Type Here to Get Search Results !

روزے کی حالت میں تاش کھیلنا کیسا ہے؟


روزے کی حالت میں تاش کھیلنا کیسا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
ازقلم:محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ روزے کی حالت میں تاش کے پتے کھیلنا کیسا ہے؟  ذرا مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-محمد ذاکر اشرفی 
متعلم : جامعہ اشرفیہ سرکارکلاں ناسک مہاراشٹر
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
 تاش کھیلنا تو عام حالات میں بھی ناجائز و حرام ہے اور روزے میں شدت کے ساتھ حرام ہے جو شخص روزہ رکھ کر تاش کھیلے گا اس کا روزہ مکروہ ہوجائے گا ۔ یہ ہوا اجمالی جواب ۔ 
اب آئیے اس مسئلہ کا جواب تفصیل میں یوں ملاحظہ کریں کہ اسلام میں صرف تین کھیل جائز ہیں
(١) کمان سے تیز چلانا (٢) گھوڑے کو ادب دینا (٣) زوجہ کے ساتھ ملاعبت کرنا ، اس کے علاوہ سب کھیل حرام ہیں۔
ترمذی شریف ، جلد اول ، ص: ٢٩٣/ میں ہے:
 " کل ما یلھوبه الرجل المسلم باطل الابقوس و تادیبه فرسه وملاعبته اھله فانھن من الحق " اھ
 مسلم شریف ، جلد ہفتم ، ص: ٢٢/" میں ہے:
"عن سلیمان بن بریدۃ عن ابیہ رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال من لعب بالنرد شیر فکانما صبغ یدہ فی لحم خنزیر ودمہ"۔  
*در مختارمع ردالمحتار ، جلد نہم ، کتاب الحظر والاباحة ، باب الاستبراء ملخصٙٙا، ص: ۵٦۵/ میں ہے:
 "وكره تحريما اللعب بالنرد و كره كل لهو لقوله عليه السلام " كل لهو المسلم حرام إلا ثلثة " اھ 
 اسی کے تحت ردالمحتار میں ہے:
 " اى كل لعب و عبث و الاطلاق شامل لنفس الفعل و استماعه و استماع ضرب الدف و المزمار و غير ذالك حرام"اھ 
نیز یاد رہے کہ
کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
(١) وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو ، اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
(٢) اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ) ہو ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے ۔
(٣) کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا ہو ۔
(۴)کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو ۔
اس تفصیل کی رو سے اگر تاش شرط لگاکر کھیلاجائے تو وہ جوا ہے اور اس کا حرام ہونا واضح ہے۔
 اور بلاشرط کھیلنے میں اگر ایسا انہماک ہوکہ فرائض میں کوتاہی وغفلت ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔ 
اور فرائض کی ادائیگی کا خیال رکھتے ہوئے صرف وقت گزاری کے لیے بلاشرط کھیلنے میں بھی کوئی غرضِ صحیح نہیں ہے ، بلکہ لہو اور عبث کا م ہے جوکہ منع ہے، پس بہرصورت اس کھیل سے اجتناب کرنا لازم اور ضروری ہے۔
قرآن شریف میں ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﳓ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ(٦)
ترجمہ: کنزالعرفان
اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کی راہ سے بہکادیں اورانھیں ہنسی مذاق بنالیں ۔ ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔
 تفسیر روح المعانی میں ہے:
"ولهو الحديث على ما روی عن الحسن : كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها"۔
(تفسیر آلوسی علیہ الرحمہ (١١/٦٦)۔
اور تفسیر صراط الجنان میں ’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘ کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ:
لَہْو یعنی کھیل ہر اس باطل کو کہتے ہیں جو آدمی کو نیکی سے اور کام کی باتوں سے غفلت میں ڈالے۔ اس میں بے مقصدو بے اصل اور جھوٹے قصے،کہانیاں اورافسانے ، جادو ، ناجائز لطیفے اور گانا بجانا وغیرہ سب داخل ہے۔ اِس قسم کے آلات لَہْو و لَعِب کو بیچنا بھی منع ہے اور خریدنا بھی ناجائز ، کیوں کہ یہ آیت ان خریداروں کی برائی بیان کرنے کے بارے میں ہی اتری ہے۔ 
اسی طرح ناجائز ناول ، گندے رسالے ، سینما کے ٹکٹ ، تماشے وغیرہ کے اسباب سب کی خرید و فروخت منع ہے کہ یہ تمام ’’لَهْوَ الْحَدِیْثِ‘‘ یا ان کے ذرائع ہیں ۔
تکملہ فتح المہم ، جلد چہارم ، قبیل کتاب الرؤیا ، ص: ۴٣۵/ میں ہے:
"فالضابط في هذا ان اللهو المجرد الذی لا طائل تحته ، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً ، وما كان فيه غرض و مصلحة دينية او دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب او السنة كان حراما او مكروها تحريما ، و اما مالم يرد فيه النهي عن الشارع و فيه فائدة و مصلحة للناس فهو بالنظرالفقهی على نوعين :
 الاول: ما شهدت التجربة بان ضرره اعظم من نفعه ، و مفاسده اغلب على منافعه ، و انه من اشتغل به الھاہ عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد ، التحق ذلك بالمنهی عنه ؛ لاشتراك العلة ، فكان حراما او مكروها۔ 
والثاني: ماليس كذلك ، فهو ایضا ان اشتغل به بنية التهلی والتلاعب فهو مكروه ، و ان اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة و بنية استجلاب المصلحة فهو مباح ، بل قد ير تقی الى درجة الاستحباب او اعظم منه و على هذا الاصل فالالعاب التی يقصد بها رياضة الابدان او الاذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية اخرى ، وما لم يود الانهماك فيها الى الاخلال بواجب الانسان فی دينه و دنياه"۔
 فتاویٰ رضویہ ، جلد نہم ، ص: ۴۴/ "میں ہے کہ:
"ہر کھیل اور ہر عبث فعل جس میں نہ کوئی غرض دین نہ کوئی منافعت جائزہ دنیوی ہو سب مکروہ و بےجا ہیں کوئی کم کوئی زیادہ"اھ ۔ 
ان ساری مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات خوب واضح ہوچکی کہ
’تاش ، چوسر ، شطرنج ، کیرم بورڈ ، لوڈو وغیرہ لہو و لعب کے طور پر کھیلنا حرام ہے اور عام طور پر کھیلنے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے نیز ان کھیلوں میں مشغولیت اکثر فرائض و واجبات کی تفویت کا سبب بنتی ہے اور اس صورت میں اس کی کراہت حد حرمت تک پہنچ جاتی ہے۔
پس خلاصہ یہ ہے کہ
’’تاش کھیلنا کھیلنا بہت برا ہے ، اور اگر اس پر ہار جیت کی شرط ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے ، گناہ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
 کامیاب مومن کی شان اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان کی ہے:
کامیاب مومنین وہ ہیں جو لہو و لعب سے اعراض کرتے ہیں‘‘۔
لہذا روزے کی حالت میں تاش کھیلنا حرام اشد حرام ہے اور بےشک ان کی وجہ سے روزہ مکروہ ہوجاتاہے ۔
فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه:
محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات، 
۴/رمضان المبارک ١۴۴۵/ ہجری /١۵/ مارچ ٢٠٢۴۔ بروز جمعہ

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area