مکروہ وقت میں تلاوت کرنا اور اس سے روکنا کیسا ہے؟
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
مفتی محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید کو فجر کے بعد تلاوت قرآن کرنے کے لئے ایک دوگھنٹہ فرصت ہے باقی دن بھر مصروف رہتا ہے تو کیا وہ نماز فجر کے فوراً بعد سے مسلسل ایک یا دو گھنٹہ تلاوت کرسکتا ہے مکروہ وقت میں تلاوت کرنے سے گناہ گار تو نہیں ہوگا کچھ لوگ فجر کے بعد تلاوت کرنے والوں کو مکروہ وقت آتے ہی پکڑ پکڑ کر تلاوت بند کروا دیتے ہیں رکوع یا معمول بھی مکمل نہیں کرنے دیتے ان کے لئے کیا حکم ہے۔
المستفتی: سید شمس الدین گجرات۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
مکروہ وقت میں تلاوت قرآن کریم کرنا خلاف اولی ہے ناجائز و حرام نہیں۔ بہار شریعت میں ہے:
"ان اوقات میں تلاوتِ قرآنِ مجید بہتر نہیں، بہتر یہ ہے کہ ذکر و دُرود شریف میں مشغول رہے۔" اھ (ج١، حصہ٣، ص٤٥٥، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اور خلاف اولی سے عام لوگوں کو نہ روکا جائے کہ ان کی رغبت نیکیوں میں بہت کم ہے فتاوی رضویہ میں بحوالہ درمختار ہے:
لا یکبر فی طریقھا ولا یتنفل قبلھا مطلقا وکذا بعدھا فی مصلاھا فانہ مکروہ عندالعامۃ وھذا للخواص اما العوام فلا یمنعون من تکبیر ولا تنفل اصلالقلۃ رغبتھم فی الخیرات بحروفی ھامشہ بخط ثقۃ ان علیا رضی اﷲ تعالی عنہ رأی رجلا یصلی بعد العید فقیل اما تمنعہ یا امیرالمومنین فقال اخاف ان ادخل تحت الوعید قال اﷲ تعالی ارأیت الذی ینھی عبدا اذاصلی
نماز عید کے لئے عیدگاہ کو جاتے ہوئے راستے میں تکبیرات نہ کہے اور اس سے پہلے نفل نہ پڑھے کیونکہ یہ اکثر علماء کے نزدیک مکروہ ہیں اور یہ معاملہ خواص کا ہے ،رہا عوام کا معاملہ تو انھیں نہ تکبیر سے روکا جائے اور نہ ہی نفل پڑھنے سے کیونکہ بھلائی میں ان کی رغبت بہت کم ہوتی ہے بحر اور اسکے حاشیہ میں ثقہ تحریر میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ نے ایک شخص کو عید کے بعد نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا آپ سے عرض کیا گیا اے امیر المومنین ! اسے آپ منع کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا : مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں میں اﷲ تعالی کی بیان کردہ اس وعید کے تحت داخل نہ ہوجاؤں ارشاد باری تعالی ہے: کیا آپ نے اس کو نہیں دیکھا جو بندے کو نماز سے منع کرتا ہے۔ (ت)
لہذا صورت مسئولہ میں تلاوت کرنا درست ہے اور جو لوگ تلاوت سے منع کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔
"ان اوقات میں تلاوتِ قرآنِ مجید بہتر نہیں، بہتر یہ ہے کہ ذکر و دُرود شریف میں مشغول رہے۔" اھ (ج١، حصہ٣، ص٤٥٥، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اور خلاف اولی سے عام لوگوں کو نہ روکا جائے کہ ان کی رغبت نیکیوں میں بہت کم ہے فتاوی رضویہ میں بحوالہ درمختار ہے:
لا یکبر فی طریقھا ولا یتنفل قبلھا مطلقا وکذا بعدھا فی مصلاھا فانہ مکروہ عندالعامۃ وھذا للخواص اما العوام فلا یمنعون من تکبیر ولا تنفل اصلالقلۃ رغبتھم فی الخیرات بحروفی ھامشہ بخط ثقۃ ان علیا رضی اﷲ تعالی عنہ رأی رجلا یصلی بعد العید فقیل اما تمنعہ یا امیرالمومنین فقال اخاف ان ادخل تحت الوعید قال اﷲ تعالی ارأیت الذی ینھی عبدا اذاصلی
نماز عید کے لئے عیدگاہ کو جاتے ہوئے راستے میں تکبیرات نہ کہے اور اس سے پہلے نفل نہ پڑھے کیونکہ یہ اکثر علماء کے نزدیک مکروہ ہیں اور یہ معاملہ خواص کا ہے ،رہا عوام کا معاملہ تو انھیں نہ تکبیر سے روکا جائے اور نہ ہی نفل پڑھنے سے کیونکہ بھلائی میں ان کی رغبت بہت کم ہوتی ہے بحر اور اسکے حاشیہ میں ثقہ تحریر میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ نے ایک شخص کو عید کے بعد نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا آپ سے عرض کیا گیا اے امیر المومنین ! اسے آپ منع کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا : مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں میں اﷲ تعالی کی بیان کردہ اس وعید کے تحت داخل نہ ہوجاؤں ارشاد باری تعالی ہے: کیا آپ نے اس کو نہیں دیکھا جو بندے کو نماز سے منع کرتا ہے۔ (ت)
لہذا صورت مسئولہ میں تلاوت کرنا درست ہے اور جو لوگ تلاوت سے منع کرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔
واللہ تعالیٰ ورسولہﷺ اعلم بالصواب
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
٩ رمضان المبارک ١٤٤٥ھ مطابق ٢٠ مارچ ٢٠٢٤ء
کتبہ:- محمد صدام حسین برکاتی فیضی۔
٩ رمضان المبارک ١٤٤٥ھ مطابق ٢٠ مارچ ٢٠٢٤ء