تذکرہ استاذ الاساتذہ مفتی محمد گل احمد خان عتیقی رحمه اللہ
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
شیخ الحدیث والتفسیر ، زینت مسند تدریس ، حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد گل احمد خان عتیقی رحمہ اللّٰہ ١٩٤٩ء ، آزاد کشمیر ، مظفر آباد تحصیل ہٹیاں کے گاؤں سربن میں پیدا ہوئے ۔ چھوٹے چچا راجہ محمد ایوب خان نے پہلے آپ کا نام بدر الزمان خان رکھا ، بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں اس نام کا ایک اور شخص بھی ہے ، اس لئے نام بدل کر "گل احمد خان" رکھا گیا ۔ سن ١٩٦٥ء میں دوران تعلیم خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ سے کمال درجہ عقیدت و محبت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ "عتیقی" بھی شامل کر لیا ۔
دنیاوی تعلیم کا حصول :
آپ نے پرائمری تک سکول کی تیاری اپنے چچا راجہ محمد ایوب خان سے کی اور پانچویں کا امتحان پرائمری سکول بانڈی میداں میں دیا ، پھر اسی سکول کے لوئر مڈل ہونے کیوجہ سے ساتویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ ابھی چھٹی کلاس کے طالب علم تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔
دینی تعلیم کا آغاز :
١٩٥٨ء میں والدہ ماجدہ کے حکم پر اور والد گرامی کی وصیت کے مطابق سکول کی تعلیم چھوڑ کر جامعہ تعلیم الاسلام جہلم پہنچے ، چونکہ وہاں داخلے کا وقت نہیں تھا اس لیے وہاں سے لاہور کی طرف رخت سفر باندھا اور داتا حضور کے قدموں میں پہنچ گئے اور جامعہ گنج بخش میں داخلہ لے کر قاری محمد طیب صاحب سے قرآن مجید کا تلفظ ٹھیک کیا اور ان سے سورة يسين اور سورة. ملك اور تیسویں پارے کا نصف آخر حفظ کیا ۔ پھر مدرسہ سراج العلوم گوجرانولہ میں داخلہ لے کر سکندر نامہ تک فارسی حضرتِ مولانا مفتی محمد عبداللہ رحمہ اللہ سے پڑھی ، صرف کی بنیادی کتب حضرت مولانا عبد اللطیف سے پڑھیں ۔ پھر جامعہ غوثیہ بھابھڑا بازار میں داخلہ لے کر حضرت مولانا غلام محی الدین صاحب سے رسائل منطق وغیرہ ، علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب سے مراح الارواح وغیرہ کتب پڑھیں ۔ جامعہ رحمانیہ ہری پور ہزارہ میں شیخ الحدیث علامہ سید زبیر شاہ صاحب سے علم الصیغہ ، ہدایة النحو ، نور الانوار ، مولانا عبد العزیز صاحب سے قانونچہ اور اوسط وغیرہ کتب پڑھیں ، اسی سال کے آخر میں مدرسہ انوریہ ڈھینڈاں ہری پور میں مولوی محمد الیاس کشمیری سے قدوری ، قانونچہ اور نظم مائة کے چند اسباق پڑھے ۔ چھٹیوں کے بعد گھر پہنچ کر مولوی محمد الیاس کشمیری سے مزید پڑھنا چاہا مگر گھر والوں نے کہا کہ یہ بد عقیدہ ہے اس سے نہ پڑھو ۔ اور اسی سال رمضان المبارک کی چھٹیوں میں بوسال سکھا گجرات پہنچ کر نظم مائة مع ترکیب اور قانونچہ کامروی اور سات پارے ترجمہ مولانا فضل الرحمان ہزاروی سے پڑھے ۔ پھر دوبارہ گوجرانولہ میں حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ مردانوی سے ادیب عالم کی غرض سے شرح تہذیب و شرح عقائد وغیرہ کتب پڑھیں ۔
دوبارہ لاہور پہنچ کر جامعہ نظامیہ رضویہ میں داخلہ لے کر شیخ الحدیث والتفسیر ، جامع معقول و منقول حضرت علامہ غلام رسول رضوی رحمہ اللّٰہ سے وسائل منطق تا مرقات کافیہ و کنز الدقائق اور بقیہ نور الانوار وغیرہ کتب پڑھیں اور مفتی اعظم پاکستان ، حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے جامی ، میبذی اور شرح تہذیب کے چند اسباق پڑھے ۔
دورہ حدیث :
١٩٧٢، ١٩٧٣ء میں جامعہ نظامیہ اور جامعہ نعمانیہ میں تدریس کے دوران بعد نماز عصر و عشاء مفتی اعظم پاکستان ، شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا سید ابو البرکات شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر صحاحِ ستہ کا درس لے کر سند حدیث حاصل کی اور تنظیم المدارس کے عالمیہ کے امتحان میں ممتاز الشرف کے درجہ میں کامیاب ہو کر اعلیٰ پوزیشن حاصل کی ۔
بیعت :
١٩٥٩ءمیں گوجرانولہ سراج العلوم میں تعلیم کے دوران خلیفہ حجة الاسلام ، محدث اعظم پاکستان ، شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے ۔
تدریس :
١٩٦٧ء میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے بحیثیت صدر مدرس تدریس کا آغاز کیا ، ڈیڑھ سال جامعہ رضویہ میں تدریس فرمائی ۔ ١٩٦٩ء سے ساڑھے چار سال تک جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں ، بعد ازاں جامعہ نعمانیہ لاہور ، جامعہ ریاض المدینہ گوجرانولہ اور جامعہ عثمانیہ رضویہ فاروق آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے ۔
١٩٨٩، ١٩٩٠ء میں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور بحیثیت شیخ الحدیث ترمذی شریف ، نسائی شریف ، مشکوة شریف پڑھاتے رہے ۔ جامعہ جماعتیہ حیات القرآن پاپڑ منڈی میں مسلسل نو سال تک رمضان المبارک کی تعطیلات میں دورہ قرآن پاک پڑھاتے رہے ۔
فتویٰ نویسی :
جامعہ رضویہ (گلستان محدث اعظم پاکستان) جھنگ بازار میں نو سال فتویٰ نویسی کی خدمات بھی سر انجام دیں ۔ آپ سردیوں میں بھی رات دو بجے تک جاگتے رہتے نو سال میں آپ نے بے شمار فتاویٰ لکھے اگر انہیں محفوظ کر لیا جاتا تو یہ ایک عظیم فتاویٰ کتابی صورت میں موجود ہوتا ۔
اساتذہ کرام :
(١.)ملک العلماء ، رئیس المدرسین ، علامہ عطاء محمد بندیالوی ۔
(٢.)شیخ الحدیث ، حضرت علامہ غلام رسول رضوی ۔
(٣.) شیخ الحدیث ، حضرت علامہ سید محمد زبیر شاہ صاحب ۔
(٤.) حضرت علامہ سید غلام محی الدین شاہ صاحب ۔
(٥.) حضرت علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب ۔
(٦.)مفتی اعظم پاکستان ، حضرت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی ۔
(٧.) حضرت علامہ مفتی محمد عبداللہ مردانوی ۔
(٨.) شیخ القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی ۔
تلامذہ :
آپ سے سینکڑوں علماء نے کسب فیض کیا چند معروف تلامذہ کے اسماء درج ذیل ہیں :
(١.) شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا حافظ عبد الستار سعیدی
(٢.)شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدیق ہزاروی ۔
(٣.)شیخ الحدیث ، امیر المجاہدین ، حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی
(٤.)شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا سعید قمر سیالوی
(٥.) حضرت علامہ مولانا سید غلام مصطفیٰ شاہ ۔
(٦.) حضرت علامہ مولانا محمد صادق علوی کشمیری (مترجم جواہر البحار)
(٧.) حضرت مولانا شیر محمد رضوی ۔
(٨.)حضرت علامہ مولانا خواجہ وحید احمد صاحب
تصانیف :
(١.) توضیحات عتیقیہ اُردو شرح مناظرہ رشیدیہ ۔
(٢.)عتیقیہ ترجمہ شریفیہ
(٣.)شرح مسلم الثبوت
(٤.)شرح میبذی
(٥.) توضیحات عتیقی بر جامع ترمذی
(٦.)خلاصہ مضامین سورہ قرآن
(٧.)العتیقیہ ما فی الرشیدیہ
(٨.) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ
(٩.) سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ عنہ
(١٠.)ترجمہ الاسراء والمعراج
(١١.) ترجمہ المورد الروی
(١٢.)نشری تقریریں
(١٣.) محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللّٰہ علیہ
⛔پروانہ شمع رسالت ، ص : ٨٧ ، ٩٩ ، مطبوعہ ادارہ نور سحر دربار مارکیٹ ، لاہور ۔
اہلسنت و جماعت کا یہ چمکتا دمکتا ستارہ۔ ٢٣/شعبان المعظم ١٤٤٥ھ بمطابق ٥/مارچ ٢٠٢٤ء کو ہم سے رخصت ہو کر دار فانی کی طرف کوچ فرما گیا ۔ جنازہ مزار حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ ہوا ، جنازہ کی امامت شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا حافظ محمد عبد الستار سعیدی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ علامہ مفتی محمد گل احمد خان عتیقی رحمہ اللّٰہ کے درجات بلند فرمائے ، ان کی قبر پر اپنی لاکھوں کروڑوں رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے اور ہمیں آپ کی تعلیمات و تصنیفات سے مستفیض فرمائے ۔
شیخ الحدیث والتفسیر ، زینت مسند تدریس ، حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد گل احمد خان عتیقی رحمہ اللّٰہ ١٩٤٩ء ، آزاد کشمیر ، مظفر آباد تحصیل ہٹیاں کے گاؤں سربن میں پیدا ہوئے ۔ چھوٹے چچا راجہ محمد ایوب خان نے پہلے آپ کا نام بدر الزمان خان رکھا ، بعد ازاں معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں اس نام کا ایک اور شخص بھی ہے ، اس لئے نام بدل کر "گل احمد خان" رکھا گیا ۔ سن ١٩٦٥ء میں دوران تعلیم خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللّٰہ عنہ سے کمال درجہ عقیدت و محبت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ "عتیقی" بھی شامل کر لیا ۔
دنیاوی تعلیم کا حصول :
آپ نے پرائمری تک سکول کی تیاری اپنے چچا راجہ محمد ایوب خان سے کی اور پانچویں کا امتحان پرائمری سکول بانڈی میداں میں دیا ، پھر اسی سکول کے لوئر مڈل ہونے کیوجہ سے ساتویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی ۔ آپ ابھی چھٹی کلاس کے طالب علم تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔
دینی تعلیم کا آغاز :
١٩٥٨ء میں والدہ ماجدہ کے حکم پر اور والد گرامی کی وصیت کے مطابق سکول کی تعلیم چھوڑ کر جامعہ تعلیم الاسلام جہلم پہنچے ، چونکہ وہاں داخلے کا وقت نہیں تھا اس لیے وہاں سے لاہور کی طرف رخت سفر باندھا اور داتا حضور کے قدموں میں پہنچ گئے اور جامعہ گنج بخش میں داخلہ لے کر قاری محمد طیب صاحب سے قرآن مجید کا تلفظ ٹھیک کیا اور ان سے سورة يسين اور سورة. ملك اور تیسویں پارے کا نصف آخر حفظ کیا ۔ پھر مدرسہ سراج العلوم گوجرانولہ میں داخلہ لے کر سکندر نامہ تک فارسی حضرتِ مولانا مفتی محمد عبداللہ رحمہ اللہ سے پڑھی ، صرف کی بنیادی کتب حضرت مولانا عبد اللطیف سے پڑھیں ۔ پھر جامعہ غوثیہ بھابھڑا بازار میں داخلہ لے کر حضرت مولانا غلام محی الدین صاحب سے رسائل منطق وغیرہ ، علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب سے مراح الارواح وغیرہ کتب پڑھیں ۔ جامعہ رحمانیہ ہری پور ہزارہ میں شیخ الحدیث علامہ سید زبیر شاہ صاحب سے علم الصیغہ ، ہدایة النحو ، نور الانوار ، مولانا عبد العزیز صاحب سے قانونچہ اور اوسط وغیرہ کتب پڑھیں ، اسی سال کے آخر میں مدرسہ انوریہ ڈھینڈاں ہری پور میں مولوی محمد الیاس کشمیری سے قدوری ، قانونچہ اور نظم مائة کے چند اسباق پڑھے ۔ چھٹیوں کے بعد گھر پہنچ کر مولوی محمد الیاس کشمیری سے مزید پڑھنا چاہا مگر گھر والوں نے کہا کہ یہ بد عقیدہ ہے اس سے نہ پڑھو ۔ اور اسی سال رمضان المبارک کی چھٹیوں میں بوسال سکھا گجرات پہنچ کر نظم مائة مع ترکیب اور قانونچہ کامروی اور سات پارے ترجمہ مولانا فضل الرحمان ہزاروی سے پڑھے ۔ پھر دوبارہ گوجرانولہ میں حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبداللہ مردانوی سے ادیب عالم کی غرض سے شرح تہذیب و شرح عقائد وغیرہ کتب پڑھیں ۔
دوبارہ لاہور پہنچ کر جامعہ نظامیہ رضویہ میں داخلہ لے کر شیخ الحدیث والتفسیر ، جامع معقول و منقول حضرت علامہ غلام رسول رضوی رحمہ اللّٰہ سے وسائل منطق تا مرقات کافیہ و کنز الدقائق اور بقیہ نور الانوار وغیرہ کتب پڑھیں اور مفتی اعظم پاکستان ، حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے جامی ، میبذی اور شرح تہذیب کے چند اسباق پڑھے ۔
دورہ حدیث :
١٩٧٢، ١٩٧٣ء میں جامعہ نظامیہ اور جامعہ نعمانیہ میں تدریس کے دوران بعد نماز عصر و عشاء مفتی اعظم پاکستان ، شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا سید ابو البرکات شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر صحاحِ ستہ کا درس لے کر سند حدیث حاصل کی اور تنظیم المدارس کے عالمیہ کے امتحان میں ممتاز الشرف کے درجہ میں کامیاب ہو کر اعلیٰ پوزیشن حاصل کی ۔
بیعت :
١٩٥٩ءمیں گوجرانولہ سراج العلوم میں تعلیم کے دوران خلیفہ حجة الاسلام ، محدث اعظم پاکستان ، شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد چشتی قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے ۔
تدریس :
١٩٦٧ء میں جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد سے بحیثیت صدر مدرس تدریس کا آغاز کیا ، ڈیڑھ سال جامعہ رضویہ میں تدریس فرمائی ۔ ١٩٦٩ء سے ساڑھے چار سال تک جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں ، بعد ازاں جامعہ نعمانیہ لاہور ، جامعہ ریاض المدینہ گوجرانولہ اور جامعہ عثمانیہ رضویہ فاروق آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے ۔
١٩٨٩، ١٩٩٠ء میں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور بحیثیت شیخ الحدیث ترمذی شریف ، نسائی شریف ، مشکوة شریف پڑھاتے رہے ۔ جامعہ جماعتیہ حیات القرآن پاپڑ منڈی میں مسلسل نو سال تک رمضان المبارک کی تعطیلات میں دورہ قرآن پاک پڑھاتے رہے ۔
فتویٰ نویسی :
جامعہ رضویہ (گلستان محدث اعظم پاکستان) جھنگ بازار میں نو سال فتویٰ نویسی کی خدمات بھی سر انجام دیں ۔ آپ سردیوں میں بھی رات دو بجے تک جاگتے رہتے نو سال میں آپ نے بے شمار فتاویٰ لکھے اگر انہیں محفوظ کر لیا جاتا تو یہ ایک عظیم فتاویٰ کتابی صورت میں موجود ہوتا ۔
اساتذہ کرام :
(١.)ملک العلماء ، رئیس المدرسین ، علامہ عطاء محمد بندیالوی ۔
(٢.)شیخ الحدیث ، حضرت علامہ غلام رسول رضوی ۔
(٣.) شیخ الحدیث ، حضرت علامہ سید محمد زبیر شاہ صاحب ۔
(٤.) حضرت علامہ سید غلام محی الدین شاہ صاحب ۔
(٥.) حضرت علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب ۔
(٦.)مفتی اعظم پاکستان ، حضرت علامہ مفتی عبد القیوم ہزاروی ۔
(٧.) حضرت علامہ مفتی محمد عبداللہ مردانوی ۔
(٨.) شیخ القرآن علامہ غلام علی اوکاڑوی ۔
تلامذہ :
آپ سے سینکڑوں علماء نے کسب فیض کیا چند معروف تلامذہ کے اسماء درج ذیل ہیں :
(١.) شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا حافظ عبد الستار سعیدی
(٢.)شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صدیق ہزاروی ۔
(٣.)شیخ الحدیث ، امیر المجاہدین ، حضرت علامہ مولانا حافظ خادم حسین رضوی
(٤.)شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا سعید قمر سیالوی
(٥.) حضرت علامہ مولانا سید غلام مصطفیٰ شاہ ۔
(٦.) حضرت علامہ مولانا محمد صادق علوی کشمیری (مترجم جواہر البحار)
(٧.) حضرت مولانا شیر محمد رضوی ۔
(٨.)حضرت علامہ مولانا خواجہ وحید احمد صاحب
تصانیف :
(١.) توضیحات عتیقیہ اُردو شرح مناظرہ رشیدیہ ۔
(٢.)عتیقیہ ترجمہ شریفیہ
(٣.)شرح مسلم الثبوت
(٤.)شرح میبذی
(٥.) توضیحات عتیقی بر جامع ترمذی
(٦.)خلاصہ مضامین سورہ قرآن
(٧.)العتیقیہ ما فی الرشیدیہ
(٨.) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ
(٩.) سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ عنہ
(١٠.)ترجمہ الاسراء والمعراج
(١١.) ترجمہ المورد الروی
(١٢.)نشری تقریریں
(١٣.) محدث اعظم پاکستان رحمۃ اللّٰہ علیہ
⛔پروانہ شمع رسالت ، ص : ٨٧ ، ٩٩ ، مطبوعہ ادارہ نور سحر دربار مارکیٹ ، لاہور ۔
اہلسنت و جماعت کا یہ چمکتا دمکتا ستارہ۔ ٢٣/شعبان المعظم ١٤٤٥ھ بمطابق ٥/مارچ ٢٠٢٤ء کو ہم سے رخصت ہو کر دار فانی کی طرف کوچ فرما گیا ۔ جنازہ مزار حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللّٰہ علیہ پہ ہوا ، جنازہ کی امامت شیخ الحدیث ، حضرت علامہ مولانا حافظ محمد عبد الستار سعیدی دامت برکاتہم العالیہ نے فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ علامہ مفتی محمد گل احمد خان عتیقی رحمہ اللّٰہ کے درجات بلند فرمائے ، ان کی قبر پر اپنی لاکھوں کروڑوں رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرمائے اور ہمیں آپ کی تعلیمات و تصنیفات سے مستفیض فرمائے ۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- ابو الحسن محمد افضال حسین نقشبندی مجددی
((٢٥/شعبان المعظم ١٤٤٥ھ//٧/مارچ ٢٠٢٤ء))
کتبہ:- ابو الحسن محمد افضال حسین نقشبندی مجددی
((٢٥/شعبان المعظم ١٤٤٥ھ//٧/مارچ ٢٠٢٤ء))