Type Here to Get Search Results !

ظہر و عصر وغیرہ نمازوں میں تاخیر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

(سوال نمبر 5154)
ظہر و عصر وغیرہ نمازوں میں تاخیر کرنے میں کیا حکمت ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ پاکستان میں نماز ظہر کا وقت تقریباً 12 بجے اور عصر وقت تقریباً 3 بجے شروع ھوجاتا ھے مگر ظہر 1.30 بجے عصر 4 بجے ادا کی جاتی ھے تاخیر میں کیا حکمت ھے؟
شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا 
سائلہ:- لائبہ بنت اصغر شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
نماز کے جلدی کرنے کے بارے میں ائمہ کرام کے مذاہب میں اختلاف ہے 
عند الشافعیہ
ہر نماز اول وقت میں پڑھنا افضل ہے 
اورعند الحنفیہ
ظہر کو ٹھنڈا کرکے فجر کو سفید کرکے اور عشاء کو دیر سے پڑھنا مستحب ہے اور عصر میں بھی اتنی تاخیر کرنا کہ سورج میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو افضل ہے
پر یاد رہے عبادات میں اصل یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد ادا کیا جائے البتہ اگر کسی عمل پر شریعتِ مطہرہ نے کوئی زائد فضیلت رکھی ہو تو اس کے پیشِ نظر اس حد تک تاخیر کی جاسکتی ہے کہ وہ عمل مکروہ نہ ہوجائے۔
گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز میں تاخیر اس لیے افضل ہے کہ ظہر کا اول وقت عمومًا گرمی کا ہوتا ہے اوراگر اسے اول وقت میں باجماعت ادا کرلیا جائے تو ممکن ہے کہ کم لوگ جماعت میں شرکت کریں؛ لہذا تکثیرِ جماعت کے پیشِ نظر ظہر میں تاخیر کرنا افضل ہے۔ نیز ٹھنڈے علاقوں میں یا سردی کے موسم میں چوں کہ ظہر کے اول وقت میں ایسی گرمی نہیں ہوتی جو تکثیرِ جماعت کے لیے رکاوٹ بنے؛ لہذا ان مواقع پر تاخیر کرنا افضل نہیں ہے۔ فقہاءِ کرام کے یہاں ظہر کا وقت چوں کہ مثلِ ثانی سے پہلے تک ہے، لہذا اتنی تاخیر نہ کی جائے کہ مثلِ ثانی ہوجائے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ ظہر کی جماعت کے ساتھ نماز کے افضل وقت کی ادائیگی کا معیار 'تکثیرِ جماعت ہے لہذا سردیوں میں اصل کے مطابق جلد پڑھنا افضل ہے جب کہ گرمی کے موسم میں اتنی تاخیر کرکے پڑھنا افضل ہے کہ موسم ٹھنڈا ہوجائے اور لوگ جماعت میں زیادہ شامل ہوں تاہم اتنی تاخیر نہ ہو کہ اختلافی وقت (مثلِ ثانی) داخل ہوجائے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے 
لكن اعترضهم هناك صاحب غاية البيان بأن أئمتنا صرحوا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة و أن ما ذكروه في التيمم مفهوم و الصريح مقدم عليه و قدمنا الكلام عليه ثم فراجعه.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 367)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے 
و تعقبهم الأتقاني في غاية البيان بأنه سهو منهم بتصريح أئمتنا باستحباب تأخير بعض الصلوات بلا اشتراط جماعة.
و أجاب في السراج بأن تصريحهم محمول على ما إذا تضمن التأخير فضيلة وإلا لم يكن له فائدة، فلا يكون مستحبا، وانتصر في البحر للأتقاني بما فيه نظر كما أوضحناه فيما علقناه عليه. والذي يؤيد كلام الشراح أن ما ذكره أئمتنا من استحباب الإسفار بالفجر والإبراد بظهر الصيف معلل بأن فيه تكثير الجماعة وتأخير العصر لاتساع وقت النوافل وتأخير العشاء لما فيه من قطع السمر المنهي عنه، وكل هذه العلل مفقودة في حق المسافر؛ لأنه في الغالب يصلي منفردا، ولا يتنفل بعد العصر، ويباح له السمر بعد العشاء كما سيأتي، فكان التعجيل في حقه أفضل وقولهم كتكثير الجماعة مثال للفضيلة لا حصر فيها."
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 249)
الفتاوى الهندية میں ہے 
و يستحب تأخير الظهر في الصيف و تعجيله في الشتاء.
الفتاوى الهندية (1 / 52)
اشعۃ اللمعات میں ہے 
 امام اعظم ابوحنیفہ ابراد ظہر و اسفار فجر و تاخیر عشاء مستحب است و تاخیر عصر نیز تا آنجا کہ آفتاب تغیرے راہ نیابد‌
(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 289)
فتاوی عالمگیری میں 
 یستحب تأخیر الفجر ولا یؤخر بحیث یقع الشک فی طلوع الشمس و یستحب تأخیر الظہر فی الصیف و تعجیلہ فی الشتاء ہکذا فی الکافی و یستحب تأخیر العصر فی کل زمان مالم تتغیر الشمس و کذا تأخیر العشاء الی ثلث اللیل‘‘ اھ (فتاوی عالمگیری ج۱؍ ص ۵۱؍۵۲)
بہار شریعت میں ہے 
فجر میں تاخیر مستحب ہے یعنی اسفار میں (جب خوب اُجالا ہو یعنی زمین روشن ہو جائے) شروع کرے مگر ایسا وقت ہونا مستحب ہے کہ چالیس سے ساٹھ آیت تک ترتیل کے ساتھ پڑھ سکے پھر سلام پھیرنے کے بعد اتنا وقت باقی رہے،کہ اگر نماز میں فساد ظاہر ہو تو طہارت کرکے ترتیل کیساتھ چالیس سے ساٹھ آیت تک دوبارہ پڑھ سکے۔ جاڑوں کی ظہر میں جلدی مستحب ہے، گرمی کے دنوں میں تاخیر مستحب ہے خواہ تنہا پڑھے یا جماعت کے ساتھ۔ عصر کی نماز میں ہمیشہ تاخیر مستحب ہے مگر نہ اتنی تاخیر کہ خود قرص آفتاب (آفتاب کے گولے) میں زردی آجائے۔ عشا ءمیں تہائی رات تک تاخیر مستحب ہے اور آدھی رات تک تاخیر مباح
یعنی جب کہ آدھی رات ہونے سے پہلے فرض پڑھ چکے ۔ 
(بہار شریعت ج۱؍ ص۴۵۱؍۴۵۲؍ نماز کے وقتوں کا بیان)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
19/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area