(1) کیا شہر یا گاؤں یا محلہ کے مدارس اسلامیہ مکتب مدرسہ دارالعلوم اور جامعہ میں صدقات واجبہ مثلا زکواہ عشرہ فطرہ یا کفارہ قسم دینا اور لینا جائز ہے یا نہیں ہے؟
(2) جس مکتب یا مدرسہ میں بستی ہی کے بچے یا محلہ ہی کے بچے دینی و مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس میں صدقات واجبہ یعنی زکواۃ عشرہ صدقہ فطر قسم کا کفارہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟
(3) کچھ علماء فرماتے ہیں کہ جس مدرسہ میں جاگیر کے بچے نہیں رہتے ہیں اس میں صدقات واجبہ یعنی زکواۃ عشرہ صدقہ فطر دینا جائز نہیں ہے اور کچھ فرمائے ہیں کہ بعد حیلہ شرعی جائز ہے کیا صحیح ہے اس کا خلاصہ جواب عنایت فرمائیں؟
(4)آج کل سب لوگ فتویٰ ہی دیتے رہتے ہیں اور جو دل میں آتا ہے لکھتے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟
(2) جس مکتب یا مدرسہ میں بستی ہی کے بچے یا محلہ ہی کے بچے دینی و مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں اس میں صدقات واجبہ یعنی زکواۃ عشرہ صدقہ فطر قسم کا کفارہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟
(3) کچھ علماء فرماتے ہیں کہ جس مدرسہ میں جاگیر کے بچے نہیں رہتے ہیں اس میں صدقات واجبہ یعنی زکواۃ عشرہ صدقہ فطر دینا جائز نہیں ہے اور کچھ فرمائے ہیں کہ بعد حیلہ شرعی جائز ہے کیا صحیح ہے اس کا خلاصہ جواب عنایت فرمائیں؟
(4)آج کل سب لوگ فتویٰ ہی دیتے رہتے ہیں اور جو دل میں آتا ہے لکھتے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان متین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں ایک مکتب ہے جس میں باہری غریب نادار یتیم طلباء نہیں رہتے ہیں اور نہ مطبخ کا انتظام ہے یعنی دوسرے لفظوں میں کہ جہاں جاگیر کے بچے نہ رہتے ہوں ایسے مکتب یا مدرسہ میں صدقات واجبہ مثلا زکوۃ فطرہ عشرہ کفارہ قسم کفارہ نذر شرعی کے رقوم یا اجناس دینا جائز ہے یا نہیں ؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں باہری جاگیر کے بچے نہ ہوں وہاں صدقات واجبہ دینا جائز نہیں ہے ؟ کیا یہ صحیح ہے
المستفتی:- مولانا جمیل اختر مصباحی ناظم اعلیٰ دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپاشریف مورخہ 22،11،2012
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان متین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں ایک مکتب ہے جس میں باہری غریب نادار یتیم طلباء نہیں رہتے ہیں اور نہ مطبخ کا انتظام ہے یعنی دوسرے لفظوں میں کہ جہاں جاگیر کے بچے نہ رہتے ہوں ایسے مکتب یا مدرسہ میں صدقات واجبہ مثلا زکوۃ فطرہ عشرہ کفارہ قسم کفارہ نذر شرعی کے رقوم یا اجناس دینا جائز ہے یا نہیں ؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں باہری جاگیر کے بچے نہ ہوں وہاں صدقات واجبہ دینا جائز نہیں ہے ؟ کیا یہ صحیح ہے
المستفتی:- مولانا جمیل اختر مصباحی ناظم اعلیٰ دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفے مرپاشریف مورخہ 22،11،2012
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ
الجواب بعون الملک الوہاب
وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا محمد النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللھم زدنی علما بحق سیدنا مولانا محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
ایک ہی ساتھ تمام سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں
علماء کرام فرماتے ہیں کہ ضروریات دین اور فرائض کا سیکھنا فرض ہے ۔اور واجبات کا سیکھنا واجب اور سنتوں کا سیکھنا سنت اور مستحبات کا سیکھنا مستحب ۔اس کے بالمقابل حرام قطعی کا جاننا فرض اور مکروہ تحریمی کا واجب سیکھنے کے لیے علم دین حاصل کرنا ضروری ہے جس کا ایک ذریعہ مکتب یا مدرسہ بھی ہے صحیح حکم یہ ہے کہ مدرسہ یا مکتب یا دارالعلوم یا الجامعۃ مستحقین زکواۃ سے نہیں لیکن بمجبوری علم دین کی بقا و ترقی کے لئے ضرورت و حاجت شرعیہ کے پیش نظر علمائے کرام نے تملیک فقیر کے شرط کے ساتھ ان میں دینے کو جائز فرمایا اور اگر جس مدرسہ کو اس کی ضرورت و حاجت نہیں بلکہ لوگ امداد سے مدرسہ چلا لیتے ہیں وہاں دینا جائز بھی نہیں ہے کہ زکواۃ کے اصل حقدار غرباء ومساکین ہیں حضور سابق آمین شریعت مفتی ہالینڈ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں کے مسلمان اپنی قوت بازو سے جامعہ کا تعاون نہیں کرسکتے ہیں اور اس کو اچھی طرح چلانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں تو اللہ و رسول جل وعلی و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مال بطریق حیلہ شرعی اس کی بقاء اور ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی زکوۃ و فطر وغیرہ صدقات واجبہ کسی نیک و صالح بندہ خدا کو جو مصرف زکوۃ بھی ہو بہ نیت زکواۃ دیکر اس کے ملک کردیا جائے اور وہ بہ نیت ثواب غلہ یا کتابیں وغیرہ (جس جس کی ضرورت جامعہ کو ہو) خرید کر جامعہ کے حوالہ کردے یا بطور چندہ جامعہ کو نقدی دیدے ۔پھر اراکین جامعہ جس طرح اور جس جائز کام میں چاہیں اسے خرچ کریں ۔اس طرح زکواۃ والوں کی زکواۃ بھی ادا ہو جائے گی اور یہ دونوں فریق بھی ثواب کے مستحق ہوں گے۔
وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنا محمد النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللھم زدنی علما بحق سیدنا مولانا محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
ایک ہی ساتھ تمام سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں
علماء کرام فرماتے ہیں کہ ضروریات دین اور فرائض کا سیکھنا فرض ہے ۔اور واجبات کا سیکھنا واجب اور سنتوں کا سیکھنا سنت اور مستحبات کا سیکھنا مستحب ۔اس کے بالمقابل حرام قطعی کا جاننا فرض اور مکروہ تحریمی کا واجب سیکھنے کے لیے علم دین حاصل کرنا ضروری ہے جس کا ایک ذریعہ مکتب یا مدرسہ بھی ہے صحیح حکم یہ ہے کہ مدرسہ یا مکتب یا دارالعلوم یا الجامعۃ مستحقین زکواۃ سے نہیں لیکن بمجبوری علم دین کی بقا و ترقی کے لئے ضرورت و حاجت شرعیہ کے پیش نظر علمائے کرام نے تملیک فقیر کے شرط کے ساتھ ان میں دینے کو جائز فرمایا اور اگر جس مدرسہ کو اس کی ضرورت و حاجت نہیں بلکہ لوگ امداد سے مدرسہ چلا لیتے ہیں وہاں دینا جائز بھی نہیں ہے کہ زکواۃ کے اصل حقدار غرباء ومساکین ہیں حضور سابق آمین شریعت مفتی ہالینڈ حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں کے مسلمان اپنی قوت بازو سے جامعہ کا تعاون نہیں کرسکتے ہیں اور اس کو اچھی طرح چلانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں تو اللہ و رسول جل وعلی و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مال بطریق حیلہ شرعی اس کی بقاء اور ترقی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے یعنی زکوۃ و فطر وغیرہ صدقات واجبہ کسی نیک و صالح بندہ خدا کو جو مصرف زکوۃ بھی ہو بہ نیت زکواۃ دیکر اس کے ملک کردیا جائے اور وہ بہ نیت ثواب غلہ یا کتابیں وغیرہ (جس جس کی ضرورت جامعہ کو ہو) خرید کر جامعہ کے حوالہ کردے یا بطور چندہ جامعہ کو نقدی دیدے ۔پھر اراکین جامعہ جس طرح اور جس جائز کام میں چاہیں اسے خرچ کریں ۔اس طرح زکواۃ والوں کی زکواۃ بھی ادا ہو جائے گی اور یہ دونوں فریق بھی ثواب کے مستحق ہوں گے۔
(فتاویٰ یوروپ ص 280)
مکتب یا مدرسہ یا دارالعلوم۔یا جامعہ یا دراالقرات یا دارالقرآن کہی بھی جہاں بیرونی بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں اس میں صدقات واجبہ بغیر حیلہ شرعی کے صرف کرنا جائز نہیں ہے اور بعد حیلہ شرعی صرف کرنا جائز ہے اگرچہ اس مدرسہ میں بیرونی طلباء رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں جو علماء کہتے ہیں کہ جہاں جاگیر کے بچے نہ رہتے ہیں اس مدرسہ میں صدقات واجبہ دینا جائز نہیں وہ اس عبارت کو غور سے پڑھیں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جہاں جاگیر کے بچے رہتے ہیں اسی مدرسہ میں صدقات واجبہ دینا لینا اور براہ راست خرچ کرنا جائز ہے باقی میں جائز نہیں ہے یہ قول کسی علمائے کرام کا نہیں ہے جو کہتے ہیں وہ غلط مسئلہ بیان کرتے ہیں حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں من افتی بغیر علمہ لعنۃ ملئکتہ السماء والارض یعنی جو بغیر علم کے کوئی حکم شرعی بتائے اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کریں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں افتوا بغیر علم ضلوا واضلوا یعنی بے علم شرعی حکم لگا بیٹھا تو آپ بھی گمراہ ہوئے اور دوسرے کو بھی گمراہ کیا (صحیح البخاری شریف)
اے لوگوں ! آپ لوگوں کو علم شرع نہ معلوم ہے تو علماء سے دریافت کریں اپنے دل سے فتویٰ جاری نہ کریں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
مکتب یا مدرسہ یا دارالعلوم۔یا جامعہ یا دراالقرات یا دارالقرآن کہی بھی جہاں بیرونی بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں اس میں صدقات واجبہ بغیر حیلہ شرعی کے صرف کرنا جائز نہیں ہے اور بعد حیلہ شرعی صرف کرنا جائز ہے اگرچہ اس مدرسہ میں بیرونی طلباء رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں جو علماء کہتے ہیں کہ جہاں جاگیر کے بچے نہ رہتے ہیں اس مدرسہ میں صدقات واجبہ دینا جائز نہیں وہ اس عبارت کو غور سے پڑھیں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ جہاں جاگیر کے بچے رہتے ہیں اسی مدرسہ میں صدقات واجبہ دینا لینا اور براہ راست خرچ کرنا جائز ہے باقی میں جائز نہیں ہے یہ قول کسی علمائے کرام کا نہیں ہے جو کہتے ہیں وہ غلط مسئلہ بیان کرتے ہیں حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں من افتی بغیر علمہ لعنۃ ملئکتہ السماء والارض یعنی جو بغیر علم کے کوئی حکم شرعی بتائے اس پر آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کریں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں افتوا بغیر علم ضلوا واضلوا یعنی بے علم شرعی حکم لگا بیٹھا تو آپ بھی گمراہ ہوئے اور دوسرے کو بھی گمراہ کیا (صحیح البخاری شریف)
اے لوگوں ! آپ لوگوں کو علم شرع نہ معلوم ہے تو علماء سے دریافت کریں اپنے دل سے فتویٰ جاری نہ کریں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون
یعنی علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ہے حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :من افتی بغیر علم کان اثمہ علی من افتاء یعنی جو بغیر علم کے فتوے دے گا تو گناہ اس کا فتویٰ دینے والے ہر ہوگا۔
(ابوداؤد شریف جلد 2ص 159)
خیال رہے کہ جاگیر کے بچے رکھ لینا صدقات واجبہ لینے کا حق دار ہوگیا یہ بالکل خلاف تحقیق بات ہے مدرسہ غیر مستحققین زکوۃ ہے اس لئے ۔مکتب مدرسہ دارالعلوم جامعہ جو بھی ہیں زکوۃ کے مستحق نہیں ہیں خواہ جاگیری بچے رہتے ہوں یا نہیں دیتے ہوں ان تمام ادارے میں بعد حیلہ شرعی ہی خرچ کرنا جائز ہے خواہ باہری بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں ورنہ نہیں
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے کہ :زکوۃ وصدقہ فطر کے اصل مستحققین غرباء و مساکین ہیں ۔لیکن وہ مدرسہ اسلامیہ جن میں خالص اسلامی تعلیم ہوتی ہے دین کی بقا کے لئے ان میں ضرورۃ حیلہ شرعی کے بعد صرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ جاگیر کے بچے رکھ لینا صدقات واجبہ لینے کا حق دار ہوگیا یہ بالکل خلاف تحقیق بات ہے مدرسہ غیر مستحققین زکوۃ ہے اس لئے ۔مکتب مدرسہ دارالعلوم جامعہ جو بھی ہیں زکوۃ کے مستحق نہیں ہیں خواہ جاگیری بچے رہتے ہوں یا نہیں دیتے ہوں ان تمام ادارے میں بعد حیلہ شرعی ہی خرچ کرنا جائز ہے خواہ باہری بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں ورنہ نہیں
فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے کہ :زکوۃ وصدقہ فطر کے اصل مستحققین غرباء و مساکین ہیں ۔لیکن وہ مدرسہ اسلامیہ جن میں خالص اسلامی تعلیم ہوتی ہے دین کی بقا کے لئے ان میں ضرورۃ حیلہ شرعی کے بعد صرف کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
(فتاویٰ فقیہ ملت جلد اول ص308)
کیونکہ جس آیت میں مستحققین زکوٰۃ کا بیان ہے یا
جس حدیث میں ذکر ہے اس میں یہ مدارس نہیں آتے ہیں
سوال ۔مدرسہ کیسے کہتے ہیں،؟
مدرسہ کئی معنی پر مستعمل ہوتا ہے
(1) مدرسہ بفتح را یعنی جگہ پڑھنے اور پڑھانے کی یہ عربی لفظ ہے
(2) مدرسہ اعدادیہ یعنی ہائی اسکول
(3) مدرسہ کلیہ یعنی یونیورسٹی ۔دارالعلوم ۔
(4).مدرسہ امیریہ یعنی گورنمنٹ اسکول
(5) مدرسہ اجزائیہ یعنی دواسازی سکھانے کا اسکول
(6) مدرسۂ الصنائع یعنی آرٹ اسکول دستکاری اسکول یا کالج (لغات کشوری ص 680)
مدرسہ کی جمع مدارس بمعنی مدرسے مکتب درس گاہ اور اصطلاح میں یعنی مسلمانوں کے یہاں مکتب ۔مدرسہ ۔دارالعلوم ۔اور جامعہ اسے کہا جاتا ہے جہاں صرف خالص مذہبی تعلیم ہو
دیکھا آپ نے مدرسہ کا لغوی اعتبار سے اسکول ۔کالج ۔یونیورسٹی ۔دارالعلوم ۔جامعہ ہائی اسکول ۔درس گاہ سب پر اطلاق ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے یہاں مکتب مدرسہ درس گاہ دارالعلوم جامعہ وہ ہے جہاں صرف خالص مذہبی تعلیم ہو مختصر الفاظ میں کہ مکتب مدرسہ دارالعلوم جامعہ اس ادارہ کا نام نہیں ہے جس میں جاگیری طلباء یعنی باہری بچے کا ہونا لازمی و ضروری ہوں یا جس میں مطبخ کا انتظام ہونا ضروری ہو کیونکہ مدرسہ کا اس معنی پر اطلاق نہیں ہوتا ہے بلکہ جس میں محلہ ۔ یا پڑوس یا گاؤں یا شہر یا دوسرے شہر کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہوں اس کا نام مدرسہ ہے خواہ کھانا دیا جائے یا نہیں دیا جائے کیونکہ مدرسہ کا لغوی معنی :, جگہ پڑھنے اور پڑھانے کی ::بس جہاں یہ کام ہورہا ہے وہ مدرسہ ہے اور لوگوں کا یہ کہنا کہ جس مدرسہ میں باہری بچے جاگیر میں نہ رہتے ہوں وہ مدرسہ نہیں ہے بلکہ مکتب ہے یہ سراسر غلط ہے کیونکہ مکتب کا لغوی معنی ہیں کہ :جگہ لکھنے کی جگہ کتاب مجازا مدرسہ ۔اسکول (لغات کشوری ص 732) دیکھا مکتب کا یہ معنی نہیں ہے کہ جہاں جاگیری بچے نہ رہتے ہوں وہ مکتب ہے بلکہ مجازا مدرسہ کو بھی مکتب کہا جاتا ہے اگر جاگیری ہی بچے کی قید ہوتو باہری بچے ہی کو کیوں جاگیر کے بچے مراد لیا جائے گا ؟
کیا گاؤں کے بچے کو مفت کھانا دیا جائے وہ جاگیری بچے نہیں کہلائیں گے ؟
جاگیر کا معنی ۔قطعہ زمین جو سرکار سے ملے ۔جاگیردار یعنی جس کو جاگیر ملی ہو ۔یہ فارسی لفظ ہے (لغات کشوری ص 184) یعنی جس کو سرکاری زمین ملے وہ جاگیر ہے اصطلاح میں کسی نے اپنے مزدور کو زمین مفت کھیتی کرنے کو دیا وہ بھی جاگیری مزدور کہلاتا ہے اور مزدور خواہ اسی گاؤں کا رہنے والا ہو یا باہر سے آکر مزدوری کرتا ہو اس لحاظ سے جاگیری بچے کی تعریف ہی غلط کیا جاتا ہے کہ جاگیری وہ بچے ہیں جو باہر سے آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ سراسر غلط تعریف ہے بلکہ گاؤں کے بچے کو بھی مدرسہ میں رکھ کر یا نہ رکھ کر صرف مفت کھانا دیا جائے یا نقدی وظیفہ دیا جائے یہ بھی جاگیری بچے کہلانے کے مستحق ہوں گے خلاصہ یہ معلوم ہوا کہ مدرسہ میں یا مکتب میں یا دارالعلوم میں مفت کھانا دیا جائے یا وظیفہ دیا جائے اور تعلیم دی جائے خواہ وہ بچے باہری ہو یا گاؤں علاقہ کے ہو وہ سب جاگیری بچے ہیں یہ قید نہیں ہے کہ مکتب کا معنی یہ ہے کہ جہاں گاؤں کے بچے پڑھتے ہو یا مدرسہ کا یہ معنی ہے کہ جہاں باہری بچے رہتے ہوں یہ تعریف لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے صحیح نہیں ہے
حضور شارح بخاری فقیہ الہند مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ و فطرہ کی رقم حیلہ شرعی کرکے دینی مدارس میں صرف کی جائے ۔حیلہ شرعی کے بعد یہ رقوم مدرسہ کی ہر مرد میں صرف کی جاسکتی ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس میں یتیم و نادار بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں۔
کیونکہ جس آیت میں مستحققین زکوٰۃ کا بیان ہے یا
جس حدیث میں ذکر ہے اس میں یہ مدارس نہیں آتے ہیں
سوال ۔مدرسہ کیسے کہتے ہیں،؟
مدرسہ کئی معنی پر مستعمل ہوتا ہے
(1) مدرسہ بفتح را یعنی جگہ پڑھنے اور پڑھانے کی یہ عربی لفظ ہے
(2) مدرسہ اعدادیہ یعنی ہائی اسکول
(3) مدرسہ کلیہ یعنی یونیورسٹی ۔دارالعلوم ۔
(4).مدرسہ امیریہ یعنی گورنمنٹ اسکول
(5) مدرسہ اجزائیہ یعنی دواسازی سکھانے کا اسکول
(6) مدرسۂ الصنائع یعنی آرٹ اسکول دستکاری اسکول یا کالج (لغات کشوری ص 680)
مدرسہ کی جمع مدارس بمعنی مدرسے مکتب درس گاہ اور اصطلاح میں یعنی مسلمانوں کے یہاں مکتب ۔مدرسہ ۔دارالعلوم ۔اور جامعہ اسے کہا جاتا ہے جہاں صرف خالص مذہبی تعلیم ہو
دیکھا آپ نے مدرسہ کا لغوی اعتبار سے اسکول ۔کالج ۔یونیورسٹی ۔دارالعلوم ۔جامعہ ہائی اسکول ۔درس گاہ سب پر اطلاق ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے یہاں مکتب مدرسہ درس گاہ دارالعلوم جامعہ وہ ہے جہاں صرف خالص مذہبی تعلیم ہو مختصر الفاظ میں کہ مکتب مدرسہ دارالعلوم جامعہ اس ادارہ کا نام نہیں ہے جس میں جاگیری طلباء یعنی باہری بچے کا ہونا لازمی و ضروری ہوں یا جس میں مطبخ کا انتظام ہونا ضروری ہو کیونکہ مدرسہ کا اس معنی پر اطلاق نہیں ہوتا ہے بلکہ جس میں محلہ ۔ یا پڑوس یا گاؤں یا شہر یا دوسرے شہر کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہوں اس کا نام مدرسہ ہے خواہ کھانا دیا جائے یا نہیں دیا جائے کیونکہ مدرسہ کا لغوی معنی :, جگہ پڑھنے اور پڑھانے کی ::بس جہاں یہ کام ہورہا ہے وہ مدرسہ ہے اور لوگوں کا یہ کہنا کہ جس مدرسہ میں باہری بچے جاگیر میں نہ رہتے ہوں وہ مدرسہ نہیں ہے بلکہ مکتب ہے یہ سراسر غلط ہے کیونکہ مکتب کا لغوی معنی ہیں کہ :جگہ لکھنے کی جگہ کتاب مجازا مدرسہ ۔اسکول (لغات کشوری ص 732) دیکھا مکتب کا یہ معنی نہیں ہے کہ جہاں جاگیری بچے نہ رہتے ہوں وہ مکتب ہے بلکہ مجازا مدرسہ کو بھی مکتب کہا جاتا ہے اگر جاگیری ہی بچے کی قید ہوتو باہری بچے ہی کو کیوں جاگیر کے بچے مراد لیا جائے گا ؟
کیا گاؤں کے بچے کو مفت کھانا دیا جائے وہ جاگیری بچے نہیں کہلائیں گے ؟
جاگیر کا معنی ۔قطعہ زمین جو سرکار سے ملے ۔جاگیردار یعنی جس کو جاگیر ملی ہو ۔یہ فارسی لفظ ہے (لغات کشوری ص 184) یعنی جس کو سرکاری زمین ملے وہ جاگیر ہے اصطلاح میں کسی نے اپنے مزدور کو زمین مفت کھیتی کرنے کو دیا وہ بھی جاگیری مزدور کہلاتا ہے اور مزدور خواہ اسی گاؤں کا رہنے والا ہو یا باہر سے آکر مزدوری کرتا ہو اس لحاظ سے جاگیری بچے کی تعریف ہی غلط کیا جاتا ہے کہ جاگیری وہ بچے ہیں جو باہر سے آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں یہ سراسر غلط تعریف ہے بلکہ گاؤں کے بچے کو بھی مدرسہ میں رکھ کر یا نہ رکھ کر صرف مفت کھانا دیا جائے یا نقدی وظیفہ دیا جائے یہ بھی جاگیری بچے کہلانے کے مستحق ہوں گے خلاصہ یہ معلوم ہوا کہ مدرسہ میں یا مکتب میں یا دارالعلوم میں مفت کھانا دیا جائے یا وظیفہ دیا جائے اور تعلیم دی جائے خواہ وہ بچے باہری ہو یا گاؤں علاقہ کے ہو وہ سب جاگیری بچے ہیں یہ قید نہیں ہے کہ مکتب کا معنی یہ ہے کہ جہاں گاؤں کے بچے پڑھتے ہو یا مدرسہ کا یہ معنی ہے کہ جہاں باہری بچے رہتے ہوں یہ تعریف لغوی اور اصطلاحی اعتبار سے صحیح نہیں ہے
حضور شارح بخاری فقیہ الہند مفتی شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ زکوۃ و فطرہ کی رقم حیلہ شرعی کرکے دینی مدارس میں صرف کی جائے ۔حیلہ شرعی کے بعد یہ رقوم مدرسہ کی ہر مرد میں صرف کی جاسکتی ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس میں یتیم و نادار بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں۔
(ماہنامہ اشرفیہ مئی 1998 ص 6)
اس فتویٰ سے بالکل واضح ہوگیا کہ جس مدرسہ میں غریب یتیم و نادار بچے جاگیر میں رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں اسے مدرسہ کی طرف سے کھانا مفت میں ملتا ہو یا نہ ملتا ہو مدرسہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو وہاں حیلہ شرعی کرکے صدقات واجبہ مثلا زکوہ فظرہ وغیرہ کی رقم یا اجناس حیلہ شرعی کرکے صرف کی جائے یہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ گاؤں کے مکتب میں بعد حیلہ شرعی بھی صرف نہ کیا جائے گا بلکہ یہ ذکر ضرور ہے کہ یہاں بھی بعد حیلہ شرعی صرف کیا جائے گا کیونکہ ظاہر سی بات ہے کہ چھوٹا سے مراد مکتب یا چھوٹا مدرسہ ہے اور بڑا سے مراد دارالعلوم ہے یا بڑا مدرسہ ہے خواہ اس میں یتیم و نادار بچے رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں خلاصہ یہ معلوم ہوگا کہ جہاں یتیم و نادار بچے نہ بھی رہتے ہوں وہاں بعد حیلہ شرعی صدقہ واجبہ خرچ کیا جاسکتا ہے
ایک اور مثال دیکھیں ۔
حضور فقیہ ملت حضور مفتی جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ ۔ایک دینی مدرسہ ہے جس میں غریب طلباء کو کھانے کا انتظام نہیں ہے ۔اس کے باوجود چندہ سے اس کا خرچ پورا نہیں ہوتا ۔لہذا اگر اس میں چرم قربانی ۔زکوۃ ۔غلہ کا عشر ۔اور صدقہ فطر خرچ کرنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہے ؟
الجواب ۔چرم قربانی بغیر حیلہ شرعی کے مدرسہ میں دے سکتے ہیں۔اس لئے کہ قربانی میں تملیک شرط نہیں ۔اور زکوۃ ۔غلہ کا عشر و صدقہ فطر سے اگر اس کی مدد کرنا چاہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ اس قسم کی رقمیں کسی ایسے شخص کو دیدیں جو مالک نصاب نہ ہو ۔اور نہ بنی ہاشم سے ہو ۔ وہ شخص ان رقموں پر قبضہ کرکے پھر اپنی طرف سے وہ مدرسہ میں دے دے اس طرح ثواب دونوں کو ملے گا اور مدرسہ کا کام بھی چل جائے گا۔
ایک اور مثال دیکھیں ۔
حضور فقیہ ملت حضور مفتی جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ ۔ایک دینی مدرسہ ہے جس میں غریب طلباء کو کھانے کا انتظام نہیں ہے ۔اس کے باوجود چندہ سے اس کا خرچ پورا نہیں ہوتا ۔لہذا اگر اس میں چرم قربانی ۔زکوۃ ۔غلہ کا عشر ۔اور صدقہ فطر خرچ کرنا چاہیں تو اس کی کیا صورت ہے ؟
الجواب ۔چرم قربانی بغیر حیلہ شرعی کے مدرسہ میں دے سکتے ہیں۔اس لئے کہ قربانی میں تملیک شرط نہیں ۔اور زکوۃ ۔غلہ کا عشر و صدقہ فطر سے اگر اس کی مدد کرنا چاہیں تو اس کی صورت یہ ہے کہ اس قسم کی رقمیں کسی ایسے شخص کو دیدیں جو مالک نصاب نہ ہو ۔اور نہ بنی ہاشم سے ہو ۔ وہ شخص ان رقموں پر قبضہ کرکے پھر اپنی طرف سے وہ مدرسہ میں دے دے اس طرح ثواب دونوں کو ملے گا اور مدرسہ کا کام بھی چل جائے گا۔
(فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 493)
اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ صدقات واجبہ لینے کے لئے:مطبخ :کا ہونا ضروری نہیں ہے صحیح جواب یہی ہے کہ مکتب ۔دارالعلوم رقوم زکوۃ لینے کا حقدار نہیں اگرچہ اس میں مطبخ ہے بچے کو کھانا ملتا ہے ہاں اگر ان اداروں کے لئے سخت ضرورت و حاجت ہے تو حیلہ شرعی کرنے کے بعد ہی خرچ کرنا جائز ہے خواہ مدرسہ چھوٹا ہے یا بڑا ہے خواہ بچے جاگیر میں رہتے ہوں یا نہ رہتے ہوں
حضور مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی مدرسہ ۔جامعہ ۔انجمن کو زکوۃ و فطر کی رقم اس شرط پر دینی جائز ہے کہ اس کا مہتمم یا سکریٹری اس رقم کو خاص تملیک فقیر مسلم میں صرف کرے کیونکہ ادائے زکواۃ کے لئے کسی مسلمان فقیر یا مسکین کا اس مال زکواۃ پر قبضہ کرنا ضروری (شرط) ہے بالفرض اگر جامعہ کے مہتمم نے مال زکواۃ و فطر سے صرف مطبخ چلایا اور اس کا کھانا فقیر و مسکین طلباء کو کھلاتا رہا پھر بھی زکواۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ کھلانے میں صرف اباحت کی صورت پائی گئی ملکیت کی نہیں اور یہاں ملکیت ضروری ہے۔
حضور مفتی عبد الواجد صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی مدرسہ ۔جامعہ ۔انجمن کو زکوۃ و فطر کی رقم اس شرط پر دینی جائز ہے کہ اس کا مہتمم یا سکریٹری اس رقم کو خاص تملیک فقیر مسلم میں صرف کرے کیونکہ ادائے زکواۃ کے لئے کسی مسلمان فقیر یا مسکین کا اس مال زکواۃ پر قبضہ کرنا ضروری (شرط) ہے بالفرض اگر جامعہ کے مہتمم نے مال زکواۃ و فطر سے صرف مطبخ چلایا اور اس کا کھانا فقیر و مسکین طلباء کو کھلاتا رہا پھر بھی زکواۃ ادا نہیں ہوگی کیونکہ کھلانے میں صرف اباحت کی صورت پائی گئی ملکیت کی نہیں اور یہاں ملکیت ضروری ہے۔
(فتاویٰ یورپ ص 279)
زکواۃ فطرہ عشرہ کے اصل حقدار فقراء ومساکین ہیں مگر اگر کسی دینی خالص مذہبی مدرسہ میں ضرورت شرعیہ ہو تو انہیں بعد تملیک دینی کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت ہے خیال رہے کہ حیلہ شرعی سے دین کے نام پر دنیوی کاموں میں خصوصا ٹیکنیکل و عصری تعلیم میں زکواۃ وغیرہ کی رقم خرچ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ٹیکنیکل و عصری تعلیم ضرورت شرعیہ نہیں بلکہ ان رقم کو غرباء ومساکین کو دیں کہ اصل میں یہی لوگ حقدار ہیں پھر وہ ادارہ جس کے قیام کا اصل مقصد دنیوی تعلیم ہے جس میں دینی تعلیم برائے نام ہے اس میں بھی حیلہ شرعی کا بہانا بناکر خرچ نہ کریں حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اور زکواۃ کی رقم حیلہ شرعی سے دین کے نام پر دنیوی کاموں میں ہر گز خرچ نہ کریں (فتاویٰ برکاتیہ ص 468)
خبردار آج کل رمضان المبارک کے مہینہ میں مدرسہ کے نام پر غلط و جعلی چندہ بھی وصول کیا جاتا ہے اس لئے جن مدارس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ خالص دینی مدرسہ ہے اور وہاں حیلہ شرعی ہی کے بعد رقوم زکواۃ فطرہ عشرہ خرچ کیا جاتا ہے وہی دیں اور جس کا علم قطعی نہ ہو وہاں بالکل نہیں دیں کہ اگر دیا تو آپ پر زکواۃ باقی رہ جائے گی ادا نہ ہوگی پھر سے آپ جو زکواۃنکاکنا ہوگا اور جو وصول کرتے ہیں انہیں واپس کرنا ہوگا*.اگر واپس نہیں کیا تو ان سب کا وبال اس محصل و مدرس پر چل ہوگا جو صدقات واجبہ وصول کرتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ یہاں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کیا جاتا ہے
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زکواۃ فطرہ اور عشر کی رقم کو اگر منتظمین مدرسہ نے بلاحیلہ شرعی مدرسین کی تنخواہ اور کھانے پر خرچہ کیا تو وہ گنہگار ہوئے اور مدرسین نے جان بوجھ کر لیا اور کھایا تو وہ بھی گنہگار ہوئے اور اس طرح زکواۃ وغیرہ بھی ادا نہ ہوئی۔
زکواۃ فطرہ عشرہ کے اصل حقدار فقراء ومساکین ہیں مگر اگر کسی دینی خالص مذہبی مدرسہ میں ضرورت شرعیہ ہو تو انہیں بعد تملیک دینی کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت ہے خیال رہے کہ حیلہ شرعی سے دین کے نام پر دنیوی کاموں میں خصوصا ٹیکنیکل و عصری تعلیم میں زکواۃ وغیرہ کی رقم خرچ کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ٹیکنیکل و عصری تعلیم ضرورت شرعیہ نہیں بلکہ ان رقم کو غرباء ومساکین کو دیں کہ اصل میں یہی لوگ حقدار ہیں پھر وہ ادارہ جس کے قیام کا اصل مقصد دنیوی تعلیم ہے جس میں دینی تعلیم برائے نام ہے اس میں بھی حیلہ شرعی کا بہانا بناکر خرچ نہ کریں حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اور زکواۃ کی رقم حیلہ شرعی سے دین کے نام پر دنیوی کاموں میں ہر گز خرچ نہ کریں (فتاویٰ برکاتیہ ص 468)
خبردار آج کل رمضان المبارک کے مہینہ میں مدرسہ کے نام پر غلط و جعلی چندہ بھی وصول کیا جاتا ہے اس لئے جن مدارس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ خالص دینی مدرسہ ہے اور وہاں حیلہ شرعی ہی کے بعد رقوم زکواۃ فطرہ عشرہ خرچ کیا جاتا ہے وہی دیں اور جس کا علم قطعی نہ ہو وہاں بالکل نہیں دیں کہ اگر دیا تو آپ پر زکواۃ باقی رہ جائے گی ادا نہ ہوگی پھر سے آپ جو زکواۃنکاکنا ہوگا اور جو وصول کرتے ہیں انہیں واپس کرنا ہوگا*.اگر واپس نہیں کیا تو ان سب کا وبال اس محصل و مدرس پر چل ہوگا جو صدقات واجبہ وصول کرتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ یہاں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ کیا جاتا ہے
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زکواۃ فطرہ اور عشر کی رقم کو اگر منتظمین مدرسہ نے بلاحیلہ شرعی مدرسین کی تنخواہ اور کھانے پر خرچہ کیا تو وہ گنہگار ہوئے اور مدرسین نے جان بوجھ کر لیا اور کھایا تو وہ بھی گنہگار ہوئے اور اس طرح زکواۃ وغیرہ بھی ادا نہ ہوئی۔
(فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 494)
اور آج کے دور میں بہت ادارے والے جاگیر کے بچوں سے خوراکی کے نام پر مہینہ وار یعنی سالانہ تیس پینتیس ہزار روپیہ بھی لیتے ہیں اور ان کے والد جمع بھی کرتے ہیں تو اس لحاظ سے ان طلباء پر جاگیری بچے کا اطلاق درست کیسے ہوں گا کہ صدقات واجبہ تو انہیں بچے کے خوراکی کے نام پر وصول کیا جاتا ہے تو پتہ چلا کہ وہ بچے اپنا کھانا کھاتے ہیں نہ کہ مدرسہ کا
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
جس مدارس میں مال زکواۃ طلبہ پر نہیں صرف کیا جاتا اور اراکین مدرسہ بغیر حیلہ شرعی مدرسہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتے ہیں اور زکواۃ دینے والے کو اس بات کا علم ہے تو ایسے مدارس میں زکواۃ دینا جائز نہیں اگر دیا تو تاوان دینا پڑے گا اگر تاوان نہیں دیگا تو گنہگار ہوگا۔
اور آج کے دور میں بہت ادارے والے جاگیر کے بچوں سے خوراکی کے نام پر مہینہ وار یعنی سالانہ تیس پینتیس ہزار روپیہ بھی لیتے ہیں اور ان کے والد جمع بھی کرتے ہیں تو اس لحاظ سے ان طلباء پر جاگیری بچے کا اطلاق درست کیسے ہوں گا کہ صدقات واجبہ تو انہیں بچے کے خوراکی کے نام پر وصول کیا جاتا ہے تو پتہ چلا کہ وہ بچے اپنا کھانا کھاتے ہیں نہ کہ مدرسہ کا
حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
جس مدارس میں مال زکواۃ طلبہ پر نہیں صرف کیا جاتا اور اراکین مدرسہ بغیر حیلہ شرعی مدرسہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتے ہیں اور زکواۃ دینے والے کو اس بات کا علم ہے تو ایسے مدارس میں زکواۃ دینا جائز نہیں اگر دیا تو تاوان دینا پڑے گا اگر تاوان نہیں دیگا تو گنہگار ہوگا۔
(فتاویٰ فیض رسول جلد اول ص 491)
پھر بھی جو چاول گیہوں اثا سبزی زکواۃ سے آتا ہے اس غلہ کو بھی بغیر حیلہ شرعی کے خرچ نہیں کرسکتے نہ طلباء ۔ نہ باورچی اور نہ مدرسین کھاسکتے ہیں اگر کھاتے ہیں تو وہ سب گنہگار ہوگا خواہ وہ مکتب ہو یا مدرسہ یا دارالعلوم یا جامعہ سب میں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ نہیں کرسکتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
پھر بھی جو چاول گیہوں اثا سبزی زکواۃ سے آتا ہے اس غلہ کو بھی بغیر حیلہ شرعی کے خرچ نہیں کرسکتے نہ طلباء ۔ نہ باورچی اور نہ مدرسین کھاسکتے ہیں اگر کھاتے ہیں تو وہ سب گنہگار ہوگا خواہ وہ مکتب ہو یا مدرسہ یا دارالعلوم یا جامعہ سب میں بغیر حیلہ شرعی کے خرچ نہیں کرسکتے۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 23 11.2012 کمپوزنگ تاریخ 26 رمضان المبارک 1443۔28 اپریل 2022۔
ترسیل:- محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی بہار
اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ
اور رکن تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست:- حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی۔
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی۔
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت عالم باوقار حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھوٹونہ نیپال۔
(3) رکن خصوصی۔
جامع معقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف۔
(4) ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی۔
(5) پاسبان مسلک اعلی سراج العلماء حضرت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی۔
(6) رکن سراج ملت حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار۔
(7) پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد زین اللہ خاں ثنائی نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر
(8) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد جیند رضا شارق بتاہی امام جامعہ مسجد کوئلی سیتامڑھی۔
(9) ناصر قوم و ملت ماہر علم و حکمت حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص ایٹہروی کنہولی۔
(10) استاذ الحفاظ ممتاج القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی کچور۔
(11) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی۔
(12)خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھوٹونوی نیپال
ترسیل:- محمد محب اللہ خاں ڈائریکٹر مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتامڑھی بہار
اراکین مفتی اعظم بہار ایجوکیشنل ٹرسٹ
اور رکن تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی مرپا شریف
سرپرست:- حضور توصیف ملت حضور تاج السنہ شیخ طریقت حضرت علامہ مفتی محمد توصیف رضا خان صاحب قادری بریلوی مدظلہ العالی۔
صدر رکن اکیڈمی تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی
شیر مہاراشٹر مفسر قرآن قاضی اعظم مہاراشٹر حضرت علامہ مفتی محمد علاؤ الدین رضوی ثنائی صاحب میرا روڈ ممبئی۔
(2) رکن خصوصی
شیخ طریقت عالم باوقار حضرت علامہ مفتی اہل سنت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شمس الحق رضوی ثنائی کھوٹونہ نیپال۔
(3) رکن خصوصی۔
جامع معقولات و منقولات ماہر درسیات حضرت علامہ مفتی محمد نعمت اللہ قادری بریلوی شریف۔
(4) ناشر مسلک اعلیٰ حضرت عالم علم و حکمت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قمر الزماں یار علوی ثنائی بانی دارالعلوم ملک العلماء گونڈی ممبئی۔
(5) پاسبان مسلک اعلی سراج العلماء حضرت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد سراج احمد مصباحی ممبئی۔
(6) رکن سراج ملت حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار خاں نوری مرپاوی سیتا مڑھی بہار۔
(7) پابند شرع متین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد زین اللہ خاں ثنائی نیتاجی نگر گھاٹکرپر مشرق ممبئی 77 مہاراشٹر
(8) عالم نبیل فاضل جلیل حضرت علامہ مفتی محمد جیند رضا شارق بتاہی امام جامعہ مسجد کوئلی سیتامڑھی۔
(9) ناصر قوم و ملت ماہر علم و حکمت حضرت علامہ مولانا محمد صلاح الدین مخلص ایٹہروی کنہولی۔
(10) استاذ الحفاظ ممتاج القراء حضرت قاری غلام رسول نیر غزالی کچور۔
(11) حضرت مولانا محمد سلیم الدین ثنائی کوئلی مدرس اکڈنڈی سیتامڑھی۔
(12)خطیب ہند و نیپال حضرت علامہ مولانا محمد توقیر رضا صاحب کھوٹونوی نیپال