ہندوستانی قانون اور مدرسہ بورڈ کی محرکات کی عدلیہ کے موجودہ رپورٹ کے تناظر میں: قسط 2
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر اے اہل وفا
زبان تشنہ نہ رکھ آب شور پر اے اہل وفا
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
رایٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت قانون و صوبائی حکومت کو بھی معیارِ تعلیم یا انداز تعلیم کو منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
اربابِ مدارس کا مدعا اس ضمن میں بالکل درست ہے کہ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور مدارس میں غریب و نادار بچے پڑھتے ہیں جن کی ہمہ جہت کفالت کی ذمہ ان کی ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں آپ بجانب راست ہیں اور یہ ایکٹ بھی اس چیز کی حمایت کرتا ہے اور یہ چیز RTE ایکٹ کے سیکشن 12(1)(c) میں شامل بھی ہے۔ جس میں یہ پرویزن رکھا گیا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو (نجی، غیر نجی ریاستی امدادی ادارے ، یا ادارہ کا بعض حصہ امداد یافتہ یا دگر خصوصی زمرہ جات ادارے ) داخلہ کی سطح پر اپنی 25% نشستیں معاشی طور پر کمزور طبقوں (EWS) اور پسماندہ گروپوں کے طلبہ کے لیے خاص کرنی چاہیے۔ اس ایکٹ میں پچیس فیصد کی بات کی جارہی ہے کہ جب کہ اہل مدارس صد فیصد غریب الغرباء طلبا کی داد رسی اور تعلیمی مدد کے لیے خود کو وقف کر رکھے ہیں، جو کہ ایکٹ کے تحت حق بجانب ہے ۔
لیکن مسئلہ تعلیم کا ہے جو مدرسہ بورڈ رائٹ ٹو ایجوکیشن کی تعلیمی پالیسی پر بلکل نہیں اترتا ہے۔
کیا گورنمنٹ فنڈز مدارس یا مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے ایسے کون سے ادارے ہیں جن میں جامع تعلیم inclusive education طلبا کو دیا جارہا ہے ۔
کورٹ کا خالص مطالبہ یہی ہے کہ مدرسہ ماڈرنزم کے نام پر ویتن سے لے کر، ساری سرکاری اسکیموں کا فائدہ اساتذہ مدارس اور بورڈ کے اراکین سب اٹھا رہے ہیں، اس سے کسی کو تکلیف نہیں، جب کہ Quality Education Act جو اس ایکٹ کا حصہ ہے، اس تحت بھی مدارس میں اور مدرسہ بورڈ نے مختلف اسکیمیں کا مزہ چکھ رہے ہیں، رخصت و غیر رخصت سب کچھ اسی تناظرات میں، مدرسین کی تنخواہیں بھی اسی پیمانہ شمارہ پر، لیکن حکومت چاہے مرکزی ہو یا ریاستی اس نے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مدارس میں قرآن کی جگہ خالص گیتا پڑھاؤ، عربی و فارسی کو نکال کر صرف سنسکرت پڑھاؤ، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ تعلیم جو محولہ ایکٹ کے تحت زیر عمل ہے اس کو ہی عمل میں لانے کی بات کر رہی ہے اور کر رہی تھی ۔ لیکن یہ چیز سمجھ سے باہر ہے مدرسہ بورڈ یا سرکاری مدارس کے اساتذہ نے اس چیز کو ماننے سے انکار کیوں کردیے، جب کہ ان کی نوکری کی ضمانت انہیں چیزوں پر تھی۔
یہ چیز میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر ان ایڈیڈ مدارس میں جو سرکار کی اعانت پر چل رہے ہیں، اس چیز میں بھی سرکار کے ساتھ مفاہمت کرلیتے تو خرابی کیوں درکار آتی، جب کہ اس سے ان مدارس کے طلبا اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ عصری علوم سے بھی ہم آہنگ ہوجاتے ۔ جب کہ مدرسے میں جانے والے طلبا کی عمر اس زاویے میں آتی ہے جن بچوں کا دخول مدرسے میں ایکٹ کی مخالفت کرتا ہے۔
گورنمنٹ نے کبھی بھی اس چیز کی وضاحت نہیں کی اور نا ہی اس چیز پر زور ڈالی کہ جو اساتذہ مدارس میں ہیں وہ ہی غیر عربی و فارسی مضامین پڑھائیں گے بلکہ اس کے لیےدیگر اساتذہ کے تعینات کو لے کر بھی بات چلی، جس سے یہ بات ممکن تھی کہ مدارس میں جاب سیکٹر کی اِضافہ ہونے میں خوب مدد ملتی ۔
ایسے دہان پر اربابِ مدارس کے لیے اچھا موقع ہے کہ گورنمنٹ کی اولین پالیسی کو جس طریقے سے آپ نے قبول کیا ہے اسی طرح سے اس ایکٹ و حکومت کے مطالبہ کو بھی قبول کرنے کی تھوڑی سی ہمت پیدا کریں، جس سے ان مدارس کی سالمیت اور ساتھ میں مدرسہ ٹیچروں کی نوکری کی حفاظت بھی برقرار رہے ۔ ورنہ یہ معاملہ حکومت کے سپرد ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے زیر نگین آتے ہی اس چیز پر نا خواستہ فیصلہ آنے کا امکان زیادہ ہے۔
اس تناظر میں یہ معاملہ خالص تقریباً 560 مدرسوں کے لیے ہوگا بقیہ جو مدرسوں حکومت کی بغیر معاونت کے چل رہے ہیں ان کو مکمل مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے ارٹیکل 28/29 /30 کے تحت رواں دواں رکھا جاۓ ۔
اور مدرسہ بورڈ کا ایک ڈیلیگیشن اس تناظر میں بلا واسطہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلی سے رابطہ کرے۔ اور اس چیز کی یقین دہائی کرائیں ۔
سپریم کورٹ میں اپیل، اور نتیجہ بے اثر آنے کا امکان:
قانونی و پالیسی سازی کے معاملہ میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان چیزوں و موضوعات کی دستوری تقسیم ہے، اور اس واسطے ہندوستان میں تین لیسٹ ہے جو سینٹرل سبجیکٹ لسٹ Central Subject Lists اسٹیٹ سبجیکٹ لسٹ State Subject Lists اور کنکورینٹ سبجیکٹ لسٹ Concurrent Subject Lists کے نام سے موسوم ہے ۔ اور یہ چیز دستورِ ھند کے ساتویں شیڈول میں داخل ہے ۔ یہ شیڈیول ایک اہم فراہمی وولٹیج کی طرح کام کرتا ہے جو مرکز اور ریاست کے درمیان تعلقات کو بخوبی متوازن رکھتا ہے۔
اس چیز کی تفصیل میں نا جاکر یہ چیز واضح کردوں کہ
اول سبجیکٹ لسٹ میں وہ چیزیں آتی ہیں جو مرکزی طاقت کے اندر آتی ہیں مثلاً فوج، مدافعتی جماعتیں، میڈیا وغیرہ ۔ جن پر پالیسی بنانے اور عمل کرانے کا اختیار مرکزی حکومت اور کابینہ کے زیر دست ہوتا ہے ۔ اور Concurrent Subject Lists میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن پر مرکزی اور صوبائی حکومت دونوں ملکر پالیسی بناتے ہیں جن میں ایجوکیشن، تجارتی یونین، جنگلات وغیرہ جیسے موضوعات آتے ہیں۔ لیکن State Subject Lists میں صوبہ سے متعلق چیزیں آتیں ہیں جن پر صوبائی حکومت کا مکمل دسترس ہوتا ہے، جس میں مداخلت کرنے کا اختیار، مرکز کو بغیر پارلیمنٹ یا صدرِ جمہوریہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔
اس تناظر میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت سیکولر موضوعات کی تعلیم آتی ہے، جو کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں دونوں کے زیرِ نگر ہے اور تعلیم کا یہ حصہ Concurrent Subject Lists میں آتی ہے۔ اب اگر مدرسہ بورڈ اس چیز کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں عرضی یا اپیل داخل کرتا ہے، تو کسی بھی صورت میں مدعا مضبوط نہیں اور ممکن ہے کہ مرکزی حکومت اور عدلیہ اس معاملہ پر صرف نظر کرکے عرضی کو خارج کردے، جو کہ آئین کے منافی نظر آرہی ہے ۔
اور دوسری صورت یہ واضح رہے کہ یوپی ایڈیڈ مدارس کی تنخواہیں ، صوبائی حکومت کے ذمہ ہے اور یہ پالیسی اور اسکیم مرکزی حکومت کی نہیں بلکہ یہ صوبائی حکومت کے تحت ہے۔ فرض کرلیا جائے اگر سپریم کورٹ صوبائی حکومت کی بات کو تردید کرتے ہوئے مدرسہ بورڈ ایکٹ کی بحالی کی بات کرے تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ صوبائی حکومت اپنے بجٹ کی کمی یا کسی دوسرے حیلہ کو سامنے لا کر اس حکمنامہ کی تردید کردے؟ جب کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ خالص ریٹیفیکیشن، اور فیصلہ پر نظر ثانی کی صلاح دے سکتا ہے، سپریم کورٹ اس تناظر میں فورس نہیں کرسکتا ہے، جب کہ اترپردیش ہائی کورٹ جو صوبائی ریاست کی فعل و عمل کی اس ضمن میں تجزیہ نگار ہے، اس سے اب بھلائی کی امید اربابِ مدارس نا رکھیں تو بہتر ہے، اس کا موقف پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔
اب صوبہ کے اسمبلیوں کو اس تحت یہ طاقت حاصل ہے کہ اس کو پاس کریں گے یا اس کی تردید کریں، اس ضمن میں ایکٹ کے بننے یا کسی دگر پالیسی کو زیر عمل لانےمیں صوبہ کے گورنر اس ضمن میں وزیر اعلی کی مشاورت کا محتاج ہے ۔ بغیر اس کی رضامندی کے کوئی بھی عمل اب آگے نہیں بڑھ سکتا جب کہ اس ضمن میں یوپی کے وزیر اعلی کا نظریہ بھی واضح ہے ۔
جسٹس ویویک چوہدری اور سبھاش ویدی ارتھی نے، انشومان سنگھ راتھور کی طرف سے کی گئی درخواست پر مدرسہ بورڈ پر سنوانی کے دوران ان چیلنجز کو بھی براین دلیل موضوع تردید بنایا ہے کہ سپریم کورٹ نے خود جدید تعلیم اور جدید مضامین کے پڑھائے جانے پر بار بار زور دیا ہے، سپریم کورٹ نے خود اس چیز کو اپنے اسٹیٹمینٹ میں بارہا کہا کہ راٹت ٹو ایجوکیشن کے تحت ایسی تعلیم دی جائے جو سیکولر ہو کسی خاص مذہب کی پیروکار نہیں، ایسی تعلیم دی جائے جس کو حاصل کرنے کے بعد بچے اور بچیوں کے اندر اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور اس ملک کو آگے بڑھانے کے لئے جذبہ و لیاقت پیدا ہو۔ انشومان سنگھ راتھور نے اس چیز کو اپنے دستاویز میں شامل کیا ہے اور اس کے تحت مدرسہ بورڈ ایکٹ کو چیلنج کیا ہے اور بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہ ثبت کیا کہ اس ایکٹ کے تحت ایک محدود تعلیم فراہم کی جارہی ہے جو صرف ایک مذہب، اس کی ہدایات اور فلسفہ پر زور دیا جاتا ہے. " بینچ نے مزید اپنے فیصلے میں کہا کہ مدرسہ بورڈ کی طرف سے فراہم کی جانے والی تعلیم سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ معیار تعلیم کی خلاف ورزی کرتی ہے، جس سے یہ صاف طور سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدرسہ ایکٹ کے تحت فراہم کردہ تعلیم آئین کے 21 اور 21 اے کے مضامین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس بابت یہ شقیں میری ذہن میں آئیں، جس پر تجزیہ کرکے معاملہ کی آگاہی اربابِ مدارس کو دینا میری ذمہ داری تھی ، امید کرتا ہوں کہ محولہ پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اربابِ مدارس کسی چیز کی طرف پہل کریں گے ، جو ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ ۔جاری۔
رایٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت قانون و صوبائی حکومت کو بھی معیارِ تعلیم یا انداز تعلیم کو منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔
اربابِ مدارس کا مدعا اس ضمن میں بالکل درست ہے کہ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور مدارس میں غریب و نادار بچے پڑھتے ہیں جن کی ہمہ جہت کفالت کی ذمہ ان کی ہوتی ہے ۔ اس ضمن میں آپ بجانب راست ہیں اور یہ ایکٹ بھی اس چیز کی حمایت کرتا ہے اور یہ چیز RTE ایکٹ کے سیکشن 12(1)(c) میں شامل بھی ہے۔ جس میں یہ پرویزن رکھا گیا ہے کہ تمام تعلیمی اداروں کو (نجی، غیر نجی ریاستی امدادی ادارے ، یا ادارہ کا بعض حصہ امداد یافتہ یا دگر خصوصی زمرہ جات ادارے ) داخلہ کی سطح پر اپنی 25% نشستیں معاشی طور پر کمزور طبقوں (EWS) اور پسماندہ گروپوں کے طلبہ کے لیے خاص کرنی چاہیے۔ اس ایکٹ میں پچیس فیصد کی بات کی جارہی ہے کہ جب کہ اہل مدارس صد فیصد غریب الغرباء طلبا کی داد رسی اور تعلیمی مدد کے لیے خود کو وقف کر رکھے ہیں، جو کہ ایکٹ کے تحت حق بجانب ہے ۔
لیکن مسئلہ تعلیم کا ہے جو مدرسہ بورڈ رائٹ ٹو ایجوکیشن کی تعلیمی پالیسی پر بلکل نہیں اترتا ہے۔
کیا گورنمنٹ فنڈز مدارس یا مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے ایسے کون سے ادارے ہیں جن میں جامع تعلیم inclusive education طلبا کو دیا جارہا ہے ۔
کورٹ کا خالص مطالبہ یہی ہے کہ مدرسہ ماڈرنزم کے نام پر ویتن سے لے کر، ساری سرکاری اسکیموں کا فائدہ اساتذہ مدارس اور بورڈ کے اراکین سب اٹھا رہے ہیں، اس سے کسی کو تکلیف نہیں، جب کہ Quality Education Act جو اس ایکٹ کا حصہ ہے، اس تحت بھی مدارس میں اور مدرسہ بورڈ نے مختلف اسکیمیں کا مزہ چکھ رہے ہیں، رخصت و غیر رخصت سب کچھ اسی تناظرات میں، مدرسین کی تنخواہیں بھی اسی پیمانہ شمارہ پر، لیکن حکومت چاہے مرکزی ہو یا ریاستی اس نے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ مدارس میں قرآن کی جگہ خالص گیتا پڑھاؤ، عربی و فارسی کو نکال کر صرف سنسکرت پڑھاؤ، بلکہ ایک مکمل ضابطۂ تعلیم جو محولہ ایکٹ کے تحت زیر عمل ہے اس کو ہی عمل میں لانے کی بات کر رہی ہے اور کر رہی تھی ۔ لیکن یہ چیز سمجھ سے باہر ہے مدرسہ بورڈ یا سرکاری مدارس کے اساتذہ نے اس چیز کو ماننے سے انکار کیوں کردیے، جب کہ ان کی نوکری کی ضمانت انہیں چیزوں پر تھی۔
یہ چیز میری سمجھ سے باہر ہے کہ اگر ان ایڈیڈ مدارس میں جو سرکار کی اعانت پر چل رہے ہیں، اس چیز میں بھی سرکار کے ساتھ مفاہمت کرلیتے تو خرابی کیوں درکار آتی، جب کہ اس سے ان مدارس کے طلبا اسلامک اسٹڈیز کے ساتھ عصری علوم سے بھی ہم آہنگ ہوجاتے ۔ جب کہ مدرسے میں جانے والے طلبا کی عمر اس زاویے میں آتی ہے جن بچوں کا دخول مدرسے میں ایکٹ کی مخالفت کرتا ہے۔
گورنمنٹ نے کبھی بھی اس چیز کی وضاحت نہیں کی اور نا ہی اس چیز پر زور ڈالی کہ جو اساتذہ مدارس میں ہیں وہ ہی غیر عربی و فارسی مضامین پڑھائیں گے بلکہ اس کے لیےدیگر اساتذہ کے تعینات کو لے کر بھی بات چلی، جس سے یہ بات ممکن تھی کہ مدارس میں جاب سیکٹر کی اِضافہ ہونے میں خوب مدد ملتی ۔
ایسے دہان پر اربابِ مدارس کے لیے اچھا موقع ہے کہ گورنمنٹ کی اولین پالیسی کو جس طریقے سے آپ نے قبول کیا ہے اسی طرح سے اس ایکٹ و حکومت کے مطالبہ کو بھی قبول کرنے کی تھوڑی سی ہمت پیدا کریں، جس سے ان مدارس کی سالمیت اور ساتھ میں مدرسہ ٹیچروں کی نوکری کی حفاظت بھی برقرار رہے ۔ ورنہ یہ معاملہ حکومت کے سپرد ہے اور صوبائی اسمبلیوں کے زیر نگین آتے ہی اس چیز پر نا خواستہ فیصلہ آنے کا امکان زیادہ ہے۔
اس تناظر میں یہ معاملہ خالص تقریباً 560 مدرسوں کے لیے ہوگا بقیہ جو مدرسوں حکومت کی بغیر معاونت کے چل رہے ہیں ان کو مکمل مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے ارٹیکل 28/29 /30 کے تحت رواں دواں رکھا جاۓ ۔
اور مدرسہ بورڈ کا ایک ڈیلیگیشن اس تناظر میں بلا واسطہ صوبائی حکومت کے وزیر اعلی سے رابطہ کرے۔ اور اس چیز کی یقین دہائی کرائیں ۔
سپریم کورٹ میں اپیل، اور نتیجہ بے اثر آنے کا امکان:
قانونی و پالیسی سازی کے معاملہ میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان چیزوں و موضوعات کی دستوری تقسیم ہے، اور اس واسطے ہندوستان میں تین لیسٹ ہے جو سینٹرل سبجیکٹ لسٹ Central Subject Lists اسٹیٹ سبجیکٹ لسٹ State Subject Lists اور کنکورینٹ سبجیکٹ لسٹ Concurrent Subject Lists کے نام سے موسوم ہے ۔ اور یہ چیز دستورِ ھند کے ساتویں شیڈول میں داخل ہے ۔ یہ شیڈیول ایک اہم فراہمی وولٹیج کی طرح کام کرتا ہے جو مرکز اور ریاست کے درمیان تعلقات کو بخوبی متوازن رکھتا ہے۔
اس چیز کی تفصیل میں نا جاکر یہ چیز واضح کردوں کہ
اول سبجیکٹ لسٹ میں وہ چیزیں آتی ہیں جو مرکزی طاقت کے اندر آتی ہیں مثلاً فوج، مدافعتی جماعتیں، میڈیا وغیرہ ۔ جن پر پالیسی بنانے اور عمل کرانے کا اختیار مرکزی حکومت اور کابینہ کے زیر دست ہوتا ہے ۔ اور Concurrent Subject Lists میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن پر مرکزی اور صوبائی حکومت دونوں ملکر پالیسی بناتے ہیں جن میں ایجوکیشن، تجارتی یونین، جنگلات وغیرہ جیسے موضوعات آتے ہیں۔ لیکن State Subject Lists میں صوبہ سے متعلق چیزیں آتیں ہیں جن پر صوبائی حکومت کا مکمل دسترس ہوتا ہے، جس میں مداخلت کرنے کا اختیار، مرکز کو بغیر پارلیمنٹ یا صدرِ جمہوریہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا ہے۔
اس تناظر میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت سیکولر موضوعات کی تعلیم آتی ہے، جو کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں دونوں کے زیرِ نگر ہے اور تعلیم کا یہ حصہ Concurrent Subject Lists میں آتی ہے۔ اب اگر مدرسہ بورڈ اس چیز کو بنیاد بناکر سپریم کورٹ میں عرضی یا اپیل داخل کرتا ہے، تو کسی بھی صورت میں مدعا مضبوط نہیں اور ممکن ہے کہ مرکزی حکومت اور عدلیہ اس معاملہ پر صرف نظر کرکے عرضی کو خارج کردے، جو کہ آئین کے منافی نظر آرہی ہے ۔
اور دوسری صورت یہ واضح رہے کہ یوپی ایڈیڈ مدارس کی تنخواہیں ، صوبائی حکومت کے ذمہ ہے اور یہ پالیسی اور اسکیم مرکزی حکومت کی نہیں بلکہ یہ صوبائی حکومت کے تحت ہے۔ فرض کرلیا جائے اگر سپریم کورٹ صوبائی حکومت کی بات کو تردید کرتے ہوئے مدرسہ بورڈ ایکٹ کی بحالی کی بات کرے تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ صوبائی حکومت اپنے بجٹ کی کمی یا کسی دوسرے حیلہ کو سامنے لا کر اس حکمنامہ کی تردید کردے؟ جب کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ خالص ریٹیفیکیشن، اور فیصلہ پر نظر ثانی کی صلاح دے سکتا ہے، سپریم کورٹ اس تناظر میں فورس نہیں کرسکتا ہے، جب کہ اترپردیش ہائی کورٹ جو صوبائی ریاست کی فعل و عمل کی اس ضمن میں تجزیہ نگار ہے، اس سے اب بھلائی کی امید اربابِ مدارس نا رکھیں تو بہتر ہے، اس کا موقف پہلے ہی واضح ہوچکا ہے۔
اب صوبہ کے اسمبلیوں کو اس تحت یہ طاقت حاصل ہے کہ اس کو پاس کریں گے یا اس کی تردید کریں، اس ضمن میں ایکٹ کے بننے یا کسی دگر پالیسی کو زیر عمل لانےمیں صوبہ کے گورنر اس ضمن میں وزیر اعلی کی مشاورت کا محتاج ہے ۔ بغیر اس کی رضامندی کے کوئی بھی عمل اب آگے نہیں بڑھ سکتا جب کہ اس ضمن میں یوپی کے وزیر اعلی کا نظریہ بھی واضح ہے ۔
جسٹس ویویک چوہدری اور سبھاش ویدی ارتھی نے، انشومان سنگھ راتھور کی طرف سے کی گئی درخواست پر مدرسہ بورڈ پر سنوانی کے دوران ان چیلنجز کو بھی براین دلیل موضوع تردید بنایا ہے کہ سپریم کورٹ نے خود جدید تعلیم اور جدید مضامین کے پڑھائے جانے پر بار بار زور دیا ہے، سپریم کورٹ نے خود اس چیز کو اپنے اسٹیٹمینٹ میں بارہا کہا کہ راٹت ٹو ایجوکیشن کے تحت ایسی تعلیم دی جائے جو سیکولر ہو کسی خاص مذہب کی پیروکار نہیں، ایسی تعلیم دی جائے جس کو حاصل کرنے کے بعد بچے اور بچیوں کے اندر اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور اس ملک کو آگے بڑھانے کے لئے جذبہ و لیاقت پیدا ہو۔ انشومان سنگھ راتھور نے اس چیز کو اپنے دستاویز میں شامل کیا ہے اور اس کے تحت مدرسہ بورڈ ایکٹ کو چیلنج کیا ہے اور بالآخر الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں یہ ثبت کیا کہ اس ایکٹ کے تحت ایک محدود تعلیم فراہم کی جارہی ہے جو صرف ایک مذہب، اس کی ہدایات اور فلسفہ پر زور دیا جاتا ہے. " بینچ نے مزید اپنے فیصلے میں کہا کہ مدرسہ بورڈ کی طرف سے فراہم کی جانے والی تعلیم سپریم کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ معیار تعلیم کی خلاف ورزی کرتی ہے، جس سے یہ صاف طور سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدرسہ ایکٹ کے تحت فراہم کردہ تعلیم آئین کے 21 اور 21 اے کے مضامین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
اس بابت یہ شقیں میری ذہن میں آئیں، جس پر تجزیہ کرکے معاملہ کی آگاہی اربابِ مدارس کو دینا میری ذمہ داری تھی ، امید کرتا ہوں کہ محولہ پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اربابِ مدارس کسی چیز کی طرف پہل کریں گے ، جو ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی۔ ان شاء اللہ ۔جاری۔
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ:- شاہ خالد مصباحی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
کتبہ:- شاہ خالد مصباحی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی