Type Here to Get Search Results !

پیری مریدی کہاں سے ثابت ہے؟ امام اعظم کس کے مرید تھے؟

(سوال نمبر 5134)
پیری مریدی کہاں سے ثابت ہے؟ امام اعظم کس کے مرید تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید نے اعتراض کیا کہ یہ پیری مریدی کہاں سے ثابت ھے ؟ بیعت تو صرف خلیفہ بنانے کیلۓ کی جاتی تھی حضور ﷺ کے دور میں تو اِس پر بکر نے کہا کہ خلافت کے علاوہ بیعت کرنا بھی کریم آقاﷺ سے ثابت ھے زید نے کہا کہاں سے ثابت ھے بکر نے کہا کہ قرآن میں اللہ ﷻ نے ارشاد فرمایا کہ اے محبوبﷺ جب تمھارے پاس مومن عورتین بیعت کرنے کیلۓ آؠیں تو اُن سے اِن اِن باتوں پر بیعت کرو ۔۔۔۔۔۔اب بکر نے کہا کہ یہاں حضورﷺ عورتوں کو خلافت تو نہیں عطا فرما رھے تھے جو تم کہو کہ بیعت تو صرف ظاہری خلافت کیلۓ ھوتی تھی تو اس پر زید نے بڑی ھوشیاری دکھا اور گویا ھوا کہ یہ آیت قرآن کی صرف حضورﷺ کیلۓ خاص ھے یعنی یہ والی بیعت صرف حضورﷺ کا خاصہ ھے ۔۔۔پھر آگے بات چلی تو زید نے کہا کہ امام ابو حنیفہ,امام مالک,امام شافعی,امام احمد بن حنبل, ان کے شاگرد لاکھوں می تھے لیکن مجھے کہیں یہ دکھا دو کہ اِنہوں نے کسی کو مرید کیا ھو,بیعت کی ھو؟؟؟اس پر بکر نے کہا کہ یہ تم اصول کہاں سے لے آۓ کہ جو کام آئمہ اربعہ نہ کریں وہ ناجائز؟؟؟تمھارا یہ اصول تو تمھاری اپنک خودساختہ تعریفِ بدعت پر صادق آتی ھے اور یہ تمھارا اصول بدعت ھوتا ھے۔۔۔خیر سوال یہ ھے کہ: 
1)زید و بکر میں کون قریبِ حق ھے؟؟؟
2)زید کا قرآنی آیت کو اپنی مرضی سے خاص قرار دینا کیا شرعی حکم رکھتا ھے؟؟؟
3)کیا واقعی آئمہِ اربعہ نے بیعت روحانیت میں نہیں کی تھی؟؟ اگر کی تو بحوالا ارشاد ھو۔۔۔
4)کیا یہ معلوم ھو سکتا ھے کہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمھم اللہ تعالیٰ کس سلسلہِ طریقت میں مرید تھے اور آگے بیعت کا سلسلہ کیا؟ امید ھے علماۓ حق اہلسنت تسلی بخش و مدلل جواب عنایت فرمائیں گے ۔۔بےشک علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ھیں شرعی رہنمائ فرمائیے۔۔۔جزاک اللہ۔۔۔
سائل:- عبدالمصطفیٰ محمد عمر از پاکستان,راولپنڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ مذکورہ مباحثہ میں زید غلط ہے۔
بیعت و ارادت وغیرہا کے عدم جواز و بدعت کے قائلین کو قرآن یا احادیث یا اقوال صحابہ یا اَقَل درجہ میں قواعد فقہیہ سے ان کے عدم جواز پر دلیل لانا چاہیے بلا دلیل شرعی ان کے عدم جواز کا قول اﷲ عزوجل اور رسول اﷲ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر افتراء ہے وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی 
یہ امر بھی ملحوظ رکھنا اشد ضروری ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قول و فعل اور صحابۂ کرام کا قول و فعل تو حجت شرعیہ ہے مگر ان کا عدم قول اور عدم فعل، عدم جواز کے لئے حجت شرعیہ نہیں وہ اسی قاعدہ کے مطابق جائز و مباح ہے کہ اَلأ صْلُ فِی اَلأ شْیَائِ الإبَاحَۃُ بلکہ امر مباح بہ نیت خیر باعث اجرو ثواب ہے اور مستحسن کہ اَلأعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ حدیث صحیح ہے بلکہ وہ تمام امور مباح جن سے دین کی ترقی یا تعلیمات ِ اسلام کی اشاعت اور شریعت کا تحفظ ہوتا ہے سب مستحسن ہیں۔
(بہار شریعت 19/1077 مکتبہ المدینہ)
٢/ کتاب و سنت میں کسی عموعی احکام کو اپنی طرف سے کسی ایک معنی میں مقید کرنا جائز نہیں۔ ایسا شخص عاصی ہے 
٣/ ائمہ اربعہ کے شیخ وہی تھے جو ان کے خاص استاد تھے۔
پیر کی حیثیت ایک استاد کی ہے اگر استادکی ہر شخص کو ضرورت ہے تو پیر کی بھی ہر شخص کو ضرورت ہے پیر اخلاق رزیلہ کو دور کرنے اور اخلاق حسنہ کو حاصل کرنے کے طریقے تعلیم کرتا ہے اور ان طریقوں پر عمل کرنے کے راستے بتاتا ہےتمام ان لوگوں کو پیر کی ضرورت ہے جو مذکورہ بالا باتیں خود نہ کرسکیں اور اس لیے کہ استاد کے ذریعہ سے تحصیل معارف آسان ہوتی ہیں
اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کے لیے بیعت کی جاتی ہے دین کے راستہ پر چلنا اور نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرانا فرض ہے اور کسی متبع سنت و شریعت پیر سے بیعت ہونا اسی اصلاح کا ایک ذریعہ ہےاگرچہ اصلاح ہونا صرف بیعت ہوجانے پر ہی موقوف نہیں ہے بیعت ہوئے بغیر بھی کسی متبع سنت و شریعت عالم اور اللہ والے سے اپنے نفس کی اصلاح کے معاملے میں راہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ تمام علماء و فقہاء کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ رذائل سے بچنا اور فضائل کو حاصل کرنا ہر عاقل بالغ پر فرض ہے، یہی فریضہ ہے جس کو اصلاحِ نفس یا تزکیہ نفس اور تزکیہ اخلاق یا تہذیبِ اخلاق کہا جاتا ہے، اور یہی تصوف کا حاصل و مقصود 
پیری مریدی کے اسی معنی کے لحاظ سے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی اپنے ان اساتذہ کے مرید تھے جو اپنے وقت کے فقہاء شمار ہوتے تھے چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاذ حماد بن ابی سلیمان کی زیر تربیت رہےیہاں تک کہ ان کے وفات کے بعد ان کےجانشین قرار پائے۔
من اعلام السلف میں ہے
وحماد بن أبي سليمان، فهذا هو شيخه المباشر الذي كان في حلقته وعلى كرسيه بعدما توفي۔
(الإمام أبو حنيفة، شيوخ وتلاميذ الإمام أبي حنيفة، ج:٣، ص:١٠، ط:دار الإيمان الأسكندرية)
علو الہمۃ میں ہے
واستمر ‌أبو ‌حنيفة ‌ملازمًا أستاذه ثماني عشرة سنة، ولم يستقل بالدرس والتمحيص إلا بعد وفاة حماد۔
(الباب الخامس، الفصل الرابع أطفالنا وعلو الهمة، كبار الهمة النابغون مختصر الطريق إلى المجد، ص:٣٩٠، ط:دار الإيمان الأسكندرية)
٤/شاہ عبدالحق دہلوی رحمت اللہ علیہ کے پیر عبدالوہاب متقی، شیخ امان اللہ پانی پتی
ہیں ان کے تفصیلی احوال جاننے کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ کیجیے حیاتِ شیخ عبدالحق دہلوی، تاریخ دعوت وعزیمت، مقدمہ رحمة اللہ الواسعة شرح حجة اللہ البالغة وغیرہا۔
حدیث شریف میں ہے
روایت ہے حضرت عبد ﷲ ابن عمر سے فرماتے ہیں میں نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا کہ جو فرماں برداری سے ہاتھ نکالے وہ قیامت کے دن ﷲ سے اس حال میں ملے گا اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس طرح مرا کہ اس کے گلے میں
بیعت نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا (مسلم)
المرأۃ میں ہے 
بیعت سے اگر خلیفہ و سلطان اسلام کی بیعت مراد ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ جب خلیفہ رسول یا سلطان اسلام موجود ہو پھر یہ اس کی بیعت خلافت نہ کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا اور اگر بیعت سے عام بیعت مراد ہے خواہ بیعت خلافت ہو یا بیعت ارادہ تو حدیث مطلق ہے کہ جو بغیر مرشد پکڑے مرجائے اس کی موت کفار کی سی ہے۔صوفیاء فرماتے ہیں جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے،یہ حدیث ان کی دلیل ہے۔خیال رہے کہ بیعت بہت قسم کی ہے:بیعت اسلام،بیعت اطاعت اور بیعت رادت۔
( المرأة المناجیح ج 5 ص 574 مکتبہ المدینہ)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/11/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area