 900/ نو سو سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں۔جن میں فتاوی رضویہ 12/ جلدوں پر مشتمل ہے اور ہر جلد کی ضخامت تقریباً ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے آپ نے اپنے تفکر و تدبر سے ایک عہد کو متاثر کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ تحقیق و تدقیق کے ذریعے افکار و اذہان کی دنیا میں صالح انقلاب پیدا کیا آپکی زندگی کا ہر ورق ورق پاکیزہ، قابل رشک اور لائق اتباع ہے آپ نے بہر صورت مسلمان سے چھوٹے بڑے کافرق مٹانے کی مکمل کوشش کی ہے، چونکہ آپ تعلیمات محمدیہ اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے نظریہ اتحاد کے سچے پیروکار تھے۔
آپ مسلمانوں کے بیچ اسلامی مساوات کے کس درجہ قائل تھے اور کتنے کوشاں رہتے تھے اس کا اندازہ آپ کی حیات مبارکہ کے تابندہ نقوش اور اس تاریخی واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے، جو آپ کے مساویانہ نظریہ پر ایک مسلٍّم دلیل ہے،ایک صاحب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اعلیٰ حضرت بھی کبھی کبھی ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ اُن کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بے چارہ غریب مسلمان ٹوٹی ہوئی پرانی چارپائی پر جو صحن کے کنارے پڑی تھی جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحبِ خانہ نے نہایت کڑوے تیوروں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جھکائے اٹھ کر چلا گیا۔ اعلیٰ حضرت کو صاحبِ خانہ کی اس روش سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں ، کچھ دنوں بعد وہ صاحب اعلیٰ حضرت کے یہاں آئے تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر جگہ دی۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش حجام اعلیٰ حضرت کا خط بنانے کے لئے آئے، وہ اس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں ؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: بھائی کریم بخش! کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان صاحب کے قریب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ کریم بخش حجام ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر نواب صاحب کے غصے کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پھنکاریں مارتا ہے،اور فوراً اٹھ کر چلے گئے پھر کبھی نہ آئے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/ 108)
اس واقعہ کے بعد آپکی زندگی کا یہ خو شگوار پہلو عیاں اور بیاں ہے کہ آپ اسلامی مساوات کے حقیقی داعی تھے، بالآخر آپکی برگزیده شخصیت پورے معاشرے کے لئے ایک آئیڈیئل ہے، آج ضرورت اس امرکی ہے کہ آپکے ماننے والے چاہنے والے تمام مسلمان اس خوش فکر نظریہ کو اپنائیں تاکہ موجودہ خانہ جنگی کے شکار سماج سے متکبرانہ مغرورانہ روش، ذاتی عصبیت، علاقائی مفاخرت، لسانی تفاوت کا خاتمہ ہوکر ان سب چیزوں کا سد باب بھی ہو سکے، چونکہ آپ نے ہمیشہ انسانوں کے غموں کا مداوا کیا ہے سماج کے ہر ایک شخص خواہ غریب ہو یا امیر ہو سب کو آپ ایک نظر سے دیکھتے تھے آپ نے معاشرہ میں ہمدری بھائی چارگی، آپسی الفت و محبت مودت پیدا کرنے کے لئے اسلامی اخوت و بھائی چارگی درد مندی داد رسی، اور اسلامی رواداری اور اسلامی مساوات کو فروغ دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک اَخلاق میں برائی کو بھلائی سے ٹال دینے کی انتہائی عالی شان مثالیں موجود ہیں ،ان میں سے یہاں دو واقعات ملاحظہ ہوں ،
(1) حضرت عبداللہ بن عبید رَضِی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں :جب (غزوہِ اُحد میں ) رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے والے مبارک دانت شہید ہوئے اور آپ کا چہرہِ انور لہو لہان ہو گیا تو عرض کی گئی: یا رسولَ اللہ! آپ ان کافروں کے خلاف دعا فرمائیں ۔تب تا جدارِ رسالت نے کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا’بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے طعنے دینے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ مجھے دعوت دینے والا اور رحمت فرمانے والا بنا کر بھیجا ہے پھر آپ نے دعا فرمائی اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، میری قوم کو دین ِاسلام کی ہدایت دے کیونکہ وہ مجھے جانتے نہیں (شعب الایمان،الرابع عشر من شعب الایمان) حضرت علامہ قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اس حدیث ِپاک پر غور کرو کہ اس میں کس قدر فضیلت، درجات، احسان، حسنِ خُلق،بے انتہا صبر اور حِلم جیسے اَوصاف جمع ہیں کیونکہ حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صرف ان سے خاموشی اختیار کرنے پر ہی اِکتفا نہیں فرمایا بلکہ ان زخم دینے والوں کو معاف بھی فرما دیا،پھر شفقت و محبت فرماتے ہوئے ان کے لئے یہ دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، ان کو ہدایت دے ، پھر اس شفقت و رحمت کا سبب بھی بیان فرمادیا کہ یہ میری قوم ہے ،پھر ان کی طرف سے عذر بیان فر ما دیا کہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔ بد کریں ہر دم برائی تم کہو ان کا بھلا ہو۔۔
(2) حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں ایک مرتبہ حضورِ اَنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ کے اوپر ایک نجرانی چادر تھی جس کے کنارے مو ٹے تھے، اتنے میں ایک اَعرابی مِلا اور اس نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی چادر کو پکڑ کر بڑے زور سے کھینچا یہاں تک کہ میں نے حضور اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کندھے پر زور سے چادر کھینچے جانے کی وجہ سے رگڑ کا نشان دیکھا۔ اس اَعرابی نے کہا :اے محمد! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ تعالیٰ نے جو مال آپ کو دیا ہے وہ میرے ان اونٹوں پر لاد دو کیونکہ آپ نہ مجھے اپنے مال سے دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے والد کے مال سے دیتے ہیں ۔سیّد العالَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خاموش رہے اور صرف اتنا فرمایا کہ مال تو اللہ تعالیٰ کا ہی ہے اور میں تو ا س کا بندہ ہوں ،پھر ارشاد فرمایا کہ اے اَعرابی: کیا تم سے اس کا بدلہ لیا جائے جو تم نے میرے ساتھ سلوک کیا ؟اس نے عرض کی :نہیں ۔ارشاد فرمایا ’کیوں نہیں ؟اَعرابی نے عرض کی :کیونکہ آپ کی یہ عادتِ کریمہ ہی نہیں کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے لیں ۔اس کی یہ بات سن کر سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسکرا دئیے اور ارشاد فرمایا: ’اس کے ایک اونٹ کو جَو سے اور دوسرے کوکھجور سے بھر دو۔
دین اسلام کی شاہکار تعلیم:
• ترجمہ- اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ برائی کو بھلائی کے ساتھ دور کردو تو تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی ہوگی وہ اس وقت ایسا ہو جائے گا کہ جیسے وہ گہرا دوست ہے۔ اس آیت کریمہ کے ترجمے سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں مسلمانوں کو اَخلاقیات کی انتہائی اعلیٰ، جامع اور شاہکار تعلیم دی گئی ہے کہ برائی کو بھلائی سے ٹال دو جیسے کسی کی طرف سے تکلیف پہنچنے تو اس پر صبر کرو ، کوئی جہالت اور بیوقوفی کا برتاؤ کرے تو اس پر حِلم و بُردباری کا مظاہرہ کرو اور اپنے ساتھ بد سلوکی ہونے پر عَفْوْ و در گُزر سے کام لو، اسی سے متعلق یہاں دو اَحادیث بھی ملاحظہ ہوں۔
(1) حضرت عقبہ بن عامر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :میں نے رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملاقات کی اور عرض کی کہ مجھے افضل اعمال کے بارے میں بتائیے۔ارشاد فرمایا’جو تجھے محروم کرے تم اسے عطا کرو،جو تم سے رشتہ داری توڑے تم اس کے ساتھ رشتہ داری جوڑو اورجو تم پر ظلم کرے تم اسے معاف کر دو۔
(2) حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مال میں کوئی کمی نہیں کرتا اور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے عاجزی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرمائے گا۔ یعنی صدقے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت وغیرہ کے ذریعے اضافہ کرتا ہے اور بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود کسی کا قصور معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ بندے کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں بلندی عطا فرماتا ہے۔
اعلی حضرت سرکار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے توحید و رسالت کا معترف بناتے ہوئے امن و سکون کی زندگی گزارنے کاسلیقہ اور طریقہ دونوں سکھایا ہے آج اگر موجودہ دور میں اس پر عمل کریں تو مکمل معاشرہ جہالت و لاعلمی کے دلدل سے نکل کر عروج و ارتقاء کی نئی نئی بلندیوں کو چھو سکتا ہے نیز آنے والی نسلوں کے لئے بھی فلاح وظفر لائق تقلید تاریخ مرتب کرسکتا ہے۔ حضورسیدنا سرکار اعلی حضرت رضی المولی عنہ کا پیغام یہی ہے کہ امن وسلامتی صلہ رحمی انسانی دوستی باہمی اتحاد و اتفاق، کے درس کو عام کیا جائے اور آپسی صلح، باہمی محبت کا ایسا ماحول تیار کیا جائے کہ جس سے صرف اور صرف ملت اسلامیہ ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کی اصلاح و تریبت کی فضا پرامن طریقے سے ہموار ہو اور دیگر اقوام بھی حلقہ اسلام میں جوق در جوق شامل ہوں۔۔ہَم امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کے امن بخش ارشادات و فرمودات کی تبلیغ و ارسال کی جانب توجہ مبذول کرنے اور امام اہل سنت اعلی حضرت کے ناچاہنے والوں کو کشادہ قلبی کے ساتھ آپکی سیرت طیبہ پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں تاکہ آپکے علمی، فقہی، روحانی، فیوض وبرکات سے مالامال ہوسکیں۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:- محمد قمرانجم قادری فیضی