علمائے کرام سے معاشرے کا رویہ اور ان کی تنخواہیں حصّہ دوم
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ذاتی طور پر کتنے ہی علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کو جانتا ہے جن کی تنخواہ صرف پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے ، حالانکہ یہ وہ اہلِ علم ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف علوم حاصل کرنے میں گذار دیے دوسری جانب سرکاری اداروں کے ایک ناخواندہ ، ناتراش چپراسی کی تنخواہ اور مراعات ان محترم علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے کئی گنا زیادہ ہیں ، اس کے ساتھ بے شمار مراعات ، سہولیات الگ ہیں ، مثلاً علاج معالجہ کی مفت سہولت ، رہائش گاہ، مختلف الاؤنسز ، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور بچوں کی ملازمت وغیرہ وغیرہ ۔ ایک اسلامی مملکت میں جسے دعویٰ ہے کہ وہ ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے ، اس عظیم اسلامی مملکت میں علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی یہ توقیر اور ایک جاہل کی یہ عزت ۔ اکیسویں صدی میں پندرہ بیس ہزار روپے میں گذارا کرنے والے اتنے بڑے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے بڑا درویش صوفی اور اللہ کا ولی کون ہو سکتا ہے ، جو مدرسے اور مسجد کو خیر آباد کہہ کر کسی سرکاری کثیرالقومی ادارے میں ملازمت کرے تو اسے نہایت آرام سے ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ ، شاندار رہائش گاہ ، ائیرکنڈیشنڈ کمرہ ، دیگر بے شمار سہولیات مل سکتی ہیں ۔ کہیں اس سب اسلام سے لوگوں کو دور کرنے کی سوچی سمجھی سازش تو نہیں ؟ ۔ لیکن علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین اپنے مدرسے ، مسجد کو چھوڑ کر کسی سرکاری ادارے ، کارپوریشن یا کسی ملٹی نیشنل میں فرائض انجام دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ اس توکل ، بے نیازی اور دنیا سے بے پروائی کا راز ان کے اس ایمان و یقین میں پوشیدہ ہے جو اسلامی علمیت نے عطا کیا ہے ۔
لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے معاوضے کیوں اتنے کم ہیں ؟ علما اتنے کم معاوضوں کے باوجود شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں ، وہ کبھی ان قلیل معاوضوں پر کوئی احتجاج یا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتے ، آخر کیوں ؟ توکل ، صبر و شکر کی اصطلاحات کا عملی نمونہ کیا عہد حاضر میں ان قلیل المشاہیرہ علما کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے ؟ لوگ درویش ، صوفی ، اللہ کے ولیوں کا پوچھتے ہیں کہ عصر حاضر میں اللہ والے نہیں ملتے ، وہ جا کر ان علما کو دیکھ لیں ، اکثر علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین آپ کو اسی حال میں ملیں گے ۔ یہی علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین جو شب و روز دین کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں ۔ یہ اللہ کے کام میں ایسے مشغول ہیں کہ معاش کمانے کے لیے فرصت نہیں ۔ یہ خود دار ہیں سوالی نہیں ۔ ان علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین سے محبت ، ان کی تقلید ، ان کی خدمت دین کا تقاضا ہے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی ضرورت دین میں شامل ہے ، انہیں دنیا کی مصروفیات ، مشاغل سے فارغ کر کے فارغ البال ، مرفع الحال اور خوش حال رکھنا اس امت کی ذمے داری ہے اور ہر اسلامی حکومت کی اساسی ذمے داری ہے ۔ کیا ہماری ریاست یہ کام کر رہی ہے ؟
اس سلسلے میں ہماری ریاست اور ذمہ داران کیا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ہماری ریاست اور ذمے داروں کا کردار اس وقت نہ تو ایک اسلامی ریاست والا ہے ، نہ ہی لبرل ہے ، یہ تو عوام ہیں جو ریاست کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کسی حد تک پوری کرتے ہیں اور اپنے جید علما کو نہ صرف احترام دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت خدمت کےلیے تیار بھی رہتے ہیں ۔ گو کہ ایسا مظاہرہ نچلی سطح پر کم نظر آتا ہے ، مثلاً ہم اپنے بچے کے ٹیوشن کےلیے فی مضمون ہزار ، دو ہزار ، پانچ ہزار روپے سے زائد دینے میں ذرا نہیں سوچتے ، مگر ایک قاری کو جو بچوں کو گھر قرآن پاک کی تعلیم دینے آتا ہو ، یہ سوچتے ہیں کہ مفت میں ہی پڑھا دے تو بہتر ہے ، دو بچوں کی فیس دے کر دو بچے مفت میں پڑھانے کا سوچتے ہیں ۔
معاشرے میں مساجد ، مدارس ، علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کا کردار نہایت اہم رہا ہے ، مساجد کے ذریعہ معاشرے کو صحیح رخ پر ڈھالنے کی ذمہ داری ائمہ نے سر انجام دی ہے ۔ لہٰذا مساجد اور ائمہ مساجد دونوں مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں ۔ مساجد میں باصلاحیت افراد کا تقرر اور ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھ کر ان کےلیے معقول وظیفہ مقرر کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ ائمہ مساجد ، موذنین اور خدام کے وظائف میں وقتا فوقتاً مہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ اضافہ بھی لازمی ہے ۔ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ، موسم کے تفاوت اور حالات کی تفریق سے قطع نظر ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں ، لہٰذا ان سے متعلق یہ جذبہ بھی سامنے رکھاجائے ، نیز ان افراد کے معقول وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔
اس سلسلہ میں مسجد کے فنڈ کی بات زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ، اس لیے کہ مساجد عموماً عوام اور دینی جذبہ رکھنے والے افراد ہی کے تعاون سے چلتی ہیں ، ان کےلیے حکومتوں کی جانب سے کوئی فنڈ مختص نہیں ہوتا ، بلکہ موقع محل کی مناسبت سے عوام مساجد کے چندہ میں بھر پور حصہ لیتے ہیں ، مساجد سے متعلقہ ضروریات کی تکمیل کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ، لہٰذا اگر کہیں مسجد کے فنڈ کامسئلہ ہو بھی تو عوام کے سامنے مناسب انداز میں مسجد کی ضروریات رکھی جائیں تو یہ مسئلہ بسہولت ختم ہو جاتا ہے ۔ مساجد کے ائمہ ، مؤذنین اور خدام کے وظائف ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔
اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے ، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے اور امام اللہ عزوجل اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتا ہے ، اس لیے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہیے ، ہمارے معاشرے میں امام و خطیب کے انتخاب کےلیے جہلا پر مشتمل کمٹیاں ہوتی جو انتخاب کرتے وقت علم کی باۓ سرتال اور گانوں کی طرز پر پڑھنے والوں کو ترجیح دیتی ہے جو عموماً کیسٹوں سے رٹے رٹاۓ بیان کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کےلیے ناسور اور تباہی کا سبب ہیں ۔ حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے : ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ ۔ (شرح نقایہ جلد ۱ صفحہ ۸۶ والاولی بالا مامۃ،چشتی)
دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے ۔ (شرح نقایہ جلد ۱ صفحہ ۸۶ والاولی بالا مامۃ)
فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے : فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً ۔ (نور الا یضاح صفحہ ۸۳،۸۴ باب الامامۃ)
امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو) یعنی عالمِ دین ۔ پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو ، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اور با وجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو ۔ فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ، ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار ، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔امام مسجد اگر حقیقتاً ضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہو رہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کر سکتا ہے اور ذمہ دارانِ مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہو گا ، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے ، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
حدیث شریف میں ہے : اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ ۔ (سنن ابن ماجہ،مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۵۸ باب الاجارۃ)
ترجمہ : مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ، ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے ۔ (بخاری شریف،بحوالہ مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۵۸،چشتی)
مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کام کی ملنی چاہیے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے ۔ فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے تصرح کی ہے : ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اللہ علیہ حسیباً ۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم اللہ عزوجل کے جواب دہ ہوں گے ۔
ایک جانب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ، روپے کی قیمت دن بہ دن گرتی جارہی ہے ، دوسری جانب علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کی تنخواہوں میں کمی ہو رہی ہے ، ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ انسان چند ہی روپیوں میں گذر بسر کر لیا کرتا تھا ، لیکن دورِ حاضر میں ایک متوسط درجے کے فرد کےلیے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل عقدئہ لا ینحل بن چکا ہے ، ایسے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ادنیٰ شخص ہو گا ، وہ کیسے اپنے لیے دو وقت کی روٹی مہیا کر سکے گا ؟
مہنگائی کی روز افزوں بگڑتی صورتِ حال نے گھروں کے نگراں افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کےلیے انتھک جدوجہد کے باوجود کوئی سبیل نظر نہیں آتی ، اس صورتِ حال کے باوجود جو علماءِ کرام و اٸمہ مساجد اپنے آپ کو قلیل تنخواہوں پر دینی خدمات سے وابستہ کیے ہوئے ہیں ، مہنگائی کے اس دور میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کےلیے مشاہرہ وتنخواہ کا کیا معیار ہونا چاہیے ، جس سے وہ اپنا گذر بسر کر سکیں اور موجودہ معیار تنخواہوں کا کیا ہے ، اور نظامِ تنخواہ میں بے اعتدالی کے جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس پر کیسے قابو پایا جائے ؟
فقہ حنفی کی رو سے دینی خدمت پر اجرت درست نہیں ، اکابر فقہاءِ احناف نے یہی مسئلہ لکھا ہے ، یہ اس دور کی بات ہے جب علماء کی کفالت بیت المال سے ہوتی تھی ، جب اسلامی نظامِ حکومت کے ساتھ بیت المال کا نظم ختم ہو گیا ، تو متاخرین فقہاءِ احناف نے دینی خدمت پر اجرت کو درست قرار دیا جیسا کہ ہم سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں ، اور اب بھی یہی مسئلہ معمول بہا ہے ، حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اساتذہ کرام مدینہ منورہ میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ان میں سے ہر ایک کو ہر مہینہ پندرہ درہم عطا کرتے تھے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۲۴ صفحہ ۳۵،چشتی)
علامہ نووی نے خطیب علیہما الرحمہ کی بات نقل کرتے ہوئے اجرت کی مقدار ذکر کی ہے : حاکم پر یہ بات لازم ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقہ و فتاویٰ کےلیے فارغ کرے ، اس کےلیے اتنی اجرت مقرر کرے جو اُسے دیگر پیشوں کے اختیار کرنے سے بے نیاز کر دے ، اور یہ بیت المال سے مقرر کرے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول نقل کیا کہ جو شخص فتویٰ دینے کا اہل ہوا کرتا تھا ، اسے سال بھر میں سو دینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ عطا فرماتے تھے ۔ (مقدمہ رسم المفتی صفحہ۱۵)
پندرہ (۱۵) ھجری میں جب تمام لوگوں کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابرِ صحابہ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہم کےلیے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر کیے گئے ۔ (الفاروق جلد ۲ صفحہ ۲۹۸،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خرچ کےلیے باضابطہ ایک فہرست تھی ، جس میں ان کے علم و فضل کاکیا جاتا تھا ، اگر کوئی بدری صحابی ہو تو ان کا وظیفہ زیادہ ہوتا تھا ، ان کے مقابلے میں جو بعد کے مسلمان ہیں ، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے افراد کو زیادہ نفقہ عطا کیا تو صاحب زادہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اعتراض ہوا ۔ (الفاروق)
جامع صغیر میں منقول ہے : کتاب اللہ کے حامل کو بیت المال سے ہر سال دو سو دینار دیے جائیں گے ۔ (الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۳۳۶)
علامہ مناوی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر یہ مقدار اس کے خرچ کےلیے کافی ہو تو ورنہ اگر کم ہو جائے تو اس مقدار میں اضافہ کیا جائے گا ۔ (تیسیر بشرح الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۹۹۹)
ایک دینار عموماً ایک مثقال سونے کا ہوتا تھا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں کو ایک دن کا نفقہ ملتا تھا تو اس کی مقدار یہ ہوتی کہ ہر آدمی کو نصف بکرا دیا جاتا ، یہ ابتدائی دور کی چند جھلکیاں تھیں ، جس میں خدامِ دین کی ہمت افزائی کا سلسلہ تھا اور خدامِ دین کی اتنی رعایت کی جاتی کہ وہ مکمل توجہ کے ساتھ دینی خدمت میں مشغول و مصروف رہیں ۔
آج ایسے کئی افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے جو اس قابل تھے کہ وہ علمی میدان کے شہسوار ہوتے تو گراں قدر کارنامے انجام دے سکتے ، لیکن اسی تنخواہوں کے عدمِ توازن نے انہیں اس راہ کو خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا ، بلکہ بعضے دینی طلبا ابتداء ہی سے یہ ذہن بناتے ہیں کہ فراغت کے بعد دوسری لائن کو اختیار کرنا ہے ، یورپی ملک یا کسی خلیجی ملک کا سفر کرنا ہے ، ورنہ مدارس و مساجد کی تنخوہوں پر گذر بسر کیسے ممکن ہے ؟ نیز علمی کاموں کےلیے یکسوئی درکار ہوتی ہے ، لیکن جب ایک شخص کو وسائل ہی میں مصروف کیا جائے گا اور اسی کی فکر میں اس کی صبح و شام ہو گی تو وہ علمی کام کےلیے کب اپنے آپ کو فارغ کرے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ آج علم و تحقیق کے میدان کے شہسواروں کی روز بہ روز قلت ہوتی جارہی ہے ، اور قابل افراد کی ناقدری تحقیقی کام کےلیے سمِ قاتل بنتی جارہی ہے ، اگر ذمہ دارانِ مدارس و مساجد اس مقام پر غور کریں اور اساتذہ ، اٸمہ و علما کی قدردانی کریں اور انہیں وسائل سے مستغنی کرنے کی سعیِ مسعود کریں ، انہیں معاشی تنگیوں سے آزاد کرنے و چھٹکارا دلانے کی کوشش کریں اور تحقیقی و تصنیفی کام اور افراد سازی کی جانب ان اساتذہ کی توجہ مبذول کریں تو کیا آج گزشتہ تاریخ نہیں دہرائی جا سکتی ؟ تعلیم و تدریس میں کمی و کوتاہی کا ایک بنیادی سبب تنخواہوں میں عدمِ توازن بھی ہے ، ہر ذمہ دار کی دلی خواہش ظاہراً یہ ہوتی ہے کہ تعلیم میں ترقی ہو ، ان کا مدرسہ علاقہ کا مثالی مدرسہ بنے ، ان کی جانب بچوں کا رجوع بڑھتا چلا جائے ، ان کی تعلیم کا ہر جگہ چرچا ہو ، یہ باتیں اور خیالات تو دلفریب ہیں ، لیکن اس کےلیے مطلوبہ محنت ندارد ، مطلوبہ وسائل کا استعمال نہیں ، جس کے نتیجے میں اساتذہ طلبہ پر محنت کرنے سے قاصر ہیں اور وقتی طور پر ایک آدھ اردو شرح پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے ، بالآخر ناکارہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان مدارس سے فارغ ہوکر عوام تک پہنچ رہی ہے ، جو دینی خدمت کے قابل نہیں ہوتی ۔
علما و اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ان کی حاجت ، علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشاہرہ دینا چاہیے ، مسجد سے متعلق وقف کی آمدنی میں گنجائش ہو تو اس میں سے اور اگر گنجائش نہ ہوتو مسلمانوں سے چندہ کر کے ان کی ضرورت کے مطابق مشاہرہ کا انتظام کرنا چاہیے ۔ جب مسجد کی آمدنی کافی ہے اور امام و خطیب صاحب ماشاء اللہ مدت سے امامت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ، جمعہ کے دن بیان بھی کرتے ہیں ، نیک اور متقی بھی ہیں اور صاحبِ عیال بھی ہیں تو منتظمین پر لازم ہے کہ ان کی تنخواہ میں گرانی کے پیش نظر رکھتے ہوئے اضافہ کریں ، مسجد کی آمدنی ہونے کے باوجود امام صاحب کے گھریلو اخراجات کے مطابق تنخواہ نہ دینا ظلم ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمہ دارانِ مساجد و مدارس حقائق سے آگاہ ہوں ، حالات سے باخبر ہوں ، تنخواہ میں توازن پیدا کریں ، اور ایسی مقدار مقرر کریں کہ جس سے ایک متوسط خاندان بہ آسانی اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کر سکے اور تنخواہوں میں اضافہ کے ذریعہ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو وسعت و فراخی اور آزادی کے ساتھ کام کے مواقع عطا کریں ، اور اتنی تنخواہ ہو کہ انہیں ذہنی سکون و یکسوئی حاصل ہو جائے ، جو کسی بھی دینی خدمت کےلیے ناگزیر ہے ۔
برِ صغیر اور دنیا کے دیگر ممالک میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے معاوضوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین کو کوئی بھی ریاست علم نہیں سمجھتی ، لہٰذا اس علم کے حامل کو عالم نہیں سمجھتی ۔ جدید ریاست صرف دنیاوی علم کی اور علومِ عقلیہ کے عالم کی سرپرستی کرتی ہے ، کیونکہ کانٹ کی فکر پھیلنے کے بعد علم وہ ہے جو عقلیت (ریشنل ازم) اور تجربیت (امپیریل ازم) کے پیمانوں پر پورا اتر سکے اور اس کو ریاضی کی زبان میں بیان کیا جا سکے ۔ لہٰذا اصل العلوم (سپریم نالج) اور العلم صرف سائنس ہے ۔ یوں کانٹ کے بعد دنیا کے ہر علم کو صرف اور صرف سائنس کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے ۔ عہدِ حاضر میں اگر کوئی علم سائنس سے کمتر ہے ، تب بھی وہ اپنے ساتھ سائنس کا سابقہ لاحقہ لگا کر ہی عزت حاصل کر سکتا ہے ، لہٰذا ہیومینٹیز کے مضامین کو اب سوشل سائنس ، علم کتاب خانہ کو لائبریری سائنس ، انسانی مزاج ، رویوں کو بیہیویئر سائنس کہہ کر ان علوم کا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے ۔ چونکہ مذہبی علوم جنہیں بعض جدیدیت پسند علما اسلامک سائنس کہتے ہیں ، ان کو کوئی سائنس نہیں مانتا ۔ لہٰذا ریاست ان علوم سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے ۔ عالمِ اسلام مغرب کے سامنے احساسِ کمتری کا شکار ہے ، لہٰذا وہ ہر جدید عقلی علم کے ساتھ اسلام کا ٹکڑا لگا کر مغرب سے اپنے تعلق کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسلامک سائنس ، اسلامک سوشل سائنس ، اسلامک پولیٹیکل سائنس وغیرہ کو مغرب میں کوئی تسلیم نہیں کرتا ، نہ ہی ان کی تدریس وہاں کی جامعات میں ہوتی ہے ۔ ہمارا عرض کرنے کا مقصد ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانا ہے ، جس پر ریاست اور دیگر ذمے داران کی تو کوئی توجہ ہی نہیں ہے یا اب ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں ، تاہم یہ جملہ اہلِ اسلام کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اس رویے کی طرف توجہ دیں اور اپنے علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے مسائل کو بھی سمجھیں ، ان کی ہر طرح سے مدد کریں تاکہ وہ دین اور اس امت کی اور تندہی سے خدمت کریں اور ان کی مصروفیات دیگر مسائل کے بجائے خالص دین اور امت کےلیے وقف رہیں ۔ امید ہے کہ جملہ اہلِ اسلام اس اہم مسئلے پر غور کریں گے۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی ذاتی طور پر کتنے ہی علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کو جانتا ہے جن کی تنخواہ صرف پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ ہے ، حالانکہ یہ وہ اہلِ علم ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف علوم حاصل کرنے میں گذار دیے دوسری جانب سرکاری اداروں کے ایک ناخواندہ ، ناتراش چپراسی کی تنخواہ اور مراعات ان محترم علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے کئی گنا زیادہ ہیں ، اس کے ساتھ بے شمار مراعات ، سہولیات الگ ہیں ، مثلاً علاج معالجہ کی مفت سہولت ، رہائش گاہ، مختلف الاؤنسز ، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور بچوں کی ملازمت وغیرہ وغیرہ ۔ ایک اسلامی مملکت میں جسے دعویٰ ہے کہ وہ ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے ، اس عظیم اسلامی مملکت میں علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کی یہ توقیر اور ایک جاہل کی یہ عزت ۔ اکیسویں صدی میں پندرہ بیس ہزار روپے میں گذارا کرنے والے اتنے بڑے علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین سے بڑا درویش صوفی اور اللہ کا ولی کون ہو سکتا ہے ، جو مدرسے اور مسجد کو خیر آباد کہہ کر کسی سرکاری کثیرالقومی ادارے میں ملازمت کرے تو اسے نہایت آرام سے ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ ، شاندار رہائش گاہ ، ائیرکنڈیشنڈ کمرہ ، دیگر بے شمار سہولیات مل سکتی ہیں ۔ کہیں اس سب اسلام سے لوگوں کو دور کرنے کی سوچی سمجھی سازش تو نہیں ؟ ۔ لیکن علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین اپنے مدرسے ، مسجد کو چھوڑ کر کسی سرکاری ادارے ، کارپوریشن یا کسی ملٹی نیشنل میں فرائض انجام دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ اس توکل ، بے نیازی اور دنیا سے بے پروائی کا راز ان کے اس ایمان و یقین میں پوشیدہ ہے جو اسلامی علمیت نے عطا کیا ہے ۔
لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ علما ، ائمہ مساجد ، مدرسین کے معاوضے کیوں اتنے کم ہیں ؟ علما اتنے کم معاوضوں کے باوجود شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں ، وہ کبھی ان قلیل معاوضوں پر کوئی احتجاج یا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتے ، آخر کیوں ؟ توکل ، صبر و شکر کی اصطلاحات کا عملی نمونہ کیا عہد حاضر میں ان قلیل المشاہیرہ علما کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے ؟ لوگ درویش ، صوفی ، اللہ کے ولیوں کا پوچھتے ہیں کہ عصر حاضر میں اللہ والے نہیں ملتے ، وہ جا کر ان علما کو دیکھ لیں ، اکثر علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین آپ کو اسی حال میں ملیں گے ۔ یہی علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین جو شب و روز دین کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں ۔ یہ اللہ کے کام میں ایسے مشغول ہیں کہ معاش کمانے کے لیے فرصت نہیں ۔ یہ خود دار ہیں سوالی نہیں ۔ ان علما ، اٸمہ مساجد ، مدرسین سے محبت ، ان کی تقلید ، ان کی خدمت دین کا تقاضا ہے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی ضرورت دین میں شامل ہے ، انہیں دنیا کی مصروفیات ، مشاغل سے فارغ کر کے فارغ البال ، مرفع الحال اور خوش حال رکھنا اس امت کی ذمے داری ہے اور ہر اسلامی حکومت کی اساسی ذمے داری ہے ۔ کیا ہماری ریاست یہ کام کر رہی ہے ؟
اس سلسلے میں ہماری ریاست اور ذمہ داران کیا کردار ادا کر رہی ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ہماری ریاست اور ذمے داروں کا کردار اس وقت نہ تو ایک اسلامی ریاست والا ہے ، نہ ہی لبرل ہے ، یہ تو عوام ہیں جو ریاست کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کسی حد تک پوری کرتے ہیں اور اپنے جید علما کو نہ صرف احترام دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت خدمت کےلیے تیار بھی رہتے ہیں ۔ گو کہ ایسا مظاہرہ نچلی سطح پر کم نظر آتا ہے ، مثلاً ہم اپنے بچے کے ٹیوشن کےلیے فی مضمون ہزار ، دو ہزار ، پانچ ہزار روپے سے زائد دینے میں ذرا نہیں سوچتے ، مگر ایک قاری کو جو بچوں کو گھر قرآن پاک کی تعلیم دینے آتا ہو ، یہ سوچتے ہیں کہ مفت میں ہی پڑھا دے تو بہتر ہے ، دو بچوں کی فیس دے کر دو بچے مفت میں پڑھانے کا سوچتے ہیں ۔
معاشرے میں مساجد ، مدارس ، علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کا کردار نہایت اہم رہا ہے ، مساجد کے ذریعہ معاشرے کو صحیح رخ پر ڈھالنے کی ذمہ داری ائمہ نے سر انجام دی ہے ۔ لہٰذا مساجد اور ائمہ مساجد دونوں مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں ۔ مساجد میں باصلاحیت افراد کا تقرر اور ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھ کر ان کےلیے معقول وظیفہ مقرر کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے ۔ ائمہ مساجد ، موذنین اور خدام کے وظائف میں وقتا فوقتاً مہنگائی کی شرح اور ان کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب شرح کے ساتھ اضافہ بھی لازمی ہے ۔ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے وظائف مقرر کرتے ہوئے ان وظائف کو محض ایک اجیر کی اجرت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ یہ بنیاد سامنے رکھی جائے کہ یہ افراد معاشرے کی ایک اہم دینی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں ، موسم کے تفاوت اور حالات کی تفریق سے قطع نظر ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی بھرپور سعی کرتے ہیں ، لہٰذا ان سے متعلق یہ جذبہ بھی سامنے رکھاجائے ، نیز ان افراد کے معقول وظائف مقرر کرنا اور ان میں اضافہ کرنا یہ اشاعت دین میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔
اس سلسلہ میں مسجد کے فنڈ کی بات زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ، اس لیے کہ مساجد عموماً عوام اور دینی جذبہ رکھنے والے افراد ہی کے تعاون سے چلتی ہیں ، ان کےلیے حکومتوں کی جانب سے کوئی فنڈ مختص نہیں ہوتا ، بلکہ موقع محل کی مناسبت سے عوام مساجد کے چندہ میں بھر پور حصہ لیتے ہیں ، مساجد سے متعلقہ ضروریات کی تکمیل کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ، لہٰذا اگر کہیں مسجد کے فنڈ کامسئلہ ہو بھی تو عوام کے سامنے مناسب انداز میں مسجد کی ضروریات رکھی جائیں تو یہ مسئلہ بسہولت ختم ہو جاتا ہے ۔ مساجد کے ائمہ ، مؤذنین اور خدام کے وظائف ان کی صلاحیتوں ، معاشی ضروریات اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے طے کرنے چاہئیں اور ان ہی امور کو مدنظر رکھ کر وقتاً فوقتاً ان وظائف میں معقول اضافہ بھی کرنا چاہیے ۔
اسلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے ، یہ ایک باعزت باوقار اور باعظمت اہم دینی شعبہ ہے ، یہ مصلّٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مصلّٰی ہے ، امام نائب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتا ہے اور امام اللہ عزوجل اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی ہوتا ہے ، اس لیے جو سب سے بہتر ہو اسے امام بنانا چاہیے ، ہمارے معاشرے میں امام و خطیب کے انتخاب کےلیے جہلا پر مشتمل کمٹیاں ہوتی جو انتخاب کرتے وقت علم کی باۓ سرتال اور گانوں کی طرز پر پڑھنے والوں کو ترجیح دیتی ہے جو عموماً کیسٹوں سے رٹے رٹاۓ بیان کرنے والے لوگ ہوتے ہیں جو معاشرے کےلیے ناسور اور تباہی کا سبب ہیں ۔ حدیث میں ہے : اگر تمہیں یہ پسند ہے کہ تمہاری نماز درجہ مقبولیت کو پہنچے تو تم میں جو بہتر اور نیک ہو وہ تمہاری امامت کر ے کہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان قاصد ہے : ان سرکم ان تقبل صلوتکم فلیؤ مکم علماء کم فانھم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، رواہ الطبرانی وفی روایۃ الحاکم فلیؤ مکم خیارکم وسکت عنہ ۔ (شرح نقایہ جلد ۱ صفحہ ۸۶ والاولی بالا مامۃ،چشتی)
دوسری حدیث میں ہے کہ تم میں جو سب سے بہتر ہو ا س کو امام بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان ایلچی ہے ۔ (شرح نقایہ جلد ۱ صفحہ ۸۶ والاولی بالا مامۃ)
فقہ کی مشہور کتاب نور الا یضاح میں ہے : فالا علم احق بالا مامۃ ثم الا قرأ ثم الاورع ثم الا سن ثم الا حسن خلقاً ثم الا حسن وجھا ثم للاشراف نسباًثم الا حسن صوتا ثم الا نظف ثوباً ۔ (نور الا یضاح صفحہ ۸۳،۸۴ باب الامامۃ)
امامت کا زیادہ حق دار وہ ہے جو دین کے امور کا زیادہ جاننے والا ہو (خصوصاً نماز سے متعلق مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو) یعنی عالمِ دین ۔ پھر وہ شخص جو تجوید سے پڑھنے میں زیادہ ماہر ہو ، پھر جو زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو ، پھر وہ جو عمر میں بڑا ہو ، پھر وہ جو اچھے اخلاق والا ہو ، پھر وہ جو خوبصورت اور با وجاہت ہو ، پھر وہ جونسباً زیادہ شریف ہو پھر وہ جس کی آواز اچھی ہو پھر وہ جو زیادہ پاکیزہ کپڑے پہنتا ہو ۔ فی زماننا یہ ذمہ داری متولیان مساجد اور محلہ وبستی کے بااثر لوگوں کی ہے ، ان کو اس اہم مسئلہ پر توجہ دینا بہت ضروری ہے ، ائمہ مساجد کے ساتھ اعزاز و احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھیں ، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین ہے ، یہ بہت ہی اہم دینی منصب ہے ، پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے ، جانبین سے اس عظیم منصب کے احترام ، وقار ، عزت اور عظمت کی حفاظت ضروری ہے ۔امام مسجد اگر حقیقتاً ضرورت مند اور معقول مشاہرہ کے بغیر اس کا گذر بسر مشکل ہو رہا ہو تو مناسب انداز سے متولیان مسجد اور محلہ کے با اثر لوگوں کے سامنے اپنا مطالبہ بھی پیش کر سکتا ہے اور ذمہ دارانِ مساجد اور بااثر لوگوں پر ہمدردی اور شفقت کے ساتھ اس طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے ، اس صورت میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے منصب امامت کی توہین لازم آتی ہو ہرگز جائز نہ ہو گا ، امام منصب امامت کے وقار عظمت اور قدرو قیمت کا محافظ اور امین ہے ، ایسا طریقہ جس سے منصب امامت کی تذلیل تنقیص لازم آتی ہو ہر گز اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
حدیث شریف میں ہے : اعطوا الا جیر قبل ان یجف عرقہ ۔ (سنن ابن ماجہ،مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۵۸ باب الاجارۃ)
ترجمہ : مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ، ا ن میں سے ایک ’’رجل استاجراجیراً فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘ وہ شخص ہے جو کسی کو مزدوررکھے اور اس سے پور اکام لے لے مگر مزدوری پوری نہ دے ۔ (بخاری شریف،بحوالہ مشکوٰۃ شریف صفحہ ۲۵۸،چشتی)
مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کام کی ملنی چاہیے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے ۔ فقہاء کرام علیہم الرحمہ نے تصرح کی ہے : ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اللہ علیہ حسیباً ۔ یعنی متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بری بات ہے ۔ اور متولی و مہتمم اللہ عزوجل کے جواب دہ ہوں گے ۔
ایک جانب مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ، روپے کی قیمت دن بہ دن گرتی جارہی ہے ، دوسری جانب علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کی تنخواہوں میں کمی ہو رہی ہے ، ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ انسان چند ہی روپیوں میں گذر بسر کر لیا کرتا تھا ، لیکن دورِ حاضر میں ایک متوسط درجے کے فرد کےلیے ضروریاتِ زندگی کی تکمیل عقدئہ لا ینحل بن چکا ہے ، ایسے میں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو ادنیٰ شخص ہو گا ، وہ کیسے اپنے لیے دو وقت کی روٹی مہیا کر سکے گا ؟
مہنگائی کی روز افزوں بگڑتی صورتِ حال نے گھروں کے نگراں افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کےلیے انتھک جدوجہد کے باوجود کوئی سبیل نظر نہیں آتی ، اس صورتِ حال کے باوجود جو علماءِ کرام و اٸمہ مساجد اپنے آپ کو قلیل تنخواہوں پر دینی خدمات سے وابستہ کیے ہوئے ہیں ، مہنگائی کے اس دور میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کےلیے مشاہرہ وتنخواہ کا کیا معیار ہونا چاہیے ، جس سے وہ اپنا گذر بسر کر سکیں اور موجودہ معیار تنخواہوں کا کیا ہے ، اور نظامِ تنخواہ میں بے اعتدالی کے جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس پر کیسے قابو پایا جائے ؟
فقہ حنفی کی رو سے دینی خدمت پر اجرت درست نہیں ، اکابر فقہاءِ احناف نے یہی مسئلہ لکھا ہے ، یہ اس دور کی بات ہے جب علماء کی کفالت بیت المال سے ہوتی تھی ، جب اسلامی نظامِ حکومت کے ساتھ بیت المال کا نظم ختم ہو گیا ، تو متاخرین فقہاءِ احناف نے دینی خدمت پر اجرت کو درست قرار دیا جیسا کہ ہم سابقہ مضمون میں عرض کر چکے ہیں ، اور اب بھی یہی مسئلہ معمول بہا ہے ، حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تین اساتذہ کرام مدینہ منورہ میں بچوں کو پڑھایا کرتے تھے اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ان میں سے ہر ایک کو ہر مہینہ پندرہ درہم عطا کرتے تھے ۔ (تاریخ دمشق جلد ۲۴ صفحہ ۳۵،چشتی)
علامہ نووی نے خطیب علیہما الرحمہ کی بات نقل کرتے ہوئے اجرت کی مقدار ذکر کی ہے : حاکم پر یہ بات لازم ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقہ و فتاویٰ کےلیے فارغ کرے ، اس کےلیے اتنی اجرت مقرر کرے جو اُسے دیگر پیشوں کے اختیار کرنے سے بے نیاز کر دے ، اور یہ بیت المال سے مقرر کرے ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معمول نقل کیا کہ جو شخص فتویٰ دینے کا اہل ہوا کرتا تھا ، اسے سال بھر میں سو دینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ عطا فرماتے تھے ۔ (مقدمہ رسم المفتی صفحہ۱۵)
پندرہ (۱۵) ھجری میں جب تمام لوگوں کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابرِ صحابہ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہم کےلیے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر کیے گئے ۔ (الفاروق جلد ۲ صفحہ ۲۹۸،چشتی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خرچ کےلیے باضابطہ ایک فہرست تھی ، جس میں ان کے علم و فضل کاکیا جاتا تھا ، اگر کوئی بدری صحابی ہو تو ان کا وظیفہ زیادہ ہوتا تھا ، ان کے مقابلے میں جو بعد کے مسلمان ہیں ، ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے افراد کو زیادہ نفقہ عطا کیا تو صاحب زادہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اعتراض ہوا ۔ (الفاروق)
جامع صغیر میں منقول ہے : کتاب اللہ کے حامل کو بیت المال سے ہر سال دو سو دینار دیے جائیں گے ۔ (الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۳۳۶)
علامہ مناوی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر یہ مقدار اس کے خرچ کےلیے کافی ہو تو ورنہ اگر کم ہو جائے تو اس مقدار میں اضافہ کیا جائے گا ۔ (تیسیر بشرح الجامع الصغیر جلد ۱ صفحہ ۹۹۹)
ایک دینار عموماً ایک مثقال سونے کا ہوتا تھا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں کو ایک دن کا نفقہ ملتا تھا تو اس کی مقدار یہ ہوتی کہ ہر آدمی کو نصف بکرا دیا جاتا ، یہ ابتدائی دور کی چند جھلکیاں تھیں ، جس میں خدامِ دین کی ہمت افزائی کا سلسلہ تھا اور خدامِ دین کی اتنی رعایت کی جاتی کہ وہ مکمل توجہ کے ساتھ دینی خدمت میں مشغول و مصروف رہیں ۔
آج ایسے کئی افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے جو اس قابل تھے کہ وہ علمی میدان کے شہسوار ہوتے تو گراں قدر کارنامے انجام دے سکتے ، لیکن اسی تنخواہوں کے عدمِ توازن نے انہیں اس راہ کو خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا ، بلکہ بعضے دینی طلبا ابتداء ہی سے یہ ذہن بناتے ہیں کہ فراغت کے بعد دوسری لائن کو اختیار کرنا ہے ، یورپی ملک یا کسی خلیجی ملک کا سفر کرنا ہے ، ورنہ مدارس و مساجد کی تنخوہوں پر گذر بسر کیسے ممکن ہے ؟ نیز علمی کاموں کےلیے یکسوئی درکار ہوتی ہے ، لیکن جب ایک شخص کو وسائل ہی میں مصروف کیا جائے گا اور اسی کی فکر میں اس کی صبح و شام ہو گی تو وہ علمی کام کےلیے کب اپنے آپ کو فارغ کرے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ آج علم و تحقیق کے میدان کے شہسواروں کی روز بہ روز قلت ہوتی جارہی ہے ، اور قابل افراد کی ناقدری تحقیقی کام کےلیے سمِ قاتل بنتی جارہی ہے ، اگر ذمہ دارانِ مدارس و مساجد اس مقام پر غور کریں اور اساتذہ ، اٸمہ و علما کی قدردانی کریں اور انہیں وسائل سے مستغنی کرنے کی سعیِ مسعود کریں ، انہیں معاشی تنگیوں سے آزاد کرنے و چھٹکارا دلانے کی کوشش کریں اور تحقیقی و تصنیفی کام اور افراد سازی کی جانب ان اساتذہ کی توجہ مبذول کریں تو کیا آج گزشتہ تاریخ نہیں دہرائی جا سکتی ؟ تعلیم و تدریس میں کمی و کوتاہی کا ایک بنیادی سبب تنخواہوں میں عدمِ توازن بھی ہے ، ہر ذمہ دار کی دلی خواہش ظاہراً یہ ہوتی ہے کہ تعلیم میں ترقی ہو ، ان کا مدرسہ علاقہ کا مثالی مدرسہ بنے ، ان کی جانب بچوں کا رجوع بڑھتا چلا جائے ، ان کی تعلیم کا ہر جگہ چرچا ہو ، یہ باتیں اور خیالات تو دلفریب ہیں ، لیکن اس کےلیے مطلوبہ محنت ندارد ، مطلوبہ وسائل کا استعمال نہیں ، جس کے نتیجے میں اساتذہ طلبہ پر محنت کرنے سے قاصر ہیں اور وقتی طور پر ایک آدھ اردو شرح پر ہی اکتفا کیاجاتا ہے ، بالآخر ناکارہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد ان مدارس سے فارغ ہوکر عوام تک پہنچ رہی ہے ، جو دینی خدمت کے قابل نہیں ہوتی ۔
علما و اٸمہ مساجد اور مدرسین کو ان کی حاجت ، علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے مشاہرہ دینا چاہیے ، مسجد سے متعلق وقف کی آمدنی میں گنجائش ہو تو اس میں سے اور اگر گنجائش نہ ہوتو مسلمانوں سے چندہ کر کے ان کی ضرورت کے مطابق مشاہرہ کا انتظام کرنا چاہیے ۔ جب مسجد کی آمدنی کافی ہے اور امام و خطیب صاحب ماشاء اللہ مدت سے امامت کی خدمت انجام دے رہے ہیں ، جمعہ کے دن بیان بھی کرتے ہیں ، نیک اور متقی بھی ہیں اور صاحبِ عیال بھی ہیں تو منتظمین پر لازم ہے کہ ان کی تنخواہ میں گرانی کے پیش نظر رکھتے ہوئے اضافہ کریں ، مسجد کی آمدنی ہونے کے باوجود امام صاحب کے گھریلو اخراجات کے مطابق تنخواہ نہ دینا ظلم ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ذمہ دارانِ مساجد و مدارس حقائق سے آگاہ ہوں ، حالات سے باخبر ہوں ، تنخواہ میں توازن پیدا کریں ، اور ایسی مقدار مقرر کریں کہ جس سے ایک متوسط خاندان بہ آسانی اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کر سکے اور تنخواہوں میں اضافہ کے ذریعہ علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کو وسعت و فراخی اور آزادی کے ساتھ کام کے مواقع عطا کریں ، اور اتنی تنخواہ ہو کہ انہیں ذہنی سکون و یکسوئی حاصل ہو جائے ، جو کسی بھی دینی خدمت کےلیے ناگزیر ہے ۔
برِ صغیر اور دنیا کے دیگر ممالک میں علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے معاوضوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین کو کوئی بھی ریاست علم نہیں سمجھتی ، لہٰذا اس علم کے حامل کو عالم نہیں سمجھتی ۔ جدید ریاست صرف دنیاوی علم کی اور علومِ عقلیہ کے عالم کی سرپرستی کرتی ہے ، کیونکہ کانٹ کی فکر پھیلنے کے بعد علم وہ ہے جو عقلیت (ریشنل ازم) اور تجربیت (امپیریل ازم) کے پیمانوں پر پورا اتر سکے اور اس کو ریاضی کی زبان میں بیان کیا جا سکے ۔ لہٰذا اصل العلوم (سپریم نالج) اور العلم صرف سائنس ہے ۔ یوں کانٹ کے بعد دنیا کے ہر علم کو صرف اور صرف سائنس کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے ۔ عہدِ حاضر میں اگر کوئی علم سائنس سے کمتر ہے ، تب بھی وہ اپنے ساتھ سائنس کا سابقہ لاحقہ لگا کر ہی عزت حاصل کر سکتا ہے ، لہٰذا ہیومینٹیز کے مضامین کو اب سوشل سائنس ، علم کتاب خانہ کو لائبریری سائنس ، انسانی مزاج ، رویوں کو بیہیویئر سائنس کہہ کر ان علوم کا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے ۔ چونکہ مذہبی علوم جنہیں بعض جدیدیت پسند علما اسلامک سائنس کہتے ہیں ، ان کو کوئی سائنس نہیں مانتا ۔ لہٰذا ریاست ان علوم سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے ۔ عالمِ اسلام مغرب کے سامنے احساسِ کمتری کا شکار ہے ، لہٰذا وہ ہر جدید عقلی علم کے ساتھ اسلام کا ٹکڑا لگا کر مغرب سے اپنے تعلق کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسلامک سائنس ، اسلامک سوشل سائنس ، اسلامک پولیٹیکل سائنس وغیرہ کو مغرب میں کوئی تسلیم نہیں کرتا ، نہ ہی ان کی تدریس وہاں کی جامعات میں ہوتی ہے ۔ ہمارا عرض کرنے کا مقصد ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانا ہے ، جس پر ریاست اور دیگر ذمے داران کی تو کوئی توجہ ہی نہیں ہے یا اب ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں ، تاہم یہ جملہ اہلِ اسلام کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اس رویے کی طرف توجہ دیں اور اپنے علما ، اٸمہ مساجد اور مدرسین کے مسائل کو بھی سمجھیں ، ان کی ہر طرح سے مدد کریں تاکہ وہ دین اور اس امت کی اور تندہی سے خدمت کریں اور ان کی مصروفیات دیگر مسائل کے بجائے خالص دین اور امت کےلیے وقف رہیں ۔ امید ہے کہ جملہ اہلِ اسلام اس اہم مسئلے پر غور کریں گے۔
(مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی