(سوال نمبر 5131)
اگر زوجین میں کوئی ایک دوسرے کو کہہ دے کہ تم میرے بھائی کی طرح ہو،یا شوہر کہہ دے کہ تم میری ماں اور بہن کی طرح ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے کو یہ کہہ دے کہ تم میرے بھائی کی طرح ہو،یا شوہر کہہ دے کہ تم۔میری ماں اور بہن کی طرح ہو تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟کیا نکاح میں فرق پڑے گا؟
اور اگر وہ دونوں پھر سے رجوع کرنا چاہیں تو شرعی کیا حکم ہوگا ؟ شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- امنہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/شوہر کو بھائی نہیں کہنی چاہئے پر اس سے نکاح میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
٢/شوہر نے بیوی سے کہا تم میری ماں اور بہن کی طرح ہو تو اس میں نیت کا اعتبار ہوگا ۔جس نیت سے کہا ہے اسی اعتبار سے حکم شرع لاگو ہوگا ۔ اور اس کی کم از کم چار صورتیں بنتی ہے
١/مذکورہ جملے طلاق بائن کا ہے
اگر مزاکرہ طلاق یا جھگڑے میں کہا تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی ۔
الکنايات لا يقع الطلاق اِلا بالنية او بدلالة الحال.
کنایات سے طلاق صرف اس وقت واقع ہوتی ہے جب (طلاق کی) نیت ہو یا دلالت حال ہو۔
(الهداية شرح البداية، 1: 241)
فتاوی شامی میں ہے
أفتی المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نیة.(رد المحتار، کراچي 3/253،)
دوران عدت یا عدت کے بعد نکاح دونوں نئے نکاح کے ذریعے رجوع کر سکتے ہیں۔
٢/ اور اگر حرام ہونے کی نیت سے کہا تو ظہار ہوگا بیوی کو جماع کرنے سے پہلے قسم ظہار کا کفارہ دینا ہوگا ۔
٣/اور اگر یہ بات کرتے وقت کوئی نیت نہ تھی تو کلام لغو ہوگا،نکاح پر کچھ اثر نہیں
٤/اور اگر تعظیم زوجہ کہا تو کچھ نہیں۔ پر اس طرح کہنا جائز نہیں ہے۔کہ میری ماں میری بہن یا ان کی طرح
ہے کہنا سخت گناہ و ناجائز ہے توبہ کرے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
تنویر الابصار، درمختار اور ردالمحتار میں فرمایا ہے اگر بیوی کو یوں کہاکہ تو مجھ پر میری ماں کی مثل یامیری ماں کی طرح ہے او یوں ہی اگر علی(مجھ پر) کا لفظ حذف کردے خانیہ۔ ان الفاظ سے اگر تعظیم زوجہ یا طلاق یا ظہار کی نیت کی تو اس کی نیت صحیح ہوگی اور نیت کے مطابق حکم ہوگا کیونکہ یہ کنایہ ہے (بحر میں فرمایا خاوند نے جب طلاق کی نیت کی تو طلاق بائنہ ہوگی اور خیرالدین رملی نے فرمایا یوں ہی اگر صرف حرام ہونے کی نیت کی تو ظہار ہوگا، اور جھگڑے و مذاکرہ طلاق میں اگر یہ بات کہی ہو اور خاوند کہے کہ میں نے اس سے ماں کی طرح عزت وکرامت والی مرادلی ہے، تو قاضی کو چاہئے کہ وہ اس کی تصدیق نہ کرے ) اور اگر یہ بات کرتے وقت کوئی نیت نہ تھی تو کلام لغو ہوگا، اور ادنیٰ احتمال یعنی کرامت والا متعین ہوگا، عبارات کی تلخیص ختم ہوئی۔
اگر زوجین میں کوئی ایک دوسرے کو کہہ دے کہ تم میرے بھائی کی طرح ہو،یا شوہر کہہ دے کہ تم میری ماں اور بہن کی طرح ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے کو یہ کہہ دے کہ تم میرے بھائی کی طرح ہو،یا شوہر کہہ دے کہ تم۔میری ماں اور بہن کی طرح ہو تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟کیا نکاح میں فرق پڑے گا؟
اور اگر وہ دونوں پھر سے رجوع کرنا چاہیں تو شرعی کیا حکم ہوگا ؟ شرعی رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ خیرا
سائلہ:- امنہ شہر لاہور پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/شوہر کو بھائی نہیں کہنی چاہئے پر اس سے نکاح میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
٢/شوہر نے بیوی سے کہا تم میری ماں اور بہن کی طرح ہو تو اس میں نیت کا اعتبار ہوگا ۔جس نیت سے کہا ہے اسی اعتبار سے حکم شرع لاگو ہوگا ۔ اور اس کی کم از کم چار صورتیں بنتی ہے
١/مذکورہ جملے طلاق بائن کا ہے
اگر مزاکرہ طلاق یا جھگڑے میں کہا تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی ۔
الکنايات لا يقع الطلاق اِلا بالنية او بدلالة الحال.
کنایات سے طلاق صرف اس وقت واقع ہوتی ہے جب (طلاق کی) نیت ہو یا دلالت حال ہو۔
(الهداية شرح البداية، 1: 241)
فتاوی شامی میں ہے
أفتی المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نیة.(رد المحتار، کراچي 3/253،)
دوران عدت یا عدت کے بعد نکاح دونوں نئے نکاح کے ذریعے رجوع کر سکتے ہیں۔
٢/ اور اگر حرام ہونے کی نیت سے کہا تو ظہار ہوگا بیوی کو جماع کرنے سے پہلے قسم ظہار کا کفارہ دینا ہوگا ۔
٣/اور اگر یہ بات کرتے وقت کوئی نیت نہ تھی تو کلام لغو ہوگا،نکاح پر کچھ اثر نہیں
٤/اور اگر تعظیم زوجہ کہا تو کچھ نہیں۔ پر اس طرح کہنا جائز نہیں ہے۔کہ میری ماں میری بہن یا ان کی طرح
ہے کہنا سخت گناہ و ناجائز ہے توبہ کرے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
تنویر الابصار، درمختار اور ردالمحتار میں فرمایا ہے اگر بیوی کو یوں کہاکہ تو مجھ پر میری ماں کی مثل یامیری ماں کی طرح ہے او یوں ہی اگر علی(مجھ پر) کا لفظ حذف کردے خانیہ۔ ان الفاظ سے اگر تعظیم زوجہ یا طلاق یا ظہار کی نیت کی تو اس کی نیت صحیح ہوگی اور نیت کے مطابق حکم ہوگا کیونکہ یہ کنایہ ہے (بحر میں فرمایا خاوند نے جب طلاق کی نیت کی تو طلاق بائنہ ہوگی اور خیرالدین رملی نے فرمایا یوں ہی اگر صرف حرام ہونے کی نیت کی تو ظہار ہوگا، اور جھگڑے و مذاکرہ طلاق میں اگر یہ بات کہی ہو اور خاوند کہے کہ میں نے اس سے ماں کی طرح عزت وکرامت والی مرادلی ہے، تو قاضی کو چاہئے کہ وہ اس کی تصدیق نہ کرے ) اور اگر یہ بات کرتے وقت کوئی نیت نہ تھی تو کلام لغو ہوگا، اور ادنیٰ احتمال یعنی کرامت والا متعین ہوگا، عبارات کی تلخیص ختم ہوئی۔
(فتاوی رضویہ ج 13 ص 39)
فتاویٰ رضویہ میں ہے
زوجہ کو ماں بہن کہنا خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے یا یوں کہے تو میری ماں میری بہن ہے سخت گناہ و ناجائز ہے مگر اس سے نہ نکاح میں کوئی خلل آئے نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو ۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر یوں کہا ہو کہ تو مثل یا مانند یا بجائے ماں بہن کے ہے تو اگر بہ نیت طلاق کہا تو ایک طلاق بائن ہوگئی اور عورت نکاح سے نکل گئی اور بہ نیت ظہار یا تحریم کہا یعنی یہ مراد ہے کہ مثل ماں بہن کے مجھ پر حرام ہے تو ظہار ہوگیا اب جب تک کفارہ نہ دے لے عورت سے جماع کرنا یا شہوت کے ساتھ اس کا بوسہ لینا یا بنظر شہوت اس کے کسی بدن کو چھونا یا بنگاہِ شہوت اس کی شرمگاہ دیکھنا سب حرام ہوگیا،اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرے، اسکی طاقت نہ ہو تو لگاتار دو مہینہ کے روزے رکھے، اس کی بھی قوت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی طرح اناج یا کھانا دے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے
زوجہ کو ماں بہن کہنا خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے یا یوں کہے تو میری ماں میری بہن ہے سخت گناہ و ناجائز ہے مگر اس سے نہ نکاح میں کوئی خلل آئے نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو ۔۔۔۔۔۔ ہاں اگر یوں کہا ہو کہ تو مثل یا مانند یا بجائے ماں بہن کے ہے تو اگر بہ نیت طلاق کہا تو ایک طلاق بائن ہوگئی اور عورت نکاح سے نکل گئی اور بہ نیت ظہار یا تحریم کہا یعنی یہ مراد ہے کہ مثل ماں بہن کے مجھ پر حرام ہے تو ظہار ہوگیا اب جب تک کفارہ نہ دے لے عورت سے جماع کرنا یا شہوت کے ساتھ اس کا بوسہ لینا یا بنظر شہوت اس کے کسی بدن کو چھونا یا بنگاہِ شہوت اس کی شرمگاہ دیکھنا سب حرام ہوگیا،اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرے، اسکی طاقت نہ ہو تو لگاتار دو مہینہ کے روزے رکھے، اس کی بھی قوت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی طرح اناج یا کھانا دے۔
(ملخص از فتاویٰ رضویہ جدید ج 13 ص 280 مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور)
بہار شریعت میں ہے
عورت سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے تو نیت دریافت کی جائے اگر اُس کے اِعزاز کے ليے کہا تو کچھ نہیں اور طلاق کی نیت ہے تو بائن طلاق واقع ہوگی اور ظہار کی نیت ہے تو ظہار ہے اور تحریم کی نیت ہے تو ایلا ہے اور کچھ نیت نہ ہو تو کچھ نہیں۔
بہار شریعت میں ہے
عورت سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے تو نیت دریافت کی جائے اگر اُس کے اِعزاز کے ليے کہا تو کچھ نہیں اور طلاق کی نیت ہے تو بائن طلاق واقع ہوگی اور ظہار کی نیت ہے تو ظہار ہے اور تحریم کی نیت ہے تو ایلا ہے اور کچھ نیت نہ ہو تو کچھ نہیں۔
(بہارشریعت ،ح 8،ص 207،مکتبہ المدینہ)
ظہار کا حکم یہ ہے کہ ادائے کفارہ تک عورت حرام رہتی ہے۔
کہ مظاہر غلام آزاد کرے اگر اس پر قادر نہ ہو تو روزے رکھے اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے۔
ظہار کا حکم یہ ہے کہ ادائے کفارہ تک عورت حرام رہتی ہے۔
کہ مظاہر غلام آزاد کرے اگر اس پر قادر نہ ہو تو روزے رکھے اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے۔
(المرأة المناجیح ج 5 ص 255)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/ 11/2023
17/ 11/2023