فضائل و مسائل ماہِ رمضانُ المبارک حصّہ سوم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
روزہ اور موجودہ سائنس :
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
روزہ اور موجودہ سائنس :
آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ روزہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اس سے نظام ہضم کو آرام ملتا ہے ۔ جیسے جیسے تمطبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بتدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبعی معجزہ ہے ۔ اب سائنسی تناظر میں دیکھیں کہ کس طرح روزہ ہماری صحت مندی میں مدد دیتا ہے ۔
روزہ کا نظام ہضم پر اثر
نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان ، گلا ، مقوی نالی (limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی ۔ معدہ ، بارہ انگشتی آنت ، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں ۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گِھس جاتا ہے ۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے ۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں ۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کےلیے پہرے پر کھڑا ہو ۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کےلیے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔
دوسری طرف روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے ۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے ۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہیے ۔
جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے ہو ۔
جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے ۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے ۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہو کر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے والے Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی پیداوار پر صرف کر سکتا ہے ۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی ۔
انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں ۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت (cidity) جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے ۔ اس طریقہ سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں ۔ جولوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے ، ان کے دعوؤں کے برخلاف یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے ۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے ۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے ۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال ، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں ۔ (چشتی)
روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات : دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے ۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے ۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیلوں کے (Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہو جاتا ہے ۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ دل کےلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ مزید برآں ، آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا شکار ہے ۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے ۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں ۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جس میں شریانوں کی دیواروں (rterioscleresis) کی سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے ۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے ۔
خلیہ ، سیل (Cell) پر روزے کا اثر
روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے ۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال ، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں ۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں ۔ (چشتی)
روزے کا اعصابی نظام پر اثر : اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں ۔
روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ۔ اندرونی غدودوں کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے ۔ انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ خون کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں : خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے ۔
روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں ۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ ہڈی کے گودے کےلیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہو سکے ۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں ۔
روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ
اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہو گی ۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں ۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے ۔ مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع ، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے ۔ ان نقائص و امراض کےلیے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کر کے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کر سکے ۔ علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کےلیے جھاڑو کا کام دیتا ہے ۔ ضبط نفس ، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ (چشتی)
اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کےلیے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں ۔
روسی ماہر الابدان پروفیسر وی ۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنا لیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں ۔
اول خوب محنت کیا کرو ۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے ۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں ۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو ۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہیے ۔
دوئم ۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے ۔
سوئم ۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی ۔
کھجور سے افطار اور جدید سائنس
جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے ۔ (سنن نسائی)
روزے کے بعد توانائی کم ہو جاتی ہے اس لیے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہیے جو زود ہضم اور مقوی ہو ۔
کھجور کا کیمیائی تجزیہ
پروٹین 2.4
نشاشتہ 2.0
کاربوہائیڈریٹس 24.0
کیلوریز 2.0
سوڈیم 4.7
پوٹاشیم 754.0
کیلشیم 67.9
میگنیشیم 58.9
کاپر 0.21
آئرن 1.61
فاسفورس 638.0
سلفر 51.6
کلورین 290.0
اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے ۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے ۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں ۔
لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ ۔
غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کےلیے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے ۔
بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے ۔ گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے ۔
روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر1903)
روزہ کی نیت
نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘ میں ہے : ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ ۔ (در مختار جلد 2 صفحہ 379)
لہٰذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو ۔
سحری کے احکام و مسائل
سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان مبارک ہے : تسحروا فان فی السحور برکۃ ۔
روزہ کا نظام ہضم پر اثر
نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے بہت سے اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے اہم اعضاء جیسے منہ اور جبڑے میں لعابی غدود، زبان ، گلا ، مقوی نالی (limentary Canal) یعنی گلے سے معدہ تک خوراک لے جانے والی نالی ۔ معدہ ، بارہ انگشتی آنت ، جگر اور لبلبہ اور آنتوں سے مختلف حصے وغیرہ تمام اعضاء اس نظام کا حصہ ہیں ۔ اس نظام کا اہم حصہ یہ ہے کہ یہ سب سے پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹری نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں ۔ جیسے ہی ہم کچھ کھانا شروع کرتے ہیں یا کھانے کا ارادہ ہی کرتے ہیں یہ نظام حرکت میں آجاتا ہے اور ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ سارا نظام چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہونے کے علاوہ اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک کی وجہ سے ایک طرح سے گِھس جاتا ہے ۔ روزہ ایک طرح اس سارے نظام ہضم پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے ۔ مگر درحقیقت اس کا حیران کن اثر بطور خاص جگر پر ہوتا ہے کیونکہ جگر کے کھانا ہضم کرنے کے علاوہ پندرہ مزید عمل بھی ہوتے ہیں ۔ یہ اس طرح تھکان کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جیسے ایک چوکیدار ساری عمر کےلیے پہرے پر کھڑا ہو ۔ اسی کی وجہ سے صفرا کی رطوبت جس کا اخراج ہاضمہ کےلیے ہوتا ہے مختلف قسم کے مسائل پیدا کرتی ہے اور دوسرے اعمال پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔
دوسری طرف روزے کے ذریعے جگر کو چار سے چھ گھنٹوں تک آرام مل جاتا ہے ۔ یہ روزے کے بغیر قطعی ناممکن ہے کیونکہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصہ کے برابر بھی، اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کر دیتا ہے اور جگر فوراً مصروف عمل ہو جاتا ہے ۔ سائنسی نکتہ نظر سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس آرام کا وقفہ ایک سال میں ایک ماہ توہونا ہی چاہیے ۔
جدید دور کا انسان جو اپنی زندگی کی غیر معمولی قیمت مقرر کرتا ہے متعدد طبی معائنوں کے ذریعے اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر جگر کے خلیے کو قوت گویائی حاصل ہوتی تو وہ ایسے انسان سے کہتا کہ مجھ پر ایک عظیم احسان صرف روزے کے ذریعے سے ہی کرسکتے ہو ۔
جگر پر روزہ کی برکات میں سے ایک وہ ہے جو خون کے کیمیائی عمل پر اثر اندازی سے متعلق ہے ۔ جگر کے انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام اس توازن کو برقرار رکھنا بھی ہے جو غیر ہضم شدہ خوراک اور تحلیل شدہ خوراک کے درمیان ہوتا ہے ۔ اسے یا تو ہر لقمے کو سٹور میں رکھنا ہوتا ہے یا پھر خون کے ذریعے اس کے ہضم ہو کر تحلیل ہوجانے کے عمل کی نگرانی کرنا ہوتی ہے جبکہ روزے کے ذریعے جگر توانائی بخش کھانے کے سٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح جگر اپنی توانائی خون میں گلوبلن (Globulin) (جو جسم کے محفوظ رکھنے والے Immune سسٹم کو تقویت دیتا ہے) کی پیداوار پر صرف کر سکتا ہے ۔ روزے کے ذریعے گلے کو اور خوراک کی نالی کو جو بے حد حساس حصے ہیں جو آرام نصیب ہوتا ہے اس تحفے کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی ۔
انسانی معدہ روزہ کے ذریعے جو بھی اثرات حاصل کرتا ہے وہ بے حد فائدہ مند ہوتے ہیں۔ اس ذریعہ سے معدہ سے نکلنے والی رطوبتیں بھی بہتر طور پر متوازن ہوجاتی ہیں ۔ اس کی وجہ سے روزہ کے دوران تیزابیت (cidity) جمع نہیں ہوتی اگرچہ عام قسم کی بھوک سے یہ بڑھ جاتی ہے ۔ لیکن روزہ کی نیت اور مقصد کے تحت تیزابیت کی پیداوار رک جاتی ہے ۔ اس طریقہ سے معدہ کے پٹھے اور معدہ کی رطوبت پیدا کرنے والے خلیے رمضان کے مہینے میں آرام کی حالت میں چلے جاتے ہیں ۔ جولوگ زندگی میں روزے نہیں رکھتے ، ان کے دعوؤں کے برخلاف یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک صحت مند معدہ شام کو روزہ کھولنے کے بعد زیادہ کامیابی سے ہضم کا کام سرانجام دیتا ہے ۔ روزہ آنتوں کو بھی آرام اور توانائی فراہم کرتا ہے ۔ یہ صحت مند رطوبت کے بننے اور معدہ کے پٹھوں کی حرکت سے ہوتا ہے ۔ آنتوں کے شرائین کے غلاف کے نیچے محفوظ رکھنے والے نظام کا بنیادی عنصر موجود ہوتا ہے۔ جیسے انتڑیوں کا جال ، روزے کے دوران ان کو نئی توانائی اور تازگی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح ہم ان تمام بیماریوں کے حملوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں جو ہضم کرنے والی نالیوں پر ہوسکتے ہیں ۔ (چشتی)
روزے کے دوران خون پر فائدہ مند اثرات : دن میں روزے کے دوران خون کی مقدار میں کمی ہوجاتی ہے ۔ یہ اثر دل کو انتہائی فائدہ مند آرام مہیا کرتا ہے ۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سیلوں کے (Intercellular) درمیان مائع کی مقدار میں کمی کی وجہ سے ٹشو یعنی پٹھوں پر دباؤ کم ہو جاتا ہے ۔ پٹھوں پر دباؤ یا عام فہم ڈائسٹالک (Diastolic) دباؤ دل کےلیے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ روزے کے دوران ڈائسٹالک پریشر ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے یعنی اس وقت دل آرام یا ریسٹ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ مزید برآں ، آج کا انسان ماڈرن زندگی کے مخصوص حالات کی بدولت شدید تناؤ یا ہائی پرٹینشن (Hypertension) کا شکار ہے ۔ رمضان کے ایک ماہ کے روزے بطور خاص ڈائسٹالک پریشر کو کم کرکے انسان کو بے پناہ فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ روزے کا سب سے اہم اثر دوران خون پر اس پہلو سے ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس سے خون کی شریانوں پر کیا اثر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت کا علم عام ہے کہ خون کی شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ خون میں باقی ماندہ مادے (Remnants) کا پوری طرح تحلیل نہ ہو سکنا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف روزے میں بطور خاص افطار کے وقت کے نزدیک خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل ہوچکے ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتا ۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے ۔ اس طرح شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں ۔ چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماریوں جس میں شریانوں کی دیواروں (rterioscleresis) کی سختی نمایاں ترین ہے سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے کیونکہ روزے کے دوران گردے جنہیں دوران خون ہی کا ایک حصہ سمجھا جاسکتا ہے ۔ آرام کی حالت میں ہوتے ہیں تو انسانی جسم کے ان اہم اعضاء کی بحالی بھی روزے کی برکت سے بحال ہوجاتی ہے ۔
خلیہ ، سیل (Cell) پر روزے کا اثر
روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں کے درمیان اور خلیوں کے اندرونی سیال مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے ۔ چونکہ روزے کے دوران مختلف سیال ، مقدار میں کم ہوجاتے ہیں ۔ خلیوں کے عمل میں بڑی حد تک سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح لعاب دار جھلی کی بالائی سطح سے متعلق خلیے جنہیں ایپی تھیلیل (Epithelial) سیل کہتے ہیں اور جو جسم کی رطوبت کے متواتر اخراج کے ذمہ دار ہوتے ہیں ان کو بھی صرف روزے کے ذریعے بڑی حد تک آرام اور سکون ملتا ہے جس کی وجہ ان کی صحت مندی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ خلیاتیات کے علم کے نکتہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ لعاب بنانے والے غدود گردن کے غدود تیموسیہ اور لبلبہ (Pencreas) کے غدود شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کرسکیں اور مزید کام کرنے کے لئے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں ۔ (چشتی)
روزے کا اعصابی نظام پر اثر : اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روزے کے دوران چند لوگوں میں چڑ چڑا پن اور بے دلی کا اعصابی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس قسم کی صورت حال ان انسانوں کے اندر انانیت (Egotistic) یا طبیعت کی سختی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ اس کے برخلاف روزے کے دوران اعصابی نظام مکمل سکون اور آرام کی حالت میں ہوتا ہے ۔ عبادات کی بجا آوری سے حاصل شدہ تسکین ہماری تمام کدورتوں اور غصے کو دور کردیتی ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ خشوع و خضوع اور اللہ کی مرضی کے سامنے سرنگوں ہونے کی وجہ سے تو ہماری پریشانیاں بھی تحلیل ہوکر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس طرح آج کے دور کے شدید مسائل جو اعصابی دباؤ کی صورت میں ہوتے ہیں تقریباً مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں ۔
روزے کے دوران ہماری جنسی خواہشات چونکہ علیحدہ ہوجاتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے بھی ہمارے اعصابی نظام پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ روزہ اور وضو کے مشترکہ اثر سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس سے دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم ہو جاتا ہے جو صحت مند اعصابی نظام کی نشاندہی کرتا ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ۔ اندرونی غدودوں کو جو آرام اور سکون ملتا ہے وہ پوری طرح سے اعصابی نظام پر اثر پذیر ہوتا ہے جو روزے کا اس انسانی نظام پر ایک اور احسان ہے ۔ انسانی تحت الشعور جو رمضان کے دوران عبادت کی مہربانیوں کی بدولت صاف شفاف اور تسکین پذیر ہوجاتا ہے اعصابی نظام سے ہر قسم کے تناؤ اور الجھن کو دور کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ خون کی تشکیل اور روزے کی لطافتیں : خون ہڈیوں کے گودے میں بنتا ہے جب کبھی جسم کو خون کی ضرورت پڑتی ہے ایک خود کار نظام ہڈی کے گودے کو حرکت پذیر (Stimulate) کردیتا ہے اور لاغر لوگوں میں یہ گودہ بطور خاص سست حالت میں ہوتا ہے ۔
روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں ۔ ہڈیوں کا گودہ حرکت پذیر ہوجاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں لاغر لوگ روزہ رکھ کر آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کرسکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص خون کی پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو اسے طبی معائنہ اور ڈاکٹر کی تجویز کو ملحوظ خاطر رکھنا ہی پڑے گا چونکہ روزے کے دوران جگر کو ضروری آرام مل جاتا ہے یہ ہڈی کے گودے کےلیے ضرورت کے مطابق اتنا مواد مہیا کر دیتا ہے جس سے آسانی سے اور زیادہ مقدار میں خون پیدا ہو سکے ۔ اس طرح روزے سے متعلق بہت سی اقسام کی حیاتیاتی برکات کے ذریعے ایک پتلا و دبلا شخص اپنا وزن بڑھا سکتا ہے اسی طرح موٹے اور فربہ لوگ بھی صحت پر روزے کی عمومی برکات کے ذریعے اپنا وزن کم کرسکتے ہیں ۔
روزہ قیام صحت کا ایک بے نظیر طریقہ
اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے جسم کا ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب و دانہ مناسب مقدار میں بروقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے۔ جس نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقعہ ہوگی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہو گی ۔ ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں ۔ لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے برعکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کرجاتا ہے اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی نسبت ہی نہیں رکھتے ۔ مگر انسان اپنی خداداد عقل کے ذریعہ اپنے امراض کے مقابلہ یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع ، طریق اور علاج اختیار کرتا ہے ۔ ان نقائص و امراض کےلیے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب تک تجویز کرسکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کر کے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت و ثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے تاکہ بھوک سے اس کے مواد فاسدہ جل کر اسے صاف کردیں اور پھر وہ اپنا کام صحیح طو رپر کر سکے ۔ علاوہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے اسلامی روزہ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کےلیے جھاڑو کا کام دیتا ہے ۔ ضبط نفس ، بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ کھولتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ (چشتی)
اطباء اور موجودہ زمانہ کے ڈاکٹر اسلامی طریق روزہ داری کی قیام صحت کےلیے اہمیت و افادیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ بعض امراض میں علاج تجویز کرتے ہوئے اسلامی طریق کا روزہ رکھنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں ۔
روسی ماہر الابدان پروفیسر وی ۔ این نکیٹن نے لمبی عمر سے متعلق اپنی ایک اکسیر د وا کے انکشاف کے سلسلہ میں لندن میں 22 مارچ 1960ء کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذیل کے تین اصول زندگی میں اپنا لیے جائیں تو بدن کے زہریلے مواد خارج ہوکر بڑھاپا روک دیتے ہیں ۔
اول خوب محنت کیا کرو ۔ ایک ایسا پیشہ جو انسان کو مشغول رکھے جسم کے رگ و ریشہ میں ترو تازگی پیدا کرتا ہے ۔ جس سے خلیے پیدا ہوتے ہیں ۔ بشرطیکہ ایسا شغل ذہنی طور پر بھی قوت بخش ہو ۔ اگر تمہیں اپنا کام پسند نہیں تو فوراً ترک کردینا چاہیے ۔
دوئم ۔ کافی ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ چلنا پھرنا چاہیے ۔
سوئم ۔ غذا جو تم پسند کرو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ فاقہ ضرور کیا کرو ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علاوہ سال کے ایک ماہ مسلسل روزوں کے ہر ماہ از خود تین نفلی روزے رکھا کرتے اور فرمایا کرتے صوموا تصحوا روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جو تین وصیتیں فرمائیں ان میں سے ایک ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی تاکید تھی ۔
کھجور سے افطار اور جدید سائنس
جسے کھجور میسر ہو وہ اس سے روزہ افطار کرے جسے وہ نہ ملے وہ پانی سے کھول لے کیونکہ وہ بھی پاک ہے ۔ (سنن نسائی)
روزے کے بعد توانائی کم ہو جاتی ہے اس لیے افطاری ایسی چیز سے ہونی چاہیے جو زود ہضم اور مقوی ہو ۔
کھجور کا کیمیائی تجزیہ
پروٹین 2.4
نشاشتہ 2.0
کاربوہائیڈریٹس 24.0
کیلوریز 2.0
سوڈیم 4.7
پوٹاشیم 754.0
کیلشیم 67.9
میگنیشیم 58.9
کاپر 0.21
آئرن 1.61
فاسفورس 638.0
سلفر 51.6
کلورین 290.0
اس کے علاوہ اور جوہر (Peroxides) بھی پایا جاتا ہے ۔ صبح سحری کے بعد شام تک کچھ کھایا پیا نہیں جاتا اور جسم کی کیلوریز (Calories) یا حرارے مسلسل کم ہوتے رہتے ہیں اس کے لئے کھجور ایک ایسی معتدل اور جامع چیز ہے جس سے حرارت اعتدال میں آجاتی ہے ار جسم گونا گوں امراض سے بچ جاتا ہے ۔ اگر جسم کی حرارت کو کنٹرول نہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل امراض پیدا ہونے کے خطرات ہوتے ہیں ۔
لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressue) فالج (Paralysis) لقوہ (Facial Paralysis) اور سر کا چکرانا وغیرہ ۔
غذائیت کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کے مریضوں کےلیے افطار کے وقت فولاد (Iron) کی اشد ضرورت ہے اور وہ کھجور میں قدرتی طور پر میسر ہے ۔
بعض لوگوں کو خشکی ہوتی ہے ایسے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو ان کی خشکی بڑھ جاتی ہے اس کے لئے کھجور چونکہ معتدل ہے اس لئے وہ روزہ دار کے حق میں مفید ہے ۔ گرمیوں کے روزے میں روزہ دار کو چونکہ پیاس لگی ہوتی ہے اور وہ افطار کے وقت اگر فوراً ٹھنڈا پانی پی لے تو معدے میں گیس، تبخیر اور جگر کی ورم (Liver Inflamation) کا سخت خطرہ ہوتا ہے اگر یہی روزہ دار کھجور کھا کر پھر پانی پی لے تو بے شمار خطرات سے بچ جاتا ہے ۔
روزہ کے ان فضائل کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ایک مسلمان اصول ضوابط کے ساتھ روزہ رکھے اور اگر اصول وضوابط کو پامال کر دیا جائے تو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور اللہ پاک کو صرف بھوک اور پیاس سے کوئی غرض نہیں ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر1903)
روزہ کی نیت
نیت کا معنیٰ ارادہ ہے لہذا اگر کسی نے دل میں ہی ارادہ کیا کہ روزہ رکھوں گا تو اس کاوہی ارادہ نیت کہلائے گا اور نیت کا وقت روزے سے پہلی شام کے غروب آفتاب سے شروع ہوتا ہے رمضان کے ہر روزے کی الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ’’درمختار‘‘ میں ہے : ویحتاج صوم کل یوم من رمضان الی نیۃ ۔ (در مختار جلد 2 صفحہ 379)
لہٰذا یہ نیت ہر روز کی جائے بیشک وہ دل کے ارادے ہی کی صورت میں ہو ۔
سحری کے احکام و مسائل
سحری کھانا سنت ہے اگر دل نہ چاہے تب بھی سنت کو پورا کرنے کی غرض سے کچھ نہ کچھ کھالینا چاہئے کیونکہ سحری کے کھانے کو بابرکت کہا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا فرمان مبارک ہے : تسحروا فان فی السحور برکۃ ۔
(صحیح بخاری،حدیث 1923)
سحری کھایا کرو اس لئے کہ اس کھانے میں برکت ہے ، دوسری حدیث مسند احمد کے حوالے سے ’’ردالمحتار ‘‘میں یوں ہے کہ : السحور کلہ برکۃ فلاتدعوہ ولو ان یجرع احدکم جرعۃ من ماء ۔ (ردالمحتار، جلد2صفحہ419)
سحری تمام تر برکت ہے ، لہذا اسے مت چھوڑو اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی کی صورت میں سحری ہو ۔
سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
روزے کےلیے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ،سحری کی دعا یہ ہے : وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان ۔
سحری میں تاخیر (آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے ۔ (عالمگیری،جلد1صفحہ200)
یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے۔
سحری کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر سحری کے وقت آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے روزہ رکھنا ضروری ہوگا سحری چھوٹ جانے سے روزہ چھوڑنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
روزے کےلیے دل کی نیت اور سحری کھانا ہی اس روزے کے آغاز کی علامت ہے البتہ یہ دعا بھی پرھ لی جائے تودرست ہے ،سحری کی دعا یہ ہے : وبصوم غدٍ نویت من شھر رمضان ۔
سحری میں تاخیر (آخری وقت میں کھانا) باعث خیر و برکت ہے ۔ (عالمگیری،جلد1صفحہ200)
یہ سوچ کر سحری میں مصروف رہاکہ ابھی صبح صادق نہیں ہوئی بعد میں پتہ چلا کہ صبح صادق ہو چکی ہے تو ایسی صورت میں روزہ نہیں ہوا،غروب تک کھانا پینا جائز نہیں اور اس روزہ کی قضاء بھی ضروری ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری جلد1 نمبر صفحہ نمبر 194)
اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے ۔
اگر غسل فرض ہے اور صبح صادق سے پہلے غسل کرنے کی صورت میں سحری رہ جاتی ہے تو ناپاکی کی حالت میں ہی سحری کھانا اور روزہ رکھ لینا جائز ہے ،البتہ غسل میں اتنی تاخیر ناپسندیدہ ہے ۔
(عالمگیری جلد 1 صفحہ 200)
صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لیے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو ۔
صبح صادق کا وقت ختم ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اس لیے اس کے بعد کھانے سے روزہ نہیں ہوگا اگرچہ ابھی تک اذان نہ ہوئی ہو ۔
(عالمگیری جلد1 صفحہ 194،چشتی)
سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے ۔ (بہار شریعت)
افطاری کے احکام و مسائل
یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہوجاتا ہے،اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
سحری کے بعد کلی کرنا اور دانتوں کو صاف کر لینا بہتر ہے ۔ (بہار شریعت)
افطاری کے احکام و مسائل
یقینی طور پر سورج کے غروب ہوتے ہی افطار کا وقت شروع ہوجاتا ہے،اسی ابتدائی وقت میں افطار کرنا پسندیدہ اور بلاوجہ تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
(مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ ,175)(بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 105)
افطاری کھجور ، چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء ۔ (الزیلعی جلد 1 صفحہ 443،چشتی)
احادیث مبارکہ میں افطاری کے وقت کی مختلف دعائیں موجود ہیں جو درجہ ذیل ہیں : ⬇
اول
اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ، اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں ۔ (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ | بَابٌ : الْقَوْلُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ الجزء رقم :2، الصفحة رقم:531 رقم الحديث 2358،چشتی)(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 294)
دوم
اللهم لك صمت، و عليك توكلت و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨)
سوم
الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت ۔ (شعب الایمان باب فی الصیام حدیث ۳۹۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۴۰۶)
چہارم
اللھم لک صمنا وعلی رزقک افطر نا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم ۔ (کتاب عمل الیوم و اللیلۃباب مایقول اذاافطر حدیث۴۸۰ معارف نعمانیہ حیدر آباد دکن ص ۱۲۸)
پنجم
ذھب الظمأ و ابتلت العروق ویثبت الاجران شاء اﷲتعالی ۔ (سنن ابی داؤد باب القول عندالافطار)
ششم
بسم ﷲ والحمدﷲ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت وعلیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۲۳۸۷۳ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
نوٹ : یہ چھ دعائیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہیں ۔
ہفتم
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ۔ (سنن ابن ماجه كِتَابُ الصِّيَامِ بَابٌ : فِي الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)
نوٹ : یہ دعا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔
اب احادیث سے یہ الفاظ ثابت ہیں ۔ عام طور پر جو الفاظ مشہور ہیں اللھم لك صمت و بك امنت و عليك توكلت و علي رزقك افطرت بعینہ ان الفاظ کے ساتھ افطار کی یہ دعا ثابت نہیں اگر چہ اس کا معنی صحیح ہے ۔
ملا علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وأما ما اشتهر على الألسنة ” اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت ” فزيادة ، ( وبك آمنت ) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحا ، وكذا زيادة ۔ وعليك توكلت ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الصوم باب في مسائل متفرقة من كتاب الصوم رقم الحدیث 1994،چشتی)
لیکن یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے اللهم لك صمت ، و عليك توكلت، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ ملا علی القاری کا و عليك توكلت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ یہی اضافہ دو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔
اول ایک طویل حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مختلف وصیتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وصیت ہے۔ کہ علی جب تم رمضان میں روزے سے ہو تو افطار کے بعد یہ پڑھو ۔
اللهم لك صمت، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨،چشتی)
دوسری حضرت انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس کھانا لایا جائے اور تم حالتِ روزہ میں ہوتو یہ کلمات کہو “بسم ﷲ والحمد للہ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت و علیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافرادحدیث ۲۳۸۷۳مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
لہذا و عليك توكلت کی زیادت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ مشہور دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے ۔ اللهم لك صمت ، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ اگر کوئی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں البتہ افضل و بہتر یہی مسنون دعا ہے ۔
کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ . (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ 173)
روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،جہنم سے نجات ملتی ہے ، روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جا سکتا ہے
روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281،چشتی)
سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281)
اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 207،چشتی)
حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 207)
اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہو جانا ، کسی بلندی سے گرنا ، کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281،چشتی)
وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں ۔ (ردالمحتار،جلد2صفحہ402)
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائزلیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے
کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد2صفحہ442)
اگر بیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ، البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422،چشتی)
اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہوجانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)
اگرعورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ (دودھ پلانے والی) روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
مسافر (جوکم ازکم 48 میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر421 - 423)
ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)
ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431،چشتی)
اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)
ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
شوگر کے مریض اگر واقعتا روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں ، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)
لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں،تفصیل درج ذیل ہے ۔
نوٹ : مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 265،چشتی)
اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا ۔ (عالمگیری ، جلد1صفحہ207،چشتی)(فتاویٰ شامی، جلد2 صفحہ 423- 424- 425)
مفسدات روزہ
وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوتا (ٹوٹتا) ہے دو طرح کی ہیں
(1) روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں ۔
(2) صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ۔
وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں
جان بوجھ کر کھانا ، پینا یا جماع کرنا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 205)
لواطت (غیر فطری فعل،ہم جنس پرستی) ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 406)
وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا ۔ (شامی جلد2 صفحہ409-410)
جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202،چشتی)
روزے کا کفارہ
مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ، یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا ، لگاتار ساٹھ (60) روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا ) اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61) روزے لگاتاربغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ412)(ھندیہ جلد1صفحہ215،چشتی)
اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے ۔ (شامی جلد 2صفحہ412)
البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘ شروع ہو جائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘ کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا ۔ (البحرالرائق ،جلد2صفحہ277)
اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں :
بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 479)
اگر ایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگااور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انھیں کو کھلائے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 514،چشتی)
روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے ۔ (البحرالرائق جلد 4 صفحہ 109)
وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں
اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا ۔ (ردالمحتارجلد2صفحہ414)
کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)
ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا ۔ (عالمگیری جلد1صفحہ202)
البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا۔*بھول کر کھایا ، پیا ، جماع کرلیا ، احتلام ہوگیا ، تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کردیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402،چشتی)
نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ، پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)
غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا ۔ (ہدایہ جلد 1 صفحہ 207،چشتی)
اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا ۔ (الاشباہ والنظائر،صفحہ60)
اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 203)
سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود(یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194،چشتی)
دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 202)
کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)
ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (مبسوط سرخسی جلد 3 صفحہ 98)
مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 431)
یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی ۔ (عالمگیری،جلد 1 صفحہ 207،چشتی)(فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 384)
وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا
جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)
آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)
مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)
کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ417)
ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں) لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (ردالمحتار جلد 2صفحہ395)
بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ ۔ (شامی جلد 2صفحہ394،چشتی)
کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ396)
خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ92)
احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ91)
حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
پچھنا ، سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہار شریعت)
مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کے لئے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 380)
ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ جلد 2صفحہ369،چشتی)
البتہ اگرپسینہ ذیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا ، اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 278)
مکروہاتِ روزہ
بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ199)
منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ199)
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے۔
افطاری کھجور ، چھوہارے یا کسی بھی میٹھی چیز سے کی جائے اگر کوئی میٹھی چیز نہ ہو تو پانی سے افطاری کر سکتے ہیں ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : عن انس رضی اللہ عنہ انہ علیہ السلام کان یفطر علی رطبات قبل ای یصلی فان لم تکن رطبات فتمرات فان لم تمرات حسا حسوات من ماء ۔ (الزیلعی جلد 1 صفحہ 443،چشتی)
احادیث مبارکہ میں افطاری کے وقت کی مختلف دعائیں موجود ہیں جو درجہ ذیل ہیں : ⬇
اول
اَلّٰلھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ ۔ ، اے اللہ میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دئیے ہوئے رزق سے میں افطار کرتا ہوں ۔ (سنن أبي داود | كِتَابٌ : الصَّوْمُ | بَابٌ : الْقَوْلُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ الجزء رقم :2، الصفحة رقم:531 رقم الحديث 2358،چشتی)(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 294)
دوم
اللهم لك صمت، و عليك توكلت و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨)
سوم
الحمد لله الذي أعانني فصمت ورزقني فأفطرت ۔ (شعب الایمان باب فی الصیام حدیث ۳۹۰۲ دارالکتب العلمیہ بیروت ۳ /۴۰۶)
چہارم
اللھم لک صمنا وعلی رزقک افطر نا فتقبل منا انک انت السمیع العلیم ۔ (کتاب عمل الیوم و اللیلۃباب مایقول اذاافطر حدیث۴۸۰ معارف نعمانیہ حیدر آباد دکن ص ۱۲۸)
پنجم
ذھب الظمأ و ابتلت العروق ویثبت الاجران شاء اﷲتعالی ۔ (سنن ابی داؤد باب القول عندالافطار)
ششم
بسم ﷲ والحمدﷲ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت وعلیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافراد حدیث ۲۳۸۷۳ مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
نوٹ : یہ چھ دعائیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہیں ۔
ہفتم
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ أَنْ تَغْفِرَ لِي ۔ (سنن ابن ماجه كِتَابُ الصِّيَامِ بَابٌ : فِي الصَّائِمِ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُ)
نوٹ : یہ دعا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ۔
اب احادیث سے یہ الفاظ ثابت ہیں ۔ عام طور پر جو الفاظ مشہور ہیں اللھم لك صمت و بك امنت و عليك توكلت و علي رزقك افطرت بعینہ ان الفاظ کے ساتھ افطار کی یہ دعا ثابت نہیں اگر چہ اس کا معنی صحیح ہے ۔
ملا علی القاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : وأما ما اشتهر على الألسنة ” اللهم لك صمت وبك آمنت وعلى رزقك أفطرت ” فزيادة ، ( وبك آمنت ) لا أصل لها وإن كان معناها صحيحا ، وكذا زيادة ۔ وعليك توكلت ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الصوم باب في مسائل متفرقة من كتاب الصوم رقم الحدیث 1994،چشتی)
لیکن یہ دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے اللهم لك صمت ، و عليك توكلت، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ ملا علی القاری کا و عليك توكلت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ یہی اضافہ دو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔
اول ایک طویل حدیث جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مختلف وصیتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک وصیت ہے۔ کہ علی جب تم رمضان میں روزے سے ہو تو افطار کے بعد یہ پڑھو ۔
اللهم لك صمت، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت ۔ (بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث رقم الحديث ٤٦٨،چشتی)
دوسری حضرت انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارے پاس کھانا لایا جائے اور تم حالتِ روزہ میں ہوتو یہ کلمات کہو “بسم ﷲ والحمد للہ اللھم لک صمت وعلی رزقک افطرت و علیک توکلت سبحٰنک وبحمدک تقبل منّی انک انت السمیع العلیم ۔ (کنز العمال بحوالہ قط فی الافرادحدیث ۲۳۸۷۳مکتبۃ التراث الاسلامی حلب۸ /۵۰۹)
لہذا و عليك توكلت کی زیادت کو بے اصل کہنا درست نہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ مشہور دعا ان الفاظ کے ساتھ ثابت ہے ۔ اللهم لك صمت ، و عليك توكلت ، و علي رزقك افطرت لیکن یہ اضافہ و بك آمنت ثابت نہیں ۔ اگر کوئی پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں البتہ افضل و بہتر یہی مسنون دعا ہے ۔
کسی کو روزہ افطار کرانا انتہائی اجرو ثواب کا باعث ، جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے : من فطّر صائما کان مغفرۃ لذنوبہ وعتق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ . (مشکوٰۃ جلد 1 صفحہ 173)
روزہ دار کو افطار کرانے سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،جہنم سے نجات ملتی ہے ، روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے ۔
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ توڑا جا سکتا ہے
روزہ دار اچانک ایسا بیمار ہو گیا کہ روزہ برقرار رکھنے کی صورت میں موت واقع ہوسکتی ہے یا بیماری خطرناک حد تک جاسکتی ہے تو روزہ توڑنا اور دوا استعمال کر لینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281،چشتی)
سانپ بچھو یا کسی بھی ایسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا کہ دوا نہ لینے کی صورت میں موت کا خطرہ ہے یا شدید نقصان کا خطرہ ہے تو بھی دوا کھانا اور روزہ توڑ دینا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ 281)
اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس لگی کہ پانی نہ پینے کی صورت میں موت یقینی ہے تو بھی پانی پینا اور روزہ توڑنا جائز ہے اور یہی مسئلہ شدید بھوک کی صورت میں بھی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 207،چشتی)
حاملہ عورت کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ پیش آجائے جس سے اس کی اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا خطرہ ہو تو بھی روزہ توڑنا درست بلکہ افضل ہے ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 207)
اگر کسی شخص کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آگیا جیسے ایکسیڈینٹ ہو جانا ، کسی بلندی سے گرنا ، کسی بھاری چیز کے نیچے دب جانا یا ان جیسا کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے جس میں جان پر بن جائے تو روزہ توڑنا جائز ہے ۔ (البحر الرائق جلد 2 صفحہ281،چشتی)
وہ تمام صورتیں جن میں روزہ مجبوراً توڑنا پڑا بعد میں صرف ان کی قضاء کرنا ہوگی کفارہ نہیں ۔ (ردالمحتار،جلد2صفحہ402)
وہ مجبوریاں جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائزلیکن بعد میں قضاکرناضروری ہے
کوئی شخص بیمار ہے اور کسی مسلمان ماہر ڈاکٹر و طبیب کے بقول روزہ رکھنے سے اسے شدید نقصان پہنچ سکتا ہے یا موت واقع ہو سکتی ہے تو اس کے لئے روزہ چھوڑنے کی شرعاً اجازت ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد2صفحہ442)
اگر بیمار کو ڈاکٹر و طبیب نے روزہ سے منع نہیں کیا لیکن خود ماہر ہے اور تجربہ کار ہے تو اپنے غالب گمان پر عمل کر کے روزہ چھوڑ سکتا ہے ، البتہ اگر خود ماہر و تجربہ کار نہ ہو تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422،چشتی)
اگر فی الوقت بیمار نہیں مگر پہلے گذری بیماری کی وجہ سے لاغر اور کمزور ہے اور اس بیماری کی وجہ سے ضعف باقی ہے روزہ رکھنے کی صورت میں بیماری کے دوبارہ شروع ہوجانے کا یقینی خطرہ ہے تو بھی روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)
اگرعورت حاملہ ہو اور روزے کی وجہ سے اپنی جان یا بچے کی جان کو خطرہ ہو تو اس حاملہ کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
اگر عورت بچے کو دودھ پلاتی ہے اور بچہ اس دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ یا دوسری کوئی خوراک نہیں کھا سکتا ایسی حالت میں دودھ پلانے سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو تو یہ مرضِعہ (دودھ پلانے والی) روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
مسافر (جوکم ازکم 48 میل کی مسافت کاسفر کر رہا ہو) سفر کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور اگر سفر ذیادہ دشوار نہیں جس میں روزہ رکھنے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی تو روزہ رکھنا ہی افضل ہے ۔ (فتاویٰ شامی جلد نمبر 2 صفحہ نمبر421 - 423)
ایسا مسافر جو صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو دن کے وقت اگرچہ سفر کا پختہ ارادہ ہو اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)
ایسا مسافر جس نے دوران سفر پندرہ دن یا اس سے ذیادہ قیام کا ارادہ کرلیا اس کے لئے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 431،چشتی)
اگر کوئی مسافر زوال سے پہلے مقیم ہو گیا اور اس سے روزے کے منافی کوئی کام سرزد نہیں ہوا تو اسی وقت سے روزہ رکھنا لازم ہوگا افطار کرنا شرعا جائز نہیں ۔ (فتاویٰ شامی،جلد2صفحہ431)
ایسا آدمی جو کسی بیماری میں تو مبتلا نہیں لیکن عمر ذیادہ ہونے کی وجہ سے کمزوری اس حد تک ہوچکی ہے کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسا شخص بھی روزہ چھوڑ سکتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 207)
شوگر کے مریض اگر واقعتا روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوں ، روزہ رکھنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہو تو وہ بھی روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ (ردالمحتار جلد 2 صفحہ 422)
لیکن اس میں حتی الامکان استقامت کی کوشش کی جائے اور رمضان المبارک کی رحمتوں سے رو گردانی نہ کی جائے نیز یہ بھی کہ فدیہ دینے کے بجائے مناسب وقت پر اپنے روزے کی قضاء کریں،تفصیل درج ذیل ہے ۔
نوٹ : مذکورہ بالا وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جب وہ عذر ختم ہو جائے تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ء ضروری ہے اور جب تک روزہ رکھنے کی طاقت موجود ہو یا طاقت کا پایا جانا متوقع ہو فدیہ نہیں دے سکتے قضاء ہی ضروری ہوگی ۔ (بدائع الصنائع جلد 2 صفحہ 265،چشتی)
اگرعذر کی وجہ سے روزہ چھوڑا گیا اور بعد میں روزہ رکھنے کا موقع ہی نہیں ملا جیسے اسی رمضان میں معذور فوت ہو گیا تو اس پر فدیہ بھی نہیں ہوگا اور اگر موقع ملا لیکن روزے رکھنے سے پہلے قریب الموت ہوگیا تو اسے فدیہ کی وصیت لازماً کرنی ہو گی ورنہ گنہگار ہوگا ۔ (عالمگیری ، جلد1صفحہ207،چشتی)(فتاویٰ شامی، جلد2 صفحہ 423- 424- 425)
مفسدات روزہ
وہ چیزیں جن سے روزہ فاسد ہوتا (ٹوٹتا) ہے دو طرح کی ہیں
(1) روزہ ٹوٹنے کی صورت میں قضاء اور کفارہ دونوں ہیں ۔
(2) صرف قضاء ہے کفارہ نہیں ۔
وہ مفسدات جن کی وجہ سے قضاء اور کفارہ دونوں لازم آتے ہیں
جان بوجھ کر کھانا ، پینا یا جماع کرنا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 205)
لواطت (غیر فطری فعل،ہم جنس پرستی) ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 406)
وہ چیز جو عادتاً دوا یا غذا ہے اسے جان بوجھ کر استعمال کرنا ۔ (شامی جلد2 صفحہ409-410)
جو چیز عادتاً غذا نہیں لیکن اسے کسی نے اپنی عادت بنا لیا تو اسے جان بوجھ کر استعمال کرنے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا،جیسے مٹی وغیرہ کھانے کی عادت بنا لینا ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 202،چشتی)
روزے کا کفارہ
مذکورہ صورتیں وہ ہیں جن میں قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہیں ، یعنی ایک روزہ توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنا ، لگاتار ساٹھ (60) روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (ان تین میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا ) اور روزے رکھنے کی صورت میں اکسٹھ (61) روزے لگاتاربغیر فاصلے کے رکھنا ہونگے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ412)(ھندیہ جلد1صفحہ215،چشتی)
اگر کفارے کے روزے رکھتے ہوئے ایک دن کا ناغہ بھی کرلیا تو دوبارہ شروع کرنا پڑے گا اور پہلے والے روزے کالعدم ہوجائیں گے ۔ (شامی جلد 2صفحہ412)
البتہ اگر عورت کفارے کے روزے رکھ رہی ہو اور اس کے ’’ایام‘‘ شروع ہو جائیں تو اتنے دن کا ناغہ معاف ہے ’’ایام‘‘ کے بعد وہیں سے شمار کرے گی جہاں چھوڑا تھا ۔ (البحرالرائق ،جلد2صفحہ277)
اگر کفارہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں ادا کرنا ہو تو اس میں مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں :
بھوکے اور خالی پیٹ مسکینوں کا انتخاب کیا جائے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 479)
اگر ایک ساتھ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جا رہا ہے تو صبح و شام دونوں وقت کھانا کھلانا ہوگااور جنہیں ایک وقت کھلایا دوسرے وقت بھی انھیں کو کھلائے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 514،چشتی)
روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں ایک ہی مسکین کو ساٹھ دن کھلانا بھی ٹھیک اور ساٹھ دنوں میں ہر روز نئے مسکین کو کھلانا بھی درست ہے ۔ (البحرالرائق جلد 4 صفحہ 109)
وہ مفسدات جن کی وجہ سے صرف قضاء لازم ہے کفارہ نہیں
اگر منہ بھر کر قصداً قے کردی یا قے خود بخود آئی تھی لیکن اسے واپس حلق سے نیچے اتار دیا (خواہ وہ چنے کے برابر ہی ہو) اور اس وقت روزہ یاد تھا تو اس کیفیت میں روزہ ٹوٹ گیا ۔ (ردالمحتارجلد2صفحہ414)
کان میں دوائی یا کوئی بھی تر چیز ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)
ناک میں دوائی یا کوئی بھی تر چیزڈالنے سے روز ہ ٹوٹ جائے گا ،اگر کلی کرتے وقت پانی حلق سے نیچے چلا گیا اور اس حال میں روزہ یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا ۔ (عالمگیری جلد1صفحہ202)
البتہ اگر کلی کرتے وقت روزہ یاد نہیں تھا تو فاسد نہیں ہوگا۔*بھول کر کھایا ، پیا ، جماع کرلیا ، احتلام ہوگیا ، تھوڑی مقدار میں قے ہوگئی یا شہوت کی حالت میں دیکھنے و چھونے سے انزال ہو گیا تو روزہ نہیں ٹوٹا مگر روزہ دار نے ان حالتوں میں یہ گمان کر کے کھانا پینا شروع کردیا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو اب واقعتاً روزہ ٹوٹ چکا ہے صرف اس کی قضاء لازم ہے کفارہ نہیں ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402،چشتی)
نسوار اور سگریٹ استعمال کرنے سے روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر روزہ دار کو اتنی شدید پیاس یا بھوک لگی کہ پانی نہ پینے اورکھانانہ کھانے کی صورت میں موت یقینی ہے ، پھر اس نے کھالیا یا پی لیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 207)
غروبِ آفتاب سے پہلے دی گئی اذان سن کر یا کسی اور طرح غلطی سے غروبِ آفتاب سے پہلے افطار کر لیا تو روزہ مکمل ہونے کے بجائے ٹوٹ گیا ۔ (ہدایہ جلد 1 صفحہ 207،چشتی)
اور پہلے دی گئی اذان پر وقت ہونے یا نہ ہونے کا شک تھایقین نہیں تھا اس کے باوجود افطار کرلیا توبھی روزہ ٹوٹ گیا قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا ۔ (الاشباہ والنظائر،صفحہ60)
اگر کسی بھی وجہ سے خون تھوک پر غالب آکر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ٹوٹ جائے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ 203)
سحری کا وقت ختم ہونے کے باوجود(یہ سمجھ کر کہ وقت ختم نہیں ہوا) سحری کھانے میں مشغول رہنے سے روزہ نہیں ہوا افطار تک کھانا پینا منع ہے اور قضاء لازم ہے ۔ (عالمگیری جلد 1 صفحہ 194،چشتی)
دانت میں پھنسی چیز اگر نگل لی اور وہ چنے سے ذیادہ تھی یا دانتوں سے باہر نکال کر دوبارہ نگل لی تو کم ہو یا ذیادہ ہر صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ 202)
کسی بیماری میں مبتلا ہونے والے یا حادثے کا شکار ہونے والے کو دوائی یا پانی پلانے سے روزہ ٹوٹ گیا فقط قضاء لازم آئے گی کفارہ نہیں،اورایسی دوا جو دماغ یا پیٹ کے زخم پر لگانے کی صورت میں دماغ یا پیت تک سرایت کر جائے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 402)
ایسی دوا جو ناک سے سونگھی جائے اس کے اثرات دماغ تک پہنچنے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے،اور دمہ کے مریض جو وینٹولین استعمال کرتے ہیں اس سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر روزہ دار کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے اور جان جانے کا خطرہ سمجھ کر روزہ دار روزہ توڑ دے تو بھی شرعاً روزہ ٹوٹ جائے گا ۔ (مبسوط سرخسی جلد 3 صفحہ 98)
مسافر نے صبح صادق سے روزہ رکھا تھا پھر کچھ کھایا پی لیا تو روز ہ ٹوٹ گیا قضاء لازم ہے ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 431)
یہ اور ان جیسی دیگر صورتیں وہ ہیں جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن کفارہ لازم نہیں آتا فقط قضاء کرنا ہوگی ۔ (عالمگیری،جلد 1 صفحہ 207،چشتی)(فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 384)
وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا
جسم کے بالوں میں تیل لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)
آنکھوں میں سرمہ یا دوائی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)
مسواک تر ہو یا خشک اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ419)
کسی بھی قسم کی خوشبو لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ417)
ٹیکہ (رگ میں لگایا جائے یا گوشت میں) لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (ردالمحتار جلد 2صفحہ395)
بھول کر کھانے اور پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ کم کھایا یا ذیادہ ۔ (شامی جلد 2صفحہ394،چشتی)
کان میں پانی جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2صفحہ396)
خود بخود قے ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا خواہ وہ کم ہو یا ذیادہ ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ92)
احتلام ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بدائع الصنائع جلد2صفحہ91)
حلق میں گردو غبار دھواں یا مکھی و مچھر چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
پچھنا ، سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (بہار شریعت)
مجبوراً کسی چیز کو چکھا حلق سے نیچے نہیں اتارا تو روزہ نہیں ٹوٹتا ، جیسے بدمزاج و سخت طبیعت شوہر کی سختی اور ناراضگی سے بچنے کے لئے عورت نے کھانا یوں چکھا کہ حلق تک اس کا اثر نہیں پہنچا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ تاتارخانیہ جلد 2 صفحہ 380)
ایسا آپریشن جو پیٹ اور دماغ کے علاوہ کسی اور عضوِ جسم کا ہو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (شامی جلد 2 صفحہ 395)
اگر دوچار قطرے پسینہ روزہ دار کے منہ میں چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (فتاویٰ تاتار خانیہ جلد 2صفحہ369،چشتی)
البتہ اگرپسینہ ذیادہ ہو اور حلق میں چلا جائے تو روزہ فاسد ہو جائے گا ، اگر ماں نے اپنے دودھ پیتے بچے کو دودھ پلایا تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ (البحرالرائق جلد 2 صفحہ 278)
مکروہاتِ روزہ
بلا عذر کوئی چیز چکھنے یا چبانے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ (عالمگیری جلد 1صفحہ199)
منہ میں جمع شدہ لعاب کو نگل لینے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔ (عالمگیری،جلد 1صفحہ199)
روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ یا منجن استعمال کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے اور اگر حلق سے نیچے اتر جائے تو فاسد ہو جاتا ہے۔
(فتاویٰ شامی جلد 2 صفحہ 416)
ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے۔
ناک میں پانی ڈالنے یا کلی کرنے میں پانی بہت ذیادہ استعمال کرنا یا بار بار کلی کرنا مبالغہ میں آتا ہے اور یہ مکروہ ہے۔
(عالمگیری جلد 1 صفحہ 199)
روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے۔
روزے کی حالت میں اتنا خون دینا جس سے کمزوری آجائے مکروہ ہے۔
(عالمگیری،جلد 1صفحہ200)
ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے ۔
ضرورتِ شدیدہ کے بغیر روزے کی حالت میں دانت یا داڑھ نکلوانا مکروہ ہے ۔
(شامی جلد 2صفحہ 396)
جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ، شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا ، فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں ۔
جماع کے محرکات یعنی شہوت کے ساتھ بوسہ لینا ، شہوت کے ساتھ دیکھنا و چھونا ، فحش مناظر دیکھنا وغیرہ یہ سب کام مکروہ ہیں ۔
(حجۃ اللہ البالغہ جلد 2 صفحہ 141)
غیبت کرنے ، چغلخوری کرنے ، دھوکہ دینے ، جھوٹی قسم کھانے ، جھوٹی گواہی دینے ، ظلم کرنے ، فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔
غیبت کرنے ، چغلخوری کرنے ، دھوکہ دینے ، جھوٹی قسم کھانے ، جھوٹی گواہی دینے ، ظلم کرنے ، فحش گوئی کرنے اور بے پردگی کرنے سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے ۔
(سنن ابن ماجہ صفحہ نمبر 141)
(مزید حصّہ چہارم میں ان شاء اللہ)
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
طالب دعا و دعا گو
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ النفس محقق دوران حضرت علامہ مولانا مفتی
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی