مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مسلمانوں کا ایمان اور مسلمانوں کی جان
مسلمانوں کا ایمان اور مسلمانوں کی جان
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
(1)سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا اور آٹھ اکتوبر سے آج تک اسرائیل فلسطینی شہریوں کو مختلف طریقوں سے ہلاک کر رہا ہے۔یورپ وایشیا اور افریقہ وامریکہ میں آج تک مظاہرے جاری ہیں۔26:فروری 2024 کو امریکی فضائیہ کے ایک فوجی(ایرون بشنیل) نے امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانہ کے باہر خود کو آگ لگا کر ہلاک کر لیا اور کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بے قصور عام فلسطینی شہریوں کی نسل کشی بند کی جائے۔اس عیسائی فوجی نے احتجاج کا یہ انوکھا طریقہ اختیار کیا اور خود کو ہلاک کر لیا۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے،لیکن 57:مسلم ممالک نہ متحد ہو سکے اور نہ ہی تمام مسلم ممالک اسرائیل سے سیاسی وتجارتی تعلقات ختم کر سکے۔اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ کو سمجھنا برصغیر کے مسلمانوں کو مشکل نہیں ہونا چاہئے۔اس کی اصل وجہ اپنے دنیاوی مفادات کا تحفظ اور ایمان کی کمزوری ہے۔
دیوبندی اکابرین نے صریح کفریات بکا۔جو کتابیں سنی حنفی علما پڑھتے ہیں،وہی کتابیں دوبندی مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔اکابر دیوبند کے کفریات کو دیکھ کر سنی علمائے کرام نے دیوبندیوں کو کافر ومرتد مان لیا،لیکن دیوبندی مدارس کے فارغین اپنے ان اکابر کو صالح ومتقی اور غوث وقطب مانتے رہے۔اگر وہ اپنے اکابر کو کافر ومرتد مان لیتے تو دیوبندی مدارس ومساجد کے دروازے ان کے لئے بند ہو جاتے اور فارغین مدارس کے پاس کسب معاش کا کوئی ہنر نہیں ہوتا ہے۔ایسی صورت میں حصول معاش کے لئے انہیں بڑی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا۔وہ ایمان کی کمزوری کے سبب پریشانیوں کو قبول نہ کر سکے اور اپنا ایمان اور امت مسلمہ کا ایمان تباہ وبرباد کر بیٹھے۔یہی حال مسلم ممالک کا ہے۔
جس طرح اکابر دیوبند اپنی جماعت میں سب سے زیادہ مذہبی اثر ورسوخ والے تھے،اسی طرح امریکہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی اثر ورسوخ والا ہے۔امریکہ اسرائیل کی حمایت میں ہے۔مسلم ممالک اپنے مفادات کے تحفظ اور ہمت وجرأت کی کمی کے سبب امریکہ سے تعلقات منقطع کرنا نہیں چاہتے۔
مذہبی امور کے ذمہ داران عام مسلمانوں کا ایمان نہ بچا سکے۔اسی طرح سیاسی دنیا کے ذمہ داران عام مسلمانوں کی جان نہ بچا سکے۔
(2)برصغیر کے اہل سنت وجماعت کے بعض افراد سے غلطیاں صادر ہوئیں اور ان کو توبہ کی ترغیب دینے کی بجائے بعض اہل علم نے ان غلطیوں کی تاویل شروع کر دی،حالاں کہ توبہ کے ذریعہ معاملہ فورا ختم ہو جاتا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ)
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس کا کوئی گناہ نہیں۔
(3)بعد فراغت طویل مدت تک ساؤتھ انڈیا میں رہنے کے سبب اور باہمی اختلافات سے کنارہ کشی کے سبب مجھے بہت سی باتوں کا علم نہیں تھا،نہ مشاہداتی علم تھا اور نہ ہی اخباراتی علم۔
اب مجھے معلوم ہوا کہ بھارت میں اہل سنت وجماعت کے طبقاتی اختلافات اس حد تک ترقی پذیر ہیں کہ ایک طبقہ کا کوئی فرد گزر جائے تو دوسرے طبقہ کے لوگ تعزیتی تحریر بھی نہیں لکھتے۔کوئی اس طریق کار کو احتیاط کہے یا تصلب کہے۔مجھے محض شرعی اصول وضوابط کے مطابق ایک بات رقم کرنی ہے۔
شریعت اسلامیہ کا اصول ہے کہ مثلاً زید سے بدعت وضلالت صادر ہوئی۔اسے خود معلوم ہے کہ یہ قول وفعل بدعت وضلالت ہے یا معتمد ومستند علمائے حق نے اسے بتا دیا کہ یہ قول وفعل بدعت وضلالت ہے اور سب کچھ جان کر بھی اس نے توبہ نہ کی تو وہ معذور نہیں،پھر بکر کو زید کی بدعت وضلالت اور جان بجھ کر توبہ نہ کرنے کی حالت کا علم ہے۔اس کے باوجود وہ زید کو بدعتی اور گمراہ نہیں مانتا ہے تو بکر بھی زید کی طرح بدعتی وگمراہ ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا،یعنی بدعت وضلالت کی نحوست یہ ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو حکم شرعی کے دائرہ میں لے آتی ہے جو اس کو ضلالت وبدعت نہ سمجھے۔
مذکورہ بالا اصول کے اعتبار سے کسی جماعت کا نامور فرد ضلالت وبدعت میں مبتلا ہو اور وہ اپنی ضلالت وبدعت سے واقف وآشنا ہو کر توبہ نہ کر سکے تو اس ضلالت کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا،لہذا ذمہ داران ونامور افراد کو حد درجہ احتیاط کرنا چاہئے۔انہیں اصحاب فتویٰ سے تاویل نہیں دریافت کرنی چاہیے،بلکہ یہ دریافت کرنا چاہئے کہ ہمارے قول وفعل پر توبہ کی گنجائش ہے تو مجھے توبہ کا حکم دیا جائے،تاکہ میری آخرت محفوظ رہے اور مسلمانوں کا ایمان محفوظ رہے۔
اگر بات بالکل صحیح ہے تو اس پر توبہ کرنا غلط ہے،مثلا ہم نے کہا کہ اللہ ایک ہے۔یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی بات سچ اور نفس الامر کے مطابق ہے۔اس بات سے توبہ کی گنجائش ہی نہیں۔اس بات یعنی توحید الہی کے عقیدہ سے توبہ کی نیت کرتے ہی بندہ کافر ہو جائے گا۔
(4)بہت سے لوگ تعزیت نویسی سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔بعد مردن مجھ سے بھی اللہ تعالی حساب لے گا،خواہ میں متقی رہوں یا گنہ گار۔متقی حضرات کو خطرہ کم ہے اور گنہ گاروں کو خطرہ زیادہ ہے،لہذا میں نے جتنی تعزیتی تحریریں رقم کی ہیں،سب کو منسوخ اور کالعدم کیا۔خواہ صاحب تعزیت پر کوئی حکم شرع ہو یا نہ ہو۔کسی کی موت پر تعزیتی تحریر رقم کرنا واجبات شرعیہ میں سے نہیں۔جس کی تعزیت تحریر کرنے پر شریعت اسلامیہ توبہ کا مطالبہ کرتی ہے،میں نے لوجہ اللہ توبہ کی۔
ان شاء اللہ تعالی آئندہ میں تعزیتی تحریر رقم کرنے سے پرہیز کروں گا۔مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے۔شخصیات حاضرہ سے میرا قوی تعلق بھی نہیں،نیز قبر میں صرف ایک شخصیت کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔
(ما کنت تقول فی شان ہذا الرجل؟)
اس عظیم الشان انسان کی شان میں تم کیا کہتے تھے؟
کائنات عالم کی سب سے عظیم المرتبت اس شخصیت سے ربط و تعلق قوی ومستحکم کر لینا ہی زندگی کی معراج ہے۔
(5)دیوبندیوں کی طرح اہل سنت وجماعت میں بھی تاویل کی گرم بازاری ہے۔اگر اصحاب معاملات توبہ ورجوع کر لیتے تو یہ نوبت ہی نہیں آتی۔بعض زندوں کے بارے میں بھی تاویل کی جاتی ہے اور بعض مردوں کے بارے میں بھی۔تاویل کا بھوت ایسا سوار ہوا ہے کہ جو لوگ توبہ کر چکے ان کے بارے میں بھی تاویل کی جاتی ہے۔
اہل سنت وجماعت کی سنت متوارثہ قدیمہ یعنی توبہ ورجوع کی طرف احباب اہل سنت متوجہ ہوں۔اسی میں بھلائی ہے۔
میری تحریر و تقریر یا قول وفعل میں سے جو امر بھی قابل توبہ ہو،میں نے لوجہ اللہ اس سے توبہ کی۔بعد موت واپسی کی کوئی راہ نہیں اور مردوں کی توبہ قابل قبول نہیں،لہذا میری موت کے بعد بھی میری جس تحریر و تقریر یا قول وفعل سے متعلق حکم شرعی ظاہر ہو کہ اس پر توبہ کا حکم ہے تو اس تحریر و تقریر اور قول وفعل سے آج ہی میں نے لوجہ اللہ توبہ کی۔
اللہم ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم (آمین)
(1)سات اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا اور آٹھ اکتوبر سے آج تک اسرائیل فلسطینی شہریوں کو مختلف طریقوں سے ہلاک کر رہا ہے۔یورپ وایشیا اور افریقہ وامریکہ میں آج تک مظاہرے جاری ہیں۔26:فروری 2024 کو امریکی فضائیہ کے ایک فوجی(ایرون بشنیل) نے امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانہ کے باہر خود کو آگ لگا کر ہلاک کر لیا اور کہا کہ اسرائیل کی جانب سے بے قصور عام فلسطینی شہریوں کی نسل کشی بند کی جائے۔اس عیسائی فوجی نے احتجاج کا یہ انوکھا طریقہ اختیار کیا اور خود کو ہلاک کر لیا۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا میں بہت کچھ ہو رہا ہے،لیکن 57:مسلم ممالک نہ متحد ہو سکے اور نہ ہی تمام مسلم ممالک اسرائیل سے سیاسی وتجارتی تعلقات ختم کر سکے۔اس کی وجہ کیا ہے؟
اس کی وجہ کو سمجھنا برصغیر کے مسلمانوں کو مشکل نہیں ہونا چاہئے۔اس کی اصل وجہ اپنے دنیاوی مفادات کا تحفظ اور ایمان کی کمزوری ہے۔
دیوبندی اکابرین نے صریح کفریات بکا۔جو کتابیں سنی حنفی علما پڑھتے ہیں،وہی کتابیں دوبندی مدارس میں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔اکابر دیوبند کے کفریات کو دیکھ کر سنی علمائے کرام نے دیوبندیوں کو کافر ومرتد مان لیا،لیکن دیوبندی مدارس کے فارغین اپنے ان اکابر کو صالح ومتقی اور غوث وقطب مانتے رہے۔اگر وہ اپنے اکابر کو کافر ومرتد مان لیتے تو دیوبندی مدارس ومساجد کے دروازے ان کے لئے بند ہو جاتے اور فارغین مدارس کے پاس کسب معاش کا کوئی ہنر نہیں ہوتا ہے۔ایسی صورت میں حصول معاش کے لئے انہیں بڑی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑتا۔وہ ایمان کی کمزوری کے سبب پریشانیوں کو قبول نہ کر سکے اور اپنا ایمان اور امت مسلمہ کا ایمان تباہ وبرباد کر بیٹھے۔یہی حال مسلم ممالک کا ہے۔
جس طرح اکابر دیوبند اپنی جماعت میں سب سے زیادہ مذہبی اثر ورسوخ والے تھے،اسی طرح امریکہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی اثر ورسوخ والا ہے۔امریکہ اسرائیل کی حمایت میں ہے۔مسلم ممالک اپنے مفادات کے تحفظ اور ہمت وجرأت کی کمی کے سبب امریکہ سے تعلقات منقطع کرنا نہیں چاہتے۔
مذہبی امور کے ذمہ داران عام مسلمانوں کا ایمان نہ بچا سکے۔اسی طرح سیاسی دنیا کے ذمہ داران عام مسلمانوں کی جان نہ بچا سکے۔
(2)برصغیر کے اہل سنت وجماعت کے بعض افراد سے غلطیاں صادر ہوئیں اور ان کو توبہ کی ترغیب دینے کی بجائے بعض اہل علم نے ان غلطیوں کی تاویل شروع کر دی،حالاں کہ توبہ کے ذریعہ معاملہ فورا ختم ہو جاتا ہے۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ)
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس کا کوئی گناہ نہیں۔
(3)بعد فراغت طویل مدت تک ساؤتھ انڈیا میں رہنے کے سبب اور باہمی اختلافات سے کنارہ کشی کے سبب مجھے بہت سی باتوں کا علم نہیں تھا،نہ مشاہداتی علم تھا اور نہ ہی اخباراتی علم۔
اب مجھے معلوم ہوا کہ بھارت میں اہل سنت وجماعت کے طبقاتی اختلافات اس حد تک ترقی پذیر ہیں کہ ایک طبقہ کا کوئی فرد گزر جائے تو دوسرے طبقہ کے لوگ تعزیتی تحریر بھی نہیں لکھتے۔کوئی اس طریق کار کو احتیاط کہے یا تصلب کہے۔مجھے محض شرعی اصول وضوابط کے مطابق ایک بات رقم کرنی ہے۔
شریعت اسلامیہ کا اصول ہے کہ مثلاً زید سے بدعت وضلالت صادر ہوئی۔اسے خود معلوم ہے کہ یہ قول وفعل بدعت وضلالت ہے یا معتمد ومستند علمائے حق نے اسے بتا دیا کہ یہ قول وفعل بدعت وضلالت ہے اور سب کچھ جان کر بھی اس نے توبہ نہ کی تو وہ معذور نہیں،پھر بکر کو زید کی بدعت وضلالت اور جان بجھ کر توبہ نہ کرنے کی حالت کا علم ہے۔اس کے باوجود وہ زید کو بدعتی اور گمراہ نہیں مانتا ہے تو بکر بھی زید کی طرح بدعتی وگمراہ ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا،یعنی بدعت وضلالت کی نحوست یہ ہے کہ وہ ان تمام لوگوں کو حکم شرعی کے دائرہ میں لے آتی ہے جو اس کو ضلالت وبدعت نہ سمجھے۔
مذکورہ بالا اصول کے اعتبار سے کسی جماعت کا نامور فرد ضلالت وبدعت میں مبتلا ہو اور وہ اپنی ضلالت وبدعت سے واقف وآشنا ہو کر توبہ نہ کر سکے تو اس ضلالت کا دائرہ بہت وسیع ہو جائے گا،لہذا ذمہ داران ونامور افراد کو حد درجہ احتیاط کرنا چاہئے۔انہیں اصحاب فتویٰ سے تاویل نہیں دریافت کرنی چاہیے،بلکہ یہ دریافت کرنا چاہئے کہ ہمارے قول وفعل پر توبہ کی گنجائش ہے تو مجھے توبہ کا حکم دیا جائے،تاکہ میری آخرت محفوظ رہے اور مسلمانوں کا ایمان محفوظ رہے۔
اگر بات بالکل صحیح ہے تو اس پر توبہ کرنا غلط ہے،مثلا ہم نے کہا کہ اللہ ایک ہے۔یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی بات سچ اور نفس الامر کے مطابق ہے۔اس بات سے توبہ کی گنجائش ہی نہیں۔اس بات یعنی توحید الہی کے عقیدہ سے توبہ کی نیت کرتے ہی بندہ کافر ہو جائے گا۔
(4)بہت سے لوگ تعزیت نویسی سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔بعد مردن مجھ سے بھی اللہ تعالی حساب لے گا،خواہ میں متقی رہوں یا گنہ گار۔متقی حضرات کو خطرہ کم ہے اور گنہ گاروں کو خطرہ زیادہ ہے،لہذا میں نے جتنی تعزیتی تحریریں رقم کی ہیں،سب کو منسوخ اور کالعدم کیا۔خواہ صاحب تعزیت پر کوئی حکم شرع ہو یا نہ ہو۔کسی کی موت پر تعزیتی تحریر رقم کرنا واجبات شرعیہ میں سے نہیں۔جس کی تعزیت تحریر کرنے پر شریعت اسلامیہ توبہ کا مطالبہ کرتی ہے،میں نے لوجہ اللہ توبہ کی۔
ان شاء اللہ تعالی آئندہ میں تعزیتی تحریر رقم کرنے سے پرہیز کروں گا۔مجھے اپنی آخرت کی فکر ہے۔شخصیات حاضرہ سے میرا قوی تعلق بھی نہیں،نیز قبر میں صرف ایک شخصیت کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔
(ما کنت تقول فی شان ہذا الرجل؟)
اس عظیم الشان انسان کی شان میں تم کیا کہتے تھے؟
کائنات عالم کی سب سے عظیم المرتبت اس شخصیت سے ربط و تعلق قوی ومستحکم کر لینا ہی زندگی کی معراج ہے۔
(5)دیوبندیوں کی طرح اہل سنت وجماعت میں بھی تاویل کی گرم بازاری ہے۔اگر اصحاب معاملات توبہ ورجوع کر لیتے تو یہ نوبت ہی نہیں آتی۔بعض زندوں کے بارے میں بھی تاویل کی جاتی ہے اور بعض مردوں کے بارے میں بھی۔تاویل کا بھوت ایسا سوار ہوا ہے کہ جو لوگ توبہ کر چکے ان کے بارے میں بھی تاویل کی جاتی ہے۔
اہل سنت وجماعت کی سنت متوارثہ قدیمہ یعنی توبہ ورجوع کی طرف احباب اہل سنت متوجہ ہوں۔اسی میں بھلائی ہے۔
میری تحریر و تقریر یا قول وفعل میں سے جو امر بھی قابل توبہ ہو،میں نے لوجہ اللہ اس سے توبہ کی۔بعد موت واپسی کی کوئی راہ نہیں اور مردوں کی توبہ قابل قبول نہیں،لہذا میری موت کے بعد بھی میری جس تحریر و تقریر یا قول وفعل سے متعلق حکم شرعی ظاہر ہو کہ اس پر توبہ کا حکم ہے تو اس تحریر و تقریر اور قول وفعل سے آج ہی میں نے لوجہ اللہ توبہ کی۔
اللہم ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وتب علینا انک انت التواب الرحیم (آمین)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:05:مارچ 2024
کتبہ:- طارق انور مصباحی
جاری کردہ:05:مارچ 2024